مندرجات کا رخ کریں

"قارون" کے نسخوں کے درمیان فرق

14 بائٹ کا اضافہ ،  23 جنوری 2022ء
imported>E.musavi
imported>E.musavi
سطر 41: سطر 41:


== نافرمانی اور خدا کا عذاب==
== نافرمانی اور خدا کا عذاب==
گزر زمان کے ساتھ قارون نے خدا کی نافرمانی کرنا شروع کیا جس کی وجہ سے وہ [[خداوند]] اور اس کے رسول یعنی حضرت موسیؑ کی غیض و غضب کا نشانہ بن گیا۔ قرآن مجید کی وہ آیات جن میں قارون کا تذکرہ کیا گیا ہے ان سے پتہ چلتا ہے کہ اس کی سرکشی اور نافرمانی غرور اور [[تکبر]] کی وجہ سے تھا<ref>طبرسی، جوامع الجامع، ۱۳۷۷ش، ج۳، ص۲۳۲.</ref>  
گزر زمان کے ساتھ قارون نے خدا کی نافرمانی کرنا شروع کیا جس کی وجہ سے وہ [[خداوند]] اور اس کے رسول یعنی حضرت موسیؑ کی غیض و غضب کا نشانہ بن گیا۔ قرآن مجید کی وہ آیات جن میں قارون کا تذکرہ کیا گیا ہے ان سے پتہ چلتا ہے کہ اس کی سرکشی اور نافرمانی غرور اور [[تکبر]] کی وجہ سے تھا<ref> طبرسی، جوامع الجامع، ۱۳۷۷ش، ج۳، ص۲۳۲.</ref>  


قرآن مجید میں جن عذاب میں قارون مبلا ہوئے ان کی طرف یوں اشارہ کیا گیا ہے: <font color=green>{{قرآن کا متن|فخََسَفْنَا بِہِ وَ بِدَارِہِ الْأَرْضَ؛|ترجمہ= پھر ہم نے اسے اور اس کے گھر بار کو زمین میں دھنسا دیا|سورت=سورہ قصص،| آیت= 81}}</font>
قرآن مجید میں جن عذاب میں قارون مبلا ہوئے ان کی طرف یوں اشارہ کیا گیا ہے: <font color=green>{{قرآن کا متن|فخََسَفْنَا بِہِ وَ بِدَارِہِ الْأَرْضَ؛|ترجمہ= پھر ہم نے اسے اور اس کے گھر بار کو زمین میں دھنسا دیا|سورت=سورہ قصص،| آیت= 81}}</font>
سطر 50: سطر 50:
* '''زکات کی عدم ادائیگی اور حضرت موسی پر تہمت''':
* '''زکات کی عدم ادائیگی اور حضرت موسی پر تہمت''':


"جب بنی‌اسرائیل پر [[زکات]] واجب ہوئی تو قارون حضرت موسی کے پاس آئے اور زکات دینے کی موافقت کی۔ لیکن جب گھر پہنچ کر زکات کا حساب کتاب کیا تو اسے بہت زیادہ پایا۔ اس پر اس نے بنی اسرائیل میں سے ایک گروہ کو جو اس کے حمایتی تھے، کو جمع کیا اور کہا:‌اے بنی‌اسرائیل! موسی نے تمہیں بہت سارے امور کا حکم دیا جس پر تم لوگوں نے اس کی پیروی کی اب وہ تم سے تمہارا مال بھی لینا چاہتا ہے، فلان فاحشہ عورت کو لے آؤ تاکہ اسے کچھ پیسے دے کر موسی کو متہم کیا جا سکے۔
"جب بنی‌ اسرائیل پر [[زکات]] واجب ہوئی تو قارون حضرت موسی کے پاس آئے اور زکات دینے کی موافقت کی۔ لیکن جب گھر پہنچ کر زکات کا حساب کتاب کیا تو اسے بہت زیادہ پایا۔ اس پر اس نے بنی اسرائیل میں سے ایک گروہ کو جو اس کے حمایتی تھے، کو جمع کیا اور کہا:‌ اے بنی‌ اسرائیل! موسی نے تمہیں بہت سارے امور کا حکم دیا جس پر تم لوگوں نے اس کی پیروی کی اب وہ تم سے تمہارا مال بھی لینا چاہتا ہے، فلان فاحشہ عورت کو لے آؤ تاکہ اسے کچھ پیسے دے کر موسی کو متہم کیا جا سکے۔


موسی نے کہا:... جو بھی زنا کرے حالنکہ اس کی بیوی بھی ہو تو اسے [[سنگسار]] کیا جائے یہاں تک کہ وہ مرجائے۔
موسی نے کہا: ... جو بھی زنا کرے حالنکہ اس کی بیوی بھی ہو تو اسے [[سنگسار]] کیا جائے یہاں تک کہ وہ مرجائے۔


قارون نے موسی سے کہا: حتی اگر یہ کام آپ نے ہی انجام دیا ہو تو بھی؟!
قارون نے موسی سے کہا: حتی اگر یہ کام آپ نے ہی انجام دیا ہو تو بھی؟!
سطر 58: سطر 58:
موسی: جی حتی اگر اس کام کو میں بھی انجام دوں تو یہی حکم ہے۔
موسی: جی حتی اگر اس کام کو میں بھی انجام دوں تو یہی حکم ہے۔


قارون: بنی‌اسرائیل یہ گمان کرتے ہیں کہ آپ نے فلان فاحشہ عورت سے زنا کی ہیں۔
قارون: بنی‌ اسرائیل یہ گمان کرتے ہیں کہ آپ نے فلان فاحشہ عورت سے [[زنا]] کیا ہے۔


موسی: اس عورت کو لے آؤ۔ اگر وہ ایسا کہیں تو میں مان لیتا ہوں۔ پھر اس عورت کو لائی گئی۔
موسی: اس عورت کو لے آؤ۔ اگر وہ ایسا کہیں تو میں مان لیتا ہوں۔ پھر اس عورت کو لائی گئی۔
سطر 64: سطر 64:
موسی: جو کچھ یہ لوگ کہہ رہے ہیں کیا تم اسے قبول کرتی ہو؟
موسی: جو کچھ یہ لوگ کہہ رہے ہیں کیا تم اسے قبول کرتی ہو؟


عورت: نہیں یہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ انہوں نے مجھ پیسا دیا ہے تاکہ میں آپ کو متہم کروں۔ حضرت موسی نے ان پر نفرین کیا جس پر زمین نے انہیں نگل لیا۔<ref>طبری، تاریخ الطبری، ۱۳۸۷ق، ج۱، ص۴۴۷؛ ابن اثیر،‌الکامل، ۱۳۸۵ق، ج۱، ص۲۰۵</ref>
عورت: نہیں یہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ انہوں نے مجھ پیسا دیا ہے تاکہ میں آپ کو متہم کروں۔ حضرت موسی نے ان پر نفرین کیا جس پر زمین نے انہیں نگل لیا۔<ref> طبری، تاریخ الطبری، ۱۳۸۷ق، ج۱، ص۴۴۷؛ ابن اثیر،‌ الکامل، ۱۳۸۵ق، ج۱، ص۲۰۵</ref>


* '''توبہ کرنے والوں سے علیحدگی اور حضرت موسی کو اذیت دینا'''
* '''توبہ کرنے والوں سے علیحدگی اور حضرت موسی کو اذیت دینا'''


"بنی‌اسرائیل جس وقت سینا کے بیابانوں میں سرگرداں اور [[توبہ]] میں مشغول تھے تاکہ خدا ان کو معاف کرے۔ لیکن وقت کے گزرنے کے ساتھ قارون توبہ کرنے والوں سے جدا ہو گئے۔ حضرت موسی جو قارون کو دوست رکھتا تھا، ان کے پاس گئے اور اس سے کہا:‌اے قارون! تمہاری قوم توبہ میں مشغول ہے اور تم ان سے الگ ہو گئے ہو؟ قوم سے جا ملو ورنہ تم خدا کے عذاب میں مبتلا ہو جاؤگے۔ قارون نے حضرت موسی کا مزاق اڑایا اور آپ پر کوڑا کرکٹ پھینکنے کا حکم دیا۔ اس وقت زمین نے قارون کو اس کے مال دولت اور قصر سمیت نگل لیا۔<ref>قمی، تفسیر القمی، ۱۴۰۴، ج۲، ص۱۴۵.</ref>
"بنی‌ اسرائیل جس وقت سینا کے بیابانوں میں سرگرداں اور [[توبہ]] میں مشغول تھے تاکہ خدا ان کو معاف کرے۔ لیکن وقت کے گزرنے کے ساتھ قارون توبہ کرنے والوں سے جدا ہو گئے۔ حضرت موسی جو قارون کو دوست رکھتا تھا، ان کے پاس گئے اور اس سے کہا:‌ اے قارون! تمہاری قوم توبہ میں مشغول ہے اور تم ان سے الگ ہو گئے ہو؟ قوم سے جا ملو ورنہ تم خدا کے عذاب میں مبتلا ہو جاؤگے۔ قارون نے حضرت موسی کا مزاق اڑایا اور آپ پر کوڑا کرکٹ پھینکنے کا حکم دیا۔ اس وقت زمین نے قارون کو اس کے مال دولت اور قصر سمیت نگل لیا۔<ref> قمی، تفسیر القمی، ۱۴۰۴، ج۲، ص۱۴۵.</ref>


اگرچہ قرآن اس حوالے سے خاموش ہے کہ یہ واقعہ مصر میں پیش آیا ہے یا صحرائے سینا میں، لیکن [[احادیث]]، تفاسیر اور توریت سے معلوم ہوتا ہے کہ قارون پر خدا کا عذاب صحرائے سینا میں نازل ہوا۔{{نوٹ| بعض محققین یہ احتمال دیتے ہیں کہ یہ واقعات مصر میں پیش آیا اور قارون مصر ہی میں عذاب الہی میں مبتلا ہو گئے: "بنی‌اسرائیل صحرائے سینا میں سرگرداں زندگی بسر کر رہے تھے اور وہاں پر مال و دولت کمانے کا کوئی ذریعہ موجود نہیں تھا۔ نیز بنی‌اسرائیل صحرائے سینا میں خیموں میں زندگی گزارتے تھے یہاں تک کہ ان کے مل بیٹھنے نیز قضاوت وغیرہ کی جگہ بھی یہی خیمے تھے جبکہ قرآن کے اس جملے میں "فَخَسَفْنا بِہِ وَ بِدارِہِ الْأَرْضَ" سے پتہ چلتا ہے کہ قارون کسی مجلّل قلعے میں زندگی بسر کرتا تھا بنابراین یہ احتمال دیا جا سکتا ہے کہ قارون کا یہ واقعہ مصر ہی میں پیش آیا ہے۔<ref>قرشی، قاموس قرآن، ۱۳۷۱ش،‌ ج۵، ص۳۱۲</ref>}}
اگرچہ قرآن اس حوالے سے خاموش ہے کہ یہ واقعہ [[مصر]] میں پیش آیا ہے یا صحرائے سینا میں، لیکن [[احادیث]]، تفاسیر اور توریت سے معلوم ہوتا ہے کہ قارون پر خدا کا عذاب صحرائے سینا میں نازل ہوا۔{{نوٹ| بعض محققین یہ احتمال دیتے ہیں کہ یہ واقعات مصر میں پیش آیا اور قارون مصر ہی میں عذاب الہی میں مبتلا ہو گئے: "بنی‌ اسرائیل صحرائے سینا میں سرگرداں زندگی بسر کر رہے تھے اور وہاں پر مال و دولت کمانے کا کوئی ذریعہ موجود نہیں تھا۔ نیز بنی‌ اسرائیل صحرائے سینا میں خیموں میں زندگی گزارتے تھے یہاں تک کہ ان کے مل بیٹھنے نیز قضاوت وغیرہ کی جگہ بھی یہی خیمے تھے جبکہ قرآن کے اس جملے میں "فَخَسَفْنا بِہِ وَ بِدارِہِ الْأَرْضَ" سے پتہ چلتا ہے کہ قارون کسی مجلّل قلعے میں زندگی بسر کرتا تھا لہذا یہ احتمال دیا جا سکتا ہے کہ قارون کا یہ واقعہ مصر ہی میں پیش آیا ہے۔<ref> قرشی، قاموس قرآن، ۱۳۷۱ش،‌ ج۵، ص۳۱۲</ref>}}


==قارون توریت میں==
==قارون توریت میں==
گمنام صارف