"واقعہ افک" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 32: | سطر 32: | ||
[[شیعہ]] معاصر محققین اور مؤلفین نیز ان آیات کے شأن نزول میں اختلاف نظر رکھتے ہیں۔ بعض ان آیات کو [[ماریہ بنت شمعون|ماریہ قبطیہ]] پر لگائی گئی تہمت سے مربوط قرار دیتے ہیں۔<ref>یوسفی غروی، موسوعہ التاریخ الاسلامی، ۱۴۲۳ق، ج ۳، ص۳۵۰۔</ref> علامہ [[جعفر مرتضی عاملی]] من جملہ ان محققین میں سے ہیں جو اس نظریے کو ثابت کرنے کیلئے بعض شواہد کو ذکر کرتے ہیں اور بعض تاریخی روایات کا اس شأن نزول کے ساتھ مطابقت ہونا ہے۔<ref>عاملی، الصحیح من سیرہ النبی الاعظم، ۱۴۲۶ق، ج۱۲، ص ۳۲۰، ۳۲۶۔</ref> | [[شیعہ]] معاصر محققین اور مؤلفین نیز ان آیات کے شأن نزول میں اختلاف نظر رکھتے ہیں۔ بعض ان آیات کو [[ماریہ بنت شمعون|ماریہ قبطیہ]] پر لگائی گئی تہمت سے مربوط قرار دیتے ہیں۔<ref>یوسفی غروی، موسوعہ التاریخ الاسلامی، ۱۴۲۳ق، ج ۳، ص۳۵۰۔</ref> علامہ [[جعفر مرتضی عاملی]] من جملہ ان محققین میں سے ہیں جو اس نظریے کو ثابت کرنے کیلئے بعض شواہد کو ذکر کرتے ہیں اور بعض تاریخی روایات کا اس شأن نزول کے ساتھ مطابقت ہونا ہے۔<ref>عاملی، الصحیح من سیرہ النبی الاعظم، ۱۴۲۶ق، ج۱۲، ص ۳۲۰، ۳۲۶۔</ref> | ||
===اس احتمال پر ہونے والے اعتراضات=== | ===اس احتمال پر ہونے والے اعتراضات=== | ||
دوسری طرف سے بعض معاصر شیعہ محققین نے آیات افک کا ماریہ قبطیہ کے واقعے کے ساتھ مربوط ہونے کو بھی رد کئے ہیں۔<ref>سبحانی، فروغ ابدیت، ۱۳۸۴ش، ص ۶۶۶؛ حسینیان مقدم، «بررسی تاریخی تفسیری حادثہ افک»، ص ۱۷۲۔</ref> ان کا کہنا ہے کہ اس احتمال پر سب سے اہم اشکال یہ ہے کہ اس واقعہ اور مذکورہ آیات کے مضامین کے آپس میں سازگاری نہیں ہے، وہ یہ کہ ان آیات میں تہمت لگانے والوں کو ایک گروہ کی شکل میں پیش کرتے ہیں جبکہ ماریہ قبطیہ کے واقعے میں تہمت لگانے والی صرف حضرت عایشہ کی ذات ہے۔ دوسری بات یہ کہ اس [[حدیث|روایت]] کے مطابق [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]] نے صرف حضرت عایشہ کے کہنے پر بغیر کسی تحقیق اور اس کے جرم کو شرعی قوانین کے مطابق ثابت کئے بغیر اس فرد کو قتل کرنے کا حکم صادر فرمایا ہے، یہ کام پیغمبر اکرمؐ سے محال ہے۔<ref>مکارم شیرازی، الامثل، ۱۴۲۱ق، ج۱۱، ص ۴۱۔</ref> | |||
== | ==کتابیں اور مقالہ جات== | ||
اس واقعے کے بارے میں شیعہ اور سنی علماء نے مختلف کتابیں اور مقالہ جات لکھے ہیں جن میں سے بعض نے اس واقعے کو حضرت عایشہ کی فضیلت شمار کی ہیں تو دوسرے گروہ نے اس واقعے کو آپ سے مربوط ہونے سے انکار کئے ہیں: | |||
*'''خبر الافک'''؛ علی بن محمد مدائنی ( | *'''خبر الافک'''؛ علی بن محمد مدائنی (متوفی 225ھ) | ||
*'''الرد علی اہل الافک'''؛ ابوسلیمان اصفہانی ( | *'''الرد علی اہل الافک'''؛ ابوسلیمان اصفہانی (متوفی 270ھ) | ||
*'''حدیث الافک'''؛ ابن ہیثم دیر عاقولی ( | *'''حدیث الافک'''؛ ابن ہیثم دیر عاقولی (متوفی 278ھ) | ||
*'''حدیث الافک'''؛ محمد بن عبداللہ بن عربی معافری ( | *'''حدیث الافک'''؛ محمد بن عبداللہ بن عربی معافری (متوفی 543ھ) | ||
*'''تنزیہ عائشۃ عن الفواحش العظیمۃ'''؛ [[عبدالجلیل قزوینی]] ( | *'''تنزیہ عائشۃ عن الفواحش العظیمۃ'''؛ [[عبدالجلیل قزوینی]] (متوفی بعد از 556ھ) | ||
*'''حدیث الافک'''؛ عبدالغنی مقدسی ( | *'''حدیث الافک'''؛ عبدالغنی مقدسی (متوفی 600ھ) | ||
*'''حدیث الافک'''؛ [[جعفر مرتضی عاملی]] | *'''حدیث الافک'''؛ [[جعفر مرتضی عاملی]] | ||
*'''حدیث الافک'''؛ ابراہیم بن حسین کسائی | *'''حدیث الافک'''؛ ابراہیم بن حسین کسائی | ||
*'''شرح حدیث الافک'''؛ عبداللہ بن سعد بن ابی جمرہ ازدی۔<ref>حسینیان مقدم، بررسی تاریخی- تفسیری حادثہ افک، ۱۳۸۴ش۔</ref> | *'''شرح حدیث الافک'''؛ عبداللہ بن سعد بن ابی جمرہ ازدی۔<ref>حسینیان مقدم، بررسی تاریخی- تفسیری حادثہ افک، ۱۳۸۴ش۔</ref> | ||
==حوالہ جات== | ==حوالہ جات== |