"واقعہ افک" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 27: | سطر 27: | ||
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی مسلمان پر [[زنا]] کی تہمت لگائے اور اپنے مدعا پر 4 گواہ پیش نہ کر سکے تو اس شخص پر [[قذف]] کا حکم جاری ہو گا اور یہ حکم اس واقعے سے پہلے نازل ہو چکا تھا۔ اور [[سورہ نور]] کی مذکورہ آیات میں بھی تہمت لگانے والوں سے گواہ طلب نہ کرنے پر مسلمانوں کی سرزنش کی گئی ہے۔ اس موقع پر معترض سوال اٹھاتا ہے کہ اس واقعے کے رونما ہوئے حد اقل ایک ماہ گذرنے کے باوجود [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]] نے اس حکم پر عمل کیوں نہیں فرمایا؟ یا تہمت لگانے والوں سے گواہ کیوں طلب نہیں فرمایا؟ اور ان پر حد کیوں جاری نہیں کیا؟ البتہ بعض شواہد کی بنیاد پر یہ نتیجہ لیا جا سکتا ہے کہ قذف کا حکم اس وقت نازل نہیں ہوا تھا یا اس واقعے کے ساتھ نازل ہوا تھا۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۵، ص ۱۰۲-۱۳۰؛ مکارم شیرازی، ۱۴۲۱ق، ج۱۱، ص ۴۱۔</ref> | دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی مسلمان پر [[زنا]] کی تہمت لگائے اور اپنے مدعا پر 4 گواہ پیش نہ کر سکے تو اس شخص پر [[قذف]] کا حکم جاری ہو گا اور یہ حکم اس واقعے سے پہلے نازل ہو چکا تھا۔ اور [[سورہ نور]] کی مذکورہ آیات میں بھی تہمت لگانے والوں سے گواہ طلب نہ کرنے پر مسلمانوں کی سرزنش کی گئی ہے۔ اس موقع پر معترض سوال اٹھاتا ہے کہ اس واقعے کے رونما ہوئے حد اقل ایک ماہ گذرنے کے باوجود [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]] نے اس حکم پر عمل کیوں نہیں فرمایا؟ یا تہمت لگانے والوں سے گواہ کیوں طلب نہیں فرمایا؟ اور ان پر حد کیوں جاری نہیں کیا؟ البتہ بعض شواہد کی بنیاد پر یہ نتیجہ لیا جا سکتا ہے کہ قذف کا حکم اس وقت نازل نہیں ہوا تھا یا اس واقعے کے ساتھ نازل ہوا تھا۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۵، ص ۱۰۲-۱۳۰؛ مکارم شیرازی، ۱۴۲۱ق، ج۱۱، ص ۴۱۔</ref> | ||
==دوسرا احتمال | ==دوسرا احتمال== | ||
[[شیعہ]] منابع میں نقل ہونے والی بعض روایات کے مطابق آیات افک اس وقت نازل ہو گئی تھی جب [[حضرت عایشہ]] نے [[ماریہ بنت شمعون|ماریہ قبطیہ]] پر جریح قبطی نامی شخص کے ساتھ غلط رابطہ رکھنے کی تہمت لگائی تھی۔ اس روایت کے مطابق حضرت عایشہ نے [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]] سے جس وقت آپ اپنے بیٹے [[ابراہیم بن محمد|ابراہیم]] کی موت کی وجہ سے غمگین تھے، کہا آپ ان کی موت پر کیوں غمگین ہو حالنکہ وہ تو آپ کی نسل میں سے نہیں تھا بلکہ وہ تو جریح کا بیٹا تھا۔ اس کے بعد پیغمبر اکرمؐ نے حضرت علیؑ کو جریح قتل کرنے کیلئے بھیجا لیکن جب حضرت علیؑ نے دیکھا کہ اس شخص کا تو آلت تناسل ہی نہیں ہے، اس کے قتل سے منصرف ہوئے یوں ماریہ پر لگائی گئی تہمت سرے سے ہی ختم ہو گئی۔ یہ روایت پہلی بار [[تفسیر علی بن ابراہیم قمی]] میں نقل ہوئی ہے اور اسے [[امام محمد باقر علیہ السلام|امام باقرؑ]] کی ایک روایت سے استناد کیا گیا ہے۔<ref>قمی، تفسیر قمی، ۱۳۶۷ش، ج۲، ص ۹۹۔</ref> ان سب کے باوجود بہت سارے شیعہ [[تفسیر قرآن|مفسرین]] نے اس واقعے کو نقل نہیں کیا ہے اور [[اہل سنت]] مفسرین کے ساتھ ہمراہی کرتے ہوئے اس واقعے کو حضرت عایشہ سے مربوط قرار دئیے ہیں۔<ref>حسینیان مقدم، «بررسی تاریخی تفسیری حادثہ افک»، ص ۱۶۶-۱۶۷۔</ref> | |||
[[شیعہ]] معاصر محققین اور مؤلفین نیز ان آیات کے شأن نزول میں اختلاف نظر رکھتے ہیں۔ بعض ان آیات کو [[ماریہ بنت شمعون|ماریہ قبطیہ]] پر لگائی گئی تہمت سے مربوط قرار دیتے ہیں۔<ref>یوسفی غروی، موسوعہ التاریخ الاسلامی، ۱۴۲۳ق، ج ۳، ص۳۵۰۔</ref> علامہ [[جعفر مرتضی عاملی]] من جملہ ان محققین میں سے ہیں جو اس نظریے کو ثابت کرنے کیلئے بعض شواہد کو ذکر کرتے ہیں اور بعض تاریخی روایات کا اس شأن نزول کے ساتھ مطابقت ہونا ہے۔<ref>عاملی، الصحیح من سیرہ النبی الاعظم، ۱۴۲۶ق، ج۱۲، ص ۳۲۰، ۳۲۶۔</ref> | |||
=== | ===اس احتمال پر ہونے والے اعتراضات===<!-- | ||
از سوی دیگر برخی از پژوہشگران شیعہ معاصر ارتباط آیات افک را با ماجرای تہمت بہ ماریہ رد کردہاند۔<ref>سبحانی، فروغ ابدیت، ۱۳۸۴ش، ص ۶۶۶؛ حسینیان مقدم، «بررسی تاریخی تفسیری حادثہ افک»، ص ۱۷۲۔</ref> بہ گفتہ این گروہ از پژوہشگران، مہمترین اشکال وارد بر روایت افک ماریہ، ناسازگاری آن با مضمون آیات است کہ تہمت زنندگان را یک گروہ معرفی کردہ است در حالی کہ بر اساس این روایت تنہا [[عایشہ]] تہمت زنندہ بودہ است۔ از سوی دیگر بر اساس این [[حدیث|روایت]]، [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیامبر(ص)]] تنہا بہ واسطہ شہادت عایشہ و بدون تحقیق دستور قتل فرد بیگناہی را صادر کردہ است و چنین رفتاری از سوی پیامبر(ص) پذیرفتنی نیست۔<ref>مکارم شیرازی، الامثل، ۱۴۲۱ق، ج۱۱، ص ۴۱۔</ref> | از سوی دیگر برخی از پژوہشگران شیعہ معاصر ارتباط آیات افک را با ماجرای تہمت بہ ماریہ رد کردہاند۔<ref>سبحانی، فروغ ابدیت، ۱۳۸۴ش، ص ۶۶۶؛ حسینیان مقدم، «بررسی تاریخی تفسیری حادثہ افک»، ص ۱۷۲۔</ref> بہ گفتہ این گروہ از پژوہشگران، مہمترین اشکال وارد بر روایت افک ماریہ، ناسازگاری آن با مضمون آیات است کہ تہمت زنندگان را یک گروہ معرفی کردہ است در حالی کہ بر اساس این روایت تنہا [[عایشہ]] تہمت زنندہ بودہ است۔ از سوی دیگر بر اساس این [[حدیث|روایت]]، [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیامبر(ص)]] تنہا بہ واسطہ شہادت عایشہ و بدون تحقیق دستور قتل فرد بیگناہی را صادر کردہ است و چنین رفتاری از سوی پیامبر(ص) پذیرفتنی نیست۔<ref>مکارم شیرازی، الامثل، ۱۴۲۱ق، ج۱۱، ص ۴۱۔</ref> | ||