مندرجات کا رخ کریں

"امام علی علیہ السلام" کے نسخوں کے درمیان فرق

imported>E.musavi
imported>E.musavi
سطر 226: سطر 226:
==خلفائے ثلاثہ کا دور==
==خلفائے ثلاثہ کا دور==


خلفائے ثلاثہ کے ۲۵ سالہ دور میں امام علی تقریبا امور سیاسی و حکومتی سے دور رہے اور فقط علمی و سماجی امور کی انجام میں مشغول رہے۔ جیسے [[جمع آوری قرآن]] جو مصحف امام کے نام سے مشہور ہے، مختلف امور میں [[خلفاء]] کو مشورہ دینا، فقراء کو انفاق کرنا، تقریبا ایک ہزار غلاموں کو خرید کر آزاد کرنا، زراعت و شجر کاری، نہریں کھودنا، تعمیر مساجد جیسے [[مدینہ]] میں [[مسجد فتح]]، جناب [[حمزہ]] کی قبر کے پاس مسجد کی تعمیر، میقات میں ایک مسجد کی تعمیر اور اسی طرح سے مقامات و ملک کو وقف کرنا، جن کی سالانہ آمدنی ۴۰ ہزار دنیار تک بتائی گئی ہے۔
خلفائے ثلاثہ کے 25 سالہ دور میں امام علی تقریبا امور سیاسی و حکومتی سے دور رہے اور فقط علمی و سماجی امور کی انجام میں مشغول رہے۔ جیسے [[جمع آوری قرآن]] جو مصحف امام کے نام سے مشہور ہے، مختلف امور میں [[خلفاء]] کو مشورہ دینا، فقراء کو انفاق کرنا، تقریبا ایک ہزار غلاموں کو خرید کر آزاد کرنا، زراعت و شجر کاری، نہریں کھودنا، تعمیر مساجد جیسے [[مدینہ]] میں [[مسجد فتح]]، جناب [[حمزہ]] کی قبر کے پاس مسجد کی تعمیر، میقات میں ایک مسجد کی تعمیر اور اسی طرح سے مقامات و ملک کو وقف کرنا، جن کی سالانہ آمدنی 40 ہزار دنیار تک بتائی گئی ہے۔


اس دور کے بعض اہم امور کی طرف ذیل میں اشارہ کیا جا رہا ہے:
اس دور کے بعض اہم امور کی طرف ذیل میں اشارہ کیا جا رہا ہے:
===ابوبکر===
===ابوبکر===
[[ابو بکر]] کا دور شروع ہوتے ہی خاندان رسولؐ کو نہایت ہولناک حوادث و واقعات کا سامنا کرنا پڑا؛ جن میں یہ تین واقعات خاص طور پر قابل ذکر ہیں:
[[ابو بکر]] کا دور شروع ہوتے ہی خاندان رسولؐ کو نہایت ہولناک حوادث و واقعات کا سامنا کرنا پڑا؛ جن میں یہ تین واقعات خاص طور پر قابل ذکر ہیں:
# خانہ امام علیؑ پر حملہ و [[ابوبکر]] کے لئے جبری [[بیعت]]<ref>طوسی، تلخیص الشافی، ج‏3، ص‏76؛ شہرستانی، ج‏2، ص 95؛ ابن قتیبہ ، ج‏2، ص 12۔</ref>
# خانہ امام علیؑ پر حملہ و [[ابوبکر]] کے لئے جبری [[بیعت]]<ref> طوسی، تلخیص الشافی، ج‏3، ص‏76؛ شہرستانی، ج‏2، ص 95؛ ابن قتیبہ ، ج‏2، ص 12۔</ref>
# غصب [[فدک]] <ref>حلبى، ج‏3، ص 400؛ ابن ابى الحدید، ج‏16، ص‏316۔بلاذری، ص۴۰ و ۴۱.کلینی، ج۱، ص۵۴۳</ref>
# غصب [[فدک]] <ref> حلبى، ج‏3، ص 400؛ ابن ابى الحدید، ج‏16، ص‏316۔بلاذری، ص۴۰ و ۴۱.کلینی، ج۱، ص۵۴۳</ref>
# [[شہادت]] [[حضرت فاطمہ|حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا]]
# [[شہادت]] [[حضرت فاطمہ|حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا]]


سطر 239: سطر 239:
[[بیعت]] سے امام علیؑ کا اجتناب اور بعض [[صحابہ]] کی خلافت [[ابوبکر]] کے خلاف اقدامات، ابوبکر اور حتی [[عمر]] کے لئے سنجیدہ خطرے میں تبدیل ہوگئے۔ چنانچہ ابوبکر و عمر نے اس خطرے کے خاتمے اور اپنے منصوبے کے تحت علی بن ابیطالبؑ کو بیعت پر مجبور کرنے کا فیصلہ کیا۔<ref>پیشوائی، ج 2، ص 191۔</ref> [[ابوبکر]] نے کئی مرتبہ امامؑ سے بیعت لینے کیلئے [[قنفذ|قُنفُذ]] نامی شخص کو امام علیؑ کے گھر کے دروازے پر بھجوایا لیکن امامؑ نے قبول نہ کیا چنانچہ عمر نے ابوبکر سے کہا: خود ہی اٹھو، ہم مل کر علی بن ابیطالب کے پاس جاتے ہیں اور یوں ابو بکر، عمر، [[عثمان]]، [[خالد بن ولید]]، [[مغیرہ بن شعبہ]]، [[ابو عبیدہ جراح]] اور قنفذ علیؑ کے گھر کے دروازے پر پہنچے۔ یہ گروہ جب گھر کے دروازے پر پہنچا تو اس نے بنت رسولؐ [[حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا]] کی توہین کی اور دروازے کو دھکا دیا اور سیدہؑ دروازے اور دیوار کے درمیان دب گئیں اور ان افراد میں سے بعض نے سیدہؑ کو تازیانے مارے۔<ref>ابن قتیبہ، ج 1، ص 29-30؛ مجلسی، ج 43، ص 70؛ مجلسی، مرآة العقول، ج 5، ص 320 ؛ شہرستانی، ج1، ص 57۔</ref> اور اس کے بعد امام علیؑ پر حملہ کیا اور آپ کا لباس ان کی گردن میں لپیٹا اور انہیں گھسیٹ کر سقیفہ لے گئے اور ان کے بیعت کا مطالبہ کیا۔ امام نے جواب دیا: میں خلافت کے لئے تم سے زیادہ اس کا اہل ہوں، اس لئے میں تمہاری بیعت نہیں کروں گا۔ بہتر ہوگا کہ تم میری بیعت کرو، اس لئے کہ تم نے انصار کو رسول خدا کا رشتہ دار بتا کر ان سے خلافت لے لی اور اب ہم سے خلافت کو غصب کرنا چاہتے ہو۔
[[بیعت]] سے امام علیؑ کا اجتناب اور بعض [[صحابہ]] کی خلافت [[ابوبکر]] کے خلاف اقدامات، ابوبکر اور حتی [[عمر]] کے لئے سنجیدہ خطرے میں تبدیل ہوگئے۔ چنانچہ ابوبکر و عمر نے اس خطرے کے خاتمے اور اپنے منصوبے کے تحت علی بن ابیطالبؑ کو بیعت پر مجبور کرنے کا فیصلہ کیا۔<ref>پیشوائی، ج 2، ص 191۔</ref> [[ابوبکر]] نے کئی مرتبہ امامؑ سے بیعت لینے کیلئے [[قنفذ|قُنفُذ]] نامی شخص کو امام علیؑ کے گھر کے دروازے پر بھجوایا لیکن امامؑ نے قبول نہ کیا چنانچہ عمر نے ابوبکر سے کہا: خود ہی اٹھو، ہم مل کر علی بن ابیطالب کے پاس جاتے ہیں اور یوں ابو بکر، عمر، [[عثمان]]، [[خالد بن ولید]]، [[مغیرہ بن شعبہ]]، [[ابو عبیدہ جراح]] اور قنفذ علیؑ کے گھر کے دروازے پر پہنچے۔ یہ گروہ جب گھر کے دروازے پر پہنچا تو اس نے بنت رسولؐ [[حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا]] کی توہین کی اور دروازے کو دھکا دیا اور سیدہؑ دروازے اور دیوار کے درمیان دب گئیں اور ان افراد میں سے بعض نے سیدہؑ کو تازیانے مارے۔<ref>ابن قتیبہ، ج 1، ص 29-30؛ مجلسی، ج 43، ص 70؛ مجلسی، مرآة العقول، ج 5، ص 320 ؛ شہرستانی، ج1، ص 57۔</ref> اور اس کے بعد امام علیؑ پر حملہ کیا اور آپ کا لباس ان کی گردن میں لپیٹا اور انہیں گھسیٹ کر سقیفہ لے گئے اور ان کے بیعت کا مطالبہ کیا۔ امام نے جواب دیا: میں خلافت کے لئے تم سے زیادہ اس کا اہل ہوں، اس لئے میں تمہاری بیعت نہیں کروں گا۔ بہتر ہوگا کہ تم میری بیعت کرو، اس لئے کہ تم نے انصار کو رسول خدا کا رشتہ دار بتا کر ان سے خلافت لے لی اور اب ہم سے خلافت کو غصب کرنا چاہتے ہو۔


بیعت کے وقت کے سلسلہ میں مورخین کے درمیان اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ بعض اس بیعت کو [[حضرت فاطمہ زہرا]] کی وفات کے بعد اور بعض دیگر ۴۰ روز کے بعد مانتے ہیں اور ایک دوسرے گروہ کے مطابق ۶ ماہ بعد ذکر ہوئی ہے۔ البتہ [[شیخ مفید]] کا ماننا ہے کہ امام نے ہرگز ابوبکر کی بیعت نہیں کی۔
بیعت کے وقت کے سلسلہ میں مورخین کے درمیان اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ بعض اس بیعت کو [[حضرت فاطمہ زہرا]] کی وفات کے بعد اور بعض دیگر 40 روز کے بعد مانتے ہیں اور ایک دوسرے گروہ کے مطابق 6 ماہ بعد ذکر ہوئی ہے۔ البتہ [[شیخ مفید]] کا ماننا ہے کہ امام نے ہرگز ابوبکر کی بیعت نہیں کی۔


'''خلافت ابوبکر میں آپ کا رویہ'''
'''خلافت ابوبکر میں آپ کا رویہ'''


[[خلافت]] [[ابوبکر]] کے زمانہ میں جس کی مدت ۲ سال تھی، امام علی تمام محظورات کے باوجود دستگاہ خلافت کو جہاں تک ان کے لئے قبول کرنا ممکن ہوتا تھا، انہیں مشورہ دیا کرتے تھے۔ علمائے [[اہل سنت]] کے عقیدہ کے مطابق، ابوبکر مہم امور میں امام علی سے مشورہ کیا کرتے تھے اور ان کے مشورہ کے مطابق عمل کیا کرتے تھے اور اس لئے کہ وہ امام کے مشوروں سے فائدہ اٹھا سکیں انہیں دیگر [[مسلمانوں]] کی طرح [[مدینہ]] سے خارج ہونے کی اجازت نہین دیتے تھے۔ آپ نے کوئی بھی منصب قبول نہ کرنے سے پرہیز کے باجود جب بھی انہیں مشورہ کی کوئی ضرورت پیش آتی تھی اور [[اسلام]] و [[مسلمین]] کی مصلحت کا تقاضا ہوتا تھا تو [[خلیفہ]] کے ساتھ تعاون سے دریغ نہیں کرتے تھے۔ [[یعقوبی]] اس بارے میں تحریر کرتے ہیں: خلافت ابوبکر کے زمانے میں جن افراد سے [[فقہ]] حاصل کی جاتی تھی ان میں سے ایک علی بن ابی طالب تھے۔ ان کے دور حکومت میں جنگوں و فتوحات کے سلسلہ میں امام کا موقف غیر جانب دارانہ یا زیادہ سے زیادہ مشاورانہ ہوتا تھا لیکن آپ نے بذات خود ان میں سے کسی میں شرکت نہیں کی۔ بعض تاریخی گزارشات کے مطابق، ابوبکر نے فتح [[شام]] کے سلسلہ میں اصحاب سے نظر خواہی کی اور فقط امام علی کے نظریہ کو قبول کیا۔
[[خلافت]] [[ابوبکر]] کے زمانہ میں جس کی مدت 2 سال تھی، امام علی تمام محظورات کے باوجود دستگاہ خلافت کو جہاں تک ان کے لئے قبول کرنا ممکن ہوتا تھا، انہیں مشورہ دیا کرتے تھے۔ علمائے [[اہل سنت]] کے عقیدہ کے مطابق، ابوبکر مہم امور میں امام علی سے مشورہ کیا کرتے تھے اور ان کے مشورہ کے مطابق عمل کیا کرتے تھے اور اس لئے کہ وہ امام کے مشوروں سے فائدہ اٹھا سکیں انہیں دیگر [[مسلمانوں]] کی طرح [[مدینہ]] سے خارج ہونے کی اجازت نہین دیتے تھے۔ آپ نے کوئی بھی منصب قبول نہ کرنے سے پرہیز کے باجود جب بھی انہیں مشورہ کی کوئی ضرورت پیش آتی تھی اور [[اسلام]] و [[مسلمین]] کی مصلحت کا تقاضا ہوتا تھا تو [[خلیفہ]] کے ساتھ تعاون سے دریغ نہیں کرتے تھے۔ [[یعقوبی]] اس بارے میں تحریر کرتے ہیں: خلافت ابوبکر کے زمانے میں جن افراد سے [[فقہ]] حاصل کی جاتی تھی ان میں سے ایک علی بن ابی طالب تھے۔ ان کے دور حکومت میں جنگوں و فتوحات کے سلسلہ میں امام کا موقف غیر جانب دارانہ یا زیادہ سے زیادہ مشاورانہ ہوتا تھا لیکن آپ نے بذات خود ان میں سے کسی میں شرکت نہیں کی۔ بعض تاریخی گزارشات کے مطابق، ابوبکر نے فتح [[شام]] کے سلسلہ میں اصحاب سے نظر خواہی کی اور فقط امام علی کے نظریہ کو قبول کیا۔


===عمر ===
===عمر ===
سطر 253: سطر 253:


===عثمان===
===عثمان===
'''امام علی ۶ رکنی شوری میں'''
'''امام علی 6 رکنی شوری میں'''
{{اصلی|چھ رکنی شوریٰ}}
{{اصلی|چھ رکنی شوریٰ}}
6 رکنی شوری، وہ گروہ تھا جسے [[عمر بن خطاب]] نے اپنی وفات سے پہلے [[سنہ 23 ہجری]] میں تشکیل دیا تھا تا کہ وہ گروہ ان کے بعد خلیفہ کا انتخاب کرے، جس کے نتیجہ میں عثمان بن عفان تیسرے خلیفہ بنے۔ عمر نے سب کو اس شوری کی بات قبول کرنے پر مجبور کیا اور حکم دیا کہ مخالفین کی گردن اڑا دی جائے۔ امام علی نے ارکان شوری کی ذہنیت کو دیکھنے ہوئے یہ پیشن گوئی کر دی تھی کہ اس شوری کے نتیجہ میں عثمان ہی کا انتخاب ہوگا۔ اس میں شامل افراد یہ ہیں: علی بن ابی‌ طالب (ع)، [[عثمان بن عفان]]، [[طلحہ بن عبیداللہ]]، [[زبیر بن عوام]]، [[سعد بن ابی وقاص]] و [[عبد الرحمن بن عوف]]۔
6 رکنی شوری، وہ گروہ تھا جسے [[عمر بن خطاب]] نے اپنی وفات سے پہلے [[سنہ 23 ہجری]] میں تشکیل دیا تھا تا کہ وہ گروہ ان کے بعد خلیفہ کا انتخاب کرے، جس کے نتیجہ میں عثمان بن عفان تیسرے خلیفہ بنے۔ عمر نے سب کو اس شوری کی بات قبول کرنے پر مجبور کیا اور حکم دیا کہ مخالفین کی گردن اڑا دی جائے۔ امام علی نے ارکان شوری کی ذہنیت کو دیکھنے ہوئے یہ پیشن گوئی کر دی تھی کہ اس شوری کے نتیجہ میں عثمان ہی کا انتخاب ہوگا۔ اس میں شامل افراد یہ ہیں: علی بن ابی‌ طالب (ع)، [[عثمان بن عفان]]، [[طلحہ بن عبیداللہ]]، [[زبیر بن عوام]]، [[سعد بن ابی وقاص]] و [[عبد الرحمن بن عوف]]۔
گمنام صارف