مندرجات کا رخ کریں

"عبد اللہ بن زبیر" کے نسخوں کے درمیان فرق

imported>E.musavi
imported>E.musavi
سطر 34: سطر 34:
ابن زبیر نے سات یا آٹھ سال کی عمر میں دوسرے مسلمان بچوں کے ہمراہ [[محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول]] اللہ کی بیعت کی۔ اس بنا پر اسے [[صحابہ|صحابہ صِغار]] سے شمار کرتے ہیں۔<ref>الاصابہ، ج۴، ص۸۱؛ تاریخ الاسلام، ج۵، ص۴۳۰؛ سیر اعلام النبلاء، ج۳، ص۳۶۴.</ref>
ابن زبیر نے سات یا آٹھ سال کی عمر میں دوسرے مسلمان بچوں کے ہمراہ [[محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول]] اللہ کی بیعت کی۔ اس بنا پر اسے [[صحابہ|صحابہ صِغار]] سے شمار کرتے ہیں۔<ref>الاصابہ، ج۴، ص۸۱؛ تاریخ الاسلام، ج۵، ص۴۳۰؛ سیر اعلام النبلاء، ج۳، ص۳۶۴.</ref>


==رحلت پیغمبر(ص) کے بعد ==
==رحلت پیغمبر(ص) کے بعد==
ابن زبیر رسول کی حیات طیبہ میں کمسن تھا لہذا اس بنا پر سیاسی اور معاشرتی حوالے سے اسکے متلعق کوئی معلومات نہیں ہے ۔صرف کہا گیا  ہے کہ اس نے خلافت ابوبکر میں رومیوں کے خلاف [[جنگ یرموک]](سال۱۵ق./۶۳۶م.) کے معرکے میں اپنے باپ کے ساتھ شریک ہوا لیکن کمسنی کی وجہ سے جنگ میں حصہ نہیں لیا ۔ <ref>نک: تاریخ طبری، ج۳، ص۵۷۱؛ الاصابہ، ج۳، ص۳۳۴.</ref>   آہستہ آہستہ عبدالله بن زبیر کا نام عثمان کی خلافت میں لیا جانے لگا اور اسکا نام مختلف جہتوں سے مذکور ہے ۔طبری(م. ۳۱۰ق.) کے مطابق ایران کے شمالی مناطق جو ابھی ([[خراسان بزرگ|خراسان قدیم]]) ہے ، میں ۲۹-۳۰ق. میں سعید بن العاص کے ساتھ تھا ۔<ref>تاریخ الطبری،ج۴،ص:۲۷۰؛ اسی طرح نک: دائرةالمعارف اسلام، ج۱، ص۵۵، ذیل مدخل “ʿAbd Allāh b. al-Zubayr”</ref> عثمان کے دور خلافت میں قرآنی نسخوں کی جمع آوری کے ماجرے میں قرآن کے کاتبوں میں سے تھا ۔<ref>انساب الاشراف، ج۱۰، ص۱۷۶؛ اسد الغابہ، ج۳، ص۳۲۸؛ البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۳۳۵.</ref>  وہ ۲۷ یا ۲۸ق. میں عبدالله بن سعد بن ابی‌سَرْح کی سربرابراہی میں اندلس کے حملے میں شریک تھا  ۔خود اس سے نقل کرتے ہیں کہ دشمن کے سپہ سالار کا قتل مسلمانوں کی کامیابی کا باعث بنا ۔<ref>فتوح البلدان، ص۲۲۴؛ المنتظم، ج۴، ص۳۴۴.</ref>ابن زبیر نے اپنے باپ اور اپنی خالہ [[عایشه|عائشہ]] کے بر عکس  عثمان کے گھر پر لوگوں کے حملے کے ماجرے میں عثمان کی مدد کی اور اس سے دفاع کرتا رہا۔<ref>تاریخ خلیفہ، ص۱۰۲؛ البدایہ و النہایہ، ج۷، ص۱۸۱.</ref> مخالفین کا سامنا کرتے ہوئے اس نے عثمان کی نمائندگی کی اور اسکے گھر کے محاصرے کے دوران نماز جماعت کی امامت کے فرائض انجام دئے نیز اس ماجرے میں زخمی بھی ہوا ۔ <ref>الطبقات، ج۲، ص۳۶؛ انساب الاشراف، ج۵، ص۵۶۴.</ref>
ابن زبیر رسول کی حیات طیبہ میں کمسن تھا لہذا اس بنا پر سیاسی اور معاشرتی حوالے سے اسکے متلعق کوئی معلومات نہیں ہے۔ صرف کہا گیا  ہے کہ اس نے خلافت ابوبکر میں رومیوں کے خلاف [[جنگ یرموک]] (سال۱۵ ھ/۶۳۶ ء) کے معرکے میں اپنے باپ کے ساتھ شریک ہوا لیکن کمسنی کی وجہ سے جنگ میں حصہ نہیں لیا۔<ref>نک: تاریخ طبری، ج۳، ص۵۷۱؛ الاصابہ، ج۳، ص۳۳۴.</ref> آہستہ آہستہ عبدالله بن زبیر کا نام عثمان کی خلافت میں لیا جانے لگا اور اسکا نام مختلف جہتوں سے مذکور ہے۔ طبری(م. ۳۱۰ق.) کے مطابق ایران کے شمالی مناطق جو ابھی ([[خراسان بزرگ|خراسان قدیم]]) ہے، میں ۲۹-۳۰ق. میں سعید بن العاص کے ساتھ تھا۔<ref>تاریخ الطبری،ج۴،ص:۲۷۰؛ اسی طرح نک: دائرةالمعارف اسلام، ج۱، ص۵۵، ذیل مدخل “ʿAbd Allāh b. al-Zubayr”</ref> عثمان کے دور خلافت میں قرآنی نسخوں کی جمع آوری کے ماجرے میں قرآن کے کاتبوں میں سے تھا۔<ref>انساب الاشراف، ج۱۰، ص۱۷۶؛ اسد الغابہ، ج۳، ص۳۲۸؛ البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۳۳۵.</ref>  وہ ۲۷ یا ۲۸ق. میں عبدالله بن سعد بن ابی‌سَرْح کی سربرابراہی میں اندلس کے حملے میں شریک تھا  ۔خود اس سے نقل کرتے ہیں کہ دشمن کے سپہ سالار کا قتل مسلمانوں کی کامیابی کا باعث بنا۔<ref>فتوح البلدان، ص۲۲۴؛ المنتظم، ج۴، ص۳۴۴.</ref>ابن زبیر نے اپنے باپ اور اپنی خالہ [[عایشه|عائشہ]] کے بر عکس  عثمان کے گھر پر لوگوں کے حملے کے ماجرے میں عثمان کی مدد کی اور اس سے دفاع کرتا رہا۔<ref>تاریخ خلیفہ، ص۱۰۲؛ البدایہ و النہایہ، ج۷، ص۱۸۱.</ref> مخالفین کا سامنا کرتے ہوئے اس نے عثمان کی نمائندگی کی اور اسکے گھر کے محاصرے کے دوران نماز جماعت کی امامت کے فرائض انجام دئے نیز اس ماجرے میں زخمی بھی ہوا۔<ref>الطبقات، ج۲، ص۳۶؛ انساب الاشراف، ج۵، ص۵۶۴.</ref>
===امام علی(ع) کی خلافت ===
===امام علی(ع) کی خلافت ===
ابن زبیر نے خلافت علی کے دوران انکی مخالفت کا راستہ اختیار کیا ۔اس زمانے کے اہم ترین اقدام حضرت علی کی مخالفت ،جنگ جمل میں شرکت اور امام علی کے خلاف شورشوں کے حالات مہیا کرنا تھے۔کہتے ہیں کہ اس جنگ میں اسے تقریبا تیس (30) زخم لگے ۔ <ref>ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج۱، ص۲۶۵.</ref> اپنے باپ کو حضرت علی کے خلاف ابھارنے میں اس کا کردار ادا کیا  ،اسطرح سے کہ امام علی سے روایت میں ابن زبیر کی اہل بیت سے جدائی کا سبب مذکور ہے ۔ <ref>الامامہ و السیاسہ، ج۱، ص۲۸؛ اسد الغابہ، ج۳، ص۱۳۹.</ref> جنگ سے پہلے اسے خبر ملی کہ اسکا باپ زبیر اپنے کئے پر پشیمان ہے اور جنگ سے کنارہ کشی اختیار کرنا چاہتا ہے لہذا وہ چاہتا ہے کہ  میدان جنگ میں نہ جائے لیکن زبیر اس میں کامیاب نہ ہوا ۔ <ref>الفتوح، ج۲، ص۴۷۰؛ مروج الذہب، ج۲، ص۳۶۳.</ref> حضرت [[عائشہ]]اور ابن زبیر کے درمیان انس و محبت   کا رابطہ تھا ۔<ref>در این باره نک: نجاتی، دانشنامہ حج و حرمین شریفین، ذیل مدخل «ابن زبیر»(http://hajj.ir/99/3019)</ref>، حضرت عائشہ نے موت کے وقت اسے اپنا وصی بنایا <ref>نک: فتح الباری، ج۴، ص۴۷۶.</ref> اور بعض قرائن سے معلوم ہوتا ہے جنگ جمل  میں عائشہ اس کے تحت تاثیر تھی ۔ <ref>نک: الاستیعاب، ج۳، ص۹۱۰؛ تاریخ الاسلام، ج۴، ص۲۴۶.</ref>
ابن زبیر نے خلافت علی کے دوران انکی مخالفت کا راستہ اختیار کیا۔ اس زمانے کے اہم ترین اقدام حضرت علی کی مخالفت، جنگ جمل میں شرکت اور امام علی کے خلاف شورشوں کے حالات مہیا کرنا تھے۔ کہتے ہیں کہ اس جنگ میں اسے تقریبا تیس (30) زخم لگے۔<ref>ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج۱، ص۲۶۵.</ref> اپنے باپ کو حضرت علی کے خلاف ابھارنے میں اس کا کردار ادا کیا، اسطرح سے کہ امام علی سے روایت میں ابن زبیر کی اہل بیت سے جدائی کا سبب مذکور ہے۔<ref>الامامہ و السیاسہ، ج۱، ص۲۸؛ اسد الغابہ، ج۳، ص۱۳۹.</ref> جنگ سے پہلے اسے خبر ملی کہ اسکا باپ زبیر اپنے کئے پر پشیمان ہے اور جنگ سے کنارہ کشی اختیار کرنا چاہتا ہے لہذا وہ چاہتا ہے کہ  میدان جنگ میں نہ جائے لیکن زبیر اس میں کامیاب نہ ہوا۔<ref>الفتوح، ج۲، ص۴۷۰؛ مروج الذہب، ج۲، ص۳۶۳.</ref> حضرت [[عائشہ]]اور ابن زبیر کے درمیان انس و محبت کا رابطہ تھا۔<ref>در این باره نک: نجاتی، دانشنامہ حج و حرمین شریفین، ذیل مدخل «ابن زبیر»(http://hajj.ir/99/3019)</ref>، حضرت عائشہ نے موت کے وقت اسے اپنا وصی بنایا<ref>نک: فتح الباری، ج۴، ص۴۷۶.</ref> اور بعض قرائن سے معلوم ہوتا ہے جنگ جمل  میں عائشہ اس کے تحت تاثیر تھی۔<ref>نک: الاستیعاب، ج۳، ص۹۱۰؛ تاریخ الاسلام، ج۴، ص۲۴۶.</ref>


جنگ جمل کے موقع پر ابن زبیر کی سرکردگی میں پیادہ لشکر نے بصرے کے [[عثمان بن حنیف|عثمان بن حُنَیف]] کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے کی مخالفت کی اور ۴۰ مسلمان محافظوں کو قتل کیا اور بیت المال لوٹا جبکہ اس معاہدے کی رو سے یہ طے پایا تھا کہ حضرت امام علی کے آنے تک فریقین جنگ نہیں کریں گے ۔ <ref>فتوح البلدان، ص۳۶۵؛ الاستیعاب، ج۱، ص۳۶۸.</ref>
جنگ جمل کے موقع پر ابن زبیر کی سرکردگی میں پیادہ لشکر نے بصرے کے [[عثمان بن حنیف|عثمان بن حُنَیف]] کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے کی مخالفت کی اور ۴۰ مسلمان محافظوں کو قتل کیا اور بیت المال لوٹا جبکہ اس معاہدے کی رو سے یہ طے پایا تھا کہ امام علی کے آنے تک فریقین جنگ نہیں کریں گے۔<ref>فتوح البلدان، ص۳۶۵؛ الاستیعاب، ج۱، ص۳۶۸.</ref>


==قیام اور خلافت==
==قیام اور خلافت==
گمنام صارف