مندرجات کا رخ کریں

"عبد اللہ بن زبیر" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
imported>Mabbassi
imported>Mabbassi
سطر 26: سطر 26:
ابن‌ زبیر  پیامبر(ص) اور ان کی دو زوجات  [[حضرت خدیجہ کبری سلام الله علیہا|خدیجہ]] اور حضرت [[عائشہ]] سے نزدیکی رشتہ رکھتا تھا ۔اسکا باپ [[صحابہ]] کی نسبت رسول خدا سے زیادہ نزدیک تھا اور اسے اپنے باپ کے  [[چھ رکنی شوریٰ]] میں ایک ممبر ہونے کی خصوصیت بھی حاصل تھی ۔ <ref>درباره شورا نک: تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۶۰؛ الامامہ و السیاسہ، ج۱، ص۴۲.</ref> مزید یہ کہ وہ مدعی تھا کہ عثمان نے اسے خلافت دینے کا عہد کیا تھا ۔ان  تمام عوامل کے پیش نظر وہ اپنے آپ کو بنی امیہ کی نسبت خلافت کا زیادہ مستحق سمجھتا تھا ۔  
ابن‌ زبیر  پیامبر(ص) اور ان کی دو زوجات  [[حضرت خدیجہ کبری سلام الله علیہا|خدیجہ]] اور حضرت [[عائشہ]] سے نزدیکی رشتہ رکھتا تھا ۔اسکا باپ [[صحابہ]] کی نسبت رسول خدا سے زیادہ نزدیک تھا اور اسے اپنے باپ کے  [[چھ رکنی شوریٰ]] میں ایک ممبر ہونے کی خصوصیت بھی حاصل تھی ۔ <ref>درباره شورا نک: تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۶۰؛ الامامہ و السیاسہ، ج۱، ص۴۲.</ref> مزید یہ کہ وہ مدعی تھا کہ عثمان نے اسے خلافت دینے کا عہد کیا تھا ۔ان  تمام عوامل کے پیش نظر وہ اپنے آپ کو بنی امیہ کی نسبت خلافت کا زیادہ مستحق سمجھتا تھا ۔  


معاویہ نے امام علی کی [[شہادت]] کے بعد ابن زبیر کو دھمکانے اور لالچ کے ذریعے اپنی بیعت <ref>البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۳۳۸؛ اخبار الدولۃ العباسیہ، ص۶۰.</ref> اور قسطنتنیہ پر حملے میں اپنے ساتھ رکھ سکا <ref>تاریخ الاسلام، ج۵، ص۴۳۶؛ تاریخ ابن خلدون، ج۳، ص۱۲.</ref> لیکن اپنے مرنے کے بعد اپنے جانشین یزید کی بیعت نہ کرنے پر اسے تہدید بھی کی ۔<ref>نساب الاشراف، ج۵، ص۱۴۵؛ الاخبار الطوال، ص۲۲۶.</ref> معاویہ کی وفات کے بعد اسکی نصیحت کے مطابق یزید نے ابن زبیر سے بیعت کے حصول کیلئے دباؤ ڈالا اور اسے جان سے مار دینے کی دھمکی لہذا ابن زبیر نے اس خوف سے مکہ میں خانۂ خدا میں پناہ لی ۔<ref>انساب الاشراف، ج۵، ص۳۱۴؛ تاریخ طبری، ج۵، ص۳۳۹.</ref> وہ اپنے آپ کو  '''عائذ البیت''' (خانۂ خدا میں پناہ لینے والا) لے لقب سے یاد کرتا ۔<ref>المصنف، ابن ابی شیبہ، ج۸، ص۶۰۸؛ صحیح مسلم، ج۸، ص۱۶۷.</ref> که گویا اشاره به روایتی دارد که بنابر آن، شخصی از دست ستمکاران به کعبه پناه خواهد برد و عاقبت، دشمنان ستمگرش نابود خواهند شد.<ref>المصنف، ابن ابی شیبہ، ج۸، ص۶۰۸؛ صحیح مسلم، ج۸، ص۱۶۷.</ref>
معاویہ نے امام علی کی [[شہادت]] کے بعد ابن زبیر کو دھمکانے اور لالچ کے ذریعے اپنی بیعت <ref>البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۳۳۸؛ اخبار الدولۃ العباسیہ، ص۶۰.</ref> اور قسطنتنیہ پر حملے میں اپنے ساتھ رکھ سکا <ref>تاریخ الاسلام، ج۵، ص۴۳۶؛ تاریخ ابن خلدون، ج۳، ص۱۲.</ref> لیکن اپنے مرنے کے بعد اپنے جانشین یزید کی بیعت نہ کرنے پر اسے تہدید بھی کی ۔<ref>نساب الاشراف، ج۵، ص۱۴۵؛ الاخبار الطوال، ص۲۲۶.</ref> معاویہ کی وفات کے بعد اسکی نصیحت کے مطابق یزید نے ابن زبیر سے بیعت کے حصول کیلئے دباؤ ڈالا اور اسے جان سے مار دینے کی دھمکی لہذا ابن زبیر نے اس خوف سے مکہ میں خانۂ خدا میں پناہ لی ۔<ref>انساب الاشراف، ج۵، ص۳۱۴؛ تاریخ طبری، ج۵، ص۳۳۹.</ref> وہ اپنے آپ کو  '''عائذ البیت''' (خانۂ خدا میں پناہ لینے والا) لے لقب سے یاد کرتا ۔<ref>المصنف، ابن ابی شیبہ، ج۸، ص۶۰۸؛ صحیح مسلم، ج۸، ص۱۶۷.</ref> گویا ایک روایت کی طرف اشارہ ہے کہ جسکی بنا پر ایک شخص ستمکاروں کے ستم کی وجہ سے کعبہ کو پناہ قرار دے گا اور ستمکار نابود ہو جائیں گے ۔ <ref>المصنف، ابن ابی شیبہ، ج۸، ص۶۰۸؛ صحیح مسلم، ج۸، ص۱۶۷.</ref>


ابن زبیر نے شروع میں ظاہر کیا کہ وہ یزید کی  بیعت کرے گا اور کچھ مدت اسی طرح گزر گئی ۔ مکہ میں واقعہ کربلا پہنچنے کے بعد ایک نہایت جوشیلا خطبہ دیا، گریہ کیا اور کنایتی انداز میں خلافت کیلئے یزید کے غیر موزوں اور نالائق کہا۔<ref>انساب الاشراف، ج۵، ص۳۱۹؛ المنتظم، ج۵، ص۳۴۷.</ref> بالآخر یزید نے اسے انی بیعت کرنے کا حکم دیا اور چاندی سے بنی ہوئی زنجیریں اس کے لیے بھیجیں اور چاہا کہ وہ بیعت کے ذریعے اسکی فرمانبرداری کا اظہار کرے اور اسکے پاس آئے لیکن ابن زبیر نے قبول نہیں کیا ۔ <ref>انساب الاشراف، ج۵، ص۳۲۷-۳۲۸؛ تاریخ طبری، ج۵، ص۴۷۵.</ref>
ابن زبیر نے شروع میں ظاہر کیا کہ وہ یزید کی  بیعت کرے گا اور کچھ مدت اسی طرح گزر گئی ۔ مکہ میں واقعہ کربلا پہنچنے کے بعد ایک نہایت جوشیلا خطبہ دیا، گریہ کیا اور کنایتی انداز میں خلافت کیلئے یزید کے غیر موزوں اور نالائق کہا۔<ref>انساب الاشراف، ج۵، ص۳۱۹؛ المنتظم، ج۵، ص۳۴۷.</ref> بالآخر یزید نے اسے انی بیعت کرنے کا حکم دیا اور چاندی سے بنی ہوئی زنجیریں اس کے لیے بھیجیں اور چاہا کہ وہ بیعت کے ذریعے اسکی فرمانبرداری کا اظہار کرے اور اسکے پاس آئے لیکن ابن زبیر نے قبول نہیں کیا ۔ <ref>انساب الاشراف، ج۵، ص۳۲۷-۳۲۸؛ تاریخ طبری، ج۵، ص۴۷۵.</ref>


مدینے اور مکے کے حاکم عمرو بن سعید نے یزید کے فرمان پر ایک مختصر فوجی دستہ بیعت لینے کیلئے  ابن زبیر کی طرف روانہ کیا لیکن انہوں نے  ابن زبیر کی سپاہ سے شکست کھائی ۔ <ref>الطبقات، ج۵، ص۱۴۱؛ انساب الاشراف، ج۵، ص۳۳۰.</ref> اس دستے کا سربراہ ابن زبیر کا سوتیلا بھائی تھا <ref>نک: الطبقات، ج۵، ص۱۴۱؛ تاریخ الاسلام، ج۵، ص۱۹۸.</ref> وہ اس جنگ میں اسیر ہو کر زندان میں قتل ہوا۔ <ref>انساب الاشراف، ج۵، ص۳۳۱.</ref> اس وقت عملی طور پر مکہ ابن زبیر کے ہاتھ میں تھا <ref>حوالے کی ضرورت ہے ۔</ref>۔ مدینہ بھی واقعۂ کربلا اور یزید کی نالائقی کی بنا پر ابن زبیر کی طرف جھکاؤ رکھتا تھا ۔ مدینے کے جوان حاکم عثمان بن محمد بن ابی ­سفیان نے حج کے بعد مدینے کے نمایا شخصیات کا ایک وفد شام روانہ کیا کہ شاید انعام و اکرام یزید کے ذریعے ان کی دلجوئی شاید حالات مدینہ پر سکون ہو جائیں اور مدینے کی بے چینی کا خاتمہ ہو۔<ref>مسکویہ، ج۲، ص۸۵.</ref> لیکن اسکی وجہ سے یزید کی خلافت کیلئے نالائقی اور عیان ہو گئی ۔ اس وفد کے سامنے یزید کی غیر اسلامی رفتار نے اس وفد کو مزید ناراض اور ناراحت کیا  ۔اس وفد نے مدینہ واپسی پر اسکی خلافت کی نسبت ناشائستگی کو کھل کر لوگوں کے سامنے بیان کیا اور اسے برا بھلا کہا ۔ اسکے جواب میں یزید نے ایک بہت سخت لہجے میں مدینہ کے لوگوں کو خط لکھا ۔ <ref>تجارب الأمم، پیشین، ج ۲، ص۸۵ و تاریخ الطبری، ج ۵، ص۴۸۰.</ref>
مدینے اور مکے کے حاکم عمرو بن سعید نے یزید کے فرمان پر ایک مختصر فوجی دستہ بیعت لینے کیلئے  ابن زبیر کی طرف روانہ کیا لیکن انہوں نے  ابن زبیر کی سپاہ سے شکست کھائی ۔ <ref>الطبقات، ج۵، ص۱۴۱؛ انساب الاشراف، ج۵، ص۳۳۰.</ref> اس دستے کا سربراہ ابن زبیر کا سوتیلا بھائی تھا <ref>نک: الطبقات، ج۵، ص۱۴۱؛ تاریخ الاسلام، ج۵، ص۱۹۸.</ref> وہ اس جنگ میں اسیر ہو کر زندان میں قتل ہوا۔ <ref>انساب الاشراف، ج۵، ص۳۳۱.</ref> اس وقت عملی طور پر مکہ ابن زبیر کے ہاتھ میں تھا <ref>حوالے کی ضرورت ہے ۔</ref>۔ مدینہ بھی واقعۂ کربلا اور یزید کی نالائقی کی بنا پر ابن زبیر کی طرف جھکاؤ رکھتا تھا ۔ مدینے کے جوان حاکم عثمان بن محمد بن ابی ­سفیان نے حج کے بعد مدینے کے نمایا شخصیات کا ایک وفد شام روانہ کیا کہ شاید انعام و اکرام یزید کے ذریعے ان کی دلجوئی شاید حالات مدینہ پر سکون ہو جائیں اور مدینے کی بے چینی کا خاتمہ ہو۔<ref>مسکویہ، ج۲، ص۸۵.</ref> لیکن اسکی وجہ سے یزید کی خلافت کیلئے نالائقی اور عیان ہو گئی ۔ اس وفد کے سامنے یزید کی غیر اسلامی رفتار نے اس وفد کو مزید ناراض اور ناراحت کیا  ۔اس وفد نے مدینہ واپسی پر اسکی خلافت کی نسبت ناشائستگی کو کھل کر لوگوں کے سامنے بیان کیا اور اسے برا بھلا کہا ۔ اسکے جواب میں یزید نے ایک بہت سخت لہجے میں مدینہ کے لوگوں کو خط لکھا ۔ <ref>تجارب الأمم، ایضا، ج ۲، ص۸۵ و تاریخ الطبری، ج ۵، ص۴۸۰.</ref>


ابن زبیر نے اپنے خطبے میں یزید کو آڑے ہاتھوں لیا اور مسلمانوں کو یزید کے خلاف اس بات  پر ابھارا کہ وہ اسے خلافت سے برطرف کر دیں ۔ <ref>انساب الاشراف، ج۵، ص۳۱۹، ۳۷۲؛ البدء و التاریخ، ج۶، ص۱۸.</ref> پھر مدینے کو لوگوں کو خط لکھا اور انہیں اپنے مسلمانوں کے خلیفے کے عنوان سے بیعت کی دعوت دی ۔لوگوں نے  عبدالله بن مُطیع عَدوی کے ہاتھ ہر ابن زبیر کیلئے بیعت کی۔ <ref> انساب الاشراف، ج۵، ص۳۳۷.</ref> اس بیعت کے نتیجے میں مدینے کو لوگوں نے حاکم مدینہ عثمان بن محمد اور بنو امیہ کے ایک گروہ کو مدینے سے باہر نکال دیا ۔ <ref>مروج الذہب، ج۳، ص۶۹.</ref>
ابن زبیر نے اپنے خطبے میں یزید کو آڑے ہاتھوں لیا اور مسلمانوں کو یزید کے خلاف اس بات  پر ابھارا کہ وہ اسے خلافت سے برطرف کر دیں ۔ <ref>انساب الاشراف، ج۵، ص۳۱۹، ۳۷۲؛ البدء و التاریخ، ج۶، ص۱۸.</ref> پھر مدینے کو لوگوں کو خط لکھا اور انہیں اپنے مسلمانوں کے خلیفے کے عنوان سے بیعت کی دعوت دی ۔لوگوں نے  عبدالله بن مُطیع عَدوی کے ہاتھ ہر ابن زبیر کیلئے بیعت کی۔ <ref> انساب الاشراف، ج۵، ص۳۳۷.</ref> اس بیعت کے نتیجے میں مدینے کو لوگوں نے حاکم مدینہ عثمان بن محمد اور بنو امیہ کے ایک گروہ کو مدینے سے باہر نکال دیا ۔ <ref>مروج الذہب، ج۳، ص۶۹.</ref>


اس کے جواب میں ابن زبیر اور اسکے ہواخواہوں کی سرکوبی کیلئے یزید نے حجاز پر لشکر کشی کی اور ابن زبیر کو ڈرایا دھمکایا ۔ <ref> انساب الاشراف، ج۵، ص۳۴۰؛ البدء و التاریخ، ج۶، ص۱۳-۱۴.</ref> یزید کے لشکر نے پہلے  مدینے کا محاصرہ کیا اور مدینے کے لوگوں سے یزید کی پیروی کا مطالبہ کیا اور ان سے کہا کہ وہ ابن زبیر کی شورش کچلنے کیلئے اسکا ساتھ دیں ۔لیکن انہوں نے اسے قبول نہیں کیا ۔<ref> البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۲۶۲؛ تاریخ ابن خلدون، ج۲، ص۳۵۳.</ref> بالآخر  ۲۸ [[ذی‌ الحجہ]]  ۶۳ق میں سپاہ مدینہ اور سپاہ شام آمنے سامنے صف آرا ہوگئے ۔ <ref>المنتظم، ج۶، ص۱۶.</ref>
اس کے جواب میں ابن زبیر اور اسکے ہواخواہوں کی سرکوبی کیلئے یزید نے حجاز پر لشکر کشی کی اور ابن زبیر کو ڈرایا دھمکایا ۔ <ref> انساب الاشراف، ج۵، ص۳۴۰؛ البدء و التاریخ، ج۶، ص۱۳-۱۴.</ref> یزید کے لشکر نے پہلے  مدینے کا محاصرہ کیا اور مدینے کے لوگوں سے یزید کی پیروی کا مطالبہ کیا اور ان سے کہا کہ وہ ابن زبیر کی شورش کچلنے کیلئے اسکا ساتھ دیں ۔لیکن انہوں نے اسے قبول نہیں کیا ۔<ref> البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۲۶۲؛ تاریخ ابن خلدون، ج۲، ص۳۵۳.</ref> بالآخر  ۲۸ [[ذی‌ الحجہ]]  ۶۳ق میں سپاہ مدینہ اور سپاہ شام آمنے سامنے صف آرا ہوگئے ۔ <ref>المنتظم، ج۶، ص۱۶.</ref>
===محاصره اول مکہ و ابن زبیر===
===ابن زبیر اور محاصرۂ مکہ===
<!--
مدینے کی سپاہ سپاہ شام کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوئی اور یزید کے فرمان پر لشکر یزید کیلئے مدینے کے لوگوں کی جان ومال کو مباح قرار دیا ۔ <ref> تاریخ الاسلام، ج۵، ص۲۵.</ref> اس کے نتیجے میں لشکر نے  صحابہ اور لوگوں کا قتل عام کیا اور خواتین کی ناموسوں کا پائمال کیا ۔یہ واقعہ  تاریخ میں [[واقعہ حره|فاجعہ حَرّه]] کے نام سے رقم ہوا ۔سپاہ شام اس کے بعد ابن زبیر کی سرکوبی کیلئے مکہ روانہ ہوا۔<ref>الامامہ و السیاسہ، ج۱، ص۲۳۱؛ البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۲۲۰.</ref>
در رویارویی مردم مدینہ با سپاه شام، مردم مدینہ از سپاه شام شکست خوردند و سپاه شام به فرمان یزید سه روز جان و مال و ناموس مردم را بر خود مباح کرد<ref> تاریخ الاسلام، ج۵، ص۲۵.</ref>و به قتل عام مردم و صحابہ پیامبر و هتک حرمت نوامیس پرداخت و بدین ترتیب، [[واقعه حره|فاجعه حَرّه]] رقم زده شد. سپاه شام سپس برای سرکوب زبیر و هوادارنش راهی مکہ شد.<ref>الامامہ و السیاسہ، ج۱، ص۲۳۱؛ البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۲۲۰.</ref>


ابن زبیر و یارانش از ۱۳ صفر سال ۶۴ق. تا ۴۰ روز پس از مرگ یزید در ۱۴ ربیع الاول سال ۶۴ در محاصره سپاه شام بودند.<ref>انساب الاشراف، ج۵، ص۳۵۹؛ تاریخ دمشق، ج۱۴، ص۳۸۷.</ref>
ابن زبیر اور اسکے ہواداران  ۱۳ صفر سال ۶۴ق. سے لے کر  ۴۰ دن تک محاصرے میں رہا اور یہ محاصرہ  یزید کی موت کے بعد  ۱۴ ربیع الاول ۶۴ ق تک سپاہ شام کے محاصرے میں رہا ۔ <ref>انساب الاشراف، ج۵، ص۳۵۹؛ تاریخ دمشق، ج۱۴، ص۳۸۷.</ref>
ابن‌ زبیر در مسجدالحرام مستقر شد[۱۰۲]شامیان بر بلندیها و کوههای مشرف بر مسجدالحرام منجنیق نصب کردند<ref>اخبار مکہ، ازرقی، ج۱، ص۲۰۳؛ انساب الاشراف، ج۵، ص۳۵۹.</ref> و با پرتاب سنگ و گلوله‌های قیراندود و آتشین، زبیر و افرادش را زیر آتش گرفتند. سرانجام، سنگ‌های منجنیق به کعبه خوردند و پرده‌های میان رکن یمانی و حجرالاسود و چوب‌های ساج بنای کعبه آتش گرفت.<ref> اخبار مکہ، ازرقی، ج۱، ص۱۹۸، ص۲۰۳؛ اخبار الکرام، ص۱۳۳.</ref>یعقوبی(م.۲۹۲ق.) نقل کرده است که ابن زبیر، آتش را خاموش نکرد تا مردم مکہ را علیه سپاه شام مصمم کند.<ref>تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۲۵۲.</ref>گروه‌ها و دسته‌های گوناگونی در کنار ابن‌ زبیر با انگیزه دفاع از مسجدالحرام علیه سپاه شام جنگیدند؛ از جمله ۲۰۰ حبشی که پادشاه حبشه برای دفاع از کعبه اعزام کرده بود.<ref> انساب الاشراف، ج۵، ص۳۶۲، ۳۷۲.</ref>


سپاه شام موفق به شکستن مقاومت ابن زبیر و مردم مکہ نشد و چون یزید درگذشت، چهل روز بعد خبرش به سپاه شام رسید و این سپاه بدون موفقیت، از محاصره دست کشید و به شام بازگشت.
ابن‌ زبیر مسجدالحرام میں مستقر ہوا شامیوں نے پہاڑوں اور مسجد الحرام سے بلند مقامات  پر منجنیق نصب کیں <ref>اخبار مکہ، ازرقی، ج۱، ص۲۰۳؛ انساب الاشراف، ج۵، ص۳۵۹.</ref> اور انہوں نے پتھروں اور آگ برسانی شروع کی جس کے نتیجے میں زبیر اور اسکے افراد کو آگ کے شعلوں نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ منجینقوں کے پتھر کعبہ کو بھی لگے ، رکن یمانی اور حجرالاسود کے درمیان پردوں اور کعبہ پر موجود لکڑی کے جالی دار چوکھٹے کو آگ لگ لگئ ۔<ref> اخبار مکہ، ازرقی، ج۱، ص۱۹۸، ص۲۰۳؛ اخبار الکرام، ص۱۳۳.</ref>یعقوبی(م.۲۹۲ق.) نے ذکر کیا ہے کہ ابن زبیر نے آگ کو خاموش نہیں کیا تا کہ  مکہ کے لوگوں کو لشکر شام کے  خلاف مزید مصمم کرے ۔<ref>تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۲۵۲.</ref> مختلف گروہ اور دستے ابن زبیر کے ہمراہ  مسجدالحرام سے دفاع کی خاطر لڑتے رہے ان میں  ۲۰۰ حبشیوں کا وہ گروہ بھی شامل ہے جسے  حبشہ کے بادشاہ نے کعبہ کے دفاع کیلئے بھیجا تھا ۔ <ref> انساب الاشراف، ج۵، ص۳۶۲، ۳۷۲.</ref>
سپاه شام ابن زبیر اور مکہ کے لوگوں کو شکست دینے میں ناکام رہے اور جب یزید مر گیا تو چالیس دن کے بعد اسکی موت کی خبر انہیں ملی تو انہوں نے اس جنگ سے ہاتھ کھینچ لیا اور شام واپس ہو گئے ۔


===خلافت===
===خلافت===
<!--
منابع در ذکر تاریخ دعوت ابن‌ زبیر از مردم به بیعت با خود، اختلاف دارند. برخی منابع نهم رجب سال ۶۴ق. را ذکر کرده‌اند.<ref> تاریخ خلیفہ، ص۱۶۰.</ref>برخی نیز ماجرای بیعت با ابن زبیر را سه ماه بعد از مرگ یزید دانسته‎اند.<ref>عبدالله بن زبیر، ص۱۱۹.</ref>
منابع در ذکر تاریخ دعوت ابن‌ زبیر از مردم به بیعت با خود، اختلاف دارند. برخی منابع نهم رجب سال ۶۴ق. را ذکر کرده‌اند.<ref> تاریخ خلیفہ، ص۱۶۰.</ref>برخی نیز ماجرای بیعت با ابن زبیر را سه ماه بعد از مرگ یزید دانسته‎اند.<ref>عبدالله بن زبیر، ص۱۱۹.</ref>
گفته‌اند که پس از مرگ یزید بن معاویہ، خلافت ابن زبیر در شام نیز طرفداران مهمی پیدا کرد و بدین رو، فرمانده سپاه شام پیش از حرکت به سوی شام، از ابن زبیر خواست تا از آنچه گذشته مانند [[واقعه حره]] چشم پوشند و همراه او برای در دست گرفتن خلافت به شام بیاید ولی ابن زبیر به دلایلی نپذیرفت.<ref>انساب الاشراف، ج۵، ص۳۴۴، ۳۷۲.</ref><ref>برای تفصیل این دلایل نک: نجاتی، دانشنامہ حج و حرمین شریفین، ذیل مدخل «ابن زبیر»(http://hajj.ir/99/3019#_ftn127)</ref>
گفته‌اند که پس از مرگ یزید بن معاویہ، خلافت ابن زبیر در شام نیز طرفداران مهمی پیدا کرد و بدین رو، فرمانده سپاه شام پیش از حرکت به سوی شام، از ابن زبیر خواست تا از آنچه گذشته مانند [[واقعه حره]] چشم پوشند و همراه او برای در دست گرفتن خلافت به شام بیاید ولی ابن زبیر به دلایلی نپذیرفت.<ref>انساب الاشراف، ج۵، ص۳۴۴، ۳۷۲.</ref><ref>برای تفصیل این دلایل نک: نجاتی، دانشنامہ حج و حرمین شریفین، ذیل مدخل «ابن زبیر»(http://hajj.ir/99/3019#_ftn127)</ref>
گمنام صارف