مندرجات کا رخ کریں

"شیعہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

122 بائٹ کا اضافہ ،  7 اپريل 2020ء
سطر 96: سطر 96:
اصول دین یعنی [[توحید]]، [[نبوت]] اور [[معاد]] میں دیگر مسلمانوں کے ساتھ مشترک ہونے کے ساتھ ساتھ شیعہ بعض ایسے اعتقادات بھی رکھتے ہیں جو انہیں باقی مسلمانوں یا بعض مذاہب سے ممتاز کرتے ہیں۔ یہ اعتقادات [[امامت]] اور [[مہدویت]] جن کا ذکر ہو چکا، کے علاوہ درج ذیل ہیں:  [[حسن و قبح|حُسن و قُبح عقلی]]، [[تنزیہ صفات|تَنزیہ صفات خدا]]، [[امر بین الامرین|اَمرٌ بَینَ الاَمرَین]]، [[عدالت صحابہ|تمام صحابہ کا عادل نہ ہونا]]، [[تقیہ|تقیّہ]]، [[توسل]] اور [[شفاعت]]۔
اصول دین یعنی [[توحید]]، [[نبوت]] اور [[معاد]] میں دیگر مسلمانوں کے ساتھ مشترک ہونے کے ساتھ ساتھ شیعہ بعض ایسے اعتقادات بھی رکھتے ہیں جو انہیں باقی مسلمانوں یا بعض مذاہب سے ممتاز کرتے ہیں۔ یہ اعتقادات [[امامت]] اور [[مہدویت]] جن کا ذکر ہو چکا، کے علاوہ درج ذیل ہیں:  [[حسن و قبح|حُسن و قُبح عقلی]]، [[تنزیہ صفات|تَنزیہ صفات خدا]]، [[امر بین الامرین|اَمرٌ بَینَ الاَمرَین]]، [[عدالت صحابہ|تمام صحابہ کا عادل نہ ہونا]]، [[تقیہ|تقیّہ]]، [[توسل]] اور [[شفاعت]]۔


شیعہ علماء [[معتزلہ]] کی طرح حُسن و قُبح کو عقلی سمجھتے ہیں۔<ref>ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلم، ۱۳۸۷ش، ص۲۹۶؛ صابری، تاریخ فرق اسلامی، ۱۳۸۸ش، ج۲، ص۸۸۔</ref> حسن و قبح عقلی کا معنی یہ ہے کہ ہمارے اَعمال اس بات سے قطع‌ نظر کہ خدا انہیں اچھائی یا برائی سے متصف کریں ہمارے عقل بھی انہیں اچھے اور برے میں تقسیم کرتے ہیں۔<ref>مظفر، اصول الفقہ، ۱۴۳۰ق، ج۲، ص۲۷۱۔</ref> [[اشاعرہ]] اس کے برخلاف اعتقاد رکھتے ہیں اور حسن و قبح کو شرعی مانتے ہیں؛<ref>مظفر، اصول الفقہ، ۱۴۳۰ق، ج۲، ص۲۷۱۔</ref> یعنی وہ کہتے ہیں کہ اچھائی اور برائی کا کوئی حقیقی وجود نہیں ہوا کرتا بلکہ یہ چیزیں اعتباری ہیں۔ بنابراین جس چیز کی انجام دہی کا خدا حکم دے وہ اچھی اور جس چیز سے خدا منع کرے وہ بری ہے۔<ref>مظفر، اصول الفقہ، ۱۴۳۰ق، ج۲، ص۲۷۱۔</ref>
شیعہ علماء [[معتزلہ]] کی طرح حُسن و قُبح کو عقلی سمجھتے ہیں۔<ref>ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلم، ۱۳۸۷ش، ص۲۹۶؛ صابری، تاریخ فرق اسلامی، ۱۳۸۸ش، ج۲، ص۸۸۔</ref> حسن و قبح عقلی کا معنی یہ ہے کہ ہمارے اَعمال اس بات سے قطع‌ نظر کہ خدا انہیں اچھائی یا برائی سے متصف کریں عقلی طور پر بھی اچھے اور برے میں تقسیم ہوتے ہیں۔<ref>مظفر، اصول الفقہ، ۱۴۳۰ق، ج۲، ص۲۷۱۔</ref> [[اشاعرہ]] اس کے برخلاف اعتقاد رکھتے ہیں اور حسن و قبح کو شرعی مانتے ہیں؛<ref>مظفر، اصول الفقہ، ۱۴۳۰ق، ج۲، ص۲۷۱۔</ref> یعنی وہ کہتے ہیں کہ اچھائی اور برائی کا کوئی حقیقی وجود نہیں ہوا کرتا بلکہ یہ چیزیں اعتباری ہیں۔ بنابراین جس چیز کی انجام دہی کا خدا حکم دے وہ اچھی اور جس چیز سے خدا منع کرے وہ بری ہے۔<ref>مظفر، اصول الفقہ، ۱۴۳۰ق، ج۲، ص۲۷۱۔</ref>
 
"تنزیہ صفات" کا نظریہ دو نظریات "تعطیل" اور "تشبیہ" کے مقابلے میں ہے۔ نظریہ تعطیل کہتا ہے کہ کسی بھی صفت کو خدا کی طرف نسبت نہیں دی جا سکتی جبکہ تشبیہ کا نظریہ خدا کے صفات کو بھی دوسرے مخلوقات کے صفات کے ساتل تشبیہ دیتا ہے۔<ref>ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلم، ۱۳۸۷ش، ص۱۷۲و۱۷۳۔</ref> شیعہ کہتے ہیں کہ بعض مثبت صفات جن سے مخلوقات متصف ہوتے ہیں کو خدا کی طرف بھی نسبت دی جا سکتی ہے لیکن ان صفات کے ساتھ متصف ہونے میں خدا کو مخلوقات کے ساتھ تشبیہ نہیں دی جا سکتی۔<ref>ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلم، ۱۳۸۷ش، ص۱۷۲؛‌ طباطبایی، شیعہ در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۱۲۵و۱۲۶۔</ref> مثال کے طور پر جس طرح انسان علم، قدرت اور حیات سے متصف ہوتے ہیں اسی طرح خدا بھی ان صفات سے متصف ہوتے ہیں خدا کا علم، قدرت اور حیات عام انسانوں کے علم، قدرت اور حیات کی طرح نہیں ہے۔<ref>طباطبایی، شیعہ در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۱۲۵و۱۲۶۔</ref>
<!--
<!--
نظریه «تنزیه صفات»، در مقابل دو دیدگاه «تعطیل» و «تشبیه» قرار دارد که اولی می‌گوید هیچ صفتی را نباید به خدا نسبت داد و دیگری خدا را در صفاتش به دیگر مخلوقات تشبیه می‌کند.<ref>ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلم، ۱۳۸۷ش، ص۱۷۲و۱۷۳.</ref> طبق مذهب شیعه  می‌توان برخی از صفات مثبت را که درخصوص مخلوقات به‌کار می‌رود، به خداوند نسبت داد، اما نباید او را در نحوه برخورداری از این صفات مانند مخلوقات دانست.<ref>ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلم، ۱۳۸۷ش، ص۱۷۲؛‌ طباطبایی، شیعه در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۱۲۵و۱۲۶.</ref> برای مثال باید گفت همان‌طور که انسان علم و قدرت و حیات دارد، خداوند نیز از این صفات برخوردار است، اما علم و قدرت و حیات خداوند، مانند علم و قدرت و حیات انسان نیست.<ref>طباطبایی، شیعه در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۱۲۵و۱۲۶.</ref>
طبق نظریه [[امر بین الامرین|اَمرٌ بَینَ الاَمرَین]]، انسان نه آن‌گونه که معتزله می‌پندارند، موجودی کاملاً مختار است و نه چنان‌که [[اصحاب حدیث|اهل‌حدیث]] می‌‌گویند، کاملاً مجبور است؛<ref>ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلم، ۱۳۸۷ش، ص۲۷۷.</ref> بلکه انسان در انجام‌دادن افعالش اختیار دارد، اما اراده و قدرتش مستقل نیست و به اراده خدا وابسته است.<ref>ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلم، ۱۳۸۷ش، ص۱۷۳.</ref> از شیعیان، [[زیدیه|زیدیان]] مانند معتزله می‌اندیشند.<ref> سلطانی، تاریخ و عقاید زیدیه، ۱۳۹۰ش، ص۲۱۶.</ref>
طبق نظریه [[امر بین الامرین|اَمرٌ بَینَ الاَمرَین]]، انسان نه آن‌گونه که معتزله می‌پندارند، موجودی کاملاً مختار است و نه چنان‌که [[اصحاب حدیث|اهل‌حدیث]] می‌‌گویند، کاملاً مجبور است؛<ref>ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلم، ۱۳۸۷ش، ص۲۷۷.</ref> بلکه انسان در انجام‌دادن افعالش اختیار دارد، اما اراده و قدرتش مستقل نیست و به اراده خدا وابسته است.<ref>ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلم، ۱۳۸۷ش، ص۱۷۳.</ref> از شیعیان، [[زیدیه|زیدیان]] مانند معتزله می‌اندیشند.<ref> سلطانی، تاریخ و عقاید زیدیه، ۱۳۹۰ش، ص۲۱۶.</ref>


confirmed، templateeditor
5,869

ترامیم