مندرجات کا رخ کریں

"واقعہ افک" کے نسخوں کے درمیان فرق

2,547 بائٹ کا ازالہ ،  15 مارچ 2018ء
م
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 21: سطر 21:


===اس احتمال پر ہونے والے اعتراضات===
===اس احتمال پر ہونے والے اعتراضات===
{{گفتگو
|چوڑائی= 80
|موقعیت=وسط
|اندرون=10
|عنوان=حضرت زینب کا ابن زیاد سے گفتگو
|'''عبيدالله بن زیاد''' تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے جس نے تمہارے خاندان کو رسوا کیا، مارا اور دکھایا کہ جو کچھ تم کہہ رہے تھے سب جھوٹ تھا۔
| '''زینب''' تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں پیغمبر کے ذریعے نوازا (ہماری خاندان سے ہے) اور ہر ناپاکی سے دور رکھا۔ فاسق کے علاوہ کسی کی رسوائی نہیں ہوتی، اور بدکار کے علاوہ کوئی جھوٹ نہیں بولتا، اور بدکار ہم نہیں دوسرے ہیں (یعنی تم اور تمہارے پیروکار بدکار ہیں۔) اور تعریف صرف اللہ کے لیے ہے۔
| دیکھ لیا کہ اللہ تعالی نے تمہارے خاندان کے ساتھ کیا کیا؟
| اچھائی کے سوا کچھ نہیں دیکھا! یہ وہ لوگ تھے جن کی مقدر میں اللہ تعالی نے قتل ہونا قرار دیا تھا اور انہوں نے بھی اطاعت کی اور اپنی ابدی منزل کی جانب چلے گئے اور بہت جلد اللہ تعالی تمہیں ان کے سامنے کرے گا اور وہ اللہ تعالی سے تمہاری شکایت کرینگے، تب دیکھنا کہ اس دن کون کامیاب ہوتا ہے، اے ابن مرجانہ کے بیٹے تم پر تمہاری ماں روئے!
| اللہ نے تمہارے نافرمان بھائی حسین، اس کی خاندان اور سرکش لشکر کو مار کر مرے دل کو شفا بخشا۔
| خدا کی قسم تم نے ہمارے بزرگ کو مارا، تمہارے درخت کو کاٹا اور جڑ کو اکھاڑا، اگر یہ کام تمہاری شفا کا باعث ہو تو حتما تم نے شفا پایا ہے۔
|ابن زیاد غصہ اور توہین آمیز حالت میں: یہ بھی اپنے باپ [[علی(ع)|علی]] کی  طرح ماہر خطیب ہے؛ اپنی جان کی قسم! تمہارا باپ بھی شاعر تھا اور سجع اور قافیے میں بات کرتا تھا
| ایک عورت کو سجع اور قافیوں سے کیا کام؟» (یہ سجع کہنے کا کونسا وقت ہے؟)<ref> شیخ مفید، الارشاد، ج۲، ص۱۱۵- ۱۱۶؛ سید بن طاووس، اللهوف، ص۱۹۱؛ خوارزمی، مقتل الحسین، ص۴۷-۴۸.</ref>
|ایڈریس=
}}
<!--
یہ حدیث اگرچہ مشہور ہے اور اکثر تاریخی منابع میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے لیکن اس کے باوجود اس پر بعض اشکالات اور اعتراضات خاص کر شیعہ محققین کی طرف سے وارد کئے گئے ہیں۔ یہ محققین ازواج مطہرات کو ناروا اتہامات سے مبرا قرار دینے کے ساتھ ساتھ اس واقعے میں جس فرد پر تہمت لگائی گئی تھی اس کا حضرت عایشہ ہونے میں تردید کرتے ہوئے آیات افک کو کسی اور واقعے سے مربوط قرار دیتے ہیں۔ یہ محققین اس واقعے سے مربوط احادیث میں موجود سند اور دلالت کے اعتبار سے موجود اشکالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس داستان کے جعلی ہونے اور اسے حضرت عایشہ کی فضلیت ظاہر کرنے کی سازش قرار دیتے ہیں۔ من جملہ وہ اعتراضات یہ ہیں: ان روایات میں واقعے کی تفصیل ایک دوسرے سے متفاوت ہے، تمام روایات خود حضرت عایشہ تک منتہی ہوتی ہیں، روایات کا سند ضعیف ہے۔<ref>عاملی، الصحیح من سیرہ النبی الاعظم، ۱۴۲۶ق، ج۱۲، ص ۷۷-۷۸، ۸۱، ۹۷۔</ref> مثلا ان روایات میں سے ایک میں آیا ہے کہ اس سلسلے میں [[پیغبمر اکرمؐ]] نے [[حضرت علیؑ]] اور [[اسامہ]] سے مشورہ کیا تو اسامہ نے حضرت عایشہ کے حق میں جبکہ حضرت علیؑ نے ان کی مخالفت میں رائ دیا، حالنکہ اس وقت اسامہ بچپنے کی عمر میں تھا۔<ref> ابن ہشام، السیرہ النبویہ، بیروت، ج۲، ص۳۰۷۔</ref>
یہ حدیث اگرچہ مشہور ہے اور اکثر تاریخی منابع میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے لیکن اس کے باوجود اس پر بعض اشکالات اور اعتراضات خاص کر شیعہ محققین کی طرف سے وارد کئے گئے ہیں۔ یہ محققین ازواج مطہرات کو ناروا اتہامات سے مبرا قرار دینے کے ساتھ ساتھ اس واقعے میں جس فرد پر تہمت لگائی گئی تھی اس کا حضرت عایشہ ہونے میں تردید کرتے ہوئے آیات افک کو کسی اور واقعے سے مربوط قرار دیتے ہیں۔ یہ محققین اس واقعے سے مربوط احادیث میں موجود سند اور دلالت کے اعتبار سے موجود اشکالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس داستان کے جعلی ہونے اور اسے حضرت عایشہ کی فضلیت ظاہر کرنے کی سازش قرار دیتے ہیں۔ من جملہ وہ اعتراضات یہ ہیں: ان روایات میں واقعے کی تفصیل ایک دوسرے سے متفاوت ہے، تمام روایات خود حضرت عایشہ تک منتہی ہوتی ہیں، روایات کا سند ضعیف ہے۔<ref>عاملی، الصحیح من سیرہ النبی الاعظم، ۱۴۲۶ق، ج۱۲، ص ۷۷-۷۸، ۸۱، ۹۷۔</ref> مثلا ان روایات میں سے ایک میں آیا ہے کہ اس سلسلے میں [[پیغبمر اکرمؐ]] نے [[حضرت علیؑ]] اور [[اسامہ]] سے مشورہ کیا تو اسامہ نے حضرت عایشہ کے حق میں جبکہ حضرت علیؑ نے ان کی مخالفت میں رائ دیا، حالنکہ اس وقت اسامہ بچپنے کی عمر میں تھا۔<ref> ابن ہشام، السیرہ النبویہ، بیروت، ج۲، ص۳۰۷۔</ref>


اسی طرح ایک اور اشکال یہ کہ ان روایات میں سے ایک میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ شروع میں اس شایعے سے متأثر ہوئے تھے۔ اگر اس بات کو قبول کریں تو یہ چیز پیغمبر اکرمؐ کی [[عصمت]] کے منافی ہو گا کیوکہ یہ اصلا قابل قبول نہیں ہے کہ آپ کسی بے گناہ شخص کی بنسبت سوء ظن پیدا کرے۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۵، ص۱۰۱؛ مکارم شیرازی، الامثل، ۱۴۲۱ق، ج۱۱، ص۴۰۔</ref>
اسی طرح ایک اور اشکال یہ کہ ان روایات میں سے ایک میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ شروع میں اس شایعے سے متأثر ہوئے تھے۔ اگر اس بات کو قبول کریں تو یہ چیز پیغمبر اکرمؐ کی [[عصمت]] کے منافی ہو گا کیوکہ یہ اصلا قابل قبول نہیں ہے کہ آپ کسی بے گناہ شخص کی بنسبت سوء ظن پیدا کرے۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۵، ص۱۰۱؛ مکارم شیرازی، الامثل، ۱۴۲۱ق، ج۱۱، ص۴۰۔</ref>


نکتہ دوم اینکہ حکم [[قذف]] کہ مطابق با آن فردی کہ تہمت [[زنا]] بہ مسلمانی بزند و نتواند ۴ شاہد برای گفتہ خود بیارد مجازات می‌شود، پیشتر نازل شدہ بود و در آیات [[سورہ نور]] نیز مسلمانان بہ این دلیل کہ در این ماجرا از تہمت زنندگان شاہد نخواستند، سرزنش شدہ‌اند۔ با توجہ بہ این موضوع، منتقدان این پرسش را مطرح می کنند کہ چرا [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیامبر(ص)]]در مدت حدود یک ماہ کہ ماجرای افک بر سر زبان‌ہا بود این حکم را جاری نکردہ و از تہمت زنندگان شاہد نخواستہ بود و [[حد]] را بر آنان جاری نساختہ بود؟ البتہ بر اساس برخی شواہد می‌توان نتیجہ گرفت کہ حکم قذف در این زمان نازل نشدہ بودہ و یا ہمزمان با ماجرای افک نازل شدہ است۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۵، ص ۱۰۲-۱۳۰؛ مکارم شیرازی، ۱۴۲۱ق، ج۱۱، ص ۴۱۔</ref>
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی مسلمان پر [[زنا]] کی تہمت لگائے اور اپنے مدعا پر 4 گواہ پیش نہ کر سکے تو اس شخص پر [[قذف]] کا حکم جاری ہو گا اور یہ حکم اس واقعے سے پہلے نازل ہو چکا تھا۔ اور [[سورہ نور]] کی مذکورہ آیات میں بھی تہمت لگانے والوں سے گواہ طلب نہ کرنے پر مسلمانوں کی سرزنش کی گئی ہے۔ اس موقع پر معترض سوال اٹھاتا ہے کہ اس واقعے کے رونما ہوئے حد اقل ایک ماہ گذرنے کے باوجود [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]] نے اس حکم پر عمل کیوں نہیں فرمایا؟ یا تہمت لگانے والوں سے گواہ کیوں طلب نہیں فرمایا؟ اور ان پر حد کیوں جاری نہیں کیا؟ البتہ بعض شواہد کی بنیاد پر یہ نتیجہ لیا جا سکتا ہے کہ قذف کا حکم اس وقت نازل نہیں ہوا تھا یا اس واقعے کے ساتھ نازل ہوا تھا۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۵، ص ۱۰۲-۱۳۰؛ مکارم شیرازی، ۱۴۲۱ق، ج۱۱، ص ۴۱۔</ref>


==ماجرای دیگر: تہمت بہ ماریہ قبطیہ==
==دوسرا احتمال: تہمت بہ ماریہ قبطیہ==<!--
بر اساس روایت دیگری کہ در منابع [[شیعہ|شیعی]] نقل شدہ، آیات افک ہنگامی نازل شد کہ [[عایشہ]] بہ [[ماریہ دختر شمعون|ماریہ قبطیہ]] تہمت ارتباط نامشروع با فردی بہ نام جریح قبطی را زد۔ بر اساس این روایت، عایشہ بہ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیامبر(ص)]] کہ از مرگ فرزندش [[ابراہیم فرزند پیامبر|ابراہیم]] غمگین بود، گفت برای چہ از مرگ او ناراحتی در حالی کہ او فرزند تو نبودہ و فرزند جریح بودہ است۔ بعد از آن، پیامبر(ص) امام علی(ع) را برای قتل جریح فرستاد اما ہنگامی کہ امام متوجہ شد آن فرد آلت جنسی ندارد از کشتن او صرف نظر کرد و بدین ترتیب تہمت ارتباط نامشروع از ماریہ برداشتہ شد۔نخستین بار این روایت در کتاب [[تفسیر علی بن ابراہیم قمی]] نقل شدہ است و مستند بہ روایتی از [[امام محمد باقر علیہ السلام|امام باقر(ع)]] گشتہ است۔<ref>قمی، تفسیر قمی، ۱۳۶۷ش، ج۲، ص ۹۹۔</ref> با این حال بسیاری از [[تفسیر قرآن|مفسران]] شیعی چنین واقعہ‌ای را نقل نکردہ و ہم‌سخن با مفسران [[اہل سنت]]، آیات افک را دربارہ عایشہ دانستہ‌اند۔<ref>نک: حسینیان مقدم، «بررسی تاریخی تفسیری حادثہ افک»، ص ۱۶۶-۱۶۷۔</ref>
بر اساس روایت دیگری کہ در منابع [[شیعہ|شیعی]] نقل شدہ، آیات افک ہنگامی نازل شد کہ [[عایشہ]] بہ [[ماریہ دختر شمعون|ماریہ قبطیہ]] تہمت ارتباط نامشروع با فردی بہ نام جریح قبطی را زد۔ بر اساس این روایت، عایشہ بہ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیامبر(ص)]] کہ از مرگ فرزندش [[ابراہیم فرزند پیامبر|ابراہیم]] غمگین بود، گفت برای چہ از مرگ او ناراحتی در حالی کہ او فرزند تو نبودہ و فرزند جریح بودہ است۔ بعد از آن، پیامبر(ص) امام علی(ع) را برای قتل جریح فرستاد اما ہنگامی کہ امام متوجہ شد آن فرد آلت جنسی ندارد از کشتن او صرف نظر کرد و بدین ترتیب تہمت ارتباط نامشروع از ماریہ برداشتہ شد۔نخستین بار این روایت در کتاب [[تفسیر علی بن ابراہیم قمی]] نقل شدہ است و مستند بہ روایتی از [[امام محمد باقر علیہ السلام|امام باقر(ع)]] گشتہ است۔<ref>قمی، تفسیر قمی، ۱۳۶۷ش، ج۲، ص ۹۹۔</ref> با این حال بسیاری از [[تفسیر قرآن|مفسران]] شیعی چنین واقعہ‌ای را نقل نکردہ و ہم‌سخن با مفسران [[اہل سنت]]، آیات افک را دربارہ عایشہ دانستہ‌اند۔<ref>نک: حسینیان مقدم، «بررسی تاریخی تفسیری حادثہ افک»، ص ۱۶۶-۱۶۷۔</ref>


confirmed، templateeditor
9,251

ترامیم