مندرجات کا رخ کریں

"آیت اہل الذکر" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 37: سطر 37:
== شأن نزول ==
== شأن نزول ==
[[ابن عباس]] سے مروی ہے کہ جب [[حضرت محمدؐ]] [[نبوت]] پر فائز ہوئے، تو یہ بات [[مکہ]] والوں پر گراں گزری اس بنا پر وہ آپ کی [[نبوت]] کا انکار کرتے ہوئے کہنے لگے [[خدا]] کی شأن اس چیز سے بالاتر ہے کہ وہ کسی انسان کو نبوت کے لئے انتخاب کریں؛ مشرکین کے جواب میں یہ [[آیت]] اور  [[سورہ یونس]] کی دوسری آیت: {{قرآن کا متن|أَ كانَ لِلنَّاسِ عَجَباً أَنْ أَوْحَيْنا إِلى‏ رَجُلٍ مِنْهُمْ}} نازل ہوئی۔<ref>محقق، نمونہ بیانات در شأن نزول آیات، ۱۳۶۱ش، ص۴۸۱۔</ref> اسی طرح کہا جاتا ہے کہ آیت اہل الذکر [[مشرکین]] کے اس بات کے جواب میں نازل ہوئی ہیں جو وہ کہتے تھے کہ خدا کے بھیجے ہوئے کو کیوں [[فرشتہ]] نہیں ہونا چاہئے، نازل ہوئی۔<ref> واحدی، اسباب نزول القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۲۸۶۔</ref>
[[ابن عباس]] سے مروی ہے کہ جب [[حضرت محمدؐ]] [[نبوت]] پر فائز ہوئے، تو یہ بات [[مکہ]] والوں پر گراں گزری اس بنا پر وہ آپ کی [[نبوت]] کا انکار کرتے ہوئے کہنے لگے [[خدا]] کی شأن اس چیز سے بالاتر ہے کہ وہ کسی انسان کو نبوت کے لئے انتخاب کریں؛ مشرکین کے جواب میں یہ [[آیت]] اور  [[سورہ یونس]] کی دوسری آیت: {{قرآن کا متن|أَ كانَ لِلنَّاسِ عَجَباً أَنْ أَوْحَيْنا إِلى‏ رَجُلٍ مِنْهُمْ}} نازل ہوئی۔<ref>محقق، نمونہ بیانات در شأن نزول آیات، ۱۳۶۱ش، ص۴۸۱۔</ref> اسی طرح کہا جاتا ہے کہ آیت اہل الذکر [[مشرکین]] کے اس بات کے جواب میں نازل ہوئی ہیں جو وہ کہتے تھے کہ خدا کے بھیجے ہوئے کو کیوں [[فرشتہ]] نہیں ہونا چاہئے، نازل ہوئی۔<ref> واحدی، اسباب نزول القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۲۸۶۔</ref>
== محتوا ==
[[طبرسی]] [[تفسیر مجمع البیان]] میں اس آیت کے ابتدائی حصے کو اس بات کی طرف اشارہ قرار دیتے ہیں کہ خدا انبیاء کو لوگوں کے درمیان سے انتخاب کرتے ہیں تاکہ لوگ انہیں دیکھ سکیں ان سے گفتگو کر سکیں اور ان کی باتوں کو درک کر سکیں؛ بنابراین یہ معقول نہیں ہے کہ انسان کے علاوہ کسی فرشتے کو رسول بنا کر لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجا جائے۔<ref> طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۱ش، ج۶، ص۵۵۷۔</ref>
[[علامہ طباطبایی]] نیز فرماتے ہیں کہ مذکورہ آیت ارسال رسل کی کیفیت بیان کرنے کی غرض سے نازل ہوئی ہے تاکہ مشرکین یہ جان لیں کہ اسلام کی طرف دعوت ایک عام دعوت ہے؛ صرف یہ فرق ہے کہ اس دعوت کے مالک کو [[وحی]] کے ذریعے دنیا و [[آخرت]] کی نیکی عطا کرتا ہے اور نبوت کوئی ایسی غیبی قدرت نہیں ہے جو لوگوں کے ارادہ و [[جبر و اختیار|اختیار]] کو ختم کر کے انہیں اس دعوت کو قبول کرنے پر مجبور کرے۔<ref> طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۲، ص۲۵۶۔</ref> علامہ کے مطابق مذکورہ آیت کا دوسرا حصہ: {{قرآن کا متن|فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ}} میں اگرچہ مخاطب رسول اکرمؐ اور آپ کی قوم ہیں لیکن حقیقت میں تمام لوگ خاص کر مشرکین کو بھی شامل کرتی ہے جس کے تحت ہر وہ شخص جو پیغمبر اکرمؐ کی نبوت کی حقیقت سے آشنا نہیں ہے اسے چاہئے کہ وہ اہل علم حضرات سے اس بارے میں سوال کریں۔<ref> طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۲، ص۲۵۷.</ref>
[[آیت اللہ مکارم شیرازی]] نیز اس آیت کے دوسرے حصے کو اس حقیقت کی تائید اور تاکید قرار دیتے ہیں کہ لوگوں تک [[وحی]] کو پہنچانا انبیاء کا ایک عام انسانی وظیفہ ہے، نہ یہ کہ کوئی غیبی طاقت فطرت کے قوانین سے ہٹ کر لوگوں کو اس دعوت کے قبول کرنے اور تمام برائیں کو ترک کرنے پر مجبور کرتی ہو اگر ایسا ہوتا تو [[ایمان]] لانا کوئی فخر کی بات نہیں ہوتی۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۱، ص۲۴۱۔</ref>


==اہل ذکر کے مصادیق==
==اہل ذکر کے مصادیق==
confirmed، templateeditor
8,265

ترامیم