confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,869
ترامیم
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 1: | سطر 1: | ||
{{احکام}} | {{احکام}} | ||
{{فقہی توصیفی مقالہ}} | {{فقہی توصیفی مقالہ}} | ||
'''غُسل مَیِّت''' سے مراد وہ غسل ہے جو [[مسلمان]] میت کو مخصوص شرائط کے ساتھ دیا جاتا ہے۔ اس غسل میں میت کو بالترتیب آب [[سدر| سِدر]] (وہ پانی جس میں بیری کے پتے ملے ہوئے ہوں)، آب [[کافور]] (وہ پانی جس میں کافور ملا ہوا ہو) اور خالص پانی سے تین دفعہ غسل دیا جاتا ہے۔اور اگر سدر اور کافور میسر نہ ہو تو میت کو آبِ خالص سے غسل دیناہوگا اور اگر آب خالص بھی نہ ملے تو تیمم کرنا ضروری ہے۔ | '''غُسل مَیِّت''' سے مراد وہ [[غسل]] ہے جو [[مسلمان]] میت کو مخصوص شرائط کے ساتھ دیا جاتا ہے۔ اس غسل میں میت کو بالترتیب آب [[سدر| سِدر]] (وہ پانی جس میں بیری کے پتے ملے ہوئے ہوں)، آب [[کافور]] (وہ پانی جس میں کافور ملا ہوا ہو) اور خالص پانی سے تین دفعہ غسل دیا جاتا ہے۔اور اگر سدر اور کافور میسر نہ ہو تو میت کو آبِ خالص سے غسل دیناہوگا اور اگر آب خالص بھی نہ ملے تو [[تیمم]] کرنا ضروری ہے۔ | ||
چار مہینے یا اس سے زیادہ عمر کے [[میت]] کو غسل دینا واجب ہے البتہ اس حکم میں شہید شامل نہیں کیونکہ اسے بغیر غسل کے دفن کیا جاتا ہے۔ | چار مہینے یا اس سے زیادہ عمر کے [[میت]] کو غسل دینا واجب ہے البتہ اس حکم میں شہید شامل نہیں کیونکہ اسے بغیر غسل کے [[دفن]] کیا جاتا ہے۔ | ||
میت کو غسل دینا [[واجب کفائی]] ہے جس کو انجام دینے کے لئے مزدوری لینا حرام ہے۔ | میت کو غسل دینا [[واجب کفائی]] ہے جس کو انجام دینے کے لئے مزدوری لینا [[حرام]] ہے۔ | ||
==غسل میت کی اہمیت== | ==غسل میت کی اہمیت== | ||
غسل میت کفائی واجبات میں سے ایک ہے اور کسی مسلمان کی موت کے بعد دوسروں پر واجب ہے کہ اسے غسل دیں اور غسل سے پہلے دفن کرناجائز نہیں ہے۔<ref> طباطبایی یزدی، العروة الوثقی،1491ھ، ج2 ص30۔</ref> اسی لئے مختلف قبرستانوں میں میت کو غسل دینے کی مخصوص جگہ ہوا کرتی ہے۔<ref>بہرامی، «[https://www.cgie.org.ir/fa/article/258480 غسالخانہ]».</ref> فارسی میں اس جگہے کو غَسَّالخانہ کہا جاتا ہے۔<ref>دہخدا، لغتنامہ، لفظ مردہشورخانہ کے ذیل میں.</ref> | غسل میت کفائی واجبات میں سے ایک ہے اور کسی مسلمان کی موت کے بعد دوسروں پر واجب ہے کہ اسے غسل دیں اور غسل سے پہلے دفن کرناجائز نہیں ہے۔<ref> طباطبایی یزدی، العروة الوثقی،1491ھ، ج2 ص30۔</ref> اسی لئے مختلف قبرستانوں میں میت کو غسل دینے کی مخصوص جگہ ہوا کرتی ہے۔<ref>بہرامی، «[https://www.cgie.org.ir/fa/article/258480 غسالخانہ]».</ref> فارسی میں اس جگہے کو غَسَّالخانہ کہا جاتا ہے۔<ref>دہخدا، لغتنامہ، لفظ مردہشورخانہ کے ذیل میں.</ref> | ||
احادیث اور فقہ کی کتابوں میں اس بحث کو احکام اموات کے باب میں ذکر کیا جاتا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: حرعاملی، وسائل الشیعہ، 1409ھ، ج2، ص477-544؛ طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1419ھ، ج2، ص22.</ref> | [[حدیث|احادیث]] اور [[فقہ امامیہ|فقہ]] کی کتابوں میں اس بحث کو احکام اموات کے باب میں ذکر کیا جاتا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: حرعاملی، وسائل الشیعہ، 1409ھ، ج2، ص477-544؛ طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1419ھ، ج2، ص22.</ref> | ||
کتاب [[وسائل الشیعہ]] کے ابواب غسل میت میں 175 حدیث غسل میت کے بارے میں نقل ہوئی ہیں۔<ref> ملاحظہ کریں: حرعاملی، وسائل الشیعہ، 1409ھ، ج2، ص477-544.</ref> [[احادیث]] میں کہا گیا ہے کہ [[میت]] کو [[غسل]] دینے والےسے [[جہنم]] کی آگ دور ہوتی ہے اور ایک نور اس کے ساتھ ہوتا ہے جو اسے[[بہشت]] کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔<ref> شیخ مفید، الاختصاص، 1413ھ، ص40.</ref> | کتاب [[وسائل الشیعہ]] کے ابواب غسل میت میں 175 حدیث غسل میت کے بارے میں نقل ہوئی ہیں۔<ref> ملاحظہ کریں: حرعاملی، وسائل الشیعہ، 1409ھ، ج2، ص477-544.</ref> [[احادیث]] میں کہا گیا ہے کہ [[میت]] کو [[غسل]] دینے والےسے [[جہنم]] کی آگ دور ہوتی ہے اور ایک نور اس کے ساتھ ہوتا ہے جو اسے[[بہشت]] کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔<ref> شیخ مفید، الاختصاص، 1413ھ، ص40.</ref> | ||
اسی طرح امام محمد باقرؑ سے منقول ایک روایت میں میت کو غسل دیناایک سال کے گناہ صغیرہ کے معاف ہونے کا سبب قرار دیاگیا ہے۔<ref>شیخ صدوق، ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، 1406ھ، ص 195.</ref> | اسی طرح [[امام محمد باقر علیہ السلام|امام محمد باقرؑ]] سے منقول ایک روایت میں میت کو غسل دیناایک سال کے گناہ صغیرہ کے معاف ہونے کا سبب قرار دیاگیا ہے۔<ref>شیخ صدوق، ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، 1406ھ، ص 195.</ref> | ||
غسل سے پہلے میت نجس ہے اور اس کے سرد ہونے سے پہلے چھونے سے [[غسل مس میت|غُسل مَسِّ مَیت]] واجب ہوتا ہے۔ لیکن غسل میت کے بعد نجاست زائل ہوتی ہے اور اس کو چھونے سے غسل واجب نہیں ہوتا ہے۔<ref> طباطبائی حکیم، مستمسک العروة الوثقی، دار احیاء التراث العربی، ج1، ص336.</ref> | غسل سے پہلے میت [[نجاسات|نجس]] ہے اور اس کے سرد ہونے سے پہلے چھونے سے [[غسل مس میت|غُسل مَسِّ مَیت]] واجب ہوتا ہے۔ لیکن غسل میت کے بعد نجاست زائل ہوتی ہے اور اس کو چھونے سے غسل [[واجب]] نہیں ہوتا ہے۔<ref> طباطبائی حکیم، مستمسک العروة الوثقی، دار احیاء التراث العربی، ج1، ص336.</ref> | ||
==غسل میت کی کیفیت== | ==غسل میت کی کیفیت== | ||
{{معاد (عمودی)}} | {{معاد (عمودی)}} | ||
مشہور [[مراجع تقلید]] کے [[فتوے]] کے مطابق میت کو تین غسل دینا واجب ہے: سب سے پہلے بیری کے پتے ملے ہوئے پانی سے اس کے بعد کافور ملا ہوا پانی سے اور آخر میں خالص پانی سے غسل دینا واجب ہے۔ غسل میت میں مذکورہ ترتیب کی رعایت کرنا ضروری ہے.<ref>طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1419ھ، ج2، ص46-47.</ref>غسل میت میں دوسرے [[واجب غسل|واجب غسلوں]] کی طرح نیت اور [[قصد قربت]] کے بعد سب سے پہلے سر اور گردن پھر دائیں طرف اور آخر میں بائیں طرف کو دھونا | مشہور [[مراجع تقلید]] کے [[فتوے]] کے مطابق میت کو تین غسل دینا واجب ہے: سب سے پہلے بیری کے پتے ملے ہوئے پانی سے اس کے بعد کافور ملا ہوا پانی سے اور آخر میں خالص پانی سے غسل دینا واجب ہے۔ غسل میت میں مذکورہ ترتیب کی رعایت کرنا ضروری ہے.<ref>طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1419ھ، ج2، ص46-47.</ref>غسل میت میں دوسرے [[واجب غسل|واجب غسلوں]] کی طرح نیت اور [[قصد قربت]] کے بعد سب سے پہلے سر اور گردن پھر دائیں طرف اور آخر میں بائیں طرف کو دھونا ضروری ہے۔<ref>طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1419ھ، ج2، ص46-47.</ref> | ||
اگر بیری کے پتے یا کافور نہ ملے تو ہر ایک غسل کے بدلے خالص پانی سے غسل دینا کافی ہے۔ اس صورت میں بعض فقہاء صرف ایک غسل کو کافی سمجھتے ہیں جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ ہر غسل کے بدلے آب خالص سے ایک غسل دینا ہوگا۔<ref> بحرانی، الحدائق الناضرة، مؤسسة النشر الاسلامی، ج3، ص455.</ref> | اگر بیری کے پتے یا کافور نہ ملے تو ہر ایک غسل کے بدلے خالص پانی سے غسل دینا کافی ہے۔ اس صورت میں بعض فقہاء صرف ایک غسل کو کافی سمجھتے ہیں جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ ہر غسل کے بدلے آب خالص سے ایک غسل دینا ہوگا۔<ref> بحرانی، الحدائق الناضرة، مؤسسة النشر الاسلامی، ج3، ص455.</ref> | ||
چنانچہ میت کو پانی سے غسل دینا ناممکن ہو تو غسل کے بدلے اسے [[تیمم|تیمّم]] کرنا ضروری ہے لیکن کیا غسل کی طرح تیمم بھی تین دفعہ انجام دیا جائے گا یا صرف ایک بار تیمم کافی ہے، مورد اختلاف ہے۔<ref> طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1419ھ، ج2، ص48.</ref> | چنانچہ میت کو پانی سے غسل دینا ناممکن ہو تو غسل کے بدلے اسے [[تیمم|تیمّم]] کرنا ضروری ہے لیکن کیا غسل کی طرح [[تیمم]] بھی تین دفعہ انجام دیا جائے گا یا صرف ایک بار تیمم کافی ہے، مورد اختلاف ہے۔<ref> طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1419ھ، ج2، ص48.</ref> | ||
اگر جنین چار مہینے سے پہلے سقط ہوجائے تو اس کا غسل میت واجب نہیں ہے لیکن اگر حمل ٹھہرے ہوئے چار مہینوں سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہو تو ایسے جنین کے سقط ہونے پر غسل میت واجب ہوگا۔<ref> طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1419ھ، ج2، ص32.</ref> | اگر جنین چار مہینے سے پہلے سقط ہوجائے تو اس کا غسل میت واجب نہیں ہے لیکن اگر حمل ٹھہرے ہوئے چار مہینوں سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہو تو ایسے جنین کے سقط ہونے پر غسل میت واجب ہوگا۔<ref> طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1419ھ، ج2، ص32.</ref> | ||
===میدان جنگ کے شہید کا غسل=== | ===میدان جنگ کے شہید کا غسل=== | ||
شیعہ فقہا کے فتوؤں کے مطابق جنگ کے میدان میں شہید ہونے والے شخص کے لئے غسل میت دینا ضروری نہیں ہے؛<ref> شیخ انصاری، کتاب الطہارہ، 1415ھ، ج4، ص399.</ref> لیکن اگر کوئی شخص جنگ کے میدان میں زخمی ہوجائے اور جنگ ختم ہونے کے بعد شہید ہوجائے تو اسے غسل دینا ضروری ہے۔<ref> علامہ حلی، نہایة الاحکام، 1419ھ، ج2، ص235.</ref> \ | [[شیعہ]] فقہا کے فتوؤں کے مطابق جنگ کے میدان میں [[شہادت|شہید]] ہونے والے شخص کے لئے غسل میت دینا ضروری نہیں ہے؛<ref> شیخ انصاری، کتاب الطہارہ، 1415ھ، ج4، ص399.</ref> لیکن اگر کوئی شخص جنگ کے میدان میں زخمی ہوجائے اور جنگ ختم ہونے کے بعد شہید ہوجائے تو اسے غسل دینا ضروری ہے۔<ref> علامہ حلی، نہایة الاحکام، 1419ھ، ج2، ص235.</ref> \ | ||
==بعض دیگر احکام== | ==بعض دیگر احکام== | ||
*جو شخص کسی میت کو غسل دینا چاہتا ہو اسے غَسّال کہا جاتا ہے۔ غسال کیلئے مسلمان، [[شیعہ]] اثنا عشری، [[بالغ]] اور عاقل ہونا ضروری ہے۔<ref>طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1419ھ، ج2، ص38-39.</ref> اسی طرح مرد میت کو مرد اور عورت میت کو عورت غسل دینا ضروری ہے<ref> طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1419ھ، ج2، ص32.</ref> البتہ محارم اور میاں بیوی اس حکم سے خارج ہیں لیکن احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ وہ ایسی حالت میں غسل دے سکتے ہیں کہ جب میت کے ہمجنس میں سے کوئی غسل دینے کے لئے موجود نہ ہواور ایسی حالت میں بھی میت کو کپڑوں میں ہی غسل | *جو شخص کسی میت کو غسل دینا چاہتا ہو اسے غَسّال کہا جاتا ہے۔ غسال کیلئے مسلمان، [[شیعہ]] اثنا عشری، [[بالغ]] اور عاقل ہونا ضروری ہے۔<ref>طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1419ھ، ج2، ص38-39.</ref> اسی طرح مرد میت کو مرد اور عورت میت کو عورت غسل دینا ضروری ہے<ref> طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1419ھ، ج2، ص32.</ref> البتہ [[محارم]] اور میاں بیوی اس حکم سے خارج ہیں لیکن احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ وہ ایسی حالت میں غسل دے سکتے ہیں کہ جب میت کے ہمجنس میں سے کوئی غسل دینے کے لئے موجود نہ ہواور ایسی حالت میں بھی میت کو کپڑوں میں ہی غسل دینگے۔<ref> طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1419ھ، ج2، ص33-35.</ref> | ||
*اکثر [[مراجع تقلید]] کے فتوے کے مطابق غسل میت کی اجرت لینا [[حرام]] ہے اور بعض کے فتوؤں کے مطابق اجرت لینا قصد قربت کے ساتھ سازگار نہیں ہے جس کی وجہ سے غسل بھی باطل ہوتا ہے۔ لیکن غسل کے مقدماتی امور اور صفائی وغیرہ کو انجام دینے کیلئے اجرت لینا جائز ہے۔<ref> بنیہاشمی خمینی، توضیحالمسائل مراجع، دفتر نشر اسلامی، ج1، ص222-223.</ref> | *اکثر [[مراجع تقلید]] کے فتوے کے مطابق غسل میت کی اجرت لینا [[حرام]] ہے اور بعض کے فتوؤں کے مطابق اجرت لینا [[قصد قربت]] کے ساتھ سازگار نہیں ہے جس کی وجہ سے غسل بھی باطل ہوتا ہے۔ لیکن غسل کے مقدماتی امور اور صفائی وغیرہ کو انجام دینے کیلئے اجرت لینا جائز ہے۔<ref> بنیہاشمی خمینی، توضیحالمسائل مراجع، دفتر نشر اسلامی، ج1، ص222-223.</ref> | ||
* اگر [[حاکم شرع]] کسی مجرم کو [[ | * اگر [[حاکم شرع]] کسی مجرم کو [[پھانسی]] دینے کا حکم سنائے تو یہ شخص سولی پر چڑھنے سے پہلے اپنے آپ کو غسل میت دے سکتا ہے اس صورت میں پھانسی کے بعد دوبارہ اسے غسل دینا ضروری نہیں ہے۔<ref> طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1419ھ، ج2، ص41.</ref> | ||
*غسل میت کو ارتماسی طریقے سے انجام دینا بھی صحیح ہے۔<ref> خویی، موسوعة الامام الخویی، مؤسسة احیاء آثار الامام الخوئی، ج9، ص9.</ref> | *غسل میت کو [[غسل ارتماسی|ارتماسی]] طریقے سے انجام دینا بھی صحیح ہے۔<ref> خویی، موسوعة الامام الخویی، مؤسسة احیاء آثار الامام الخوئی، ج9، ص9.</ref> | ||
*غسل سے پہلے میت کا بدن نجاسات سے پاک ہونا ضروری ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ غسل سے پہلے ہر عضو کو دھونے سے پہلے اسے پاک کرنا کافی ہے۔<ref> طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1419ھ، ج2، ص47.</ref> | *غسل سے پہلے میت کا بدن [[نجاسات]] سے پاک ہونا ضروری ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ غسل سے پہلے ہر عضو کو دھونے سے پہلے اسے پاک کرنا کافی ہے۔<ref> طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1419ھ، ج2، ص47.</ref> | ||
* میت کو غسل دینے والے کو میت کے ولی سے اجازت مانگنا ضروری ہے۔.<ref> طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1419ھ، ج2، ص22.</ref> | * میت کو غسل دینے والے کو میت کے ولی سے اجازت مانگنا ضروری ہے۔.<ref> طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1419ھ، ج2، ص22.</ref> | ||
*کافر کو غسل میت دینا جائز نہیں ہے۔<ref> طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1419ھ، ج2، ص30.</ref> | *کافر کو غسل میت دینا جائز نہیں ہے۔<ref> طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1419ھ، ج2، ص30.</ref> |