"عصمت انبیاء" کے نسخوں کے درمیان فرق
←انبیاء کا شیطانی وسوسوں میں آنا
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
سطر 61: | سطر 61: | ||
=== انبیاء کا شیطانی وسوسوں میں آنا === | === انبیاء کا شیطانی وسوسوں میں آنا === | ||
سورہ حج کی آیت نمبر 52 میں آیا ہے کہ: "اور ہم نے آپ سے پہلے کوئی رسول اور کوئی نبی نہیں بھیجا مگر یہ کہ جب اس نے (اصلاح احوال کی) آرزو کی تو شیطان نے اس کی آرزو میں خلل اندازی کی۔ پس شیطان جو خلل اندازی کرتا ہے خدا اسے مٹا دیتا ہے۔" کہا جاتا ہے کہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان انیباء کے افکار، زبان اور خواہشات میں مداخلت کرتا ہے جو انبیاء کے معصوم نہ ہونے کی دلیل ہے۔[55] افسانہ غرانیق کو بھی اسی نظریے کا مؤید قرار دیا جاتا ہے۔ | [[سورہ حج]] کی آیت نمبر 52 میں آیا ہے کہ: "اور ہم نے آپ سے پہلے کوئی [[رسول]] اور کوئی [[نبی]] نہیں بھیجا مگر یہ کہ جب اس نے (اصلاح احوال کی) آرزو کی تو [[شیطان]] نے اس کی آرزو میں خلل اندازی کی۔ پس شیطان جو خلل اندازی کرتا ہے [[خدا]] اسے مٹا دیتا ہے۔" کہا جاتا ہے کہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان انیباء کے افکار، زبان اور خواہشات میں مداخلت کرتا ہے جو انبیاء کے [[معصوم]] نہ ہونے کی دلیل ہے۔[55] افسانہ غرانیق کو بھی اسی نظریے کا مؤید قرار دیا جاتا ہے۔<ref>فخررازی، عصمۃ الانبیاء، ۱۴۰۹ق، ص۱۲۲۔</ref> | ||
اس اعتراض کا یوں جواب دیتے ہیں کہ مذکورہ آیت سے یہ نتیجہ لینا قرآن کی دوسری آیات کے منافی ہیں، جیسے سورہ حجر کی آیت نمبر 42، سورہ اسراء کی آیت نمبر 45 اور سورہ ص کی آیت نمبر 82 اور 83۔ ان آیات کے مطابق شیطان خدا کے خاص بندوں کے ارادوں میں کسی قسم کی کوئی دخالت نہیں | |||
اس اعتراض کا یوں جواب دیتے ہیں کہ مذکورہ آیت سے یہ نتیجہ لینا [[قرآن]] کی دوسری آیات کے منافی ہیں، جیسے [[سورہ حجر]] کی آیت نمبر 42، [[سورہ اسراء]] کی آیت نمبر 45 اور [[سورہ ص]] کی آیت نمبر 82 اور 83۔ ان آیات کے مطابق شیطان خدا کے خاص بندوں کے ارادوں میں کسی قسم کی کوئی دخالت نہیں کر سکتا اور خدا کے خالص بندوں میں انبیاء سر فہرست ہیں۔<ref>سبحانی، منشور جاوید، ۱۳۸۳ش، ج۵، ص۶۰-۶۲۔</ref> بعض کہتے ہیں کہ مذکورہ آیت میں شیطان کی مداخلت سے مراد لوگوں کو انبیاء کی مخالفت پر وادار کرنے کے لئے کئے جانے والا وسوسہ ہے۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۴، ص۳۹۱؛ سبحانی، منشور جاوید، ۱۳۸۳ش، ج۵، ص۶۲۔</ref> | |||
=== انبیاء کا گناہگار ہونا === | === انبیاء کا گناہگار ہونا === | ||
سورہ نحل کی آیت نمبر 61 میں آیا ہے کہ: "اگر اللہ لوگوں کو ان کی زیادتی پر (فوراً) پکڑ لیا کرتا تو پھر روئے زمین پر کسی جاندار کو نہ چھوڑتا۔" کہا جاتا ہے کہ اس آیت میں ظلم کو تمام لوگوں کی طرف نسبت دی گئی ہے جن میں انبیاء بھی شامل ہے اور اس سے مراد معصیت ہے۔ پس یہ آیت اس بات کے اور دلالت کرتی ہے کہ تمام لوگ گناہگار ہیں من جملہ ان میں انبیاء بھی شامل ہیں۔[59] | سورہ نحل کی آیت نمبر 61 میں آیا ہے کہ: "اگر اللہ لوگوں کو ان کی زیادتی پر (فوراً) پکڑ لیا کرتا تو پھر روئے زمین پر کسی جاندار کو نہ چھوڑتا۔" کہا جاتا ہے کہ اس آیت میں ظلم کو تمام لوگوں کی طرف نسبت دی گئی ہے جن میں انبیاء بھی شامل ہے اور اس سے مراد معصیت ہے۔ پس یہ آیت اس بات کے اور دلالت کرتی ہے کہ تمام لوگ گناہگار ہیں من جملہ ان میں انبیاء بھی شامل ہیں۔[59] |