مندرجات کا رخ کریں

"شان نزول" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
imported>Mabbassi
imported>Mabbassi
سطر 5: سطر 5:


سبب اور اسباب کا کلمہ  [[قرآن کریم]] میں درج ذیل مفاہیم میں استعمال ہوا ہے :
سبب اور اسباب کا کلمہ  [[قرآن کریم]] میں درج ذیل مفاہیم میں استعمال ہوا ہے :
# رسی کے معنا میں اور ہر وہ چیز جس کے ذریعے کسی چیز کو حاصل کیا جائے،  <font color=green>[[آیت]] {{حدیث|مَن کانَ یظُنُّ أَن لَّن ینصُرَ‌هُ اللَّهُ فِی الدُّنْیا وَالْآخِرَ‌ةِ فَلْیمْدُدْ بِسَبَبٍ إِلَی السَّمَاءِ ثُمَّ لْیقْطَعْ فَلْینظُرْ‌ هَلْ یذْهِبَنَّ کیدُهُ مَا یغِیظُ}}</font>سوره حج آیت نمر۱۵۔ترجمہ:جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ خدا دنیا اور آخرت میں اس کی مدد نہیں کرے گا تو اسے چاہیے کہ ایک رسی کے ذریعہ آسمان تک پہنچ کر شگاف لگائے۔ پھر دیکھے کہ آیا اس کی یہ تدبیر اس چیز کو دور کر سکتی ہے جو اسے غصہ میں لا رہی تھی۔
# رسی کے معنا میں ہر وہ چیز جس کے ذریعے کسی چیز کو حاصل کیا جائے،  <font color=green>[[آیت]] {{حدیث|مَن کانَ یظُنُّ أَن لَّن ینصُرَ‌هُ اللَّهُ فِی الدُّنْیا وَالْآخِرَ‌ةِ فَلْیمْدُدْ بِسَبَبٍ إِلَی السَّمَاءِ ثُمَّ لْیقْطَعْ فَلْینظُرْ‌ هَلْ یذْهِبَنَّ کیدُهُ مَا یغِیظُ}}</font>سوره حج آیت نمر۱۵۔ترجمہ:جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ خدا دنیا اور آخرت میں اس کی مدد نہیں کرے گا تو اسے چاہیے کہ ایک رسی کے ذریعہ آسمان تک پہنچ کر شگاف لگائے۔ پھر دیکھے کہ آیا اس کی یہ تدبیر اس چیز کو دور کر سکتی ہے جو اسے غصہ میں لا رہی تھی۔
# وسیلہ اور آلہ  یا طریق اور راستہ جیسا کہ <font color=green>[[آیت]] {{حدیث|إِنَّا مَكَّنَّا لَهُ فِي الْأَرْضِ وَآتَيْنَاهُ مِن كُلِّ شَيْءٍ سَبَبًا }}</font>سوره کہف آیت۸۴۔ترجمہ:ہم نے اسے زمین میں اقتدار عطا کیا تھا اور اسے ہر طرح کا ساز و سامان مہیا کر دیا تھا۔
# وسیلہ اور آلہ  یا طریق اور راستہ جیسا کہ <font color=green>[[آیت]] {{حدیث|إِنَّا مَكَّنَّا لَهُ فِي الْأَرْضِ وَآتَيْنَاهُ مِن كُلِّ شَيْءٍ سَبَبًا }}</font>سوره کہف آیت۸۴۔ترجمہ:ہم نے اسے زمین میں اقتدار عطا کیا تھا اور اسے ہر طرح کا ساز و سامان مہیا کر دیا تھا۔
# پیوند اور تعلق داری <font color=green>{{حدیث|إِذْ تَبَرَّأَ الَّذِينَ اتُّبِعُوا مِنَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا وَرَأَوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِهِمُ الْأَسْبَابُ﴿١٦٦﴾سورت بقرہ}}</font>ترجمہ: اور (وہ مرحلہ کتنا کھٹن ہوگا) جب وہ (پیر) لوگ جن کی (دنیا میں) پیروی کی گئی اپنے پیرؤوں (مریدوں) سے برأت اور لاتعلقی ظاہر کریں گے اور خدا کا عذاب ان سب کی آنکھوں کے سامنے ہوگا اور سب وسائل اور تعلقات بالکل قطع ہو چکے ہوں گے۔ (166)
# پیوند اور تعلق داری <font color=green>{{حدیث|إِذْ تَبَرَّأَ الَّذِينَ اتُّبِعُوا مِنَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا وَرَأَوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِهِمُ الْأَسْبَابُ﴿١٦٦﴾سورت بقرہ}}</font>ترجمہ: اور (وہ مرحلہ کتنا کھٹن ہوگا) جب وہ (پیر) لوگ جن کی (دنیا میں) پیروی کی گئی اپنے پیرؤوں (مریدوں) سے برأت اور لاتعلقی ظاہر کریں گے اور خدا کا عذاب ان سب کی آنکھوں کے سامنے ہوگا اور سب وسائل اور تعلقات بالکل قطع ہو چکے ہوں گے۔ (166)
سطر 27: سطر 27:
#مسلمانوں کیلئے ایسے حالات اور شرائط  مہیا ہوجاتے کہ جن میں ان حالات و شرائط کے  لحاظ سے  انکی حالت کو مشخص ہونا چاہئے؛
#مسلمانوں کیلئے ایسے حالات اور شرائط  مہیا ہوجاتے کہ جن میں ان حالات و شرائط کے  لحاظ سے  انکی حالت کو مشخص ہونا چاہئے؛
ان امور کے بعد آیات اور کبھی سورتیں نازل ہوتیں جن میں اس واقعے ،سوال کے جواب یا مسلمانوں کی ذمہ داری کے تعین کا بیان ہوتا ۔بہرحال ان میں  مسئلے کی حقیقت اور اساس کو بیان کیا جاتا ۔<ref> سیدمحمدباقر حجتی ، اسباب نزول، ص۲۰.</ref>
ان امور کے بعد آیات اور کبھی سورتیں نازل ہوتیں جن میں اس واقعے ،سوال کے جواب یا مسلمانوں کی ذمہ داری کے تعین کا بیان ہوتا ۔بہرحال ان میں  مسئلے کی حقیقت اور اساس کو بیان کیا جاتا ۔<ref> سیدمحمدباقر حجتی ، اسباب نزول، ص۲۰.</ref>
==فرق==
==فرق==
اگرچہ شان نزول اور سبب نزول ایک ہی معنا میں استعمال ہوتا ہے لیکن بعض علمائے علوم [[قرآن]] شان نزول اور سبب نزول کے درمیان فرق کے قائل ہیں ۔ان کی نگاہ میں شان نزول سبب نزول کی نسبت اعم ہے اور سبب نزول شان نزول کی نسبت اخص ہے ۔کیونکہ جب کوئی واقعہ پیش آتا اور اس کے مقابلے میں ابہام ہوتا ، یا سوال پوچھا جاتا اور اسکے مقابلے میں جواب واضح نہ ہوتا یا کوئی ایسا امر پیش آجاتا جس کا کوئی راہ حل موجود نہ ہوتا تو ایسی صورتحال میں [[قرآنی]] آیات نازل ہوتی تو ایسے مقامات کی نسبت سبب نزول کہا جاتا ہے ۔ اور قرآنی [[آیت|آیات]] کسی امر کے بیان و شرح کے عنوان سے نازل ہوتی تو وہاں شان نزول کہا جاتا ہے اس مقام پر عمومیت پائی جاتی ہے جیسا کہ [[نبوت|انبیاء]]،امم سالفہ وغیرہ سے مربوط آیات میں یہی صورت پیش نظر ہوتی ہے ۔
اگرچہ شان نزول اور سبب نزول ایک ہی معنا میں استعمال ہوتا ہے لیکن بعض علمائے علوم [[قرآن]] شان نزول اور سبب نزول کے درمیان فرق کے قائل ہیں ۔ان کی نگاہ میں شان نزول سبب نزول کی نسبت اعم ہے اور سبب نزول شان نزول کی نسبت اخص ہے ۔کیونکہ جب کوئی واقعہ پیش آتا اور اس کے مقابلے میں ابہام ہوتا ، یا سوال پوچھا جاتا اور اسکے مقابلے میں جواب واضح نہ ہوتا یا کوئی ایسا امر پیش آجاتا جس کا کوئی راہ حل موجود نہ ہوتا تو ایسی صورتحال میں [[قرآنی]] آیات نازل ہوتی تو ایسے مقامات کی نسبت سبب نزول کہا جاتا ہے ۔ اور قرآنی [[آیت|آیات]] کسی امر کے بیان و شرح کے عنوان سے نازل ہوتی تو وہاں شان نزول کہا جاتا ہے اس مقام پر عمومیت پائی جاتی ہے جیسا کہ [[نبوت|انبیاء]]،امم سالفہ وغیرہ سے مربوط آیات میں یہی صورت پیش نظر ہوتی ہے ۔
گمنام صارف