شہادت طلبانہ کاروائی

ویکی شیعہ سے

شہادت طلبانہ کاروائی یا استشہادی عملیات ایک قسم کا دفاعی جہاد ہے جس میں ایک شخص رضاکارانہ طور پر اپنے آپ کو دشمن کے مقابلے میں قرار دیتے ہوئے یقینی شہادت کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ فقہی نقطہ نظر سے اگر یہ عمل دین اسلام کے مفادات کے تحفظ کے لیے انجام دیا جائے تو جائز ہوگا۔ شیعہ مراجع تقلید اس عمل کے جواز کے سلسلے میں مختلف آراء و نظریات پیش کرتے ہیں۔ اس طرح کا مجاہدانہ طریق کار مختلف جہتوں سے خودکش حملوں اور قاتلانہ کاروائیوں سے مختلف ہوتا ہے۔

مفہوم شناسی

لفظ "استشہاد" لغت میں گواہ طلب کرنے[1] یا راہ خدا میں جان دینے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔[2] اسی طرح «استشہادی» یا «رضا کار مجاہد» اس شخص کو کہا جاتا ہے جو اپنے ہمراہ دھماکہ خیز مواد لے کر دشمنان دین پر حملہ آور ہوجاتا ہے اور اپنے ساتھ دشمن کو بھی مار دیتا ہے۔[3]
فقہی نقطہ نظر سے شہادت طلبانہ کاروائی دفاعی جہاد کے مصادیق میں سے ہے جس میں کاروائی کرنے والا قابض دشمن کے جارحانہ عمل کی روک تھام کے لیے قصد قربت کے ساتھ اس پر حملہ آور ہوتا ہے اور حملے میں اپنی جان قربان کردیتا ہے۔[4]

شہادت طلبانہ کاروائی اور خود کش و قاتلانہ حملہ کے مابین فرق

اگرچہ بادی النظر میں شہادت طلبانہ کاروائی اور خودکش حملہ کے مابین کوئی فرق نہیں پایا جاتا؛ لیکن دینی اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں تین جہتوں سے ان دونوں کے درمیان فرق پایا جاتا ہے۔[5]

فرق کی پہلی جہت ان کے عمل کے محرک اور نیت سے متعلق ہے۔ شہادت طلبانہ کاروائی میں مجاہد کی نیت اور اس کے عمل کا محرک ایمان، دینی مقدسات اور اسلامی سرزمین کی حفاظت ہے جبکہ خود کش حملوں کا ایسا کوئی مقصد نہیں ہوتا۔[6]

فرق کی دوسری جہت انفرادی اور اجتماعی ہدف کے لحاظ سے ہے، شہادت طلبانہ کاروائی میں انفرادی ہدف یہ ہوتا ہے کہ وہ درجہ شہادت پر فائز ہونا چاہتا ہے اور اس کا اجتماعی ہدف یہ ہوتا ہے کہ وہ دشمن کو صفحہ ہستی سے مٹانا چاہتا ہے تاکہ اس طریقے سے تمام مسلمانوں کا حوصلہ بلند ہوجائے جبکہ خودکشی پر مبنی کاروائیوں میں مذکورہ اہداف میں سے کوئی ایک ہدف بھی مد نظر نہیں ہوتا ہے۔[7]

فرق کی تیسری جہت؛ ذاتی لحاظ سے ہے، وضاحت یہ کہ شہادت طلبانہ کاروائی کرنے والوں میں مضبوط جذبہ، ایمان، دلیری اور بہادری جیسی صفات پایے جانے کی وجہ سے مکمل آگاہی کے ساتھ دین پر اپنی جان نچھاور کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے جبکہ خودکشی کی کاروائی کرنے والے اپنی ذاتی اور نفسیاتی کسی مشکل سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے اپنے آپ کو فنا کردیتے ہیں۔[8]

شہادت طلبانہ کاروائیوں اور قاتلانہ کاروائیوں میں فرق یہ ہے کہ قاتلانہ حملہ آور کا حملہ مجرمانہ، تشدد پسندانہ، رعب و دہشت پھیلانے کے ساتھ اس کے پس منظر میں سیاسی اہداف مضمر ہوتے ہیں حالانکہ شہادت طلبانہ کاروائیاں دفاعی، ظلم سے مقابلہ کرنے اور کھوئے ہوئے حقوق کی بازیابی کے لیے ہوا کرتی ہیں۔[9]

دہشت گردی کے عمل کے لیے فقہ میں چند تعبیریں استعمال ہوتی ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں: فَتک، غیلَہ، اِرہاب اور محاربہ[10]

علمائے اسلام کا فتوا

شیعہ اور سنی علماء کے فتاویٰ میں شہادت طلبانہ کاروائی کے بارے میں فقہی لحاظ سے بحث کی گئی ہے۔ شیعہ علماء اسے کو دفاعی جہاد کا ایک مصداق قرار دیتے ہیں اور اس کی اہک اہم شرط یہ بتاتے ہیں کہ دین اور دینی امور کا دفاع صرف اسی صورت میں منحصر ہو۔[11] شیعہ مراجع تقلید میں سے آیت الله فاضل لنکرانی،[12] آیت الله مکارم شیرازی[13] اور آیت الله نوری همدانی[14] اس نوعیت کی کاروائیوں کو دفاعی جہاد کا مصداق سمجھتے ہیں اور اس کے لیے مجتہد جامع الشرائط (حاکم شرع) کی طرف سے اجازت کو ضروری نہیں جانتے، لیکن آیت الله موسوی اردبیلی کے مطابق بذاتہ یہ ایک حرام عمل ہے لہذا اس عمل پر حکم ثانوی کا عنوان صدق آنے کے لیے مجتہد جامع الشرائط کی اجازت ضروری ہے۔[15] اسی طرح لبنان میں مقیم شیعہ مرجع تقلید سید محمد حسین فضل الله بھی کہتے ہیں کہ شہادت طلبانہ کاروائی دفاعی جہاد کا مصداق ہے لہذا عسکری لحاظ سے یہ عمل ضروری سجمھے جانے کی صورت میں مجتہد جامع الشرائط کی اجازت ضروری نہیں۔[16] شہادت طلبانہ کاروائی کے شرعی جواز کے سلسلے میں اہل سنت علما کے مابین بھی اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ مصری اہل سنت عالم دین یوسف قرضاوی کے مطابق یہ عمل صرف فلسطینیوں کے لیے جائز ہے اور غیر فلسطینیوں کے لیے شرعاً جائز نہیں ہے۔[17] دوسری طرف بعض دیگر اہل سنت علماء کا کہتے ہیں کہ اسلام دشمن عناصر کی جانب سے پیدا کردہ حالات کے تناظر میں شرائط کو مدنظر رکھتے ہوئے شہادت طلبانہ کاروائی کو جائز قرار دیا جاسکتا ہے۔[18]

حوالہ جات

  1. دهخدا، لغت نامه، 1377ہجری شمسی، ص2153۔
  2. مختار عمر، معجم اللغة العربیة المعاصرة، 1429ھ، ج2، ص1241۔
  3. مختار عمر، معجم اللغة العربیة المعاصرة،1429ھ، ج2، ص1241۔
  4. برجی، ترور و دفاع مشروع، 1386ہجری شمسی، ص81۔
  5. برجی، ترور و دفاع مشروع، 1386ہجری شمسی، ص81۔
  6. برجی، ترور و دفاع مشروع، 1386ہجری شمسی، ص81۔
  7. برجی، ترور و دفاع مشروع، 1386ہجری شمسی، ص81۔
  8. قرضاوی، فقه الجهاد، 2009ء، ص1196؛ برجی، ترور و دفاع مشروع، 1386ہجری شمسی، ص81۔
  9. علوی مهر، بررسی فقهی مسئله ترور از دیدگاه امام خمینی(س)،1392ہجری شمسی، ص166۔
  10. برجی، ترور و دفاع مشروع، 1386ہجری شمسی، ص28 تا35۔
  11. ملاحظہ کیجیے: ملا محمد علی، مشروعیت عملیات استشهادی از دیدگاه فقهای معاصر شیعه و اهل سنت۔
  12. ملا محمد علی، مشروعیت عملیات استشهادی از دیدگاه فقهای معاصر شیعه و اهل سنت، ص63۔
  13. ملا محمد علی، مشروعیت عملیات استشهادی از دیدگاه فقهای معاصر شیعه و اهل سنت، ص63۔
  14. ملا محمد علی، مشروعیت عملیات استشهادی از دیدگاه فقهای معاصر شیعه و اهل سنت، ص64۔
  15. علوی مهر، بررسی فقهی مسئله ترور از دیدگاه امام خمینی(س)،1392ہجری شمسی، ص161تا 165۔
  16. فضل الله، فقه الحیاة، 1419ھ، ص141و142۔
  17. قرضاوی، فقه الجهاد، 2009ء، ص1198 و 1199۔
  18. ملامحمدعلی، «مشروعیت عملیات استشهادی از دیدگاه فقهای معاصر شیعه و اهل سنت»، ص65 تا 68۔

مآخذ

  • برجی، یعقوب علی، ترور و دفاع مشروع، قم، ہجرت، 1386ہجری شمسی۔
  • دہخدا، علی اکبر، لغت نامہ، تہران، موسسہ انتشارات و چاپ دانشگاہ تہران، 1377ہجری شمسی۔
  • علوی مہر، بررسی فقہی مسئلہ ترور از دیدگاہ امام خمینی(س)، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی(س) 1392ہجری شمسی۔
  • فضل اللہ، فقہ الحیاة، بیروت، موسسہ عارف للمطبوعات، 1419ھ۔
  • قرضاوی، یوسف، فقہ الجہاد، قاہرہ، مکتبہ وہبہ، 2009ء۔
  • مختار عمر، معجم اللغۃ العربیۃ المعاصرة، بیجا، عالم الکتاب، 1429ھ۔
  • ملا محمد علی، امیر، «مشروعیت عملیات استشہادی از دیدگاہ فقہای معاصر شیعہ و اہل سنت»، در مجلہ حصون، شمارہ 5، پاییز 1384ہجری شمسی۔