مندرجات کا رخ کریں

"آیت اہل الذکر" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 61: سطر 61:
[[آیت]] کے سیاق کو مدنظر رکھتے ہوئے اہل ذکر کے معنی اہل کتاب یا اہل علم لیا جاتا ہے۔<ref> نجارزادگان و ہادی لو، «بررسی و ارزیابی وجوہ جمع بین روایات اہل الذکر»، ص۳۵۔</ref> اہل ذکر کا معنی وسیع ہے اور ان تمام افراد کو شامل کرتا ہے جو دوسروں کی نسبت زیادہ علم و آگاہی رکھتے ہیں۔ حقیقت میں یہ آیت ایک عقلائی اصول اور عام عقلی احکام کی طرف راہنمائی کرتی ہے اور وہ اصول یہ ہے کہ ہر فن اور شعبے میں اس کے ماہرین کی طرف رجوع کیا جانا چاہئے۔ یہ اصول کوئی تعبدی حکم نہیں ہے بنابر این اس پر ہونے والا امر بھی امر مولوی نہیں ہے۔<ref> طباطبائی، المیزان، دفتر انتشارات اسلامی، ج۱۲، ص۲۵۹۔</ref>
[[آیت]] کے سیاق کو مدنظر رکھتے ہوئے اہل ذکر کے معنی اہل کتاب یا اہل علم لیا جاتا ہے۔<ref> نجارزادگان و ہادی لو، «بررسی و ارزیابی وجوہ جمع بین روایات اہل الذکر»، ص۳۵۔</ref> اہل ذکر کا معنی وسیع ہے اور ان تمام افراد کو شامل کرتا ہے جو دوسروں کی نسبت زیادہ علم و آگاہی رکھتے ہیں۔ حقیقت میں یہ آیت ایک عقلائی اصول اور عام عقلی احکام کی طرف راہنمائی کرتی ہے اور وہ اصول یہ ہے کہ ہر فن اور شعبے میں اس کے ماہرین کی طرف رجوع کیا جانا چاہئے۔ یہ اصول کوئی تعبدی حکم نہیں ہے بنابر این اس پر ہونے والا امر بھی امر مولوی نہیں ہے۔<ref> طباطبائی، المیزان، دفتر انتشارات اسلامی، ج۱۲، ص۲۵۹۔</ref>


اہل سنت مفسرین اہل ذکر کے 15 معنی بیان کرتے ہیں،<ref> بشوی، «نقد و بررسی دیدگاه فریقین دربارہ اہل ذکر»، ص۵۷۔</ref> جن کو تین گروہ میں تقسیم کیا جاتا ہے: "[[اہل کتاب]] (بطور عام ہر کتابی یا بطور خاص مثلا اہل تورات)"، "اہل قرآن"<ref> قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ۱۳۶۴ش، ج۱۰، ص۱۰۸.</ref>اور "علمائے اہل بیت"۔<ref>ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، ۱۴۱۹ق، ج۴، ص۴۹۲۔</ref>
اہل سنت مفسرین اہل ذکر کے 15 معنی بیان کرتے ہیں،<ref> بشوی، «نقد و بررسی دیدگاه فریقین دربارہ اہل ذکر»، ص۵۷۔</ref> جن کو تین گروہ میں تقسیم کیا جاتا ہے: "[[اہل کتاب]] (بطور عام ہر کتابی یا بطور خاص مثلا اہل تورات)"، "اہل قرآن"<ref> قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ۱۳۶۴ش، ج۱۰، ص۱۰۸۔</ref>اور "علمائے اہل بیت"۔<ref>ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، ۱۴۱۹ق، ج۴، ص۴۹۲۔</ref>
 
== فقہ میں اہل ذکر کا استعمال؛‌ حجیت خبر واحد ==
[[خبر واحد]] کی حجیت کو ثابت کرنے کے لئے آیہ اہل‌الذکر سے استناد کیا جاتا ہے؛ اس نظریے کے مطابق لفظ "فاسئلوا" اہل ذکر سے سوال کرنے کو واجب قرار دیتا ہے اور سوال کا واجب ہونے کا لازمہ اس کے وجوب کو قبول کرنا اور اس امر کی اطاعت کرنا ضروری ہے؛ ورنہ سوال کا واجب ہونا لغو ہو گا۔<ref>انصاری، فرائدالاصول، ۱۴۱۶ق، ج۱، ص۱۳۲-۱۳۳؛ آخوند خراسانی، کفایۃ الاصول، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۳۰۰۔</ref> اس نظریے پر اشکال کیا جاتا ہے؛ پہلی بات  یہ کہ مذکورہ آیت کو [[اخبار مستفیض]] کے بارے میں قبول کیا جا سکتا ہے<ref>انصاری، فرائدالاصول، ۱۴۱۶ق، ج۱، ص۱۳۲-۱۳۳۔</ref> دوسری بات اگر مذکورہ آیت خبر واحد کی حجیت اور اس کی اطاعت کے واجب ہونے پر دلالت کرے تو اس سے مراد وہ خبر واحد ہے جس کا راوی اہل علم ہو اور وہ مورد سوال چیز کے بارے میں آگاہی رکھتا ہو، نہ یہ کہ وہ شخص جس نے کسی چیز کو سنی ہے اور اسے دوسروں تک نقل کرتا ہے؛ بنابراین مذکورہ آیت عام آدمی کا اہل علم کی [[تقلید]] کی طرف اشارہ کرتی ہے، چنانچہ علم اصول کے ماہرین عام آدمی پر تقلید کے واجب ہونے کے بارے میس مذکورہ آیت سے استناد کرتے ہیں۔<ref>اصغرپور قراملکی، «اہل‌الذکر»، ص۱۳۳۔</ref>


==حوالہ جات==
==حوالہ جات==
confirmed، templateeditor
8,265

ترامیم