مندرجات کا رخ کریں

"آیت تبلیغ" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
سطر 29: سطر 29:
== شأن نزول ==
== شأن نزول ==
{{اصل مضمون|واقعہ غدیر}}
{{اصل مضمون|واقعہ غدیر}}
مفسرین کا کہنا ہے کہ یہ آیت 18 [[ذی الحجہ]] کو رسول خداؐ کی [[حجۃ الوداع]] سے واپسی پر [[غدیر خم]] کے مقام پر نازل ہوئی۔<ref>مراجعہ کریں: قمی، تفسیر القمی، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۱۷۹؛ عیاشی، تفسیر العیاشی، ۱۳۸۰ق، ج۱، ص۳۳۲.</ref> اہل سنت کے مآخذ میں بھی بعض روایات ملتی ہیں جن میں اس آیت کے نزول کے زمان اور مکان کو غدیر خم ذکر کیا ہے۔<ref>مراجعہ کریں: سیوطی، الدر المنثور، ۱۴۱۴ق، ج۲، ص۲۹۸؛ آلوسی، روح المعانی، ۱۴۰۵ق، ج۶، ص۱۹۴.</ref> شیعہ علما، شیعہ ائمہ اور بعض صحابہ کی روایات کے پیش نظر آیت تبلیغ کے شان نزول کو واقعہ غدیر اور امیرالمومنینؑ کی جانشینی قرار دیتے ہیں۔<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۱ق، ج‌۱، ص‌۲۹۰، ح‌۶؛ طبرسی، الاحتجاج، ۱۴۰۱ق، ج۱، ص۵۷؛ ابوالفتوح رازی، روض الجنان و روح الجنان، ۱۳۸۲-۱۳۸۷ش، ج۴، ص۲۷۵-۲۸۱.</ref>جبکہ اہل سنت علما بھی اس آیت کے سبب نزول کو پیغمبر اکرمؐ کی رسالت کا آغاز یا پیغمبر اکرمؐ کا اسلام پہنچانے پر مامور ہونے کو قرار دیا ہے۔<ref>مراجعہ کریں: طبری، جامع البیان، ۱۴۲۲ق، ج۸، ص۵۶۷-۵۶۹؛ ثعالبی، جواهر الحسان، ۱۴۱۶ق، ج۱، ص۴۴۲؛ سیوطی، الدر المنثور، ۱۴۱۴ق، ج۲، ص۲۹۸؛ ابوحیان، تفسیر البحر المحیط، ۱۹۸۳م، ج۳، ص۵۲۹.</ref>
مفسرین کا کہنا ہے کہ یہ آیت 18 [[ذی الحجہ]] کو رسول خداؐ کی [[حجۃ الوداع]] سے واپسی پر [[غدیر خم]] کے مقام پر نازل ہوئی۔<ref>مراجعہ کریں: قمی، تفسیر القمی، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۱۷۹؛ عیاشی، تفسیر العیاشی، ۱۳۸۰ق، ج۱، ص۳۳۲.</ref> اہل سنت کے مآخذ میں بھی بعض روایات ملتی ہیں جن میں اس آیت کے نزول کے زمان اور مکان کو غدیر خم ذکر کیا ہے۔<ref>مراجعہ کریں: سیوطی، الدر المنثور، ۱۴۱۴ق، ج۲، ص۲۹۸؛ آلوسی، روح المعانی، ۱۴۰۵ق، ج۶، ص۱۹۴.</ref> شیعہ علما، [[شیعہ ائمہ]] اور بعض [[صحابہ]] کی روایات کے پیش نظر آیت تبلیغ کے شان نزول کو واقعہ غدیر اور [[امیرالمومنینؑ]] کی جانشینی قرار دیتے ہیں۔<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۱ق، ج‌۱، ص‌۲۹۰، ح‌۶؛ طبرسی، الاحتجاج، ۱۴۰۱ق، ج۱، ص۵۷؛ ابوالفتوح رازی، روض الجنان و روح الجنان، ۱۳۸۲-۱۳۸۷ش، ج۴، ص۲۷۵-۲۸۱.</ref>جبکہ اہل سنت علما بھی اس آیت کے سبب نزول کو پیغمبر اکرمؐ کی رسالت کا آغاز یا اسلام پہنچانے پر آپؐ کے مامور ہونے کو قرار دیا ہے۔<ref>مراجعہ کریں: طبری، جامع البیان، ۱۴۲۲ق، ج۸، ص۵۶۷-۵۶۹؛ ثعالبی، جواهر الحسان، ۱۴۱۶ق، ج۱، ص۴۴۲؛ سیوطی، الدر المنثور، ۱۴۱۴ق، ج۲، ص۲۹۸؛ ابوحیان، تفسیر البحر المحیط، ۱۹۸۳م، ج۳، ص۵۲۹.</ref>


[[شیعہ]] مآخذ کے مطابق [[جبرائیل امینؑ]] سب سے پہلے [[حجۃ الوداع]] میں [[حج]] کے موقع پر [[رسول اکرمؐ]] کے پاس تشریف لائے اور لوگوں سے [[حضرت علیؑ]] کی جانشینی کیلئے [[بیعت]] لینے کا تقاضا کیا لیکن [[رسول اللہؐ]] کو قریش کی دشمنی اور منافقت نیز امیرالمومنینؑ سے ان کی حسد کے بارے میں جو آگاہی تھی اور تفرقہ بازی اور جاہلیت کی طرف واپس لوٹنے کو دیکھتے تھے اس کے پیش نظر [[اللہ تعالی]] سے حفظ و امان کی دعا کی۔
[[شیعہ]] مآخذ کے مطابق [[جبرائیل امینؑ]] سب سے پہلے [[حجۃ الوداع]] میں [[حج]] کے موقع پر [[رسول اکرمؐ]] کے پاس تشریف لائے اور لوگوں سے [[حضرت علیؑ]] کی جانشینی کیلئے [[بیعت]] لینے کا تقاضا کیا لیکن [[رسول اللہؐ]] کو [[قریش]] کی دشمنی اور منافقت نیز امیرالمومنینؑ سے ان کی [[حسد]] کے بارے میں جو آگاہی تھی اور تفرقہ بازی اور [[جاہلیت]] کی طرف واپس لوٹنے کو دیکھتے تھے اس کے پیش نظر [[اللہ تعالی]] سے حفظ و امان کی دعا کی۔


جبرائیل دوسری مرتبہ [[مسجد خیف]] کے مقام پر رسول اللہ پر نازل ہوئے اور آپ سے دوبارہ لوگوں تک اسی پیغام کو پہنچانے کا تقاضا کیا لیکن اس بار بھی جبرائیل لوگوں سے حفظ و امان کی ضمانت کے بغیر نازل ہوئے۔  
جبرائیل دوسری مرتبہ [[مسجد خیف]] کے مقام پر رسول اللہ پر نازل ہوئے اور آپ سے دوبارہ لوگوں تک اسی پیغام کو پہنچانے کا تقاضا کیا لیکن اس بار بھی جبرائیل لوگوں سے حفظ و امان کی ضمانت کے بغیر نازل ہوئے۔  
سطر 41: سطر 41:
===دیگر احتمالات===
===دیگر احتمالات===
{{امام علی (ع) کی زندگی کے اہم واقعات}}
{{امام علی (ع) کی زندگی کے اہم واقعات}}
اس آیت کی نزول کے اسباب میں بعض دیگر احتمال بھی ذکر ہوئے ہیں جنہیں شیعہ اور سنی علما نے نقد کیا ہے۔
اس آیت کی نزول کے اسباب میں بعض دیگر احتمال بھی ذکر ہوئے ہیں جنہیں شیعہ اور [[سنی]] علما نے نقد کیا ہے۔
====1. آیت کا نزول مکہ میں====
====1. آیت کا نزول مکہ میں====
بعض اہل سنت علما کا خیال ہے کہ یہ آیت مکہ میں پیغمبر اکرمؐ کی رسالت کے ابتدائی ایام میں نازل ہوئی ہے اور اس کے نزول کا مقصد مشرکین اور کفار کو حقائق دین پہنچانا تھا ۔بعض روایات کے مطابق دشمن کی شر سے محفوظ رکھنے کے لئے رسول اللہ کی حفاظت پر افراد معین کئے گئے تھے لیکن اس آیت کے نزول کے بعد ان افراد کو فارغ کیا اور فرمایا کہ اللہ تعالی مجھے دشمنوں کی شر سے محفوظ رکھے گا اسکے علاوہ دینی حقائق کو کسی خوف کے بغیر کفار اور مشرکین تک پہنچانے پر مامور ہوئے۔<ref>مراجعہ کریں: طبری، جامع البیان، ج۴، جزء ۶، ص۱۹۸ـ ۱۹۹؛ ثعالبی، ج۱، ص۴۴۲؛ سیوطی، ج۲، ص۲۹۸</ref>
بعض اہل سنت علما کا خیال ہے کہ یہ آیت مکہ میں پیغمبر اکرمؐ کی رسالت کے ابتدائی ایام میں نازل ہوئی ہے اور اس کے نزول کا مقصد [[مشرک|مشرکین]] اور [[کفار]] کو دینی حقائق پہنچانا تھا۔ بعض روایات کے مطابق دشمن کی شر سے محفوظ رکھنے کے لئے رسول اللہ کی حفاظت پر افراد معین کئے گئے تھے لیکن اس آیت کے نزول کے بعد ان افراد کو فارغ کیا اور فرمایا کہ اللہ تعالی مجھے دشمنوں کی شر سے محفوظ رکھے گا اسکے علاوہ دینی حقائق کو کسی خوف کے بغیر کفار اور مشرکین تک پہنچانے پر مامور ہوئے۔<ref>مراجعہ کریں: طبری، جامع البیان، ج۴، جزء ۶، ص۱۹۸ـ ۱۹۹؛ ثعالبی، ج۱، ص۴۴۲؛ سیوطی، ج۲، ص۲۹۸</ref>


'''نقد'''
'''نقد'''
 
اس نظرئے کی تردید میں کہا گیا ہے کہ: مفسرین اس بات پر متفق ہیں [[سورۂ مائدہ]] [[مدینہ]] میں  نازل ہوئی ہے<ref>ابن عطیہ،المحرر الوجیز، ۱۴۲۲ق، ج۵، ص۵؛ قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ۱۹۶۵م، ج۳، ص۳۰.</ref> نیز [[عبد اللہ بن عمر]] کی روایات کے مطابق سورت مائدہ آخری نازل ہونے والی [[سورت]] ہے<ref>ترمذی، الجامع الصحیح، ۱۴۰۸ق، ج۵، ص۲۶۱، عبداللہ بن عمر سے منقول۔</ref>اس فرض کے مطابق آیت مکہ میں نازل ہوئی ہے اور کئی سال تک کسی بھی سورت سے ملحق ہوئے بغیر رہ گئی ہے جس کو اکیلے ہی تلاوت کی جاتی رہی ہے۔ یا اس کو الگ کر کے رکھا گیا ہے؛ اور یہ فرض صحیح نہیں ہے۔ اکیلا تلاوت کیا جائے<ref>ابن عاشور،6/256</ref>
اس نظرئے کی تردید میں کہا گیا ہے کہ: مفسرین اس بات پر متفق ہیں سورۂ مائدہ مدینہ میں  نازل ہوئی ہے<ref>ابن عطیہ،المحرر الوجیز، ۱۴۲۲ق، ج۵، ص۵؛ قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ۱۹۶۵م، ج۳، ص۳۰.</ref> نیز [[عبد اللہ بن عمر]] کی روایات کے مطابق سورت مائدہ آخری نازل ہونے والی سورت ہے<ref>ترمذی، الجامع الصحیح، ۱۴۰۸ق، ج۵، ص۲۶۱، عبداللہ بن عمر سے منقول۔</ref>اس فرض کے مطابق آیت مکہ میں نازل ہوئی ہے اور کئی سال تک کسی بھی سورت سے ملحق ہوئے بغیر رہ گئی ہے جس کو اکیلے ہی تلاوت کی جاتی ہرے ہے۔ یا اس کو الگ کر کے رکھا گیا ہے؛ اور یہ فرض صحیح نہیں ہے۔ اکیلا تلاوت کیا جائے<ref>ابن عاشور،6/256</ref> ۔ بعض نے مکہ میں رسول اللہ کی جان کی حفاظت سے متعلق روایات کو غریب اور منکر کہا ہے ۔<ref>ابن عاشور، تفسیر التحریر، ۱۹۸۴م، ج۶، ص۲۵۶.</ref>


اس کے علاوہ  جو روایت  پیغمبر اکرمؐ کی مکہ میں جان کی حفاظت کے بارے میں وارد ہوئی ہے بعض مفکروں نے اسے [[حدیث غریب]] اور [[حدیث منکر|منکر]] قرار دیا ہے۔<ref>ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، دار القلم، ج۲، ص۱۳۲.</ref>
اس کے علاوہ  جو روایت  پیغمبر اکرمؐ کی مکہ میں جان کی حفاظت کے بارے میں وارد ہوئی ہے بعض مفکروں نے اسے [[حدیث غریب]] اور [[حدیث منکر|منکر]] قرار دیا ہے۔<ref>ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، دار القلم، ج۲، ص۱۳۲.</ref>


====۲. اہل کتاب کو ابلاغ====
====۲. اہل کتاب کو ابلاغ====
جیسا کہ بعض نے لکھا ہے کہ یہ آیت مدینہ میں نازل ہوئی ہے<ref>ابوحیان، تفسیر البحر المحیط، ۱۹۸۳ق، ج۳، ص۵۲۹.</ref> اور اس کا مقصد رسول اللہ کو موظف کرنا تھا کہ وہ کسی واہمہ کے بغیر اہل کتاب کو وحی کے حقائق ابلاغ کریں <ref>طبری، جامع البیان، ۱۴۲۲ق، ج۴، جزء ۶، ص۱۹۸؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، دار احیاء التراث، ج۱۲، ص۴۰۱.</ref>محمد بن یوسف ابو حیان نے کہا ہے کہ رسول اللہ کو اس آیت کے ذریعے کہا گیا کہ وہ [[رجم|سنگسار]] اور [[قصاص]] کے حکم کو یہودیوں اور مسیحیوں کو پہنچائیں کیونکہ انہوں نے تورات و انجیل میں ان احکام میں تحریف کی تھی ۔  <ref>ابوحیان، تفسیر البحر المحیط، ۱۹۸۳م، ج۳، ص۵۲۹.</ref>
جیسا کہ بعض نے لکھا ہے کہ یہ آیت مدینہ میں نازل ہوئی ہے<ref>ابوحیان، تفسیر البحر المحیط، ۱۹۸۳ق، ج۳، ص۵۲۹.</ref> اور اس کا مقصد رسول اللہ کو موظف کرنا تھا کہ وہ کسی خوف کے بغیر [[اہل کتاب]] کو [[وحی]] کے حقائق ابلاغ کریں <ref>طبری، جامع البیان، ۱۴۲۲ق، ج۴، جزء ۶، ص۱۹۸؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، دار احیاء التراث، ج۱۲، ص۴۰۱.</ref>محمد بن یوسف ابو حیان نے کہا ہے کہ رسول اللہ کو اس آیت کے ذریعے کہا گیا کہ وہ [[رجم|سنگسار]] اور [[قصاص]] کے حکم کو یہودیوں اور مسیحیوں کو پہنچائیں کیونکہ انہوں نے [[تورات]] و [[انجیل]] میں ان احکام میں تحریف کی تھی۔<ref>ابوحیان، تفسیر البحر المحیط، ۱۹۸۳م، ج۳، ص۵۲۹.</ref>


ان کا یہ کہنا ہے کہ اس آیت سے پہلی اور بعد والی آیات اہل کتاب سے مربوط ہیں اور اس آیت کا موضوع بھی اس سے پہلے اور بعد والی آیات سے اجنبی نہیں ہونا چاہئے۔
ان کا یہ کہنا ہے کہ اس [[آیت]] سے پہلی اور بعد والی آیات اہل کتاب سے مربوط ہیں اور اس آیت کا موضوع بھی اس سے پہلے اور بعد والی آیات سے اجنبی نہیں ہونا چاہئے۔


'''نقد'''
'''نقد'''
تاریخی مآخذ کے مطابق مسلمانوں کی یہودیوں سے [[جنگ بنی قریظہ]] اور [[جنگ خیبر]] میں یہودیوں کا غرور اور زور ٹوٹ گیا تھا اور ان کے مراکز پر کنٹرول کرنے اور بعض کو مدینہ سے جلاوطن کرنے کے بعد ان کا اثر رسوخ ماند پڑگیا۔<ref>احزاب:۲۶ـ۲۷؛ حشر:۲ـ۴.</ref> جبکہ حجاز کے عیسائی خاص طور پر مدینہ میں اس قدر قدرت مند نہیں تھے اور مسلمانوں کے ساتھ صرف مباہلے میں آمنے سامنے ہوئے تھے۔<ref>آل عمران:۶۱.</ref> اور وہ بھی خود ہی انکی فرمائش پر منسوخ ہوا۔
تاریخی مآخذ کے مطابق [[مسلمانوں]] کی یہودیوں سے [[جنگ بنی قریظہ]] اور [[جنگ خیبر]] میں یہودیوں کا غرور اور زور ٹوٹ گیا تھا اور ان کے مراکز پر کنٹرول کرنے اور بعض کو مدینہ سے جلاوطن کرنے کے بعد ان کا اثر رسوخ ماند پڑگیا۔<ref>احزاب:۲۶ـ۲۷؛ حشر:۲ـ۴.</ref> جبکہ [[حجاز]] کے عیسائی خاص طور پر مدینہ میں اس قدر قدرت مند نہیں تھے اور مسلمانوں کے ساتھ صرف [[مباہلہ|مباہلے]] میں آمنے سامنے ہوئے تھے۔<ref>آل عمران:۶۱.</ref> اور وہ بھی خود ہی انکی فرمائش پر منسوخ ہوا۔


پس ان حقائق کی روشنی میں رسول خدا اور مسلمانوں کو رسول خداؐ کی عمر کے آخری سالوں میں یہود اور نصاری سے کسی قسم کا خوف اور پریشانی لاحق نہیں تھی کہ جو کسی قسم کے پیغام کو ان تک ابلاغ کرنے میں رکاوٹ بنے ۔اسکے علاوہ مذکورہ آیت موضوع کے لحاظ سے پہلی اور بعد والی آیات سے اجنبی نہیں بلکہ سازگار ہے کیونکہ مذکورہ آیت سے پہلی اور بعد والی آیات یہود اور نصارا کی مذمت میں نازل ہوئی ہیں چونکہ وہ یہ خیال کرتے تھے کہ رسول خدا کی رحلت کے ساتھ ہی مسلمانوں کی قدرت کا خاتمہ ہو جائے گا اور انہیں دوبارہ نفوذ و قدرت حاصل کرنے کا موقع فراہم ہوگا ۔ لیکن اس آیت تبلیغ میں پیغمبر اکرمؐ کے بعد کی امت اسلامیہ کی رہبری کے تعین کے ذریعے ان کے اس خیال کا بطلان کو ظاہر کیا گیا نیز یہ مطلب [[آیت اکمال]] سے سازگار بہے جو علیؑ کی ولایت کے اعلان کے بعد نازل ہوئی۔<ref>طوسی، ج ۳، ص ۴۳۵ ۔ فضل طبرسی، ۱۴۰۸، ج ۳، ص ۲۴۶ ۔ حویزی، ج ۱، ص ۵۸۷ ـ۵۹۰</ref>
پس ان حقائق کی روشنی میں رسول خدا اور مسلمانوں کو رسول خداؐ کی عمر کے آخری سالوں میں [[یہود]] اور [[نصاری]] سے کسی قسم کا خوف اور پریشانی لاحق نہیں تھی کہ جو کسی قسم کے پیغام کو ان تک ابلاغ کرنے میں رکاوٹ بنے ۔اسکے علاوہ مذکورہ آیت موضوع کے لحاظ سے پہلی اور بعد والی آیات سے اجنبی نہیں بلکہ سازگار ہے کیونکہ مذکورہ آیت سے پہلی اور بعد والی آیات یہود اور نصارا کی مذمت میں نازل ہوئی ہیں چونکہ وہ یہ خیال کرتے تھے کہ رسول خدا کی رحلت کے ساتھ ہی مسلمانوں کی قدرت کا خاتمہ ہو جائے گا اور انہیں دوبارہ نفوذ و قدرت حاصل کرنے کا موقع فراہم ہوگا ۔ لیکن اس آیت تبلیغ میں پیغمبر اکرمؐ کے بعد کی امت اسلامیہ کی رہبری کے تعین کے ذریعے ان کے اس خیال کا بطلان کو ظاہر کیا گیا نیز یہ مطلب [[آیت اکمال]] سے سازگار بہے جو [[حضرت علیؑ]] کی ولایت کے اعلان کے بعد نازل ہوئی۔<ref>طوسی، ج ۳، ص ۴۳۵ ۔ فضل طبرسی، ۱۴۰۸، ج ۳، ص ۲۴۶ ۔ حویزی، ج ۱، ص ۵۸۷ ـ۵۹۰</ref>


==اہم نکات==
==اہم نکات==
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
9,096

ترامیم