اخفائے راز

ویکی شیعہ سے

اخفائے راز ہر شخص کی زندگی کا ایک حصہ ہے جس میں کوئی پوچھ گچھ اور قانونی سزا نہیں ہے، اور دوسروں کو اس کی اجازت کے بغیر داخل ہونے، معلومات حاصل کرنے اور اس میں مداخلت کرنے کا حق نہیں ہے۔ لوگوں کو اپنے اخفائے راز میں مستقل طور پر فیصلے کرنے میں آزادی حاصل ہے۔ اخفائے راز کا دائرہ معاشرے کی ثقافت اور طرز حکمرانی کے مطابق محدود یا وسیع ہو جائے گا۔

اخفائے راز یا حریمِ خصوصی کی اصطلاح ایک نئی اصطلاح ہے جو مذہبی متون میں نہیں ملتی ہے، لیکن تعلیمات، احکام و قوانین جیسے کہ دوسروں کے ذاتی معاملات اور معلومات کی جاسوسی کرنے کی ممانعت، مومن کی ساکھ کو اس کا خون سمجھنا، غیبت کا حرام ہونا اکل مال بالباطل کا حرام ہونا، سوء ظن کی قباحت، اشاعہ فحشا کی ممانعت، بغیر اجازت گھروں میں داخلے پر پابندی وغیرہ کو اسلامی شریعت میں لوگوں کے اخفائے راز کی حمایت کے جلوے قرار دئے جاتے ہیں۔

مسلمان اور شیعہ محققین نے پرائیویسی اور اخفائے راز کو رسمی قرار دیتے ہوئے اور اس کی حمایت کے لیے کئی بنیادوں کی طرف اشارہ کیا ہے، جن میں انفرادی آزادی، انسانی وقار کی حمایت، ظلم کو روکنا، اور مومن کی عزت کا تحفظ شامل ہیں۔ شیعہ فقہ کی تعلیمات اور مآخذ میں اخفائے راز کی حمایت نیز اپنی اور دوسروں کی پرائیویسی کی خلاف ورزی کے روک تھام کے لئے راہِ حل اور احتیاطی تدابیر میں غیبت کی ممانعت، استراق سمع، اشاعہ فاحشاء اور قاعدہ احترام، قاعدہ لاضرر، قاعدہ عدم ولایت جیسے قواعد کے ذریعے اخفائے راز کی حمایت اور اخفائے راز کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے سزا کا تعین شامل ہیں۔

اخفائے راز اور امر بالمعروف و نہی از منکر کے درمیان تعلق کا تعین کرنے کے لیے کہا گیا ہے کہ امر بالمعروف و نہی از منکر لوگوں کی زندگی کے ذاتی پہلوؤں میں جائز نہیں ہے جو عوامی طور پر ظاہر نہیں ہوتے ہیں اور اس کا جواز صرف ایسے معاملات میں ہے جہاں لوگوں کی رفتار اور عقائد عوامی میدان میں داخل ہوتے ہیں۔ فقہا نے افراد کی پرائیویسی میں حکومت کی نگرانی کو صرف اسی صورت میں جائز سمجھا ہے جہاں اس کا تعلق سلامتی، مصلحت اور نظام کی حفاظت برقرار رکھنے میں ہے۔

اہمیت

«کسی کو حق نہیں ہے کہ وہ مالک کی اجازت کے بغیر کسی کے گھر یا دکان یا ذاتی کام کی جگہ میں داخل ہو، یا کسی کو اپنی طرف متوجہ کرے، یا کسی جرم کا پتہ لگانے یا جرم کرنے کے نام پر، تعاقب اور نگرانی کرے...، یا ٹیلی فون یا آڈیو کیسٹ کو کوئی جرم دریافت کرنے یا گناہ کا مرکز دریافت کرنے کے نام پر سنے یا گناہ اور جرم کا پتہ لگانے کے لئے، چاہے وہ جرم کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو، یا لوگوں کے راز تلاش کرے، یہ سب جرم [اور] گناہ ہے۔۔۔(امام خمینی آٹھ بند پر مشتمل حکم نامے سے اقتباس)».[1]

مسلم محققین کے مطابق، اگرچہ مذہبی متون میں اخفائے راز کی اصطلاح کا ذکر نہیں کیا گیا ہے[2] اور فقہی مآخذ میں اس کے لیے کوئی مدون اور مستقل کوئی باب مختص نہیں ہوا ہے؛ لیکن حریمِ خصوصی کے مصادیق جیسے؛ رہائش، جائیداد، راز، ذاتی اور خاندانی معلومات، مواصلات اور افراد کی ساکھ کو مذہبی تعلیمات اور مختلف فقہی ابواب میں محترم اور قابل احترام سمجھے گیے ہیں۔[3] اس بنا پر تعلیمات، احکام اور قواعد کے مطابق دوسروں کے ذاتی امور اور معلومات میں تجسس کی ممانعت،[4] مومن کی ساکھ اس کے خون کے برابر قرار دینا،[5] مومن کی توہین اور غیبت کا حرام ہونا،[6] دوسروں کے مال کو حرام طریقے سے کھانا، اصل برائت، سوءظن کی مذمت، برے کاموں کی ترویج کی ممانعت،[7] بغیر اجازت گھروں میں داخل ہونے کی ممانعت،[8] راز افشا کرنے کی ممانعت،[9] اور اخفائے راز کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف ہونے والے جرائم کا ذمہ دار نہ ہونے[10] کو اسلامی شریعت میں لوگوں کی پرائیویسی کے تحفظ کے جلووں میں سے قرار دئے جاتے ہیں۔[11]

پرائیویسی کا حق یا رازداری کا حق، جمہوری نظاموں میں انسانی حقوق کے حصول کی بنیادوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، جو کسی شخص کو اس کی نجی زندگی پر دوسروں کے تسلط اور حکومتی مداخلت کے خلاف تحفظ فراہم کرتا ہے۔[12] اس حق کو حقوقی نظاموں میں سب سے قیمتی مفاہیم میں سے ایک سمجھا جاتا ہے جس کا تعلق انسانوں کی عزت، وقار، آزادی، خود ارادیت اور اس کی عاقبت کے تعین سے ہے اور یہ معاشرے میں پرامن بقائے باہمی کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔[13]

مفہوم شناسی

رازداری کو ہر شخص کی زندگی کا ایک حصہ سمجھا جاتا ہے جس میں اسے قانونی چارہ جوئی اور سزا سے آزادی حاصل ہوتی ہے، اور اس حصے کے بارے میں فیصلہ، نیز معلومات، اس تک رسائی اور نگرانی، خصوصی طور پر اس شخص کے ہاتھ میں ہے؛ لہذا دوسرے افراد کو اس کی اجازت کے بغیر اس دائرے میں داخل ہونے، مداخلت کرنے یا اس سے معلومات حاصل کرنے کا حق نہیں ہے۔[14] رہائشی مکانات، نجی مقامات، انسان کا جسم، ہر شخص کی ساکھ، معلومات اور نجی مواصلات کو اس کی پرائیویسی اور اخفائے راز سمجھا جاتا ہے۔[15]

رازداری کو قانونی اداروں کے لیے بھی تسلیم کیا جاتا ہے؛ بلاشبہ، یہ کہا گیا ہے کہ قانونی اداروں کی رازداری کا تعلق زیادہ تر ان کی مالی اور تجارتی معلومات سے ہے اور یہ افراد کی رازداری سے مختلف ہے۔[16]

رازداری کا دائرہ وسیع یا محدود ہونا اس معاشرے پر حاکم ثقافت کا مذہبی یا غیر مذہبی ہونے بات پر منحصر ہے، اور اس معاشرے کی طرز حکمرانی کا آمرانہ یا جمہوری ہونے کے اعتبار سے بھی دائرہ وسیع اور تنگ ہوسکتا ہے۔[17]

رازداری حق ہے یا حکم، اس بارے میں کہا گیا ہے؛ پرائیویسی کے وہ پہلو جو کسی شخص کی شخصیت، انسانی وقار، روحانی شناخت اور حساس ڈیٹا سے متعلق ہوتے ہیں، ان کو شرعی احکام میں سے ایک حکم سمجھا گیا ہے، اور بنیادی طور پر ان پہلوؤں میں کسی شخص کی ملکیت اور کنٹرول تحقق نہیں پاتا ہے؛ اس لیے اس سے دستبردار ہونا اور دوسروں کو ان پہلوؤں میں داخل ہونے کی اجازت دینا جائز نہیں ہے۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی شخص کسی کو اپنی غیبت کرنے کی اجازت دیتا ہے تو بھی غیبت کی حرمت ختم نہیں ہوجائے گی اور دوسروں کو غیبت کرنے کا حق حاصل نہیں ہوگا۔ دوسری طرف، رازداری کے دوسرے پہلو جو کسی شخص کے روحانی وقار سے متعلق نہیں ہیں انہیں ایک حق سمجھا جاتا ہے اور اس حق سے دستبردار ہوسکتے ہیں اور حق کا مالک دوسروں کو اس حصے میں داخل ہونے کی اجازت دے سکتا ہے؛ جیسے گھر کا مالک کسی کو اس میں داخل ہونے کی اجازت دے سکتا ہے۔[18]

اقسام

رازداری کو جسمانی اور ورچوئل حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے؛ جسمانی رازداری میں جسمانی رازداری، لباس، رہنے کی جگہ اور کام کی جگہ جیسی چیزیں شامل ہیں۔[19] کمپیوٹر سسٹمز اور ورچوئل اسپیس کی ترقی کے بعد ورچوئل پرائیویسی پر بھی غور کیا گیا ہے۔ ڈیجیٹل اسپیس میں افراد، قوموں اور ممالک سے متعلق تمام معلومات کی دستیابی کی وجہ سے اس حق کو رسمیت دینا بہت اہم ہے۔[20]

حریم خصوصی کی شرعی حیثیت

اخفائے راز یا رازداری کی حمایت اور اسے شرعی اور قانونی حیثیت دینے کے حوالے سے چند مبنا ذکر ہوئے ہیں: 1- کسی کی شخصیت کے کمال اور ترقی کے لئے مدد کرنا، 2- ظلم کو روکنا، 3. افراد کی ساکھ کو محفوظ رکھنا۔[21]

انسانی شخصیت کی آزادی، وقار اور ترقی کی حمایت کرنا

محققین کے مطابق انسان کی آزادی اور خودمختاری اسے یہ احساس دلاتی ہے کہ وہ فیصلے کرنے اور اپنے کام، کردار اور گفتار کا انتخاب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور جب انسانی اس حق کو نظر انداز کیا جائے گا تو اس کے کردار کو نقصان پہنچے گا اور اس کی تذلیل ہوگی۔[22] اس طرح دوسروں کے راز افشا کرنے کی ممانعت، جاسوسی اور چھپ کر کسی کو سننے کی ممانعت اور رہائش گاہ میں امنیت انسانی عزت اور احترام کی مثالیں ہوں گی۔[23]

ظلم اور جارحیت کی روک تھام

دوسروں کی پرائیویسی کو پامال کرنا ظلم شمار ہوتا ہے۔[24] مثلاً اگر کوئی شخص بغیر اجازت کے دوسروں کے مکان میں داخل ہوتا ہے تو اس نے اس شخص کی خودمختاری اور مالکیت کو پامال کیا ہے اور اس کے روحانی حق کو پامال کیا ہے۔[25] اس طرح کے کام کو ظلم اور جارحیت کہا جاتا ہے اور اسے حرام قرار دیا گیا ہے۔[26]

انسانی وقار کی حفاظت

اسلامی تعلیمات میں لوگوں کی عزت کو مجروح کرنے کی مذمت کی گئی ہے اور اسے حرام سمجھا گیا ہے، اور جان و مال کی طرح اس کی حفاظت پر زور دیا گیا ہے؛[27] اس حد تک کہ فقہی کتابوں میں انسان کی عزت کے دفاع کو جان کی دفاع کے برابر قرار دیا گیا ہے۔[28] اسی وجہ سے اگر اخفائے راز کی خلاف ورزی اگر انسانی ہتک حرمت کا باعث بنے تو شرعی اعتبار سے حرام ہوگی۔[29]

شیعہ تعلیمات میں رازداری کے تحفظ کی حکمت عملی

شیعہ تعلیمات اور خاص طور پر شیعہ فقہ کے مآخذ میں رازداری کی خلاف ورزیوں کی روک تھام اور حمایت کے لئے کچھ طریقے بیان کئے گئے ہیں۔ جن میں روک تھام کے تدابیر، معاون قواعد اور نفاذ کی ضمانت کا تعین شامل ہیں۔[30]

احتیاطی تدابیر

شیعہ مفکرین نے آیات اور روایات کا حوالہ دے کر متعدد احتیاطی تدابیر (لوگوں کی پرائیویسی کو خطرے میں ڈالنے والے طرز عمل سے نجات کے لئے) بیان کئے ہیں؛ فقہی احکام میں سوء ظن، عیب تلاش کرنے اور دوسروں کی توہین اور مذاق اڑانے کی ممانعت نیز نجی زندگی پر نظر رکھنے اور چھپ کر کسی کی باتوں کو سننے ممانعت اور اشاعہ فحشا اور راز فاش کرنے کی حرمت اور دوسرے لوگوں کے گھر میں اجازت کے بغیر داخل ہونے کی ممانعت شامل ہیں۔[31]

فقہی اصولوں کی روشنی میں رازداری کا تحفظ

کئی فقہی اور قانونی قواعد ہیں جن کی روشنی میں رازداری کو ایک مستقل حق کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے؛ جس میں قاعدہ احترام، قاعدہ عدم ولایت، قاعدہ لاضرر اور اپنی جائیداد پر قبضہ اور اختیار کا قاعدہ شامل ہیں۔[32]

قاعدہ احترام کے مطابق تمام انسانی امور جیسے اس کی جائیداد، عزت، جان اور روحانی حقوق، اس قاعدے کے دائرے میں شامل ہیں اور کسی کو بھی اس پر تجاوز کا حق نہیں ہے۔[33] قاعدہ عدم ولایت کے مطابق تمام انسان آزاد پیدا کیے گئے ہیں اور دوسروں کے زیر تسلط نہیں ہیں اور سوائے خدا یا اس کی طرف سے منتخب شدہ شخص کے علاوہ کسی کو کسی دوسرے پر سرپرستی کا حق نہیں ہے؛[34]لہذا دوسروں کے نجی امور میں مداخلت کا لازمہ اس پر ولایت اور سرپرستی ہے جو قاعدہ عدم ولایت کے مطابق کسی کو ایسا حق حاصل نہیں ہے۔[35] اخفائے راز کی حمایت کے لئے قاعدہ لاضرر کا بہت حوالہ دیا گیا ہے۔[36] یہ قاعدہ حدیث لاضرر و لا ضرار فی الاسلام سے اخذ کیا گیا ہے جو کہ رسول اللہؐ نے سمرۃ بن جندب کی طرف سے ایک صحابی کی رازداری کی خلاف ورزی کرنے کے واقعہ میں بیان کیا تھا۔[37] اس قاعدے کے مطابق کسی قسم کا مادی اور اخلاقی نقصان ممنوع ہوگا۔[38]

رازداری کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے سزا

فقہاء کے فتاویٰ میں رازداری کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے بعض احکام بیان ہوئے ہیں؛ شہید ثانی کے عقیدہ کے مطابق اگر کوئی دوسرے لوگوں کے نجی معاملات کے بارے میں معلومات حاصل کر رہا ہو تو اسے ایسا کرنے سے روک دیا جائے اور اگر اس صورت میں خلاف ورزی کرنے والے کے خلاف کوئی جرم سرزد ہو جائے تو اس کا ذمہ دار کوئی نہیں ہے۔[39] اسی طرح 14ویں صدی ہجری کے شیعہ مرجع تقلید مکارم شیرازی کا کہنا ہے کہ دوسروں کے مادی اور اخلاقی حقوق کی خلاف ورزی کرنے کی صورت میں نقصان پہنچانے والے کو اس نقصان کی تلافی کرنی ہوگی۔[40]

رازداری اور امر بالمعروف و نہی از منکر کے درمیان تعلق

مذہبی محققین نے امر بہ معروف و نہی از منکر اور رازداری کے درمیان تناسب کا تعین کرنا ضروری سمجھا ہے؛ کیونکہ ان دونوں مفاہیم میں تصادم اور تعارض ہو سکتا ہے۔[41] اس سلسلے میں کہا گیا ہے کہ اسلام کی نظریاتی بنیادوں کے مطابق پرائیویسی کا دائرہ صرف اس طرز عمل تک محدود ہوگا جو مکمل طور پر ذاتی ہو اور اس کے سماجی اثرات نہ ہوں۔[42] اس بنا پر لوگوں کے حق اور معاشرے کے حق کے ساتھ خدا کے حق کو قبول کرنے کے بعد اگر کوئی عمل خدا اور معاشرے کے حق کو نقصان پہنچاتا ہے تو وہ عمل محدود ہونا چاہئے۔[43]

رازداری اور امر بالمعروف و نہی از منکر کے بارے میں لوگوں کے طرز عمل اور عقائد کو دو قسموں میں تقسیم کیا گیا ہے، جن میں سے ہر ایک کے مختلف فقہی احکام ہیں:

  1. ایسی صورتیں جن کا کوئی سماجی پہلو نہ ہو اور وہ جاسوسی کی ممانعت کے مصداق میں سے ہوں: ایسی صورتوں میں نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہے گی؛ خواہ اس دائرے میں کوئی شخص گناہ کا ارتکاب کرے، البتہ ایسے معاملات میں جہاں قتل کی طرح بہت بڑا گناہ شامل ہو تو لوگوں کی رازداری کو پامال کیا جا سکتا ہے۔[44]
  2. وہ طرز عمل اور عقائد جو مکمل طور پر عمومی حیثیت کے حامل ہوں: اگر کوئی شخص ایسا گناہ کرتا ہے جس کے معاشرتی اثرات ہوں اور عوامی رازداری کو نقصان پہنچے امر بالمعروف و نہی از منکر کو نافذ کرنا ہوگا۔[45]
اخفائے راز پر لکھی گئی کتاب

رازداری پر حکومت کی نگرانی

اگرچہ مذہبی محققین پرائیویسی کی خلاف ورزی کو ابتدائی حکم کے مطابق حرام سمجھتے ہیں، لیکن ساتھ ہی، انہوں نے معلوماتی اداروں اور ملکی خفیہ ایجنسیوں کو خصوصی شرائط (ثانوی حکم) کی بنیاد پر لوگوں کی پرائیویسی میں داخل ہونے کے جواز کے موارد کو بیان کیا ہے۔[46] اس بنا پر اسلامی نظام کے مفادات اور تحفظ جیسے حالات کی صورت میں حکومت افراد کی رازداری اور پرائیویسی کی چھان بین اور تحقیقات کرنے کو جائز سمجھا گیا ہے،[47] تاہم، یہ اس صورت میں ہے رازداری میں تجسس اور تحقیق میں مصلحت اس خلاف ورزی کے نقصان سے زیادہ اہم ہو، "اہم کو مہم پر مقدم کرنا ضروری ہونے" کے قانون کے مطابق، رازداری میں تحقیق حرام ہونے کو خارج کر دیا گیا ہے اور بعض صورتوں میں، جیسے سیکورٹی کو یقینی بنانے اور نظام کو برقرار رکھنے کی ضرورت کے پیش نظر اخفائے راز میں مداخلت اور تحقیق واجب ہو جاتی ہے۔[48]

حکومت کو مخصوص حالات میں لوگوں کی پرائیویسی میں مداخلت کی اجازت کو عقلی حکم اور بعض وہ احادیث جو سرکاری اہلکاروں، ججوں اور گواہوں کی پرائیویسی میں تحقیق کے بارے میں آئی ہیں، ان سے استناد کیا ہے۔[49]

حوالہ جات

  1. امام خمینی، صحیفہ امام، 1378ش، ج17، ص139-143۔
  2. سرافرازی، نگرش فقہی حقوقی بر حریم ہای خصوصی، 1391ش، ص43۔
  3. شہباز قہفرخی، «حریم خصوصی فیزکی افراد در آیینہ فقہ امامیہ و حقوق ایران»، ص56؛ قنواتی و جاور، «حریم خصوصی؛ حق یا حکم»، ص8-9۔
  4. سورہ حجرات، آیہ 12؛ مجلسی، بحارالانوار، 1403ق، ج72، ص252۔
  5. ہاشمی خویی و دیگران، منہاج البراعۃ فی شرح نہج البلاغہ، 1400ق، ج8، ص384؛ الدینوری، فیض الباری علی البخاری، 1429ق، ص411۔
  6. انصاری، المکاسب، 1415ق، ج1، ص342۔
  7. سورہ نور، آیہ 19۔
  8. سورہ نور، آیہ 27-28۔
  9. کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص226۔
  10. کلینی، الکافی، 1407ق، ج7، ص290-291۔
  11. سرافرازی، نگرش فقہی حقوقی بر حریم ہای خصوصی، 1391ش، ص43-44؛ قنواتی و جاور، «حریم خصوصی؛ حق یا حکم»، ص8-9۔
  12. فتحی و شاہمرادی، «گسترہ و قلمرو حریم خصوصی در فضای مجازی»، ص231؛ موسی زادہ و مصطفی زادہ، «نگاہی بہ مفہوم و مبانی حق بر حریم خصوصی در نظام حقوقی عرفی»، ص46۔
  13. انصاری، «حریم خصوصی و حمایت از آن در حقوق اسلام، تطبیقی و ایران»، ص2؛ موسی زادہ و مصطفی زادہ، «نگاہی بہ مفہوم و مبانی حق بر حریم خصوصی در نظام حقوقی عرفی»، ص46۔
  14. اسکندری، «ماہیت و اہمیت حریم خصوصی»، ص157؛ انصاری، حقوق حریم خصوصی، 1386ش، ص38-39۔
  15. انصاری، حقوق حریم خصوصی، 1386ش، ص38-39۔
  16. انصاری، حقوق حریم خصوصی، 1386ش، ص232۔
  17. رحمدل، «حق انسان بر حریم خصوصی»، ص121۔
  18. قنواتی و جاور، «حریم خصوصی؛ حق یا حکم»، ص15-16۔
  19. شہباز قہفرخی، «حریم خصوصی فیزیکی افراد در آینہ فقہ امامیہ و حقوق ایران»، ص58-68۔
  20. فتحی و شاہمرادی، «گسترہ و قلمروہ حریم خصوصی در فضای مجازی»، ص235-236۔
  21. موسی زادہ و مصطفی زادہ، «نگاہی بہ مفہوم و مبانی حق بر حریم خصوصی در نظام حقوقی عرفی»، ص57۔
  22. موسی زادہ و مصطفی زادہ، «نگاہی بہ مفہوم و مبانی حقوق خصوصی در نظام ہای حقوقی عرفی»، ص58۔
  23. حسینی و برزویی، «مبانی و مؤلفہ ہای فقہی حمایت از حریم خصوصی افراد در فضای مجازی»، ص123-125؛ موسی زادہ و مصطفی زادہ، «نگاہی بہ مفہوم و مبانی حقوق خصوصی در نظام ہای حقوقی عرفی»، ص60۔
  24. جاور، مبانی قرآنی حریم خصوصی مکانی، ص114-117۔
  25. خمینی، کتاب البیع، 1428ق، ص248۔
  26. فاضل لنکرانی، تفصیل الشریعہ فی تحریر الوسیلہ، 1408ق، ص299۔
  27. نوری، مستدرک الوسائل، 1408ق، ج9، ص136۔
  28. سبزواری، مہذب الاحکام، 1413ق، ج28، ص158۔
  29. شہباز قہفرخی و مسعودیان، «حمایت از حریم خصوصی اشخاص از منظر آیات و روایات»، ص91۔
  30. کشتگر و جاور، «راہبردہای فقہ امامیہ در تضمین حق حریم خصوصی شہروندان»، ص25۔
  31. الماسی و محمدیان، «ملاک ہای حریم خصوصی در فقہ امامیہ و حقوق اساسی ایران، تطبیق با خودروی شخصی»، ص35-36؛ کشتگر و جاور، «راہبردہای فقہ امامیہ در تضمین حق حریم خصوصی شہروندان»، ص29-30۔
  32. کشتگر و جاور، «راہبردہای فقہ امامیہ در تضمین حق حریم خصوصی شہروندان»، ص32-35؛ حسینی و برزویی، «مبانی و مؤلفہ ہای فقہی حمایت از حریم خصوصی افراد در فضای مجازی»، ص121۔
  33. موسوی بجنوردی، قواعد فقہیہ، 1401ق، ج2، ص83؛ کشتگر و جاور، «راہبردہای فقہ امامیہ در تضمین حق حریم خصوصی شہروندان»، ص32۔
  34. امام خمینی، صحیفہ امام، 1378ش، ج4، ص141۔
  35. سروش، مبانی حریم خصوصی بر اساس منابع اسلامی، 1393ش، ص96-97۔
  36. کشتگر و جاور، «راہبردہای فقہ امامیہ در تضمین حق حریم خصوصی شہروندان»، ص33-34۔
  37. کلینی، الکافی، 1407ق، ج5، ص292؛ شیخ طوسی، تہذیب الأحکام، 1407ق، ج7، ص147۔
  38. کشتگر و جاور، «راہبردہای فقہ امامیہ در تضمین حق حریم خصوصی شہروندان»، ص33-34۔
  39. شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، 1410ق، ج9، ص352۔
  40. مکارم شیرازی، القواعد الفقہیہ، 1370ش، ج2، ص218۔
  41. راعی، «حریم خصوصی و امر بہ معروف و نہی از منکر»، ص126-127۔
  42. جمعی از نویسندگان، فلسفہ حقوق، 1388ش، ص274۔
  43. راعی، «حریم خصوصی و امر بہ معروف و نہی از منکر»، ص127۔
  44. امام خمینی، تحریر الوسیلہ، دارالعلم، ج1، ص480؛ جوان آراستہ، «قلمرو شرعی و قانون امر بہ معروف و نہی از منکر»، ص267-269۔
  45. راعی، «حریم خصوصی و امر بہ معروف و نہی از منکر»، ص129-130۔
  46. درگاہی، «حدود اختیارات دستگاہ ہای اطلاعاتی در ورود بہ حریم خصوصی افراد از منظر فقہ امامیہ»، ص79؛ اکبریان، «بررسی حکم شرعی رفتار حکومت در جمع آوری اطلاعات از حوزہ حریم خصوصی اشخاص»، ص39-40۔
  47. درگاہی، «حدود اختیارات دستگاہ ہای اطلاعاتی در ورود بہ حریم خصوصی افراد از منظر فقہ امامیہ»، ص77؛ اکبریان، «بررسی حکم شرعی رفتار حکومت در جمع آوری اطلاعات از حوزہ حریم خصوصی اشخاص»، ص21؛ سلیمانی، «بررسی ورود بہ حریم خصوصی در فعالیت ہای اطلاعاتی-امنیت در چارچوب اصول و قواعد فقہی»، ص33۔
  48. منتظری، مبانی حکومت اسلامی، 1409ق، ج4، ص298؛ مشکینی، اصطلاحات الاصول، 1413ق، ص87؛ درگاہی، «حدود اختیارات دستگاہ ہای اطلاعاتی در ورود بہ حریم خصوصی افراد از منظر فقہ امامیہ»، ص91۔
  49. اکبریان، «بررسی حکم شرعی رفتار حکومت در جمع آوری اطلاعات از حوزہ حریم خصوصی اشخاص»، ص40؛ سلیمانی، «بررسی ورود بہ حریم خصوصی در فعالیت ہای اطلاعاتی-امنیت در چارچوب اصول و قواعد فقہی»، ص53۔

مآخذ