مندرجات کا رخ کریں

"آیت اہل الذکر" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 45: سطر 45:
[[آیت اللہ مکارم شیرازی]] نیز اس آیت کے دوسرے حصے کو اس حقیقت کی تائید اور تاکید قرار دیتے ہیں کہ لوگوں تک [[وحی]] کو پہنچانا انبیاء کا ایک عام انسانی وظیفہ ہے، نہ یہ کہ کوئی غیبی طاقت فطرت کے قوانین سے ہٹ کر لوگوں کو اس دعوت کے قبول کرنے اور تمام برائیں کو ترک کرنے پر مجبور کرتی ہو اگر ایسا ہوتا تو [[ایمان]] لانا کوئی فخر کی بات نہیں ہوتی۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۱، ص۲۴۱۔</ref>
[[آیت اللہ مکارم شیرازی]] نیز اس آیت کے دوسرے حصے کو اس حقیقت کی تائید اور تاکید قرار دیتے ہیں کہ لوگوں تک [[وحی]] کو پہنچانا انبیاء کا ایک عام انسانی وظیفہ ہے، نہ یہ کہ کوئی غیبی طاقت فطرت کے قوانین سے ہٹ کر لوگوں کو اس دعوت کے قبول کرنے اور تمام برائیں کو ترک کرنے پر مجبور کرتی ہو اگر ایسا ہوتا تو [[ایمان]] لانا کوئی فخر کی بات نہیں ہوتی۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۱، ص۲۴۱۔</ref>


==اہل ذکر کے مصادیق==
==اہل ذکر اور اس کے مصادیق==
[[شیعہ]] اور [[سنی]] مفسرین کے درمیان دو نظریے پائے جاتے ہیں:
[[مفسرین]] آیت اہل‌الذکر کے ذیل میں اہل الذکر سے مراد اور اس کے مصادیق کے بارے میں بحث کی ہیں۔ مفسرین مذکورہ آیت کے سیاق و سباق کو مد نظر رکھتے ہوئے اس بات کے معتقد ہیں کہ اہل ذکر سے مراد اہل علم اور باخبر افراد ہیں؛ یعنی وہ افراد جو ذکر (قرآن، کتب آسمانی و ۔۔۔) سے زیادہ سے زیادہ سنخیت رکھتے ہیں، بنابراین اہل ذکر سے مراد علمائے یہود و نصاری<ref>ابوحیان، البحر المحیط، ۱۴۲۰ق، ج۶، ص۵۳۳؛ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۲، ص۲۵۸؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۱، ص۲۴۴۔</ref> یا گذشتہ امتوں کے حالات و واقعات سے باخبر افراد ہیں<ref> طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۶، ص۵۵۷؛ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۲، ص۲۵۸؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۱، ص۲۴۴۔</ref> اور جس چیز کے بارے میں سوال ہوگی وہ [[نبوت]] کی نشانیاں ہیں جو ان کی کتابوں میں مذکور ہیں۔<ref>اصغرپور قراملکی، «اہل‌الذکر»، ص۱۳۲۔</ref> ان تمام باتوں کے باوجود مفسرین اہل‌الذکر کے مفہوم کے دائرے کو وسیع قرار دیتے ہوئے اس کے لئے مزید مصادیق ذکر کرتے ہیں۔ شیعہ اور اہل سنت مفسرین کے درمیان اس سلسلے میں دو مشہور نظریات ہیں:
   
   
===علماء===
===اہل بیتؑ ===
[[آیت]] کے سیاق کو مدنظر رکھتے ہوئے، اہل ذکر کو اہل کتاب یا اہل علم معنی کیا ہے. <ref> نجارزادگان و ہادی لو، «بررسی و ارزیابی وجوه جمع بین روایات اہل الذکر»، ص۳۵.</ref> اہل ذکر کا معنی وسیع ہے اور وہ سب جو زیادہ علم اور آگاہی رکھتے ہیں، انہیں شامل کرتا ہے. یہ آیت ایک عقلائی اصول اور عام عقلی احکام کی طرف راہنمائی کرتا ہے. اور وہ ہر مضمون اور مہارت میں جاہل کا عالم کی طرف رجوع کرنا واجب ہے، اسی وجہ سے ہے واضح ہے کہ یہ دستور ایک تعبدی دستور نہیں ہے اور اس کا حکم بھی، ایک مولوی حکم نہیں ہے. <ref> طباطبائی، المیزان، دفتر انتشارات اسلامی، ج۱۲، ص۲۵۹.</ref>
شیعہ مفسرین متعدد احادیث<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۱۰-۲۱۱۔</ref> {{نوٹ|ان احادیث میں مختلف مضامین کے ساتھ اس مسئلے کو بیان کیا گیا ہے: مثال کے طور پر ایک حدیث میں آیا ہے کہ قرآن ذکر ہے اور ہم آل رسول اہل ذکر ہیں یا ایک اور حدیث میں پیغمبر اکرمؐ کو ذکر اور اہل بیت کو اہل ذکر قرار دیا گیا ہے۔(کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۳۰۳-۳۰۴؛ حر عاملی، وسائل الشیعہ، ۱۴۰۹ق، ج۲۷، ص۷۳۔)}}  سے استناد کرتے ہوئے ہوئے  اہل ذکر کے بارز اور کامل مصداق کو [[اہل بیتؑ]] قرار دیتے ہیں۔<ref>حویزی، نورالثقلین، ۱۴۱۵ق، ج۳، ص۵۵؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۱، ص۲۴۴۔</ref> اہل سنت تفاسیر میں بھی بعض احادیث من جملہ [[ابن عباس]] سے مروی ایک حدیث میں [[حضرت محمد صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم|حضرت محمدؐ]]، [[امام علیؑ|حضرت علیؑ]]، [[حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا|حضرت فاطمہ(س)]]، [[امام حسنؑ]] اور [[امام حسینؑ]] کو اہل ذکر قرار دیا گیا ہے؛ اسی طرح اہل علم و عقل و بیان کو بھی اس کے مصادیق میں سے قرار دیتے ہیں۔<ref>حسکانی، شواہد التنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۴۳۲۔</ref>
اہل سنت مفسرین قرطبی اور طبری [[سورہ انبیاء]] کی آیت نمیر 7 کے ذیل میں ایک حدیث نقل کرتے ہیں جس میں امام علیؑ مذکورہ آیت کے نازل ہوتے وقت فرماتے ہیں "نحن اہل‌الذکر"۔<ref>قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ۱۳۶۴ش، ج ۱۱، ص۲۷۲؛ طبری، جامع البیان، ۱۴۱۲ق، ج۱۷، ص۵۔</ref>
 
اسی طرح کتاب [[بصائر الدرجات (کتاب)|بصائر الدرجات]] میں ایک باب کے عنوان کو {{حدیث|"فی ائمة آل محمد انهم اهل الذکر الذین امر الله بسؤالهم"}} کو قرار دیا ہے۔<ref>صفار قمی، بصائر الدرجات، باب ۱۹۔</ref> [[محمد بن یعقوب کلینی|کلینی]] [[الکافی (کتاب)|کافی]] میں بھی ایک باب "{{حدیث|ان اهل الذکر الذین امر الله الخلق بسؤالهم هم الائمه}}" کے عنوان سے قرار دیا ہے۔<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷، ج۱، ص۳۰۳۔</ref> [[محمد باقر مجلسی|علامہ مجلسی]] بھی [[بحار الانوار (کتاب)|بحارالانوار]] میں "{{حدیث|انهم (الائمه) علیهم السلام الذکر و اهل الذکر}}" نامی باب میں بعض [[حدیث|احادیث]] نقل کرتے ہیں جن میں اہل ذکر سے مراد [[شیعہ ائمہ]] کو قرار دیا گیا ہے۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۳، ص۱۷۲۔</ref>
 
درج بالا احادیث کی وضاحت میں کہا جاتا ہے کہ ائمہ اہل بیتؑ کا یہ کہنا کہ ہم اہل‌الذکر ہیں، اس سے مراد ظاہری طور پر نہیں کیونکہ مکہ کے کفار ائمہ سے کچھ نہیں پوچھ سکتے تھے اور اگر پوچھ بھی لیتے تو وہ ائمہ کے کلام کو حجت نہیں سمجھتے تھے جیسا کہ وہ رسول خدا کے کلام کو بھی حجت نہیں سجھتے تھے؛ بنابراین ان احادیث سے مراد تشبیہ و تمثیل ہے۔ یعنی ہر چیز کے بارے میں اس کے اہل سے سوال کیا جانا چاہئیے۔ جس طرح [[انبیاء]] کا انسان ہونے کے بارے میں گذشتہ امتوں کے علماء سے سوال کیا جانا چاہئیے اسی طرح اسلامی تعلیمات اور قرآن کی تفسیر کے بارے میں بھی [[ائمہ معصومینؑ]] سے پوچھنا چاہئیے۔<ref>شعرانی، نثر طوبی، ۱۳۹۸ق، ج۱، ص۲۷۶۔</ref>


===اہل بیتؑ===
[[آیت اللہ مکارم شیرازی]] کے مطابق اہل بیت کو اہل ذکر کا بارز مصداق قرار دینا اور اور مذکورہ آیت کا اہل کتاب کے علماء کے بارے میں نازل ہونے کے درمیان کوئی منافات نہیں ہے؛ کیونکہ قرآن کی تفسیری احادیث میں اس مسئلے کی طرف بار بار اشارہ ہوا ہے کہ کسی بھی آیت کا معین مصداق ہونا اس آیت کے مفہوم کی وسعت کو محدود نہیں کرتا ہے۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۱، ص۲۴۴۔</ref>
اہل سنت اور شیعہ سے متعدد [[روایات]] نقل ہوئی ہیں جو اہل ذکر کو پیغمبر اکرمؐ کے اہل بیتؑ تفسیر کرتے ہیں. اہل ذکر کو [[معصومینؑ]] سے منحصر سمجھتے ہیں، اسی لئے کسی جاہل یا جو عمدی یا سہوی خطا میں مبتلا ہوتا ہے، اس سے سوال کرنا، قبیح ہے. اہل ذکر سے مراد، اہل علم ہیں. بعض نے کہا ہے: اس سے مراد اہل کتاب ہیں، لیکن مستفیض اخبار سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ آئمہؑ ہیں.


کتاب [[بصائر الدرجات]] میں ایک باب جس کا عنوان <font size=3px , font color=green>{{حدیث|"فی ائمة آل محمد انهم اهل الذکر الذین امر الله بسؤالهم"}}</font> ہے اس میں آیا ہے. <ref> صفار، بصائر الدرجات، باب ۱۹.</ref> اسی طرح [[کلینی]] نے [[کافی]] کے ایک باب، <font size=3px , font color=green>{{حدیث|"ان اهل الذکر الذین امر الله الخلق بسؤالهم هم الائمه"}}</font> میں ذکر کیا ہے. <ref> کلینی، کافی،ج۱، ص۲۱۰.</ref> مجلسی نے بھی [[بحارالانوار]] کے باب <font size=3px , font color=green>{{حدیث|"انهم (الائمه) علیهم السلام الذکر و اهل الذکر"}}</font> میں وہ [[روایات]] جن میں اہل ذکر سے مراد [[آئمہؑ]] ہیں، ان میں اپنی نظر بیان کی ہے.
===علماء===
[[آیت]] کے سیاق کو مدنظر رکھتے ہوئے، اہل ذکر کو اہل کتاب یا اہل علم معنی کیا ہے۔ <ref> نجارزادگان و ہادی لو، «بررسی و ارزیابی وجوہ جمع بین روایات اہل الذکر»، ص۳۵۔</ref> اہل ذکر کا معنی وسیع ہے اور وہ سب جو زیادہ علم اور آگاہی رکھتے ہیں، انہیں شامل کرتا ہے۔ یہ آیت ایک عقلائی اصول اور عام عقلی احکام کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ اور وہ ہر مضمون اور مہارت میں جاہل کا عالم کی طرف رجوع کرنا واجب ہے، اسی وجہ سے ہے واضح ہے کہ یہ دستور ایک تعبدی دستور نہیں ہے اور اس کا حکم بھی، ایک مولوی حکم نہیں ہے۔ <ref> طباطبائی، المیزان، دفتر انتشارات اسلامی، ج۱۲، ص۲۵۹۔</ref>


===اہل سنت کی روایات===
===اہل سنت کی روایات===
سنی مفسرین کے بیان میں، اہل ذکر کے لئے پندرہ معنی ذکر ہوئے ہیں، <ref> نقد و بررسی دیدگاه فریقین درباره «اہل ذکر».</ref> کہ جن سے مراد تین گروہ ہیں: "اہل کتاب بطور اعم (انجیل اور تورات کے علاوہ ہر کتاب) یا اخص مثال کے طور پر "اہل تورات"، یا "اہل قرآن"، <ref> تفسیر قرطبی، ج۱۰، ص۱۰۸.</ref> <ref> روح المعانی، ج۸، ص۲۳۸.</ref> اور "اہل بیت".<ref> تفسیر ابن کثیر، ج۲، ص۵۷۱.</ref>
سنی مفسرین کے بیان میں، اہل ذکر کے لئے پندرہ معنی ذکر ہوئے ہیں، <ref> نقد و بررسی دیدگاہ فریقین دربارہ «اہل ذکر»۔</ref> کہ جن سے مراد تین گروہ ہیں: "اہل کتاب بطور اعم (انجیل اور تورات کے علاوہ ہر کتاب) یا اخص مثال کے طور پر "اہل تورات"، یا "اہل قرآن"، <ref> تفسیر قرطبی، ج۱۰، ص۱۰۸۔</ref> <ref> روح المعانی، ج۸، ص۲۳۸۔</ref> اور "اہل بیت"۔<ref> تفسیر ابن کثیر، ج۲، ص۵۷۱۔</ref>


طبری جامع البیان کی تفسیر میں، [[سورہ انبیاء]] کی آیت ٧ کے ذیل میں [[روایت]] نقل کرتا ہے کہ جس میں اس آیت کے نزول کے وقت [[امام علیؑ]] فرماتے ہیں: <font size=3px , font color=green>{{حدیث|"نحن اهل الذکر"}}</font><ref> قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ج ۱۱، ص۲۷۲؛ طبری، جامع البیان، ج ۱۷، ص۵</ref>
طبری جامع البیان کی تفسیر میں، [[سورہ انبیاء]] کی آیت ٧ کے ذیل میں [[روایت]] نقل کرتا ہے کہ جس میں اس آیت کے نزول کے وقت [[امام علیؑ]] فرماتے ہیں: <font size=3px , font color=green>{{حدیث|"نحن اہل الذکر"}}</font><ref> قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ج ۱۱، ص۲۷۲؛ طبری، جامع البیان، ج ۱۷، ص۵</ref>


حاکم حسکانی شواہد التنزیل میں، سورہ نحل کی آیت ٤٣ کے ذیل میں روایت نقل کرتا ہے کہ جس میں اہل الذکر سے مراد، اہل بیتؑ ہیں من جملہ یہ روایت جو حارث کہتا ہے کہ علیؑ سے اس آیت کے بارے میں پوچھا تو آپؑ نے اس طرح جواب دیا "خدا کی قسم ہم اہل ذکر ہیں، ہم اہل علم ہیں، اور ہم [[قرآن کریم]] کی تاویل و تنزیل کے مخزن ہیں." <ref> حسکانی، شواہد التنزیل، ج ۱، ص۴۳۲</ref>
حاکم حسکانی شواہد التنزیل میں، سورہ نحل کی آیت ٤٣ کے ذیل میں روایت نقل کرتا ہے کہ جس میں اہل الذکر سے مراد، اہل بیتؑ ہیں من جملہ یہ روایت جو حارث کہتا ہے کہ علیؑ سے اس آیت کے بارے میں پوچھا تو آپؑ نے اس طرح جواب دیا "خدا کی قسم ہم اہل ذکر ہیں، ہم اہل علم ہیں، اور ہم [[قرآن کریم]] کی تاویل و تنزیل کے مخزن ہیں۔" <ref> حسکانی، شواہد التنزیل، ج ۱، ص۴۳۲</ref>


===شیعہ کی روایات===
===شیعہ کی روایات===
من جملہ [[امام رضاؑ]] کی روایت جو تفسیر میں بیان ہوئی ہے <font size=3px , font color=green>{{حدیث|"فَاسْأَلُواْ أَهْلَ الذِّکْر"}}</font> آپؑ نے فرمایا:  
من جملہ [[امام رضاؑ]] کی روایت جو تفسیر میں بیان ہوئی ہے <font size=3px , font color=green>{{حدیث|"فَاسْأَلُواْ أَہْلَ الذِّکْر"}}</font> آپؑ نے فرمایا:  
"ہم ہیں اہل ذکر اور ہم ہیں جو سؤالوں کے جواب دے سکتے ہیں". راوی کہتا ہے میں نے عرض کیا: آپ جواب دینے والے اور ہم سؤال کرنے والے ہیں؟ فرمایا: جی ہاں. <ref> کلینی، کافی، ج۱، ص۲۱۰.</ref>
"ہم ہیں اہل ذکر اور ہم ہیں جو سؤالوں کے جواب دے سکتے ہیں"۔ راوی کہتا ہے میں نے عرض کیا: آپ جواب دینے والے اور ہم سؤال کرنے والے ہیں؟ فرمایا: جی ہاں۔ <ref> کلینی، کافی، ج۱، ص۲۱۰۔</ref>


اس [[آیت]] کی تفسیر میں [[امام صادقؑ]] کی روایت جس میں آپؑ نے فرمایا:
اس [[آیت]] کی تفسیر میں [[امام صادقؑ]] کی روایت جس میں آپؑ نے فرمایا:
"ذکر، [[قرآن]] ہے، اور پیغمبر اکرمؐ کے اہل بیتؑ اہل ذکر ہیں، اور ان سے ضرور سؤال کئے جائیں." <ref>کلینی، کافی، ج۱، ص۲۱۱.</ref>
"ذکر، [[قرآن]] ہے، اور پیغمبر اکرمؐ کے اہل بیتؑ اہل ذکر ہیں، اور ان سے ضرور سؤال کئے جائیں۔" <ref>کلینی، کافی، ج۱، ص۲۱۱۔</ref>
بعض روایات میں پڑھتے ہیں کہ "ذکر" سے مراد خود پیغمبر اکرمؐ اور آپؐ کے اہل بیتؑ اہل الذکر ہیں. <ref> حر عاملی، وسائل الشیعہ، موسسہ آل البیت ع، ج۲۷، ص۷۳.</ref>
بعض روایات میں پڑھتے ہیں کہ "ذکر" سے مراد خود پیغمبر اکرمؐ اور آپؐ کے اہل بیتؑ اہل الذکر ہیں۔ <ref> حر عاملی، وسائل الشیعہ، موسسہ آل البیت ع، ج۲۷، ص۷۳۔</ref>


==حوالہ جات==
==حوالہ جات==
confirmed، templateeditor
8,265

ترامیم