مندرجات کا رخ کریں

"آیت اہل الذکر" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 46: سطر 46:


==اہل ذکر اور اس کے مصادیق==
==اہل ذکر اور اس کے مصادیق==
[[مفسرین]] آیت اہل‌الذکر کے ذیل میں اہل الذکر سے مراد اور اس کے مصادیق کے بارے میں بحث کی ہیں۔ مفسرین مذکورہ آیت کے سیاق و سباق کو مد نظر رکھتے ہوئے اس بات کے معتقد ہیں کہ اہل ذکر سے مراد اہل علم اور باخبر افراد ہیں؛ یعنی وہ افراد جو ذکر (قرآن، کتب آسمانی و ۔۔۔) سے زیادہ سے زیادہ سنخیت رکھتے ہیں، بنابراین اہل ذکر سے مراد علمائے یہود و نصاری<ref>ابوحیان، البحر المحیط، ۱۴۲۰ق، ج۶، ص۵۳۳؛ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۲، ص۲۵۸؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۱، ص۲۴۴۔</ref> یا گذشتہ امتوں کے حالات و واقعات سے باخبر افراد ہیں<ref> طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۶، ص۵۵۷؛ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۲، ص۲۵۸؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۱، ص۲۴۴۔</ref> اور جس چیز کے بارے میں سوال ہوگی وہ [[نبوت]] کی نشانیاں ہیں جو ان کی کتابوں میں مذکور ہیں۔<ref>اصغرپور قراملکی، «اہل‌الذکر»، ص۱۳۲۔</ref> ان تمام باتوں کے باوجود مفسرین اہل‌الذکر کے مفہوم کے دائرے کو وسیع قرار دیتے ہوئے اس کے لئے مزید مصادیق ذکر کرتے ہیں۔ شیعہ اور اہل سنت مفسرین کے درمیان اس سلسلے میں دو مشہور نظریات ہیں:
[[مفسرین]] آیت اہل‌الذکر کے ذیل میں اہل الذکر سے مراد اور اس کے مصادیق کے بارے میں بحث کرتے ہیں۔ مفسرین مذکورہ آیت کے سیاق و سباق کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بات کے معتقد ہیں کہ اہل ذکر سے مراد اہل علم اور باخبر افراد ہیں؛ یعنی وہ افراد جو ذکر (قرآن، کتب آسمانی وغیرہ) سے زیادہ سے زیادہ سنخیت رکھتے ہیں، بنابراین اہل ذکر سے مراد علمائے یہود و نصاری<ref>ابوحیان، البحر المحیط، ۱۴۲۰ق، ج۶، ص۵۳۳؛ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۲، ص۲۵۸؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۱، ص۲۴۴۔</ref> یا گذشتہ امتوں کے حالات و واقعات سے باخبر افراد ہیں<ref> طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۶، ص۵۵۷؛ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۲، ص۲۵۸؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۱، ص۲۴۴۔</ref> اور جس چیز کے بارے میں سوال ہوگی وہ [[نبوت]] کی نشانیاں ہیں جو ان کی کتابوں میں مذکور ہیں۔<ref>اصغرپور قراملکی، «اہل‌الذکر»، ص۱۳۲۔</ref> ان تمام باتوں کے باوجود مفسرین اہل‌الذکر کے دائرے کو وسیع قرار دیتے ہوئے اس کے لئے مزید مصادیق ذکر کرتے ہیں۔ شیعہ اور اہل سنت مفسرین کے درمیان اس سلسلے میں دو مشہور نظریات ہیں:
   
   
===اہل بیتؑ ===
===اہل بیتؑ ===
شیعہ مفسرین متعدد احادیث<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۱۰-۲۱۱۔</ref> {{نوٹ|ان احادیث میں مختلف مضامین کے ساتھ اس مسئلے کو بیان کیا گیا ہے: مثال کے طور پر ایک حدیث میں آیا ہے کہ قرآن ذکر ہے اور ہم آل رسول اہل ذکر ہیں یا ایک اور حدیث میں پیغمبر اکرمؐ کو ذکر اور اہل بیت کو اہل ذکر قرار دیا گیا ہے۔(کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۳۰۳-۳۰۴؛ حر عاملی، وسائل الشیعہ، ۱۴۰۹ق، ج۲۷، ص۷۳۔)}}  سے استناد کرتے ہوئے ہوئے اہل ذکر کے بارز اور کامل مصداق کو [[اہل بیتؑ]] قرار دیتے ہیں۔<ref>حویزی، نورالثقلین، ۱۴۱۵ق، ج۳، ص۵۵؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۱، ص۲۴۴۔</ref> اہل سنت تفاسیر میں بھی بعض احادیث من جملہ [[ابن عباس]] سے مروی ایک حدیث میں [[حضرت محمد صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم|حضرت محمدؐ]]، [[امام علیؑ|حضرت علیؑ]]، [[حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا|حضرت فاطمہ(س)]]، [[امام حسنؑ]] اور [[امام حسینؑ]] کو اہل ذکر قرار دیا گیا ہے؛ اسی طرح اہل علم و عقل و بیان کو بھی اس کے مصادیق میں سے قرار دیتے ہیں۔<ref>حسکانی، شواہد التنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۴۳۲۔</ref>
شیعہ مفسرین متعدد احادیث<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۱۰-۲۱۱۔</ref> {{نوٹ|ان احادیث میں مختلف مضامین کے ساتھ اس مسئلے کو بیان کیا گیا ہے: مثال کے طور پر ایک حدیث میں آیا ہے کہ قرآن ذکر ہے اور ہم آل رسول اہل ذکر ہیں یا ایک اور حدیث میں پیغمبر اکرمؐ کو ذکر اور اہل بیت کو اہل ذکر قرار دیا گیا ہے۔(کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۳۰۳-۳۰۴؛ حر عاملی، وسائل الشیعہ، ۱۴۰۹ق، ج۲۷، ص۷۳۔)}}  سے استناد کرتے ہوئے ہوئے اہل ذکر کے بارز اور کامل مصداق کو [[اہل بیتؑ]] قرار دیتے ہیں۔<ref>حویزی، نورالثقلین، ۱۴۱۵ق، ج۳، ص۵۵؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۱، ص۲۴۴۔</ref> اہل سنت تفاسیر میں بھی بعض احادیث من جملہ [[ابن عباس]] سے مروی ایک حدیث میں [[حضرت محمد صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم|حضرت محمدؐ]]، [[امام علیؑ|حضرت علیؑ]]، [[حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا|حضرت فاطمہ(س)]]، [[امام حسنؑ]] اور [[امام حسینؑ]] کو اہل ذکر قرار دیا گیا ہے؛ اسی طرح اہل علم و عقل و بیان کو بھی اس کے مصادیق میں سے قرار دیتے ہیں۔<ref>حسکانی، شواہد التنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۴۳۲۔</ref>
اہل سنت مفسرین قرطبی اور طبری [[سورہ انبیاء]] کی آیت نمیر 7 کے ذیل میں ایک حدیث نقل کرتے ہیں جس میں امام علیؑ مذکورہ آیت کے نازل ہوتے وقت فرماتے ہیں "نحن اہل‌الذکر"۔<ref>قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ۱۳۶۴ش، ج ۱۱، ص۲۷۲؛ طبری، جامع البیان، ۱۴۱۲ق، ج۱۷، ص۵۔</ref>
اہل سنت مفسرین قرطبی اور طبری [[سورہ انبیاء]] کی آیت نمیر 7 کے ذیل میں ایک حدیث نقل کرتے ہیں جس میں امام علیؑ مذکورہ آیت کے نازل ہوتے وقت فرماتے ہیں "نحن اہل‌الذکر"۔<ref>قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ۱۳۶۴ش، ج ۱۱، ص۲۷۲؛ طبری، جامع البیان، ۱۴۱۲ق، ج۱۷، ص۵۔</ref>


اسی طرح کتاب [[بصائر الدرجات (کتاب)|بصائر الدرجات]] میں ایک باب کے عنوان کو {{حدیث|"فی ائمة آل محمد انهم اهل الذکر الذین امر الله بسؤالهم"}} کو قرار دیا ہے۔<ref>صفار قمی، بصائر الدرجات، باب ۱۹۔</ref> [[محمد بن یعقوب کلینی|کلینی]] [[الکافی (کتاب)|کافی]] میں بھی ایک باب "{{حدیث|ان اهل الذکر الذین امر الله الخلق بسؤالهم هم الائمه}}" کے عنوان سے قرار دیا ہے۔<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷، ج۱، ص۳۰۳۔</ref> [[محمد باقر مجلسی|علامہ مجلسی]] بھی [[بحار الانوار (کتاب)|بحارالانوار]] میں "{{حدیث|انهم (الائمه) علیهم السلام الذکر و اهل الذکر}}" نامی باب میں بعض [[حدیث|احادیث]] نقل کرتے ہیں جن میں اہل ذکر سے مراد [[شیعہ ائمہ]] کو قرار دیا گیا ہے۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۳، ص۱۷۲۔</ref>
اسی طرح کتاب [[بصائر الدرجات (کتاب)|بصائر الدرجات]] میں ایک باب کے عنوان کو {{حدیث|"فی ائمة آل محمد انهم اهل الذکر الذین امر الله بسؤالهم"}} کو قرار دیا ہے۔<ref>صفار قمی، بصائر الدرجات، باب ۱۹۔</ref> [[محمد بن یعقوب کلینی|کلینی]] نے [[الکافی (کتاب)|کافی]] میں بھی ایک باب "{{حدیث|ان اهل الذکر الذین امر الله الخلق بسؤالهم هم الائمه}}" کے عنوان سے قرار دیا ہے۔<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷، ج۱، ص۳۰۳۔</ref> [[محمد باقر مجلسی|علامہ مجلسی]] بھی [[بحار الانوار (کتاب)|بحارالانوار]] میں "{{حدیث|انهم (الائمه) علیهم السلام الذکر و اهل الذکر}}" نامی باب میں بعض [[حدیث|احادیث]] نقل کرتے ہیں جن میں اہل ذکر سے مراد [[شیعہ ائمہ]] کو قرار دیا گیا ہے۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۳، ص۱۷۲۔</ref>


درج بالا احادیث کی وضاحت میں کہا جاتا ہے کہ ائمہ اہل بیتؑ کا یہ کہنا کہ ہم اہل‌الذکر ہیں، اس سے مراد ظاہری طور پر نہیں کیونکہ مکہ کے کفار ائمہ سے کچھ نہیں پوچھ سکتے تھے اور اگر پوچھ بھی لیتے تو وہ ائمہ کے کلام کو حجت نہیں سمجھتے تھے جیسا کہ وہ رسول خدا کے کلام کو بھی حجت نہیں سجھتے تھے؛ بنابراین ان احادیث سے مراد تشبیہ و تمثیل ہے۔ یعنی ہر چیز کے بارے میں اس کے اہل سے سوال کیا جانا چاہئیے۔ جس طرح [[انبیاء]] کا انسان ہونے کے بارے میں گذشتہ امتوں کے علماء سے سوال کیا جانا چاہئیے اسی طرح اسلامی تعلیمات اور قرآن کی تفسیر کے بارے میں بھی [[ائمہ معصومینؑ]] سے پوچھنا چاہئے۔<ref>شعرانی، نثر طوبی، ۱۳۹۸ق، ج۱، ص۲۷۶۔</ref>
درج بالا احادیث کی وضاحت میں کہا جاتا ہے کہ ائمہ اہل بیتؑ کا یہ کہنا کہ ہم اہل‌الذکر ہیں، اس سے مراد ظاہری طور پر نہیں ہے کیونکہ مکہ کے کفار ائمہ سے کچھ نہیں پوچھ سکتے تھے اور اگر پوچھ بھی لیتے تو وہ ائمہ کے کلام کو حجت نہیں سمجھتے تھے جیسا کہ وہ رسول خدا کے کلام کو بھی حجت نہیں سجھتے تھے؛ بنابراین ان احادیث سے مراد تشبیہ و تمثیل ہے۔ یعنی ہر چیز کے بارے میں اس کے اہل سے سوال کیا جانا چاہئیے۔ جس طرح [[انبیاء]] کا انسان ہونے کے بارے میں گذشتہ امتوں کے علماء سے سوال کیا جانا چاہئے اسی طرح اسلامی تعلیمات اور قرآن کی تفسیر کے بارے میں بھی [[ائمہ معصومینؑ]] سے پوچھنا چاہئے۔<ref>شعرانی، نثر طوبی، ۱۳۹۸ق، ج۱، ص۲۷۶۔</ref>


[[آیت اللہ مکارم شیرازی]] کے مطابق اہل بیت کو اہل ذکر کا بارز مصداق قرار دینا اور اور مذکورہ آیت کا اہل کتاب کے علماء کے بارے میں نازل ہونے کے درمیان کوئی منافات نہیں ہے؛ کیونکہ قرآن کی تفسیری احادیث میں اس مسئلے کی طرف بار بار اشارہ ہوا ہے کہ کسی بھی آیت کا معین مصداق ہونا اس آیت کے مفہوم کی وسعت کو محدود نہیں کرتا ہے۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۱، ص۲۴۴۔</ref>
[[آیت اللہ مکارم شیرازی]] کے مطابق اہل بیت کو اہل ذکر کا بارز مصداق قرار دینا اور اور مذکورہ آیت کا اہل کتاب کے علماء کے بارے میں نازل ہونے کے درمیان کوئی منافات نہیں ہے؛ کیونکہ قرآن کی تفسیری احادیث میں اس مسئلے کی طرف بار بار اشارہ ہوا ہے کہ کسی بھی آیت کا معین مصداق ہونا اس آیت کے مفہوم کی وسعت کو محدود نہیں کرتا ہے۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۱، ص۲۴۴۔</ref>
confirmed، templateeditor
8,265

ترامیم