مندرجات کا رخ کریں

"غسل میت" کے نسخوں کے درمیان فرق

193 بائٹ کا ازالہ ،  12 فروری 2023ء
اصلاح اعداد
(اصلاح اعداد)
سطر 6: سطر 6:


==غسل میت کی اہمیت==
==غسل میت کی اہمیت==
غسل میت کفائی واجبات میں سے ایک ہے اور کسی مسلمان کی موت کے بعد دوسروں پر واجب ہے کہ اسے غسل دیں اور غسل سے پہلے دفن کرناجائز نہیں ہے۔<ref> طباطبایی یزدی، العروة الوثقی،1491ھ، ج2 ص30۔</ref> اسی لئے مختلف قبرستانوں میں میت کو غسل دینے کی مخصوص جگہ ہوا کرتی ہے۔<ref>بهرامی، «[https://www.cgie.org.ir/fa/article/258480 غسالخانه]».</ref> فارسی میں اس جگہے کو غَسَّالخانہ کہا جاتا ہے۔<ref>دهخدا، لغت‌نامه، ذیل واژه مرده‌شورخانه.</ref>
غسل میت کفائی واجبات میں سے ایک ہے اور کسی مسلمان کی موت کے بعد دوسروں پر واجب ہے کہ اسے غسل دیں اور غسل سے پہلے دفن کرناجائز نہیں ہے۔<ref> طباطبایی یزدی، العروة الوثقی،1491ھ، ج2 ص30۔</ref> اسی لئے مختلف قبرستانوں میں میت کو غسل دینے کی مخصوص جگہ ہوا کرتی ہے۔<ref>بہرامی، «[https://www.cgie.org.ir/fa/article/258480 غسالخانہ]».</ref> فارسی میں اس جگہے کو غَسَّالخانہ کہا جاتا ہے۔<ref>دہخدا، لغت‌نامہ، لفظ مردہ‌شورخانہ کے ذیل میں.</ref>


احادیث اور فقہ کی کتابوں میں اس بحث کو احکام اموات کے باب میں ذکر کیا جاتا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: حرعاملی، وسائل الشیعه، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۴۷۷-۵۴۴؛ طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۲۲.</ref>
احادیث اور فقہ کی کتابوں میں اس بحث کو احکام اموات کے باب میں ذکر کیا جاتا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: حرعاملی، وسائل الشیعہ، 1409ھ، ج2، ص477-544؛ طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1419ھ، ج2، ص22.</ref>
کتاب [[وسائل الشیعہ]] کے ابواب غسل میت میں 175 حدیث غسل میت کے بارے میں نقل ہوئی ہیں۔<ref> ملاحظہ کریں: حرعاملی، وسائل الشیعه، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۴۷۷-۵۴۴.</ref> [[احادیث]] میں کہا گیا ہے کہ [[میت]] کو [[غسل]] دینے والےسے [[جہنم]] کی آگ دور ہوتی ہے اور ایک نور اس کے ساتھ ہوتا ہے جو اسے[[بہشت]] کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔<ref> شیخ مفید، الاختصاص، ۱۴۱۳ق، ص۴۰.</ref>
کتاب [[وسائل الشیعہ]] کے ابواب غسل میت میں 175 حدیث غسل میت کے بارے میں نقل ہوئی ہیں۔<ref> ملاحظہ کریں: حرعاملی، وسائل الشیعہ، 1409ھ، ج2، ص477-544.</ref> [[احادیث]] میں کہا گیا ہے کہ [[میت]] کو [[غسل]] دینے والےسے [[جہنم]] کی آگ دور ہوتی ہے اور ایک نور اس کے ساتھ ہوتا ہے جو اسے[[بہشت]] کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔<ref> شیخ مفید، الاختصاص، 1413ھ، ص40.</ref>
اسی طرح امام محمد باقرؑ سے منقول ایک روایت میں میت کو غسل دیناایک سال کے گناہ صغیرہ کے معاف ہونے کا سبب قرار دیاگیا ہے۔<ref>شیخ صدوق، ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، ۱۴۰۶ق، ص ۱۹۵.</ref>
اسی طرح امام محمد باقرؑ سے منقول ایک روایت میں میت کو غسل دیناایک سال کے گناہ صغیرہ کے معاف ہونے کا سبب قرار دیاگیا ہے۔<ref>شیخ صدوق، ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، 1406ھ، ص 195.</ref>


غسل سے پہلے میت نجس ہے اور اس کے سرد ہونے سے پہلے چھونے سے [[غسل مس میت|غُسل مَسِّ مَیت]] واجب ہوتا ہے۔لیکن غسل میت کے بعد نجاست زائل ہوتی ہے اور اس کو چھونے سے غسل واجب نہیں ہوتا ہے۔<ref> طباطبائی حکیم، مستمسک العروة الوثقی، دار احیاء التراث العربی، ج۱، ص۳۳۶.</ref>
غسل سے پہلے میت نجس ہے اور اس کے سرد ہونے سے پہلے چھونے سے [[غسل مس میت|غُسل مَسِّ مَیت]] واجب ہوتا ہے۔لیکن غسل میت کے بعد نجاست زائل ہوتی ہے اور اس کو چھونے سے غسل واجب نہیں ہوتا ہے۔<ref> طباطبائی حکیم، مستمسک العروة الوثقی، دار احیاء التراث العربی، ج1، ص336.</ref>


==غسل میت کی کیفیت==
==غسل میت کی کیفیت==
{{معاد (عمودی)}}
{{معاد (عمودی)}}
مشہور [[مراجع تقلید]] کے [[فتوے]] کے مطابق میت کو تین غسل دینا واجب ہے: سب سے پہلے بیری کے پتے ملے ہوئے پانی سے اس کے بعد کافور ملا ہوا پانی سے اور آخر میں خالص پانی سے غسل دینا واجب ہے۔ غسل میت میں مذکورہ ترتیب کی رعایت کرنا ضروری ہے.<ref>طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۴۶-۴۷.</ref>غسل میت میں دوسرے [[واجب غسل|واجب غسلوں]] کی طرح نیت اور [[قصد قربت]] کے بعد سب سے پہلے سر اور گردن پھر دائیں طرف اور آخر میں بائیں طرف کو دھونا ضروری ہے، ناف اور شرمگاہ کو دونوں اطراف کے ساتھ غسل دینا ضروری ہے۔<ref>طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۴۶-۴۷.</ref>
مشہور [[مراجع تقلید]] کے [[فتوے]] کے مطابق میت کو تین غسل دینا واجب ہے: سب سے پہلے بیری کے پتے ملے ہوئے پانی سے اس کے بعد کافور ملا ہوا پانی سے اور آخر میں خالص پانی سے غسل دینا واجب ہے۔ غسل میت میں مذکورہ ترتیب کی رعایت کرنا ضروری ہے.<ref>طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1419ھ، ج2، ص46-47.</ref>غسل میت میں دوسرے [[واجب غسل|واجب غسلوں]] کی طرح نیت اور [[قصد قربت]] کے بعد سب سے پہلے سر اور گردن پھر دائیں طرف اور آخر میں بائیں طرف کو دھونا ضروری ہے، ناف اور شرمگاہ کو دونوں اطراف کے ساتھ غسل دینا ضروری ہے۔<ref>طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1419ھ، ج2، ص46-47.</ref>


اگر بیری کے پتے یا کافور نہ ملے تو ہر ایک غسل کے بدلے خالص پانی سے غسل دینا کافی ہے۔ اس صورت میں بعض فقہاء صرف ایک غسل کو کافی سمجھتے ہیں جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ ہر غسل کے بدلے آب خالص سے ایک غسل دینا ہوگا۔<ref> بحرانی، الحدائق الناضرة، مؤسسة النشر الاسلامی، ج۳، ص۴۵۵.</ref>
اگر بیری کے پتے یا کافور نہ ملے تو ہر ایک غسل کے بدلے خالص پانی سے غسل دینا کافی ہے۔ اس صورت میں بعض فقہاء صرف ایک غسل کو کافی سمجھتے ہیں جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ ہر غسل کے بدلے آب خالص سے ایک غسل دینا ہوگا۔<ref> بحرانی، الحدائق الناضرة، مؤسسة النشر الاسلامی، ج3، ص455.</ref>


چنانچہ میت کو پانی سے غسل دینا ناممکن ہو تو غسل کے بدلے اسے [[تیمم|تیمّم]] کرنا ضروری ہے لیکن کیا غسل کی طرح تیمم بھی تین دفعہ انجام دیا جائے گا یا صرف ایک بار تیمم کافی ہے، مورد اختلاف ہے۔<ref> طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۴۸.</ref>
چنانچہ میت کو پانی سے غسل دینا ناممکن ہو تو غسل کے بدلے اسے [[تیمم|تیمّم]] کرنا ضروری ہے لیکن کیا غسل کی طرح تیمم بھی تین دفعہ انجام دیا جائے گا یا صرف ایک بار تیمم کافی ہے، مورد اختلاف ہے۔<ref> طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1419ھ، ج2، ص48.</ref>


اگر جنین چار مہینے سے پہلے سقط ہوجائے تو اس کا غسل میت واجب نہیں ہے لیکن اگر حمل ٹھہرے ہوئے چار مہینوں سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہو تو ایسے جنین کے سقط ہونے پر غسل میت واجب ہوگا۔<ref> طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۳۲.</ref>
اگر جنین چار مہینے سے پہلے سقط ہوجائے تو اس کا غسل میت واجب نہیں ہے لیکن اگر حمل ٹھہرے ہوئے چار مہینوں سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہو تو ایسے جنین کے سقط ہونے پر غسل میت واجب ہوگا۔<ref> طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1419ھ، ج2، ص32.</ref>


===میدان جنگ کے شہید کا غسل===
===میدان جنگ کے شہید کا غسل===
شیعہ فقہا کے فتوؤں کے مطابق جنگ کے میدان میں شہید ہونے والے شخص کے لئے غسل میت دینا ضروری نہیں ہے؛<ref> شیخ انصاری، کتاب الطهاره، ۱۴۱۵ق، ج۴، ص۳۹۹.</ref> لیکن اگر کوئی شخص جنگ کے میدان میں زخمی ہوجائے اور جنگ ختم ہونے کے بعد شہید ہوجائے تو اسے غسل دینا ضروری ہے۔<ref> علامه حلی، نهایة الاحکام، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۲۳۵.</ref> \
شیعہ فقہا کے فتوؤں کے مطابق جنگ کے میدان میں شہید ہونے والے شخص کے لئے غسل میت دینا ضروری نہیں ہے؛<ref> شیخ انصاری، کتاب الطہارہ، 1415ھ، ج4، ص399.</ref> لیکن اگر کوئی شخص جنگ کے میدان میں زخمی ہوجائے اور جنگ ختم ہونے کے بعد شہید ہوجائے تو اسے غسل دینا ضروری ہے۔<ref> علامہ حلی، نہایة الاحکام، 1419ھ، ج2، ص235.</ref> \


==بعض دیگر احکام==
==بعض دیگر احکام==
*جو شخص کسی میت کو غسل دینا چاہتا ہو اسے غَسّال کہا جاتا ہے۔ غسال کیلئے مسلمان، [[شیعہ]] اثنا عشری، [[بالغ]] اور عاقل ہونا ضروری ہے۔<ref>طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۳۸-۳۹.</ref> اسی طرح  مرد میت کو مرد اور عورت میت کو عورت غسل دینا ضروری ہے<ref> طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۳۲.</ref> البتہ محارم اور میاں بیوی اس حکم سے خارج ہیں لیکن احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ وہ ایسی حالت میں غسل دے سکتے ہیں کہ جب میت کے ہمجنس میں سے کوئی غسل دینے کے لئے موجود نہ ہواور ایسی حالت میں بھی میت کو کپڑوں میں ہی غسل دے۔<ref> طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۳۳-۳۵.</ref>
*جو شخص کسی میت کو غسل دینا چاہتا ہو اسے غَسّال کہا جاتا ہے۔ غسال کیلئے مسلمان، [[شیعہ]] اثنا عشری، [[بالغ]] اور عاقل ہونا ضروری ہے۔<ref>طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1419ھ، ج2، ص38-39.</ref> اسی طرح  مرد میت کو مرد اور عورت میت کو عورت غسل دینا ضروری ہے<ref> طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1419ھ، ج2، ص32.</ref> البتہ محارم اور میاں بیوی اس حکم سے خارج ہیں لیکن احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ وہ ایسی حالت میں غسل دے سکتے ہیں کہ جب میت کے ہمجنس میں سے کوئی غسل دینے کے لئے موجود نہ ہواور ایسی حالت میں بھی میت کو کپڑوں میں ہی غسل دے۔<ref> طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1419ھ، ج2، ص33-35.</ref>


*اکثر [[مراجع تقلید]] کے فتوے کے مطابق غسل میت کی اجرت لینا [[حرام]] ہے اور بعض کے فتوؤں کے مطابق اجرت لینا قصد قربت کے ساتھ سازگار نہیں ہے جس کی وجہ سے غسل بھی باطل ہوتا ہے۔ لیکن غسل کے مقدماتی امور اور صفائی وغیرہ کو انجام دینے کیلئے اجرت لینا جائز ہے۔<ref> بنی‌هاشمی خمینی، توضیح‌المسائل مراجع، دفتر نشر اسلامی، ج۱، ص۲۲۲-۲۲۳.</ref>
*اکثر [[مراجع تقلید]] کے فتوے کے مطابق غسل میت کی اجرت لینا [[حرام]] ہے اور بعض کے فتوؤں کے مطابق اجرت لینا قصد قربت کے ساتھ سازگار نہیں ہے جس کی وجہ سے غسل بھی باطل ہوتا ہے۔ لیکن غسل کے مقدماتی امور اور صفائی وغیرہ کو انجام دینے کیلئے اجرت لینا جائز ہے۔<ref> بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح‌المسائل مراجع، دفتر نشر اسلامی، ج1، ص222-223.</ref>
* اگر [[حاکم شرع]] کسی مجرم کو [[اعدام]] کرنے کا حکم سنائے تو یہ شخص اعدام سے پہلے اپنے آپ کو غسل میت دے سکتا ہے اس صورت میں پھانسی کے بعد دوبارہ اسے غسل دینا ضروری نہیں ہے۔<ref> طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۴۱.</ref>
* اگر [[حاکم شرع]] کسی مجرم کو [[اعدام]] کرنے کا حکم سنائے تو یہ شخص اعدام سے پہلے اپنے آپ کو غسل میت دے سکتا ہے اس صورت میں پھانسی کے بعد دوبارہ اسے غسل دینا ضروری نہیں ہے۔<ref> طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1419ھ، ج2، ص41.</ref>
*غسل میت کو ارتماسی طریقے سے انجام دینا بھی صحیح ہے۔<ref> خویی، موسوعة الامام الخویی، مؤسسة احیاء آثار الامام الخوئی، ج۹، ص۹.</ref>  
*غسل میت کو ارتماسی طریقے سے انجام دینا بھی صحیح ہے۔<ref> خویی، موسوعة الامام الخویی، مؤسسة احیاء آثار الامام الخوئی، ج9، ص9.</ref>  
*غسل سے پہلے میت کا بدن نجاسات سے پاک ہونا ضروری ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ غسل سے پہلے ہر عضو کو دھونے سے پہلے اسے پاک کرنا کافی ہے۔<ref> طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۴۷.</ref>
*غسل سے پہلے میت کا بدن نجاسات سے پاک ہونا ضروری ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ غسل سے پہلے ہر عضو کو دھونے سے پہلے اسے پاک کرنا کافی ہے۔<ref> طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1419ھ، ج2، ص47.</ref>
* میت کو غسل دینے والے کو میت کے ولی سے اجازت مانگنا ضروری ہے۔.<ref> طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۲۲.</ref>
* میت کو غسل دینے والے کو میت کے ولی سے اجازت مانگنا ضروری ہے۔.<ref> طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1419ھ، ج2، ص22.</ref>
*کافر کو غسل میت دینا جائز نہیں ہے۔<ref> طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۳۰.</ref>
*کافر کو غسل میت دینا جائز نہیں ہے۔<ref> طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1419ھ، ج2، ص30.</ref>
===ائمہ معصومینؑ کا غسل===
===ائمہ معصومینؑ کا غسل===
متعدد احادیث کے مطابق ہر [[امام]] کو صرف بعد والا امام ہی غسل دے سکتا ہے۔<ref> کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۳۸۴.</ref>  اور احادیث کی کتابوں میں {{حدیث|«أَنَّ الْإِمَامَ لَا يُغَسِّلُهُ إِلَّا إِلامَام»|ترجمہ= بتحقیق امام کو صرف امام ہی غسل دے سکتا ہے}}کے عنوان سے ایک باب موجود ہے جو اس موضوع کی احادیث پر مشتمل ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۳۸۴.</ref>اس بنا پر [[امام مہدی(عج)]] کی رحلت کے بعد [[امام حسین(ع)]] [[رجعت]] فرمائیں گے اور امام زمانہ(ع) کو غسل دے کر ان کی [[نماز میت]] ادا کی جائے گی۔<ref> کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۸، ص۲۰۶.</ref>
متعدد احادیث کے مطابق ہر [[امام]] کو صرف بعد والا امام ہی غسل دے سکتا ہے۔<ref> کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص384.</ref>  اور احادیث کی کتابوں میں {{حدیث|«أَنَّ الْإِمَامَ لَا يُغَسِّلُہُ إِلَّا إِلامَام»|ترجمہ= بتحقیق امام کو صرف امام ہی غسل دے سکتا ہے}}کے عنوان سے ایک باب موجود ہے جو اس موضوع کی احادیث پر مشتمل ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص384.</ref>اس بنا پر [[امام مہدی(عج)]] کی رحلت کے بعد [[امام حسینؑ]] [[رجعت]] فرمائیں گے اور امام زمانہؑ کو غسل اور ان کی [[نماز میت]] کی ذمہ داری نبھائیں گے۔<ref> کلینی، الکافی، 1407ھ، ج8، ص206.</ref>


==متعلقہ مضامین==
==متعلقہ مضامین==
سطر 47: سطر 47:


==مآخذ==
==مآخذ==
*بحرانی، یوسف بن احمد، الحدائق الناضرة فی احکام العترة الطاهره، تصحیح محمدتقی ایروانی، قم، مؤسسة النشر الاسلامی، بی‌تا.
*بحرانی، یوسف بن احمد، الحدائق الناضرة فی احکام العترة الطاہرہ، تصحیح محمدتقی ایروانی، قم، مؤسسة النشر الاسلامی، بی‌تا.
*بنی‌هاشمی خمینی، محمدحسن، رساله توضیح المسایل مراجع، قم، دفتر نشر اسلامی، بی‌تا.
*بنی‌ہاشمی خمینی، محمدحسن، رسالہ توضیح المسایل مراجع، قم، دفتر نشر اسلامی، بی‌تا.
*بهرامی، فرشته، «[https://www.cgie.org.ir/fa/article/258480 غسالخانه]»، در دایرة‌المعارف بزرگ اسلامی، تهران، مرکز دایرة‌المعارف بزرگ اسلامی.
*بہرامی، فرشتہ، «[https://www.cgie.org.ir/fa/article/258480 غسالخانہ]»، در دایرة‌المعارف بزرگ اسلامی، تہران، مرکز دایرة‌المعارف بزرگ اسلامی.
*حرعاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعه، قم، مؤسسة آل‌البیت، ۱۴۰۹ق.
*حرعاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، قم، مؤسسة آل‌البیت، 1409ھ۔
*خویی، سید ابوالقاسم، موسوعة الامام الخوئی، مؤسسة احیاء آثار الامام الخوئی، بی‌تا.
*خویی، سید ابوالقاسم، موسوعة الامام الخوئی، مؤسسة احیاء آثار الامام الخوئی، بی‌تا.
*دهخدا، علی‌اکبر، لغتنامه، تهران، انتشارات دانشگاه تهران، ۱۳۷۷ش.
*دہخدا، علی‌اکبر، لغتنامہ، تہران، انتشارات دانشگاہ تہران، 1377ش.
*شیخ انصاری، مرتضی، کتاب الطهارة، قم، کنگره جهانی بزرگداشت شیخ اعظم انصاری، ۱۴۱۵ق.
*شیخ انصاری، مرتضی، کتاب الطہارة، قم، کنگرہ جہانی بزرگداشت شیخ اعظم انصاری، 1415ھ۔
*شیخ صدوق، محمد بن علی، ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، قم، دارالشریف الرضی للنشر، چاپ دوم، ۱۴۰۶ق.
*شیخ صدوق، محمد بن علی، ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، قم، دارالشریف الرضی للنشر، چاپ دوم، 1406ھ۔
*شیخ مفید، محمد بن محمد، الاختصاص، تصحیح: علی‌اکبر غفاری و محمود محرمی زرندی، قم، المؤتمر العالمی لالفیة الشیخ المفید، ۱۴۱۳ق.
*شیخ مفید، محمد بن محمد، الاختصاص، تصحیح: علی‌اکبر غفاری و محمود محرمی زرندی، قم، المؤتمر العالمی لالفیة الشیخ المفید، 1413ھ۔
*طباطبائی حکیم، سید محسن، مستمسک العروة الوثقی، دار احیاء التراث العربی، بی‌تا.
*طباطبائی حکیم، سید محسن، مستمسک العروة الوثقی، دار احیاء التراث العربی، بی‌تا.
*طباطبایی یزدی، سید محمدکاظم، العروة الوثقی، قم،‌ دار التفسیر، اسماعیلیان، چاپ پنجم، ۱۴۱۹ق.
*طباطبایی یزدی، سید محمدکاظم، العروة الوثقی، قم،‌ دار التفسیر، اسماعیلیان، چاپ پنجم، 1419ھ۔
*علامه حلی، حسن بن یوسف، نهایة الاحکام فی معرفة الاحکام، قم، مؤسسه آل‌البیت، ۱۴۱۹ق.
*علامہ حلی، حسن بن یوسف، نہایة الاحکام فی معرفة الاحکام، قم، مؤسسہ آل‌البیت، 1419ھ۔
*کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح علی‌اکبر غفاری و محمد آخوندی، تهران، دارالکتب الاسلامیه، چاپ چهارم، ۱۴۰۷ق.
*کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح علی‌اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، چاپ چہارم، 1407ھ۔


{{احکام طہارت}}
{{احکام طہارت}}
سطر 74: سطر 74:
[[es:Baño completo fúnebre]]
[[es:Baño completo fúnebre]]
[[hi:मुर्दे को नहलाना]]
[[hi:मुर्दे को नहलाना]]




confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,869

ترامیم