مندرجات کا رخ کریں

"امام علی علیہ السلام" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 86: سطر 86:
[[سنہ 11 ہجری]] میں [[آنحضرت ؐ]] نے وفات پائی۔<ref> شهیدی، دانشنامہ امام علیؑ، ۸:‎ ۲۱۔</ref> [[شیعوں]] کے مطابق، حضرت علی رحلت پیغمبر کے بعد 24 سال کی عمر میں [[امامت]] کے مرتبے پر فائز ہوئے۔ امام علی آنحضرت کی تکفین و تجہیز میں مشغول تھے کہ ایک گروہ نے [[سقیفہ بنی ساعدہ]] میں [[حضرت ابوبکر]] کو [[خلیفہ]] بنا دیا۔ حضرت ابو بکر کی خلافت کے بعد ابتداء میں حضرت علی نے ان کی [[بیعت]] نہیں کی<ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (گسترش قلمرو خلافت اسلامی)، ۸۵۔</ref> لیکن بعد میں آخرکار بیعت کر لی۔<ref> مجلسی، بحار الانوار، ج۲۸، ص۲۹۹؛ مجلسی، مرآة العقول، ج۵، ص۳۲۰۔</ref> شیعوں کا ماننا ہے کہ یہ بیعت اجباری تھی<ref> دینوری، الامامة والسیاسة، ۱:‎ ۳۰-۲۹؛ مسعودی، مروج الذهب، ۱:‎ ۶۴۶. طبری، تاریخ طبری، ج۴، ص ۱۳۳۰؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج ۱، ص ۵۸۶ ـ ۵۸۷۔</ref> اور [[شیخ مفید]] کا ماننا ہے کہ امام علی نے ہرگز بیعت نہیں کی۔<ref> شيخ مفيد، الفصول المختاره، ص ۴۰ و ۵۶ به بعد۔</ref> <ref> فاطمی، دانشنامہ امام علیؑ، ۸:‎ ۴۰۷۔</ref> شیعوں کے مطابق، خلیفہ کے ساتھیوں نے امام علی سے بیعت لینے کے لئے ان کے گھر پر حملہ کیا<ref> جوهری بصری، السقیفة و فدک، ۱۴۱۳ق، ص۷۲ و ۷۳۔</ref> جس میں [[حضرت فاطمہ]] زخمی ہوئیں اور ان حمل ساقط ہو گیا۔<ref> طبرسی، الاحتجاج، ۱۳۸۶ق، ج۱، ص۱۰۹۔</ref> اسی زمانہ میں حضرت ابوبکر نے [[باغ فدک]] کو غصب کر لیا<ref> استادی، دانشنامہ امام علیؑ، ۸:‎ ۳۶۶۔</ref> اور حضرت ان کا حق لینے کے لئے اٹھے۔<ref> مجلسی، بحار الانوار، دار الرضا، ج۲۹، ص۱۲۴۔</ref> حضرت فاطمہ گھر پر ہونے والے حملے کے بعد مریض ہو گئیں اور کچھ عرصہ کے بعد [[سنہ 11 ہجری]] میں [[شہید]] ہو گئیں۔<ref> طبری امامی، دلائل الامامة، ۱۴۱۳ق، ص۱۳۴۔</ref>
[[سنہ 11 ہجری]] میں [[آنحضرت ؐ]] نے وفات پائی۔<ref> شهیدی، دانشنامہ امام علیؑ، ۸:‎ ۲۱۔</ref> [[شیعوں]] کے مطابق، حضرت علی رحلت پیغمبر کے بعد 24 سال کی عمر میں [[امامت]] کے مرتبے پر فائز ہوئے۔ امام علی آنحضرت کی تکفین و تجہیز میں مشغول تھے کہ ایک گروہ نے [[سقیفہ بنی ساعدہ]] میں [[حضرت ابوبکر]] کو [[خلیفہ]] بنا دیا۔ حضرت ابو بکر کی خلافت کے بعد ابتداء میں حضرت علی نے ان کی [[بیعت]] نہیں کی<ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (گسترش قلمرو خلافت اسلامی)، ۸۵۔</ref> لیکن بعد میں آخرکار بیعت کر لی۔<ref> مجلسی، بحار الانوار، ج۲۸، ص۲۹۹؛ مجلسی، مرآة العقول، ج۵، ص۳۲۰۔</ref> شیعوں کا ماننا ہے کہ یہ بیعت اجباری تھی<ref> دینوری، الامامة والسیاسة، ۱:‎ ۳۰-۲۹؛ مسعودی، مروج الذهب، ۱:‎ ۶۴۶. طبری، تاریخ طبری، ج۴، ص ۱۳۳۰؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج ۱، ص ۵۸۶ ـ ۵۸۷۔</ref> اور [[شیخ مفید]] کا ماننا ہے کہ امام علی نے ہرگز بیعت نہیں کی۔<ref> شيخ مفيد، الفصول المختاره، ص ۴۰ و ۵۶ به بعد۔</ref> <ref> فاطمی، دانشنامہ امام علیؑ، ۸:‎ ۴۰۷۔</ref> شیعوں کے مطابق، خلیفہ کے ساتھیوں نے امام علی سے بیعت لینے کے لئے ان کے گھر پر حملہ کیا<ref> جوهری بصری، السقیفة و فدک، ۱۴۱۳ق، ص۷۲ و ۷۳۔</ref> جس میں [[حضرت فاطمہ]] زخمی ہوئیں اور ان حمل ساقط ہو گیا۔<ref> طبرسی، الاحتجاج، ۱۳۸۶ق، ج۱، ص۱۰۹۔</ref> اسی زمانہ میں حضرت ابوبکر نے [[باغ فدک]] کو غصب کر لیا<ref> استادی، دانشنامہ امام علیؑ، ۸:‎ ۳۶۶۔</ref> اور حضرت ان کا حق لینے کے لئے اٹھے۔<ref> مجلسی، بحار الانوار، دار الرضا، ج۲۹، ص۱۲۴۔</ref> حضرت فاطمہ گھر پر ہونے والے حملے کے بعد مریض ہو گئیں اور کچھ عرصہ کے بعد [[سنہ 11 ہجری]] میں [[شہید]] ہو گئیں۔<ref> طبری امامی، دلائل الامامة، ۱۴۱۳ق، ص۱۳۴۔</ref>


[[سنہ 13 ہجری]] میں [[حضرت ابوبکر]] کی وفات ہوئی۔<ref> یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ۱۳۷۹ق، ج۲، ص۱۳۶-۱۳۸؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۳، ص۴۱۹-۴۲۰؛ ابن حبان، کتاب الثقات، ۱۳۹۳ق، ج۲، ص۱۹۱، ۱۹۴۔</ref> ان کی وصیت کے مطابق [[عمر بن خطاب]] [[خلیفہ]] بنے۔<ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (گسترش قلمرو خلافت اسلامی)، ۳۲۲و۳۳۱۔</ref> [[سنہ 14 ہجری]] [[محرم]] میں حضرت عمر ساسانیوں سے جنگ کے لئے [[مدینہ]] سے خارج ہوئے اور صرار نامی مقام پر پڑاو ڈالا۔ انہوں نے امام علی کو مدینہ میں اپنی جگہ قرار دیا تا کہ وہ خود اس جنگ کی فرماندہی اپنے ذمے لیں۔ لیکن بعض [[صحابہ]] و امام علی سے مشورہ کے بعد انہوں نے اپنا ارادہ بدل لیا اور [[سعد بن ابی وقاص]] کو جنگ کے لئے بھیجا۔<ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (گسترش قلمرو خلافت اسلامی)، ۳۷۹۔</ref> معادی خواہ نے [[ابن اثیر]] سے منقول قول سے استناد کرتے ہوئے نقل کیا ہے کہ دوسری [[خلافت]] کے زمانہ میں اس کے ابتدائی سالوں کے بعد سے منصب قضاوت کے مالک تھے۔<ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (گسترش قلمرو خلافت اسلامی)، ۴۴۱۔</ref> <ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (گسترش قلمرو خلافت اسلامی)، ۳۴۸۔</ref> [[سنہ 16 ہجری]] یا سنہ 17 ہجری میں<ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (گسترش قلمرو خلافت اسلامی)، ۴۵۳۔</ref> امام علی کے مشورے کو حضرت عمر نے قبول کرکے پیغمبر کی مدینہ ہجرت کو اسلامی تاریخ کا مبداء قرار دیا۔<ref> یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دار صادر، ج۲، ص۱۴۵۔</ref> <ref> مسعودی، مروج الذهب، ۴:‎ ۳۰۰؛۔</ref> [[سنہ 17 ہجری]]<ref> بلاذری، ص۱۳۹۔</ref> میں عمر فتح [[بیت المقدس]] کے لئے شام روانہ ہو گئے اور امام علی کو مدینہ میں اپنا جانشین قرار دیا۔<ref> طبری،ج۵، ص۲۵۱۹-۲۵۲۰۔</ref> <ref> معادی خواه، تاریخ اسلام (گسترش قلمرو خلافت اسلامی)، ۴۷۵-۴۷۶۔</ref> اسی سال<ref> نویری، نهایہ الارب، ۱۴۲۳ق، ج۱۹، ص۳۴۷۔</ref> عمر نے اصرار اور دھمکی سے علی و فاطمہ کی بیٹی [[ام کلثوم]] سے شادی کی۔<ref> کلینی، الکافی، ۱۳۶۳ش، ج۵، ص۳۴۶؛ طوسی، تهذیب الاحکام، ۱۳۶۴ش، ج۸، ص۱۶۱؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۳۹۷؛ مفید، المسائل العکبریہ، ۱۴۱۴ق، ص۶۰؛ بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۲۰ق، ص۱۸۹۔</ref> <ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (گسترش قلمرو خلافت اسلامی)، ۴۹۶۔</ref> [[سنہ 18 ہجری]] میں ایک بار پھر عمر نے [[شام]] کے سفر میں امام علی کو مدینہ میں اپنا جانشین معین کیا۔<ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (گسترش قلمرو خلافت اسلامی)، ۵۱۳۔</ref> عمر نے حملے کے بعد اور مرنے سے پہلے [[سنہ 23 ہجری]]<ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (گسترش قلمرو خلافت اسلامی)، ۵۴۰۔</ref> میں اپنے بعد خلافت کے لئے ۶ افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی۔<ref> ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۳، ص۳۴۴۔</ref> جس میں حضرت بھی شامل تھے۔<ref> سیوطی، تاریخ الخلفا، ۱۴۱۳ق، ص۱۲۹۔</ref> اس میں انہوں نے [[عبد الرحمن بن عوف]] کو تعیین کنندہ شخص کا درجہ دیا۔ عبد الرحمن نے پہلے امام علی سے چاہا کہ [[کتاب خدا]] و [[سنت پیغمبر]] و [[سیرت شیخین]] پر عمل کی شرط پر خلافت کو قبول کر لیں لیکن آپ نے سیرت شیخین کو قبول نہیں کیا اور جواب دیا کہ میں اپنے علم و استعداد و [[اجتہاد]] سے کتاب خدا و سنت پیغمبر پر عمل کروں گا۔<ref> ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ۱۳۸۶ق، ج۳، ص۷۱۔</ref> اس کے بعد عبد الرحمن نے عثمان کو ان شرطوں کے ساتھ خلافت کی دعوت دی انہوں نے قبول کر لیا تو انہیں خلافت مل گئی۔<ref> دینوری، الامامة والسیاسة، ۱:‎ ۴۶-۴۴۔</ref> <ref> زرکلی، الاعلام، ۴، ۲۱۰۔</ref> <ref> ابن عبد البر، الاستیعاب، ۳، ۱۰۴۴۔</ref>
[[سنہ 13 ہجری]] میں [[حضرت ابوبکر]] کی وفات ہوئی۔<ref> یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ۱۳۷۹ق، ج۲، ص۱۳۶-۱۳۸؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۳، ص۴۱۹-۴۲۰؛ ابن حبان، کتاب الثقات، ۱۳۹۳ق، ج۲، ص۱۹۱، ۱۹۴۔</ref> ان کی وصیت کے مطابق [[عمر بن خطاب]] [[خلیفہ]] بنے۔<ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (گسترش قلمرو خلافت اسلامی)، ۳۲۲و۳۳۱۔</ref> [[سنہ 14 ہجری]] [[محرم]] میں حضرت عمر ساسانیوں سے جنگ کے لئے [[مدینہ]] سے خارج ہوئے اور صرار نامی مقام پر پڑاو ڈالا۔ انہوں نے امام علی کو مدینہ میں اپنی جگہ قرار دیا تا کہ وہ خود اس جنگ کی فرماندہی اپنے ذمے لیں۔ لیکن بعض [[صحابہ]] و امام علی سے مشورہ کے بعد انہوں نے اپنا ارادہ بدل لیا اور [[سعد بن ابی وقاص]] کو جنگ کے لئے بھیجا۔<ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (گسترش قلمرو خلافت اسلامی)، ۳۷۹۔</ref> معادی خواہ نے ابن اثیر سے منقول قول سے استناد کرتے ہوئے نقل کیا ہے کہ دوسری [[خلافت]] کے زمانہ میں اس کے ابتدائی سالوں کے بعد سے منصب قضاوت کے مالک تھے۔<ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (گسترش قلمرو خلافت اسلامی)، ۴۴۱۔</ref> <ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (گسترش قلمرو خلافت اسلامی)، ۳۴۸۔</ref> [[سنہ 16 ہجری]] یا سنہ 17 ہجری میں<ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (گسترش قلمرو خلافت اسلامی)، ۴۵۳۔</ref> امام علی کے مشورے کو حضرت عمر نے قبول کرکے پیغمبر کی مدینہ ہجرت کو اسلامی تاریخ کا مبداء قرار دیا۔<ref> یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دار صادر، ج۲، ص۱۴۵۔</ref> <ref> مسعودی، مروج الذهب، ۴:‎ ۳۰۰؛۔</ref> [[سنہ 17 ہجری]]<ref> بلاذری، ص۱۳۹۔</ref> میں عمر فتح [[بیت المقدس]] کے لئے شام روانہ ہو گئے اور امام علی کو مدینہ میں اپنا جانشین قرار دیا۔<ref> طبری،ج۵، ص۲۵۱۹-۲۵۲۰۔</ref> <ref> معادی خواه، تاریخ اسلام (گسترش قلمرو خلافت اسلامی)، ۴۷۵-۴۷۶۔</ref> اسی سال<ref> نویری، نهایہ الارب، ۱۴۲۳ق، ج۱۹، ص۳۴۷۔</ref> عمر نے اصرار اور دھمکی سے علی و فاطمہ کی بیٹی [[ام کلثوم]] سے شادی کی۔<ref> کلینی، الکافی، ۱۳۶۳ش، ج۵، ص۳۴۶؛ طوسی، تهذیب الاحکام، ۱۳۶۴ش، ج۸، ص۱۶۱؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۳۹۷؛ مفید، المسائل العکبریہ، ۱۴۱۴ق، ص۶۰؛ بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۲۰ق، ص۱۸۹۔</ref> <ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (گسترش قلمرو خلافت اسلامی)، ۴۹۶۔</ref> [[سنہ 18 ہجری]] میں ایک بار پھر عمر نے [[شام]] کے سفر میں امام علی کو مدینہ میں اپنا جانشین معین کیا۔<ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (گسترش قلمرو خلافت اسلامی)، ۵۱۳۔</ref> عمر نے حملے کے بعد اور مرنے سے پہلے [[سنہ 23 ہجری]]<ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (گسترش قلمرو خلافت اسلامی)، ۵۴۰۔</ref> میں اپنے بعد خلافت کے لئے ۶ افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی۔<ref> ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۳، ص۳۴۴۔</ref> جس میں حضرت بھی شامل تھے۔<ref> سیوطی، تاریخ الخلفا، ۱۴۱۳ق، ص۱۲۹۔</ref> اس میں انہوں نے [[عبد الرحمن بن عوف]] کو تعیین کنندہ شخص کا درجہ دیا۔ عبد الرحمن نے پہلے امام علی سے چاہا کہ [[کتاب خدا]] و [[سنت پیغمبر]] و سیرت شیخین پر عمل کی شرط پر خلافت کو قبول کر لیں لیکن آپ نے سیرت شیخین کو قبول نہیں کیا اور جواب دیا کہ میں اپنے علم و استعداد و [[اجتہاد]] سے کتاب خدا و سنت پیغمبر پر عمل کروں گا۔<ref> ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ۱۳۸۶ق، ج۳، ص۷۱۔</ref> اس کے بعد عبد الرحمن نے عثمان کو ان شرطوں کے ساتھ خلافت کی دعوت دی انہوں نے قبول کر لیا تو انہیں خلافت مل گئی۔<ref> دینوری، الامامة والسیاسة، ۱:‎ ۴۶-۴۴۔</ref> <ref> زرکلی، الاعلام، ۴، ۲۱۰۔</ref> <ref> ابن عبد البر، الاستیعاب، ۳، ۱۰۴۴۔</ref>


معادی خواہ [[ابن جوزی]] کی کتاب المنتظم سے استناد کرتے ہوئے کہتے ہیں: حضرت علی [[سنہ 24 ہجری]] میں بھی قضاوت کے منصب پر فائز تھے۔<ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (روزگار عثمان)، ۱۴۶۔</ref> [[سنہ 25 ہجری]] میں<ref> معرفت، التمهید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۴۳-۳۴۶۔</ref> [[حضرت عثمان]] نے [[قرآن]] کی جمع آوری و تدوین کا حکم دیا۔<ref> معرفت، التمهید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۳۸و۳۳۹۔</ref> [[سیوطی]] نے امام علی سے نقل کیا ہے کہ تدوین و جمع آوری قرآن کا کام ان کے مشورہ پر انجام دیا گیا ہے۔<ref> معرفت، التمهید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۴۱۔</ref> <ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (روزگار عثمان)، ۵۱۵۔</ref> [[سنہ 26 ہجری]] میں آپ کے پانچویں فرزند [[عباس بن علی]] کی ولادت ہوئی۔<ref> زجاجی کاشانی، سقای کربلا، ۱۳۷۹ش، ص۸۹-۹۰؛ امین، اعیان الشیعه، ۱۴۰۶ق، ج۷، ص۴۲۹۔</ref> [[سنہ 35 ہجری]] میں مدینہ میں لوگوں نے ناراض ہو کر عثمان کے گھر کا محاصرہ کر لیا۔<ref> دینوری، امامت و سیاست، ۶۱۔</ref> امام علی محاصرہ کے وقت [[مدینہ]] میں نہیں تھے۔<ref> دینوری، امامت و سیاست، ۵۸-۵۷۔</ref> معادی خواہ نے اس سفر کو ینبع کی طرف ذکر کیا ہے جو حضرت عثمان کی خواہش پر ہوا تھا۔<ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (روزگار عثمان)، ۷۷۳۔</ref> [[اہل سنت]] مصادر کے مطابق امام علی نے [[حسنین]] کو [[خلیفہ]] کی حفاظت پر مامور کیا تھا<ref> دینوری، امامت و سیاست، ۵۸-۵۷، ۶۴۔</ref> لیکن آخرکار شورشیوں نے انہیں قتل کر ڈالا<ref> ابن عبد البر، الاستیعاب،۔</ref> اور ان کے قتل کے بعد لوگوں نے حضرت علی کا رخ کیا تا کہ وہ [[خلافت]] کو قبول کر لیں۔<ref> نک: ابن مزاحم، وقعة صفین/ترجمہ، ص:۲۷۱۔</ref>
معادی خواہ [[ابن جوزی]] کی کتاب المنتظم سے استناد کرتے ہوئے کہتے ہیں: حضرت علی [[سنہ 24 ہجری]] میں بھی قضاوت کے منصب پر فائز تھے۔<ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (روزگار عثمان)، ۱۴۶۔</ref> [[سنہ 25 ہجری]] میں<ref> معرفت، التمهید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۴۳-۳۴۶۔</ref> [[حضرت عثمان]] نے [[قرآن]] کی جمع آوری و تدوین کا حکم دیا۔<ref> معرفت، التمهید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۳۸و۳۳۹۔</ref> [[سیوطی]] نے امام علی سے نقل کیا ہے کہ تدوین و جمع آوری قرآن کا کام ان کے مشورہ پر انجام دیا گیا ہے۔<ref> معرفت، التمهید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۴۱۔</ref> <ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (روزگار عثمان)، ۵۱۵۔</ref> [[سنہ 26 ہجری]] میں آپ کے پانچویں فرزند [[عباس بن علی]] کی ولادت ہوئی۔<ref> زجاجی کاشانی، سقای کربلا، ۱۳۷۹ش، ص۸۹-۹۰؛ امین، اعیان الشیعه، ۱۴۰۶ق، ج۷، ص۴۲۹۔</ref> [[سنہ 35 ہجری]] میں مدینہ میں لوگوں نے ناراض ہو کر عثمان کے گھر کا محاصرہ کر لیا۔<ref> دینوری، امامت و سیاست، ۶۱۔</ref> امام علی محاصرہ کے وقت [[مدینہ]] میں نہیں تھے۔<ref> دینوری، امامت و سیاست، ۵۸-۵۷۔</ref> معادی خواہ نے اس سفر کو ینبع کی طرف ذکر کیا ہے جو حضرت عثمان کی خواہش پر ہوا تھا۔<ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (روزگار عثمان)، ۷۷۳۔</ref> [[اہل سنت]] مصادر کے مطابق امام علی نے [[حسنین]] کو [[خلیفہ]] کی حفاظت پر مامور کیا تھا<ref> دینوری، امامت و سیاست، ۵۸-۵۷، ۶۴۔</ref> لیکن آخرکار شورشیوں نے انہیں قتل کر ڈالا<ref> ابن عبد البر، الاستیعاب،۔</ref> اور ان کے قتل کے بعد لوگوں نے حضرت علی کا رخ کیا تا کہ وہ [[خلافت]] کو قبول کر لیں۔<ref> نک: ابن مزاحم، وقعة صفین/ترجمہ، ص:۲۷۱۔</ref>
confirmed، Moderators، منتظمین، templateeditor
21

ترامیم