"شیعہ" کے نسخوں کے درمیان فرق
←دیگر اہم کلامی نظریات
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
سطر 98: | سطر 98: | ||
شیعہ علماء [[معتزلہ]] کی طرح حُسن و قُبح کو عقلی سمجھتے ہیں۔<ref>ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلم، ۱۳۸۷ش، ص۲۹۶؛ صابری، تاریخ فرق اسلامی، ۱۳۸۸ش، ج۲، ص۸۸۔</ref> حسن و قبح عقلی کا معنی یہ ہے کہ ہمارے اَعمال اس بات سے قطع نظر کہ خدا انہیں اچھائی یا برائی سے متصف کریں عقلی طور پر بھی اچھے اور برے میں تقسیم ہوتے ہیں۔<ref>مظفر، اصول الفقہ، ۱۴۳۰ق، ج۲، ص۲۷۱۔</ref> [[اشاعرہ]] اس کے برخلاف اعتقاد رکھتے ہیں اور حسن و قبح کو شرعی مانتے ہیں؛<ref>مظفر، اصول الفقہ، ۱۴۳۰ق، ج۲، ص۲۷۱۔</ref> یعنی وہ کہتے ہیں کہ اچھائی اور برائی کا کوئی حقیقی وجود نہیں ہوا کرتا بلکہ یہ چیزیں اعتباری ہیں۔ بنابراین جس چیز کی انجام دہی کا خدا حکم دے وہ اچھی اور جس چیز سے خدا منع کرے وہ بری ہے۔<ref>مظفر، اصول الفقہ، ۱۴۳۰ق، ج۲، ص۲۷۱۔</ref> | شیعہ علماء [[معتزلہ]] کی طرح حُسن و قُبح کو عقلی سمجھتے ہیں۔<ref>ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلم، ۱۳۸۷ش، ص۲۹۶؛ صابری، تاریخ فرق اسلامی، ۱۳۸۸ش، ج۲، ص۸۸۔</ref> حسن و قبح عقلی کا معنی یہ ہے کہ ہمارے اَعمال اس بات سے قطع نظر کہ خدا انہیں اچھائی یا برائی سے متصف کریں عقلی طور پر بھی اچھے اور برے میں تقسیم ہوتے ہیں۔<ref>مظفر، اصول الفقہ، ۱۴۳۰ق، ج۲، ص۲۷۱۔</ref> [[اشاعرہ]] اس کے برخلاف اعتقاد رکھتے ہیں اور حسن و قبح کو شرعی مانتے ہیں؛<ref>مظفر، اصول الفقہ، ۱۴۳۰ق، ج۲، ص۲۷۱۔</ref> یعنی وہ کہتے ہیں کہ اچھائی اور برائی کا کوئی حقیقی وجود نہیں ہوا کرتا بلکہ یہ چیزیں اعتباری ہیں۔ بنابراین جس چیز کی انجام دہی کا خدا حکم دے وہ اچھی اور جس چیز سے خدا منع کرے وہ بری ہے۔<ref>مظفر، اصول الفقہ، ۱۴۳۰ق، ج۲، ص۲۷۱۔</ref> | ||
"تنزیہ صفات" کا نظریہ | "تنزیہ صفات" کا نظریہ، نظریہ "تعطیل" اور "تشبیہ" کے مقابلے میں ہے۔ نظریہ تعطیل کہتا ہے کہ کسی بھی صفت کو خدا کی طرف نسبت نہیں دی جا سکتی جبکہ تشبیہ کا نظریہ خدا کے صفات کو بھی دوسرے مخلوقات کے صفات کے ساتل تشبیہ دیتا ہے۔<ref>ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلم، ۱۳۸۷ش، ص۱۷۲و۱۷۳۔</ref> شیعہ کہتے ہیں کہ بعض مثبت صفات جن سے مخلوقات متصف ہوتے ہیں کو خدا کی طرف بھی نسبت دی جا سکتی ہے لیکن ان صفات کے ساتھ متصف ہونے میں خدا کو مخلوقات کے ساتھ تشبیہ نہیں دی جا سکتی۔<ref>ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلم، ۱۳۸۷ش، ص۱۷۲؛ طباطبایی، شیعہ در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۱۲۵و۱۲۶۔</ref> مثال کے طور پر جس طرح انسان علم، قدرت اور حیات سے متصف ہوتے ہیں اسی طرح خدا بھی ان صفات سے متصف ہوتے ہیں خدا کا علم، قدرت اور حیات عام انسانوں کے علم، قدرت اور حیات کی طرح نہیں ہے۔<ref>طباطبایی، شیعہ در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۱۲۵و۱۲۶۔</ref> | ||
[[امر بین الامرین|اَمرٌ بَینَ الاَمرَین]] کا معنی یہ ہے کہ انسان نہ مکمل طور پر مختار ہے جس طرح معتزلہ قائل ہیں اور نہ مکمل طور پر مجبور ہے جس طرح [[اصحاب حدیث|اہل حدیث]] خیال کرتے ہیں؛<ref>ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلم، ۱۳۸۷ش، ص۲۷۷۔</ref> بلکہ انسان اگرچہ اپنے افعال کی انجام دہی میں مختار ہے لیکن اس کا ارادہ اور اس کی قدرت خدا سے وابستہ ہے مستقل نہیں ہے۔<ref>ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلم، ۱۳۸۷ش، ص۱۷۳۔</ref> شیعوں میں سے [[زیدیہ]] بھی معتزلہ کی طرح انسان کو مکمل مختار تصور کرتے ہیں۔<ref> سلطانی، تاریخ و عقاید زیدیہ، ۱۳۹۰ش، ص۲۱۶۔</ref> | |||
شیعہ متکلمین [[اہل سنت و جماعت|اہل سنت]] کے برخلاف،<ref>ابناثیر، اُسدالغابہ، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۱۰؛ ابنعبدالبر، الاستیعاب، ۱۹۹۲م/۱۴۱۲ق، ج۱، ص۲۔</ref> پیغمبر اکرمؐ کے تمام [[صحابہ|اصحاب]] کو عادل نہیں سمجھتے<ref>شہید ثانی، الرعایة فی علم الدرایۃ، ۱۴۰۸ق، ص۳۴۳؛ امین، اعیانالشیعۃ، ۱۴۱۹ق/۱۹۹۸م، ج۱، ص۱۶۱؛ ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلم، ۱۳۸۷ش، ص۲۰۹و۲۱۰۔</ref> اور کہتے ہیں کہ صرف پیغمبر اکرمؐ کی مصاحبت کسی کی عدالت پر دلیل نہیں بن سکتی۔<ref>شهید ثانی، الرعایة فی علم الدرایة، ۱۴۰۸ق، ص۳۴۳؛ امین، اعیانالشیعة، ۱۴۱۹ق/۱۹۹۸م، ج۱، ص۱۶۱.</ref> | |||
[[توسل]] | زیدیہ کے علاوہ<ref>صابری، تاریخ فرق اسلامی، ۱۳۸۸ش، ج۲، ص۸۷.</ref> دیگر شیعہ فرق [[تقیہ]] کو جائز سمجھتے ہیں؛ یعنی وہ اس بات کے معتقد ہیں کہ اگسی کسی جگہ اپنے اعتقادات کا اظہار اس کے لئے نقصان کا باعث ہو تو انسان اپنے عقیدے کو چھپا سکتا ہے اور اپنے عقیدے کے برخلاف چیز کا اظہار کر سکتا ہے۔<ref>سبحانی، «تقیہ»، ص۸۹۱و۸۹۲؛ دفتری، تاریخ و سنتہای اسماعیلیہ، ۱۳۹۳ش، ص۸۷۔</ref> | ||
اگرچہ دیگر مسلمان فرقوں میں بھی [[توسل]] کا مفہوم رائج ہے لیکن شیعوں کے یہاں توسل ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔<ref>پاکتچی، «توسل»، ص۳۶۲۔</ref> شیعہ بعض اہل سنت فرقوں من جملہ وہابیوں کے برخلاف<ref>سبحانی، «توسل»، ص۵۴۱۔</ref> اپنی دعاؤوں کی قبولیت اور خدا سے تقرب حاصل کرنے کے لئے اولیائے خدا کو واسطه قرار دینے کو شائستہ اقدام قرار دیتے ہیں۔<ref>سبحانی، «توسل»، ص۵۴۰۔</ref> توسل اور [[شفاعت]] ایک دوسرے کے ساتھ محکم رابطہ رکھتے ہیں۔<ref>پاکتچی، «توسل»، ص۳۶۲۔</ref> [[شیخ مفید]] کے مطابق شفاعت سے مراد یہ ہے کہ پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومین قیامت کے دن [[گناہ|گناہکاروں]] کے شفیع بنتے ہیں اور خدا ان ہستیوں کی شفاعت کی وجہ سے ان گناہگاوں کو بہت سارے گناہوں سے نجات دیتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: مفید، اوائلالمقالات، ۱۴۱۳ق، ص۴۷۔</ref> | |||
==فقہ== | ==فقہ== |