confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,869
ترامیم
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (حذف و اضافہ) |
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 13: | سطر 13: | ||
غسل سے پہلے میت نجس ہے اور اس کے سرد ہونے سے پہلے چھونے سے [[غسل مس میت|غُسل مَسِّ مَیت]] واجب ہوتا ہے۔لیکن غسل میت کے بعد نجاست زائل ہوتی ہے اور اس کو چھونے سے غسل واجب نہیں ہوتا ہے۔<ref> طباطبائی حکیم، مستمسک العروة الوثقی، دار احیاء التراث العربی، ج۱، ص۳۳۶.</ref> | غسل سے پہلے میت نجس ہے اور اس کے سرد ہونے سے پہلے چھونے سے [[غسل مس میت|غُسل مَسِّ مَیت]] واجب ہوتا ہے۔لیکن غسل میت کے بعد نجاست زائل ہوتی ہے اور اس کو چھونے سے غسل واجب نہیں ہوتا ہے۔<ref> طباطبائی حکیم، مستمسک العروة الوثقی، دار احیاء التراث العربی، ج۱، ص۳۳۶.</ref> | ||
== | ==غسل میت کی کیفیت== | ||
{{معاد (عمودی)}} | |||
مشہور [[مراجع تقلید]] کے [[فتوے]] کے مطابق میت کو تین غسل دینا واجب ہے: سب سے پہلے بیری کے پتے ملے ہوئے پانی سے اس کے بعد کافور ملا ہوا پانی سے اور آخر میں خالص پانی سے غسل دینا واجب ہے۔ غسل میت میں مذکورہ ترتیب کی رعایت کرنا ضروری ہے.<ref>طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۴۶-۴۷.</ref>غسل میت میں دوسرے [[واجب غسل|واجب غسلوں]] کی طرح نیت اور [[قصد قربت]] کے بعد سب سے پہلے سر اور گردن پھر دائیں طرف اور آخر میں بائیں طرف کو دھونا ضروری ہے، ناف اور شرمگاہ کو دونوں اطراف کے ساتھ غسل دینا ضروری ہے۔<ref>طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۴۶-۴۷.</ref> | |||
اگر بیری کے پتے یا کافور نہ ملے تو ہر ایک غسل کے بدلے خالص پانی سے غسل دینا کافی ہے۔ اس صورت میں بعض فقہاء صرف ایک غسل کو کافی سمجھتے ہیں جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ ہر غسل کے بدلے آب خالص سے ایک غسل دینا ہوگا۔<ref> بحرانی، الحدائق الناضرة، مؤسسة النشر الاسلامی، ج۳، ص۴۵۵.</ref> | |||
اگر | |||
چنانچہ میت کو پانی سے غسل دینا ناممکن ہو تو غسل کے بدلے اسے [[تیمم|تیمّم]] کرنا ضروری ہے لیکن کیا غسل کی طرح تیمم بھی تین دفعہ انجام دیا جائے گا یا صرف ایک بار تیمم کافی ہے، مورد اختلاف ہے۔<ref> طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۴۸.</ref> | |||
اگر جنین چار مہینے سے پہلے سقط ہوجائے تو اس کا غسل میت واجب نہیں ہے لیکن اگر حمل ٹھہرے ہوئے چار مہینوں سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہو تو ایسے جنین کے سقط ہونے پر غسل میت واجب ہوگا۔<ref> طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۳۲.</ref> | |||
==غسل | ===میدان جنگ کے شہید کا غسل=== | ||
شیعہ فقہا کے فتوؤں کے مطابق جنگ کے میدان میں شہید ہونے والے شخص کے لئے غسل میت دینا ضروری نہیں ہے؛<ref> شیخ انصاری، کتاب الطهاره، ۱۴۱۵ق، ج۴، ص۳۹۹.</ref> لیکن اگر کوئی شخص جنگ کے میدان میں زخمی ہوجائے اور جنگ ختم ہونے کے بعد شہید ہوجائے تو اسے غسل دینا ضروری ہے۔<ref> علامه حلی، نهایة الاحکام، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۲۳۵.</ref> \ | |||
==بعض دیگر احکام== | |||
*جو شخص کسی میت کو غسل دینا چاہتا ہو اسے غَسّال کہا جاتا ہے۔ غسال کیلئے مسلمان، [[شیعہ]] اثنا عشری، [[بالغ]] اور عاقل ہونا ضروری ہے۔<ref>طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۳۸-۳۹.</ref> اسی طرح مرد میت کو مرد اور عورت میت کو عورت غسل دینا ضروری ہے<ref> طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۳۲.</ref> البتہ محارم اور میاں بیوی اس حکم سے خارج ہیں لیکن احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ وہ ایسی حالت میں غسل دے سکتے ہیں کہ جب میت کے ہمجنس میں سے کوئی غسل دینے کے لئے موجود نہ ہواور ایسی حالت میں بھی میت کو کپڑوں میں ہی غسل دے۔<ref> طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۳۳-۳۵.</ref> | |||
*اکثر [[مراجع تقلید]] کے فتوے کے مطابق غسل میت کی اجرت لینا [[حرام]] ہے اور بعض کے فتوؤں کے مطابق اجرت لینا قصد قربت کے ساتھ سازگار نہیں ہے جس کی وجہ سے غسل بھی باطل ہوتا ہے۔ لیکن غسل کے مقدماتی امور اور صفائی وغیرہ کو انجام دینے کیلئے اجرت لینا جائز ہے۔<ref> بنیهاشمی خمینی، توضیحالمسائل مراجع، دفتر نشر اسلامی، ج۱، ص۲۲۲-۲۲۳.</ref> | |||
اگر | * اگر [[حاکم شرع]] کسی مجرم کو [[اعدام]] کرنے کا حکم سنائے تو یہ شخص اعدام سے پہلے اپنے آپ کو غسل میت دے سکتا ہے اس صورت میں پھانسی کے بعد دوبارہ اسے غسل دینا ضروری نہیں ہے۔<ref> طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۴۱.</ref> | ||
*غسل میت کو ارتماسی طریقے سے انجام دینا بھی صحیح ہے۔<ref> خویی، موسوعة الامام الخویی، مؤسسة احیاء آثار الامام الخوئی، ج۹، ص۹.</ref> | |||
*غسل سے پہلے میت کا بدن نجاسات سے پاک ہونا ضروری ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ غسل سے پہلے ہر عضو کو دھونے سے پہلے اسے پاک کرنا کافی ہے۔<ref> طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۴۷.</ref> | |||
مسلمان کا بدن موت کے بعد سے اسے غسل میت دینے تک نجس ہے اور اگر کوئی گھیلا چیز اس سے ملاقات کرے تو وہ چیز بھی نجس ہو جائے گی۔ چنانچہ اگر کسی میت کے بدن کو سرد ہونے کے بعد اور غسل میت دینے سے پہلے مس کرے تو لمس کرنے والے پر [[غسل مس میت|غُسل مَسِّ مَیت]] واجب ہو جاتا ہے لیکن غسل میت کے بعد اگر کسی میت کے بدن کو لمس کرے تو غسل مس میت واجب نہیں ہے۔ | |||
اگر | |||
=== | * میت کو غسل دینے والے کو میت کے ولی سے اجازت مانگنا ضروری ہے۔.<ref> طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۲۲.</ref> | ||
*کافر کو غسل میت دینا جائز نہیں ہے۔<ref> طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۳۰.</ref> | |||
===ائمہ معصومینؑ کا غسل=== | |||
متعدد احادیث کے مطابق ہر [[امام]] کو صرف بعد والا امام ہی غسل دے سکتا ہے۔<ref> کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۳۸۴.</ref> اور احادیث کی کتابوں میں {{حدیث|«أَنَّ الْإِمَامَ لَا يُغَسِّلُهُ إِلَّا إِلامَام»|ترجمہ= بتحقیق امام کو صرف امام ہی غسل دے سکتا ہے}}کے عنوان سے ایک باب موجود ہے جو اس موضوع کی احادیث پر مشتمل ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۳۸۴.</ref>اس بنا پر [[امام مہدی(عج)]] کی رحلت کے بعد [[امام حسین(ع)]] [[رجعت]] فرمائیں گے اور امام زمانہ(ع) کو غسل دے کر ان کی [[نماز میت]] ادا کی جائے گی۔<ref> کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۸، ص۲۰۶.</ref> | |||
==متعلقہ مضامین== | |||
* [[دفن]] | |||
* [[کفن]] | |||
==حوالہ جات== | ==حوالہ جات== | ||
سطر 53: | سطر 52: | ||
==مآخذ== | ==مآخذ== | ||
* | *بحرانی، یوسف بن احمد، الحدائق الناضرة فی احکام العترة الطاهره، تصحیح محمدتقی ایروانی، قم، مؤسسة النشر الاسلامی، بیتا. | ||
* | *بنیهاشمی خمینی، محمدحسن، رساله توضیح المسایل مراجع، قم، دفتر نشر اسلامی، بیتا. | ||
* | *بهرامی، فرشته، «[https://www.cgie.org.ir/fa/article/258480 غسالخانه]»، در دایرةالمعارف بزرگ اسلامی، تهران، مرکز دایرةالمعارف بزرگ اسلامی. | ||
* | *حرعاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعه، قم، مؤسسة آلالبیت، ۱۴۰۹ق. | ||
* مستمسک | *خویی، سید ابوالقاسم، موسوعة الامام الخوئی، مؤسسة احیاء آثار الامام الخوئی، بیتا. | ||
* | *دهخدا، علیاکبر، لغتنامه، تهران، انتشارات دانشگاه تهران، ۱۳۷۷ش. | ||
* | *شیخ انصاری، مرتضی، کتاب الطهارة، قم، کنگره جهانی بزرگداشت شیخ اعظم انصاری، ۱۴۱۵ق. | ||
*شیخ صدوق، محمد بن علی، ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، قم، دارالشریف الرضی للنشر، چاپ دوم، ۱۴۰۶ق. | |||
*شیخ مفید، محمد بن محمد، الاختصاص، تصحیح: علیاکبر غفاری و محمود محرمی زرندی، قم، المؤتمر العالمی لالفیة الشیخ المفید، ۱۴۱۳ق. | |||
*طباطبائی حکیم، سید محسن، مستمسک العروة الوثقی، دار احیاء التراث العربی، بیتا. | |||
*طباطبایی یزدی، سید محمدکاظم، العروة الوثقی، قم، دار التفسیر، اسماعیلیان، چاپ پنجم، ۱۴۱۹ق. | |||
*علامه حلی، حسن بن یوسف، نهایة الاحکام فی معرفة الاحکام، قم، مؤسسه آلالبیت، ۱۴۱۹ق. | |||
*کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح علیاکبر غفاری و محمد آخوندی، تهران، دارالکتب الاسلامیه، چاپ چهارم، ۱۴۰۷ق. | |||
{{احکام طہارت}} | {{احکام طہارت}} |