مندرجات کا رخ کریں

"عبد اللہ بن زبیر" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
imported>Mabbassi
imported>Mabbassi
سطر 25: سطر 25:
[[معاویہ]] کے مرنے کے بعد عبدالله بن زبیر نے  [[یزید]] کی بیعت نہیں کی اور امویوں کے خلاف قیام کے راستے کو اپنایا۔تاریخی  منابع میں اس قیام کے مختلف نظریے بیان ہوئے ہیں ؛ان میں سے ایک  [[خلافت]] کا حصول تھا۔ بعض روایات کے مطابق  ابن زبیر [[امام حسین(ع)]] کے وجود کو اپنی آرزو کی تکمیل میں رکاوٹ سمجھتا تھا کیونکہ جب تک امام حسین(ع) جیسے شخصیت حجاز میں موجود ہو گی لوگ اسکی رہبری کو قبول نہیں کریں گے ،جب اسے امام حسین کے کوفہ جانے کے ارادے کا پتہ چلا تو وہ انہیں کوفہ جانے کی ترغیب دیتا رہا ۔<ref> فرزندان آل ابی طالب/ترجمہ،ج۱،ص:۱۶۴.</ref>
[[معاویہ]] کے مرنے کے بعد عبدالله بن زبیر نے  [[یزید]] کی بیعت نہیں کی اور امویوں کے خلاف قیام کے راستے کو اپنایا۔تاریخی  منابع میں اس قیام کے مختلف نظریے بیان ہوئے ہیں ؛ان میں سے ایک  [[خلافت]] کا حصول تھا۔ بعض روایات کے مطابق  ابن زبیر [[امام حسین(ع)]] کے وجود کو اپنی آرزو کی تکمیل میں رکاوٹ سمجھتا تھا کیونکہ جب تک امام حسین(ع) جیسے شخصیت حجاز میں موجود ہو گی لوگ اسکی رہبری کو قبول نہیں کریں گے ،جب اسے امام حسین کے کوفہ جانے کے ارادے کا پتہ چلا تو وہ انہیں کوفہ جانے کی ترغیب دیتا رہا ۔<ref> فرزندان آل ابی طالب/ترجمہ،ج۱،ص:۱۶۴.</ref>
ابن‌ زبیر  پیامبر(ص) اور ان کی دو زوجات  [[حضرت خدیجہ کبری سلام الله علیہا|خدیجہ]] اور حضرت [[عائشہ]] سے نزدیکی رشتہ رکھتا تھا ۔اسکا باپ [[صحابہ]] کی نسبت رسول خدا سے زیادہ نزدیک تھا اور اسے اپنے باپ کے  [[چھ رکنی شوریٰ]] میں ایک ممبر ہونے کی خصوصیت بھی حاصل تھی ۔ <ref>درباره شورا نک: تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۶۰؛ الامامہ و السیاسہ، ج۱، ص۴۲.</ref> مزید یہ کہ وہ مدعی تھا کہ عثمان نے اسے خلافت دینے کا عہد کیا تھا ۔ان  تمام عوامل کے پیش نظر وہ اپنے آپ کو بنی امیہ کی نسبت خلافت کا زیادہ مستحق سمجھتا تھا ۔  
ابن‌ زبیر  پیامبر(ص) اور ان کی دو زوجات  [[حضرت خدیجہ کبری سلام الله علیہا|خدیجہ]] اور حضرت [[عائشہ]] سے نزدیکی رشتہ رکھتا تھا ۔اسکا باپ [[صحابہ]] کی نسبت رسول خدا سے زیادہ نزدیک تھا اور اسے اپنے باپ کے  [[چھ رکنی شوریٰ]] میں ایک ممبر ہونے کی خصوصیت بھی حاصل تھی ۔ <ref>درباره شورا نک: تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۶۰؛ الامامہ و السیاسہ، ج۱، ص۴۲.</ref> مزید یہ کہ وہ مدعی تھا کہ عثمان نے اسے خلافت دینے کا عہد کیا تھا ۔ان  تمام عوامل کے پیش نظر وہ اپنے آپ کو بنی امیہ کی نسبت خلافت کا زیادہ مستحق سمجھتا تھا ۔  
<!--
 
معاویہ نے امام علی کی [[شہادت]] کے بعد ابن زبیر کو دھمکانے اور لالچ کے ذریعے اپنی بیعت <ref>البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۳۳۸؛ اخبار الدولۃ العباسیہ، ص۶۰.</ref> اور قسطنتنیہ پر حملے میں اپنے ساتھ رکھ سکا <ref>تاریخ الاسلام، ج۵، ص۴۳۶؛ تاریخ ابن خلدون، ج۳، ص۱۲.</ref> لیکن اپنے مرنے کے بعد اپنے جانشین یزید کی بیعت نہ کرنے پر اسے تہدید بھی کی ۔<ref>نساب الاشراف، ج۵، ص۱۴۵؛ الاخبار الطوال، ص۲۲۶.</ref> معاویہ کی وفات کے بعد اسکی نصیحت کے مطابق یزید نے ابن زبیر سے بیعت کے حصول کیلئے دباؤ ڈالا اور اسے جان سے مار دینے کی دھمکی لہذا ابن زبیر نے اس خوف سے مکہ میں خانۂ خدا میں پناہ لی ۔<ref>انساب الاشراف، ج۵، ص۳۱۴؛ تاریخ طبری، ج۵، ص۳۳۹.</ref> وہ اپنے آپ کو  '''عائذ البیت''' (خانۂ خدا میں پناہ لینے والا) لے لقب سے یاد کرتا ۔<ref>المصنف، ابن ابی شیبہ، ج۸، ص۶۰۸؛ صحیح مسلم، ج۸، ص۱۶۷.</ref> که گویا اشاره به روایتی دارد که بنابر آن، شخصی از دست ستمکاران به کعبه پناه خواهد برد و عاقبت، دشمنان ستمگرش نابود خواهند شد.<ref>المصنف، ابن ابی شیبہ، ج۸، ص۶۰۸؛ صحیح مسلم، ج۸، ص۱۶۷.</ref>
معاویہ نے امام علی کی [[شہادت]] کے بعد ابن زبیر کو دھمکانے اور لالچ کے ذریعے اپنی بیعت <ref>البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۳۳۸؛ اخبار الدولۃ العباسیہ، ص۶۰.</ref> اور قسطنتنیہ پر حملے میں اپنے ساتھ رکھ سکا <ref>تاریخ الاسلام، ج۵، ص۴۳۶؛ تاریخ ابن خلدون، ج۳، ص۱۲.</ref> لیکن اپنے مرنے کے بعد اپنے جانشین یزید کی بیعت نہ کرنے پر اسے تہدید بھی کی ۔<ref>نساب الاشراف، ج۵، ص۱۴۵؛ الاخبار الطوال، ص۲۲۶.</ref> معاویہ کی وفات کے بعد اسکی نصیحت کے مطابق یزید نے ابن زبیر سے بیعت کے حصول کیلئے دباؤ ڈالا اور اسے جان سے مار دینے کی دھمکی لہذا ابن زبیر نے اس خوف سے مکہ میں خانۂ خدا میں پناہ لی ۔<ref>انساب الاشراف، ج۵، ص۳۱۴؛ تاریخ طبری، ج۵، ص۳۳۹.</ref> وہ اپنے آپ کو  '''عائذ البیت''' (خانۂ خدا میں پناہ لینے والا) لے لقب سے یاد کرتا ۔<ref>المصنف، ابن ابی شیبہ، ج۸، ص۶۰۸؛ صحیح مسلم، ج۸، ص۱۶۷.</ref> که گویا اشاره به روایتی دارد که بنابر آن، شخصی از دست ستمکاران به کعبه پناه خواهد برد و عاقبت، دشمنان ستمگرش نابود خواهند شد.<ref>المصنف، ابن ابی شیبہ، ج۸، ص۶۰۸؛ صحیح مسلم، ج۸، ص۱۶۷.</ref>


گمنام صارف