اسلامی جمہوریہ کے دور کا حوزۂ علمیہ قم
حوزۂ علمیہ قم کا تاریخی سفر سالہا سال پر محیط ہے لیکن ایران میں اسلامی جمہوری حکومت کے قیام کے بعد اس حوزۂ علمیہ نے عالمی سطح پر مرکزیت حاصل کی اور اب اسے عالم تشیع کا مرکز سمجھا جانے لگا ۔اسلامی جمہوری حکومت بننے کے بعد امام خمینیؒ کے فرمان پر "مرکزی شوری مدیریت" کے پہلی مرتبہ اراکین منتخب ہوئے ۔
مذہب تشیع کے علمی حوزوں میں سے "حوزۂ علمیہ قم" ایک اہم ترین حوزۂ علمیہ شمار ہوتا ہے کہ جس میں مختلف ممالک سے آئے ہوئے طلباء اپنی علمی سر گرمیوں میں مشغول رہتے ہیں ۔ یہ حوزۂ علمیہ مختلف مذہبی مناسبتوں کی مناسبت سے مختلف ممالک میں مبلغین کو بھیجتا ہے ۔ نیز مدارس ،مؤسسہ جات، ناشرین سمیت بہت سے علمی مراکز اس ادارے کے ساتھ مل کر اپنی فعالیت جاری رکھے ہوئے ہیں ۔
انقلاب کے بعد کا ڈھانچہ
اسلامی انقلاب کے بعد حوزہ علمیہ قم کے انتظامی معاملات زیادہ منظم ہوئے۔ حوزہ کی انتظامی شوری کے اراکین مورخہ 27 فروری 1981 بمطابق 22 ربیع الثانی 1401 ہجری قمری کو امام خمینی کے حکم اور دوسرے مراجع کی ہمآہنگی سے منتخب ہوئے اور شوری نے اپنے کام کا آغاز کیا۔[1] اس ادارے کے امور اس انتظامی محکمے (=Administrative Secretariat) کے توسط سے انجام پاتے تھے جو ساتھ شعبوں پر مشتمل تھا:
- علمی شعبہ (علمی تحقیقات کا مرکز، درسی پروگراموں کا انتظام، درسی کتب کی اصلاح، امتحانات، طالبات کے دروس اور غیر ملکی طلبہ سے متعلق پروگرامات؛
- شعبۂ اخلاق و تزکیہ (دروس اخلاق، خصوصی نگرانی اور خلاف ورزیوں کی تحقیقات)؛
- اندرونی انتظامات کا شعبہ (تعلیمی ریکارڈ، طلبہ کے داخلے اور دفتری عملے کی بھرتی، غیرملکی طلبہ کی نگرانی، مناسب افراد کی شناخت اور ان کی تقرری، عسکری بھرتی کے اہل افراد اور مدارس کے منتظمین)؛
- تبلیغات اور مبلغین کا شعبہ (مبلّغ کی تربیت، مختلف علاقوں کی تبلیغی ذمہ داریاں اور نشر و اشاعت)؛
- اعداد و شمار اور اطلاعات کا شعبہ؛
- رسدات (=Supplies) کا شعبہ؛
- شہروں کے حوزات علمیہ کا شعبہ۔[2]
حوزۂ علمیہ قم کا نیا ڈھانچہ
حالیہ برسوں میں حوزے کے اداری نظام کو شوری عالی حوزات علمیہ، مرکز مدیریت مدارس علمیہ، صوبائی مدیریت مدارس علمیہ و صوبائی شوری میں تبدیل کیا گیا۔ مدارس علمیہ کے پرنسپل کا معین کرنا حوزات علمیہ کی شورائے عالی کے فرائض میں سے ہے۔اسطرح حوزہ علمیہ قم کا انتظامی ڈھانچہ بدل گیا جس کی توضیح درج ذیل چارٹ میں ملاحظہ کریں:
ادارے کا نام | وضاحت |
---|---|
حوزات علمیہ کی شورائے عالی | یہ شوری سنہ 1991 عیسوی / 1370 ہجری شمسی کو رہبر انقلاب اسلامی سید علی خامنہ ای کی تجویز اور مراجع تقلید کی منظوری کے بعد تشکیل پائی[3] حوزۂ علمیہ کے سربراہ کا تعین اور حوزہ علمیہ کے بارے میں بنیادی فیصلے کرنے کا اختیار اسی شوری کو دیا گیا ہے۔[4]اسوقت قم کے اکثر اور دوسرے شہروں کے مدارس "حوزۂ علمیہ قم کی شورائے مدیریت" کے شیڈول اور سلیبس کے تحت کام کر رہے ہیں نیز صرف مشہد اور اصفہان کے حوزے مستقل ہیں ۔پورے ملک میں "حوزۂ علمیہ قم کی شوریٰ" کے زیر نگرانی چلنے والے مدارس کی تعداد مجموعی طور پر 270 سے زیادہ ہے ۔[5] |
حوزات علمیہ کا انتظامی مرکز | یہ مرکز ملک کے حوزات علمیہ کے مرکزی دفتر کے عنوان سے، انتظامی پالیسی سازی اور حوزہ ہائے علمیہ کی منصوبہ سازی اور ان کی نگرانی کا ذمہ دار ہے۔ مرکز کا سربراہ شورائے عالی کے اراکین کے توسط سے منتخب ہوتا ہے اور اس کی تقرری کا حکم حوزات علمیہ کی شورائے عالمی کی طرف سے جاری ہوتا ہے۔ |
صوبائی شورائیں | ہر صوبے میں حوزہ کے بعض علماء اور اکابرین "صوبائی حوزہ علمیہ کی شوری" کی حیثیت سے منتخب ہوتے ہیں اور یہ شوری صوبے کے حوزہ علمیہ کے اہم اور وسیع البنیاد اقدامات کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ اس شوری کے اراکین کی تقرری کا حکم حوزہ ہائے علمیہ کے سربراہ کی طرف سے جاری ہوتا ہے۔ |
صوبائی حوزات علمیہ کا انتظام | ہر صوبے میں "صوبائی حوزہ علمیہ کے انتظامی مرکز" کے عنوان سے ایک ادارہ تشکیل پایا ہے اور یہ مرکز اپنے صوبے کے مدارس اور حوزوی مراکز کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ ہر صوبے کے انتظامی مرکز کے سربراہ کا تعین اسی صوبے کی صوبائی شوری کے اراکین کے انتخاب اور حوزہ ہائے علمیہ کی شورائے عالی کی منظوری کے بعد حوزہ ہائے علمیہ کے سربراہ کے توسط سے انجام پاتا ہے۔ |
غیر ایرانی طلبہ کی نگران شوری | اس شوریٰ نے 20 ستمبر 1980 عیسوی کواپنا نام مرکز جہانی علوم اسلامی رکھا اور سنہ 1993 عیسوی کو سید علی خامنہ ای کے حکم پر منظم اور مربوط انداز سے اپنا کام جاری کیا ۔[6] اس مرکز نے اپنے بعض تجربوں اور ضرورتوں کی بنا پر بعد میں اپنا نام "جامعۃ المصطفی العالمیۃ" رکھا ہے۔[7] |
تعلیمی اسناد
چونکہ حوزہ کے بعض طلاب اور مدرسین غیر حوزوی تعلیمی مراکز میں تدریس کرتے ہیں، چنانچہ ضرورت کے پیش نظر حوزہ علمیہ کی اسناد کو وزارت تعلیم و تربیت اور وزارت اعلی تعلیم کی اسناد کی چار سطحوں میں معادلت (=Equivalence) کا انتظام کیا گیا ہے:
- سطح اول شرح لمعہ کی تکمیل، = ڈپلومہ؛
- سطح دوئم فرائد الاصول اور مکاسب کے کچھ حصے کی تکمیل اور رسالے / مقالے (= Thesis) کی تدوین = بی اے؛
- سطح سوئم کفایۃ الاصول اور مکاسب کی تکمیل، رسالے / مقالے (= Thesis) کی تدوین کے ساتھ = ایم اے؛
- سطح چہارم فقہ اور اصول فقہ کا درس خارج، 4 سال تک چار امتحانات اور رسالے / مقالے (= Thesis) کی تحریر و تدوین = پی ایچ ڈی؛
جو افراد تبلیغ، اصول فقہ اور کلام میں پیشہ ورانہ / تخصصی امتحانات کامیابی سے سر کریں اور متعلقہ موضوعہ میں رسالہ / مقالہ لکھیں انہیں ان کی علمی سطح کے مطابق تیسری یا چوتھی سطح کی ڈگری عطا ہوگی۔
[نئے ضابطے کے مطابق] موجودہ عشرے کے دوران، حوزہ قم کا انتظامی ادارہ فقہ اور اصول فقہ نیز علم کلام کے فارغ التحصیل طلبہ سے امتحان لیتا ہے اور کامیاب طلبہ کو ان کے آبائی شہروں میں بھجواتا ہے تاکہ وہاں حوزہ کے رائج علوم کی تدریس کی ذمہ داری سنبھالیں اور امکان کی صورت میں موجودہ حوزات کو رونق دینے اور نئے حوزات کی تاسیس میں مدد کریں۔
درحقیقت اس منصوبہ بندی کی افادیت اور مقصد یہ ہے کہ قم میں علماء اور طلبہ کی عددی مرکزیت کو متناسب انداز سے ملک کے مختلف علاقوں میں تقسیم کیا جائے۔
متعلقہ مراکز نشر و اشاعت
انقلاب اسلامی کے بعد بھی کئی اہم مراکز نشر و اشاعت کی بنیاد رکھی گئی جو حوزہ علمیہ قم سے وابستہ ہیں اور قدیم اور جدید اسلامی اور شیعہ کتب و آثار کی اشاعت میں مصروف عمل ہیں؛ منجملہ:
- حوزہ علمیہ قم سے وابستہ دفتر تبلیغات اسلامی کے مرکز نشر و اشاعت نے سنہ 1982 عیسوی سے لے کر اب (2014) تک سینکڑوں کتب طبع اور شائع کی ہیں؛[8]
- دفتر انتشارات اسلامی، جو جامعہ مدرسین سے وابستہ ہے؛[9]
- مرکز الرسالہ؛
- مرکز الابحاث العقائدیہ؛
- مرکز المصطفی للدراسات؛
- مرکز احیاء التراث الاسلامی، جو موسسہ آل البیت سے وابستہ ہے؛[10]
- دار الحدیث ثقافتی ادارہ بھی خاص طور پر شیعہ منابع حدیث کی تنقیدی اشاعت، تدوین اور جدید تحقیقات کے سلسلے میں وسیع تحقیقات کررہا ہے۔
ان میں سے بعض اشاعتی اداروں نے بعض اسلامی کتب کے مختلف زبانوں میں تراجم کرکے مختلف ممالک میں شائع کئے ہیں۔
کتب خانے
کتب خانہ | وضاحت |
---|---|
کتب خانہ آیت اللہ گلپایگانی | جس کی بنیاد سنہ 1992 عیسوی میں رکھی گئی اور ابتدائی طور پر اس میں 2400 قلمی نسخے اور 23340 مطبوعہ نسخے محفوظ کئے گئے۔[11]۔[12] |
مجمع الذخائر الاسلامی | جو مؤسسہ آل البیت علیہم السلام سے وابستہ ہے۔ |
کتب خانہ دار الحدیث | جو موسسہ دار الحدیث شس وابستہ ہے اور 37 ہزار سے زائد منابع و مآخذ پر مشتمل ہے۔ |
کتب خانہ آیت اللہ بروجردی | جو 3000 سے زائد مآخذ پر مشتمل ہے[13] |
کتب خانہ تخصصی فلسفہ و کلام | جو دفتر آیت اللہ سیستانی سے وابستہ ہے۔ |
کتب خانہ تخصصی تاریخ اسلام و ایران | آیت اللہ سیستانی سے وابستہ ہے۔ |
کتب خانہ تخصصی تفسیر و علوم قرآن | جو دفتر تبلیغات اسلامی سے وابستہ ہے۔ |
کتب خانہ پژوہشکدہ مطالعات دینی فرہنگی | جو 43000 سے زائد مآخذ پر مشتمل ہے۔ |
کتب خانہ پژوہشگاہ اندیشہ سیاسی اسلام | جر 11000 سے زائد مآخذ پر مشتمل ہے۔ |
کتب خانہ پژوہشگاہ حوزہ و دانشگاہ | 46000 سے زائد مآخذ پر مشتمل ہے۔ |
کتب خانہ آستانہ حضرت معصومہ (س) | جو تقریبا 46000 مآخذ پر مشتمل ہے۔ |
کتب خانہ جامعۃ المصطفی العالمیۃ | جو 32000 سے زائد مآخذ پر مشتمل ہے۔ |
کتب خانہ دانشگاه باقر العلوم(ع) | جو 45000 سے زائد مآخذ پر مشتمل ہے۔ |
کتب خانہ دانشگاہ مفید | جو 34000 سے زائد مآخذ پر مشتمل ہے۔ |
کتب خانہ آیت اللہ حائری (فیضیہ) | 16000 سے زائد مآخذ پر مشتمل ہے۔ |
کتب خانہ مجتمع آموزش عالی امام خمینی(رح) | 33000 سے زائد مآخذ پر مشتمل ہے۔ |
کتب خانہ مدرسہ عالی فقہ و معارف اسلامی (حجتیہ) | جو 24000 سے زائد مآخذ پر مشتمل ہے۔[14] |
برقی نشر و اشاعت
حالیہ دو عشروں میں برقی نشر و اشاعت کو بھی حوزہ علمیہ میں توجہ دی گئی ہے اور حوزہ علمیہ اس میدان میں پیشرو اداروں میں شمار ہوتا ہے؛ منجملہ:
- اسلامی علوم کا کمپیوٹر مرکز جس نے قرآن اور تفاسیر، حدیث، فقہ اور اصول فقہ، فلسفہ، عرفان، فارسی اور عربی ادب، تاریخ اور جغرافیہ کے شعبوں میں شیعہ مکتب کو پیش نظر رکھ کر متعدد سافٹ ویئرز (اور برقی کتب خانے) تیار کئے ہیں۔
- معجم فقہی، جو مدرسہ آیت اللہ گلپایگانی سے وابستہ ہے، نے بھی اسلامی آثار اور کتب کی برقی نشر و اشاعت کے سلسلے اہم کردار ادا کیا اور المعجم الفقہی ـ جو اہل سنت کے فقہی مآخذ و منابع پر بھی مشتمل ہے ـ اور المعجم العقائدی نیز احکام کا سافٹ ویئر الگ الگ تیار کیا اور پھر ان تینوں کو اکٹھا کرکے کتب خانہ اہل بیت کے عنوان سے برقی کتب خانہ تیار کیا اور طلاب اور علماء کے درمیان اس قسم کی علمی مصنوعات کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ اور یوں اسلامی مطالعات اور تحقیقات کی سطح بلند کیا۔[15] علمائے قم کے بہت سے دروس بھی آج کل برقی نشر و اشاعت کی روش سے شائقین تک پہنچائے جاتے ہیں۔
برقی نشر و اشاعت
حالیہ دو عشروں میں برقی نشر و اشاعت کو بھی حوزہ علمیہ میں توجہ دی گئی ہے اور حوزہ علمیہ اس میدان میں پیشرو اداروں میں شمار ہوتا ہے؛ منجملہ:
- اسلامی علوم کا کمپیوٹر مرکز جس نے قرآن اور تفاسیر، حدیث، فقہ اور اصول فقہ، فلسفہ، عرفان، فارسی اور عربی ادب، تاریخ اور جغرافیہ کے شعبوں میں شیعہ مکتب کو پیش نظر رکھ کر متعدد سافٹ ویئرز (اور برقی کتب خانے) تیار کئے ہیں۔
- معجم فقہی، جو مدرسہ آیت اللہ گلپایگانی سے وابستہ ہے، نے بھی اسلامی آثار اور کتب کی برقی نشر و اشاعت کے سلسلے اہم کردار ادا کیا اور المعجم الفقہی ـ جو اہل سنت کے فقہی مآخذ و منابع پر بھی مشتمل ہے ـ اور المعجم العقائدی نیز احکام کا سافٹ ویئر الگ الگ تیار کیا اور پھر ان تینوں کو اکٹھا کرکے کتب خانہ اہل بیت کے عنوان سے برقی کتب خانہ تیار کیا اور طلاب اور علماء کے درمیان اس قسم کی علمی مصنوعات کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ اور یوں اسلامی مطالعات اور تحقیقات کی سطح بلند کیا۔[16] علمائے قم کے بہت سے دروس بھی آج کل برقی نشر و اشاعت کی روش سے شائقین تک پہنچائے جاتے ہیں۔
مدارس
- مدرسہ علمیہ الزہرا(س)
- مدرسہ علمیہ شہید سید حسن شیرازی
- مدرسہ علمیہ امام حسین (ع)
- مدرسہ علمیہ امام باقر (ع)
- مدرسہ علمیہ امام مہدی (عج)
- مدرسہ علمیہ رضویہ (ع)
- مدرسہ علمیہ ستیہ
- مدرسہ علمیہ امام خمینی
- مدرسہ علمیہ اباصالح(عج)
- مدرسہ علمیہ المہدی(عج)
- مدرسہ علمیہ الہادی(ع)
- مدرسہ علمیہ امام مہدی موعود(عج)
- مدرسہ علمیہ بقیہ اللہ(عج)
- مدرسہ علمیہ حقانی
- مدرسہ علمیہ جانبازان
- مدرسہ علمیہ رسالت
- مدرسہ علمیہ شہیدین
- مدرسہ علمیہ صدوق
- مدرسہ علمیہ عترت
- مدرسہ علمیہ کرمانیہا
- مدرسہ علمیہ معصومیہ(س)
- مدرسہ علمیہ امام عصر
- مدرسہ علمیہ سعد حلت
- مدرسہ علمیہ اثیرالملک
- مدرسہ علمیہ سید سعید عزالدین مرتضی
- مدرسہ علمیہ سید زین الدین
- مدرسہ علمیہ سید عبدالعزیز
- مدرسہ علمیہ ابوالحسن کمیج
- مدرسہ علمیہ شمس الدین مرتضی
- مدرسہ علمیہ مرتضی کبیر
- مدرسہ علمیہ درب آستانہ
وابستہ جامعات (یونیورسٹیاں)
تحقیقاتی ادارے
متعلقہ مآخذ
حوالہ جات
- ↑ صحیفه امام: مجموعه آثار امام خیمنی (س) (بیانات، ج14، ص60.
- ↑ شیرخانی و زارع، تحولات حوزه علمیه قم پس از پیروزی انقلاب اسلامی، ص84.
- ↑ فیروزی، پیام حوزه، سال 2، ش 3 ص5
- ↑ شیرخانی و زارع، تحولات حوزه علمیه قم پس از ...، ص244ـ249.
- ↑ شیرخانی و زارع، تحولات حوزه علمیه قم پس از ...، ص99.
- ↑ مرکز جهانی علوم اسلامی، ص29ـ30.
- ↑ جامعةالمصطفی العالمیة، ص11.
- ↑ شیرخانی و زارع، تحولات حوزه علمیه قم پس از ...، ص164
- ↑ شیرخانی و زارع، تحولات حوزه علمیه قم پس از ...، ص165
- ↑ شیرخانی و زارع، تحولات حوزه علمیه قم پس از ...، ص166
- ↑ شریف رازی، 1352 گنجینه دانشمندان، ج1، ص204ـ215۔
- ↑ علی کرجی، قم و مرجعیت، ص64ـ69۔
- ↑ پایگاه اطلاع رسانی کتب خانہ ایت الله بروجردی۔
- ↑ پایگاه اطلاع رسانی کتب خانہهای ایران
- ↑ تفصیل کے لئے رجوع کریں: علی کرجی، قم و مرجعیت، ص69ـ70۔
- ↑ تفصیل کے لئے رجوع کریں: علی کرجی، قم و مرجعیت، ص69ـ70۔
بیرونی روابط
- حوزه علمیہ قم
- پایگاه اطلاع رسانی شورای عالی حوزهہای علمیہ
- مرکز مدیریت حوزه ہای علمیہ
- مرکز مدیریت حوزه علمیہ استان قم
- معاونت آموزش حوزه ہای علمیہ
- مرکز مدیریت حوزهہای علمیہ خواہران
- جامعۃ الزہراء (حوزه علمیہ خواہران - قم)
- پایگاه حوزه
- مرکز آموزشہای حوزه
- خبرگزاری حوزه
- جامعہ مدرسین حوزه قم
- شورای عالی حوزه
- شورای عالی حوزه
مآخذ
- امام خمینی، صحیفه امام: مجموعه آثار امام خمینی(س) (بیانات، پیامها، مصاحبهها، احکام، اجازات شرعی و نامهها)، تهران 1378 هجری شمسی۔
- علی شیرخانی و عباس زارع، تحولات حوزه علمیه قم پس از پیروزی انقلاب اسلامی، تهران 1384 هجری شمسی۔
- عباس فیروزی، «دومین دوره شورای عالی و مدیریت حوزه علمیه»، پیام حوزه، سال 2، ش 3 (پاییز 1374هجری شمسی)۔
- مرکز جهانی علوم اسلامی، شناسان مرکز جهانی علوم اسلامی، (قم) 1386 هجری شمسی۔
- جامعةالمصطفی العالمیة، جامعةالمصطفی العالمیة در یک نگاه (لوح فشرده)، قم 1387 هجری شمسی۔
- محمد شریف رازی، آثار الحجة، یا تاریخ و دائرةالمعارف حوزه علمیه قم، قم 1332ـ1333 هجری شمسی۔
- محمد شریف رازی، گنجینه دانشمندان، تهران، 1352-1354 هجری شمسی۔
- علی کرجی، قم و مرجعیت، قم 1383هجری شمسی۔