مندرجات کا رخ کریں

"غسل میت" کے نسخوں کے درمیان فرق

301 بائٹ کا اضافہ ،  11 فروری 2023ء
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(حذف و اضافہ)
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 13: سطر 13:


غسل سے پہلے میت نجس ہے اور اس کے سرد ہونے سے پہلے چھونے سے [[غسل مس میت|غُسل مَسِّ مَیت]] واجب ہوتا ہے۔لیکن غسل میت کے بعد نجاست زائل ہوتی ہے اور اس کو چھونے سے غسل واجب نہیں ہوتا ہے۔<ref> طباطبائی حکیم، مستمسک العروة الوثقی، دار احیاء التراث العربی، ج۱، ص۳۳۶.</ref>
غسل سے پہلے میت نجس ہے اور اس کے سرد ہونے سے پہلے چھونے سے [[غسل مس میت|غُسل مَسِّ مَیت]] واجب ہوتا ہے۔لیکن غسل میت کے بعد نجاست زائل ہوتی ہے اور اس کو چھونے سے غسل واجب نہیں ہوتا ہے۔<ref> طباطبائی حکیم، مستمسک العروة الوثقی، دار احیاء التراث العربی، ج۱، ص۳۳۶.</ref>
===ائمہ معصومین(ع) کا غسل===
متعدد احادیث کے مطابق ہر [[امام]] کو صرف بعد والا امام ہی غسل دے سکتا ہے،<ref>امام صادق(ع):{{حدیث|إنّ الامام لایغسله الا الامام|ترجمہ= بتحقیق امام کو صرف امام ہی غسل دے سکتا ہے}}(اصول کافی، ج ۱، ص ۳۸۴.) اسی طرح بحارالانوار جلد ۲۷ ص ۲۸۸ میں سات روایت نقل ہوئی ہے جن میں سے بعض احادیث بھی اس بات کے اوپر دلالت کرتی ہے کہ امام کو صرف امام ہی غسل دے سکتا ہے۔</ref> اس بنا پر [[امام مہدی(عج)]] کی رحلت کے بعد [[امام حسین(ع)]] [[رجعت]] فرمائیں گے اور امام زمانہ(ع) کو غسل دے کر ان کی [[نماز میت]] ادا کی جائے گی۔<ref>بحارالانوار، ج ۵۳، ص ۱۳</ref>


===شہید کا غسل===
==غسل میت کی کیفیت==
ایسا مسلمان جو [[جہاد]] کرتے ہوئے [[شہید]] ہو جائے شدہ اسے غسل میت اور [[کفن]] کی ضرورت نہیں ہوتی اور اسے اسی لباس میں دفن کیا جائے گا جو اس کے بدن پر شہادت کے وقت موجود ہو۔ بعض فقہاء شہید کو غسل دینا جائز بھی نہیں سمجھتے ہیں۔<ref> [http://lib.eshia.ir/10027/2/39 عروۃ الوثقی]</ref>
{{معاد (عمودی)}}
مشہور [[مراجع تقلید]] کے [[فتوے]] کے مطابق میت کو تین غسل دینا واجب ہے: سب سے پہلے بیری کے پتے ملے ہوئے پانی سے اس کے بعد کافور ملا ہوا پانی سے اور آخر میں خالص پانی سے غسل دینا واجب ہے۔ غسل میت میں مذکورہ ترتیب کی رعایت کرنا ضروری ہے.<ref>طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۴۶-۴۷.</ref>غسل میت میں دوسرے [[واجب غسل|واجب غسلوں]] کی طرح نیت اور [[قصد قربت]] کے بعد سب سے پہلے سر اور گردن پھر دائیں طرف اور آخر میں بائیں طرف کو دھونا ضروری ہے، ناف اور شرمگاہ کو دونوں اطراف کے ساتھ غسل دینا ضروری ہے۔<ref>طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۴۶-۴۷.</ref>


===بچوں کا غسل===
اگر بیری کے پتے یا کافور نہ ملے تو ہر ایک غسل کے بدلے خالص پانی سے غسل دینا کافی ہے۔ اس صورت میں بعض فقہاء صرف ایک غسل کو کافی سمجھتے ہیں جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ ہر غسل کے بدلے آب خالص سے ایک غسل دینا ہوگا۔<ref> بحرانی، الحدائق الناضرة، مؤسسة النشر الاسلامی، ج۳، ص۴۵۵.</ref>
اگر بچے (اسی طرح دیوانہ) کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک [[مسلمان]] ہو تو دوسرے تمام مسلمانوں پر واجب کفائی ہے کہ اس بچے کو غسل دیا جائے۔ چار ماہ سے پہلے اگر جنین سقط ہو جائے اسے غسل دینے کی ضرورت نہیں ہوتی اور اسے کسی کپڑے میں لپیٹ کر دفن کیا جاتا ہے لیکن اگر جنین کے چار ماہ پورے ہو چکے ہوں تو اسے بھی غسل دنیا واجب ہے۔<ref> [http://lib.eshia.ir/10027/2/32 عروۃ الوثقی]</ref>


===قصاص کے بعد کا غسل===
چنانچہ میت کو پانی سے غسل دینا ناممکن ہو تو غسل کے بدلے اسے [[تیمم|تیمّم]] کرنا ضروری ہے لیکن کیا غسل کی طرح تیمم بھی تین دفعہ انجام دیا جائے گا یا صرف ایک بار تیمم کافی ہے، مورد اختلاف ہے۔<ref> طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۴۸.</ref>
اگر [[حاکم شرع]] کسی مجرم کو [[اعدام]] کرنے کا حکم سنائے تو یہ شخص اعدام سے پہلے اپنے آپ کو غسل میت دے سکتا ہے اس صورت میں اعدام کے بعد دوبارہ اسے غسل دینا ضروری نہیں ہے۔<ref> [http://lib.eshia.ir/10027/2/41 عروۃ الوثقی]</ref>


==غسل سے پہلے میت کے بدن کی نجاست==
اگر جنین چار مہینے سے پہلے سقط ہوجائے تو اس کا غسل میت واجب نہیں ہے لیکن اگر حمل ٹھہرے ہوئے چار مہینوں سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہو تو ایسے جنین کے سقط ہونے پر غسل میت واجب ہوگا۔<ref> طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۳۲.</ref>
مسلمان کا بدن موت کے بعد سے اسے غسل میت دینے تک نجس ہے اور اگر کوئی گھیلا چیز اس سے ملاقات کرے تو وہ چیز بھی نجس ہو جائے گی۔ چنانچہ اگر کسی میت کے بدن کو سرد ہونے کے بعد اور غسل میت دینے سے پہلے مس کرے تو لمس کرنے والے پر [[غسل مس میت|غُسل مَسِّ مَیت]] واجب ہو جاتا ہے لیکن غسل میت کے بعد اگر کسی میت کے بدن کو لمس کرے تو غسل مس میت واجب نہیں ہے۔


==غسل میت کی کیفیت==
===میدان جنگ کے شہید کا غسل===
{{معاد (عمودی)}}
شیعہ فقہا کے فتوؤں کے مطابق جنگ کے میدان میں شہید ہونے والے شخص کے لئے غسل میت دینا ضروری نہیں ہے؛<ref> شیخ انصاری، کتاب الطهاره، ۱۴۱۵ق، ج۴، ص۳۹۹.</ref> لیکن اگر کوئی شخص جنگ کے میدان میں زخمی ہوجائے اور جنگ ختم ہونے کے بعد شہید ہوجائے تو اسے غسل دینا ضروری ہے۔<ref> علامه حلی، نهایة الاحکام، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۲۳۵.</ref> \
مشہور [[مراجع تقلید]] کے [[فتوے]] کے مطابق میت کو تین غسل دینا واجب ہے: سب سے پہلے بیری کے پتے ملے ہوئے پانی سے اس کے بعد کافور ملا ہوا پانی سے اور آخر میں خالص پانی سے غسل دینا واجب ہے۔ غسل میت میں مذکورہ ترتیب کی رعایت کرنا ضروری ہے پس اگر اس ترتیب کی رعایت نہ کی ہو تو ترتیب کی رعایت کرتے ہوئے دوبارہ غسل دینا ضروری ہے۔ غسل میت میں دوسرے [[واجب غسل|واجب غسلوں]] کی طرح نیت اور [[قصد قربت]] کے بعد سب سے پہلے سر اور گردن پھر دائیں طرف اور آخر میں بائیں طرف کو دھونا ضروری ہے، ناف اور شرمگاہ کو دونوں اطراف کے ساتھ غسل دینا ضروری ہے۔<ref> [http://lib.eshia.ir/10027/2/46 العروۃ الوثقی، ج۲، ص۴۶]</ref>


غسل میت کو ارتماسی طور پر انجام دینا صحیح نہیں ہے۔<ref> [http://lib.eshia.ir/71334/9/9 موسوعۃ الخویی، ج۹، ص۹]</ref> اسی طرح میت کو غسل دینے سے پہلے ضروری ہے کہ اس کے تمام بدن کو [[نجاسات]] سے پاک کیا جائے۔ بعض فقہاء میت کے جسم کے ہر حصے کو اسی حصے کو غسل دینے سے پہلے پاک کرنا کافی سمجھتے ہیں۔<ref> [http://lib.eshia.ir/10027/2/47 العروۃ الوثقی، ج۲، ص۴۷]</ref>
==بعض دیگر احکام==
*جو شخص کسی میت کو غسل دینا چاہتا ہو اسے غَسّال کہا جاتا ہے۔ غسال کیلئے مسلمان، [[شیعہ]] اثنا عشری، [[بالغ]] اور عاقل ہونا ضروری ہے۔<ref>طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۳۸-۳۹.</ref> اسی طرح مرد میت کو مرد اور عورت میت کو عورت غسل دینا ضروری ہے<ref> طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۳۲.</ref> البتہ محارم اور میاں بیوی اس حکم سے خارج ہیں لیکن احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ وہ ایسی حالت میں غسل دے سکتے ہیں کہ جب میت کے ہمجنس میں سے کوئی غسل دینے کے لئے موجود نہ ہواور ایسی حالت میں بھی میت کو کپڑوں میں ہی غسل دے۔<ref> طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۳۳-۳۵.</ref>


سدر اور کافور کی مقدار نہ اتنا زیادہ ہو کہ پانی مضاف ہو جائے اور نہ اتنا کم ہو کہ نہ کہا جائے سدر اور کافور ڈالا گیا ہے۔<ref> [http://lib.eshia.ir/10075/1/352 تذکرۃ الفقہاء، ج۱، ص۳۵۲]</ref>
*اکثر [[مراجع تقلید]] کے فتوے کے مطابق غسل میت کی اجرت لینا [[حرام]] ہے اور بعض کے فتوؤں کے مطابق اجرت لینا قصد قربت کے ساتھ سازگار نہیں ہے جس کی وجہ سے غسل بھی باطل ہوتا ہے۔ لیکن غسل کے مقدماتی امور اور صفائی وغیرہ کو انجام دینے کیلئے اجرت لینا جائز ہے۔<ref> بنی‌هاشمی خمینی، توضیح‌المسائل مراجع، دفتر نشر اسلامی، ج۱، ص۲۲۲-۲۲۳.</ref>


اگر بیری کے پتے یا کافور پیدا نہ ہو تو ہر ایک کے بدلے خالص پانی سے غسل دینا کافی ہے۔ اس صورت میں بعض فقہاء صرف ایک غسل کو کافی سمجھتے ہیں۔<ref> [http://lib.eshia.ir/10013/3/455 الحدائق الناضرۃ، ج۳، ص۴۵۵]</ref> چنانچہ میت کو پانی سے غسل دینا ناممکن ہو تو غسل کے بدلے اسے [[تیمم|تیمّم]] کرنا ضروری ہے لیکن آیا غسل کی طرح تمم بھی تین دفعہ انجام دیا جائے گا یا صرف ایک بار تیمم کافی ہے، مورد اختلاف ہے۔<ref> [http://lib.eshia.ir/10027/2/48 العروۃ الوثقی، ج۲، ص۴۸]</ref>
* اگر [[حاکم شرع]] کسی مجرم کو [[اعدام]] کرنے کا حکم سنائے تو یہ شخص اعدام سے پہلے اپنے آپ کو غسل میت دے سکتا ہے اس صورت میں پھانسی کے بعد دوبارہ اسے غسل دینا ضروری نہیں ہے۔<ref> طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۴۱.</ref>
*غسل میت کو ارتماسی طریقے سے انجام دینا بھی صحیح ہے۔<ref> خویی، موسوعة الامام الخویی، مؤسسة احیاء آثار الامام الخوئی، ج۹، ص۹.</ref>  


جو شخص [[جنابت]] یا [[حیض]] کی حالت میں فوت ہوا ہو، اسے غسل میت دینا کافی ہے اور دوبارہ [[غسل جنابت]] یا حیض دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن بعض فقہاء معتقد ہیں کہ بنا بر اختیاط غسل دینے والا غسل میت کی نست کے ساتھ اسی ایک غسل میں غسل جنابت یا حیض کی نیت بھی کرے۔ <ref> [http://portal.anhar.ir/node/1320#gsc.tab=0 پورتال انہار]</ref>
*غسل سے پہلے میت کا بدن نجاسات سے پاک ہونا ضروری ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ غسل سے پہلے ہر عضو کو دھونے سے پہلے اسے پاک کرنا کافی ہے۔<ref> طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۴۷.</ref>


==غسل میت دینے والے کے شرایط==
مسلمان کا بدن موت کے بعد سے اسے غسل میت دینے تک نجس ہے اور اگر کوئی گھیلا چیز اس سے ملاقات کرے تو وہ چیز بھی نجس ہو جائے گی۔ چنانچہ اگر کسی میت کے بدن کو سرد ہونے کے بعد اور غسل میت دینے سے پہلے مس کرے تو لمس کرنے والے پر [[غسل مس میت|غُسل مَسِّ مَیت]] واجب ہو جاتا ہے لیکن غسل میت کے بعد اگر کسی میت کے بدن کو لمس کرے تو غسل مس میت واجب نہیں ہے۔
جو شخص کسی میت کو غسل دینا چاہتا ہو اسے غَسّال کہا جاتا ہے۔ غسال کیلئے مسلمان، [[شیعہ]] اثنا عشری، [[بالغ]] اور عاقل ہونا ضروری ہے۔ <ref> [http://lib.eshia.ir/10027/2/38 عروۃ الوثقی]</ref> صرف میاں اور بیوی کے علاوہ مرد میت کو مرد اور عورت میت کو عورت غسل دینا ضروری ہے اور اکثر فقہاء غیر ہم جنس [[محرم]] کو عام حالات میں جائز نہیں سمجھتے ہیں۔<ref>[http://lib.eshia.ir/10027/2/34 عروۃ الوثقی]</ref>  بعض فقہاء معتقد ہیں کہ میاں بیوی بھی اگر ایک دوسرے کو غسل دینا چائے تو لباس کے اوپر سے غسل دینا چاہئے۔ <ref> [http://lib.eshia.ir/10027/2/33 عروۃ الوثقی]</ref>
 
اگر غسّال دستانہ پہن کر میت کو غسل دے دے اور اس کا ہاتھ میت کے بدن کے ساتھ لمس نہ کرے تو اس پر [[غسل مس میت]] واجب نہیں ہے۔


===میت کو غسل دینے کی اجرت لینا===
* میت کو غسل دینے والے کو میت کے ولی سے اجازت مانگنا ضروری ہے۔.<ref> طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۲۲.</ref>
اکثر [[مراجع تقلید]] کے فتوے کے مطابق غسل میت کی اجرت لینا [[حرام]] ہے۔ اس سلسلے میں بعض فقہاء اصلِ [[غسل]] کو اجرت لینے کی صورت میں باطل سمجھتے ہیں لیکن غسل کے مقدماتی امور وغیرہ کو انجام دینے کیلئے اجرت لینے کو جائز سمجھتے ہیں۔<ref> [http://portal.anhar.ir/node/1320#gsc.tab=0 پورتال انہار]</ref>
*کافر کو غسل میت دینا جائز نہیں ہے۔<ref> طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۳۰.</ref>
===ائمہ معصومینؑ کا غسل===
متعدد احادیث کے مطابق ہر [[امام]] کو صرف بعد والا امام ہی غسل دے سکتا ہے۔<ref> کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۳۸۴.</ref>  اور احادیث کی کتابوں میں {{حدیث|«أَنَّ الْإِمَامَ لَا يُغَسِّلُهُ إِلَّا إِلامَام»|ترجمہ= بتحقیق امام کو صرف امام ہی غسل دے سکتا ہے}}کے عنوان سے ایک باب موجود ہے جو اس موضوع کی احادیث پر مشتمل ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۳۸۴.</ref>اس بنا پر [[امام مہدی(عج)]] کی رحلت کے بعد [[امام حسین(ع)]] [[رجعت]] فرمائیں گے اور امام زمانہ(ع) کو غسل دے کر ان کی [[نماز میت]] ادا کی جائے گی۔<ref> کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۸، ص۲۰۶.</ref>


==متعلقہ مضامین==
* [[دفن]]
* [[کفن]]


==حوالہ جات==
==حوالہ جات==
سطر 53: سطر 52:


==مآخذ==
==مآخذ==
* مختلف الشیعۃ فی احکام الشریعہ، حسن بن یوسف العلامۃ الحلی (م. ۷۲۶ ق.)، بہ کوشش مرکزالابحاث والدراسات الاسلامیۃ، اول، قم، دفتر تبلیغات اسلامی، ۱۴۱۲ ق.
*بحرانی، یوسف بن احمد، الحدائق الناضرة فی احکام العترة الطاهره، تصحیح محمدتقی ایروانی، قم، مؤسسة النشر الاسلامی، بی‌تا.
* العروۃ الوثقی، سید محمد کاظم یزدی (م. ۱۳۳۷ ق.)، پنجم، قم،‌دار التفسیر، اسماعیلیان، ۱۴۱۹ ق.
*بنی‌هاشمی خمینی، محمدحسن، رساله توضیح المسایل مراجع، قم، دفتر نشر اسلامی، بی‌تا.
* جواہر الکلام فی شرح شرایع الاسلام، محمد حسن نجفی (م. ۱۲۶۶ ق.)، ہفتم، بیروت،‌دار احیاء التراث العربی.
*بهرامی، فرشته، «[https://www.cgie.org.ir/fa/article/258480 غسالخانه]»، در دایرة‌المعارف بزرگ اسلامی، تهران، مرکز دایرة‌المعارف بزرگ اسلامی.
* مستند العروۃ الوثقی، تقریرات آیۃ اللہ خوئی (م. ۱۴۱۳ ق.)، مرتضی بروجردی، قم، مدرسۃ‌دار العلم، [بی تا].
*حرعاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعه، قم، مؤسسة آل‌البیت، ۱۴۰۹ق.
* مستمسک العروۃ الوثقی، سید محسن حکیم (م. ۱۳۹۰ ق.)، اول، قم، مؤسسہ‌دار التفسیر، ۱۴۱۶ ق.
*خویی، سید ابوالقاسم، موسوعة الامام الخوئی، مؤسسة احیاء آثار الامام الخوئی، بی‌تا.
* الحدائق الناضرۃ فی احکام العترۃ الطاہرہ، یوسف بحرانی (م. ۱۱۸۶ ق.)، بہ کوشش علی آخوندی، قم، نشر اسلامی، ۱۳۶۳ ش.
*دهخدا، علی‌اکبر، لغتنامه، تهران، انتشارات دانشگاه تهران، ۱۳۷۷ش.
* تذکرۃ الفقہاء، حسن بن یوسف العلامۃ الحلی (م. ۷۲۶ ق.)، بہ کوشش مؤسسہ آل البیت(علیہ‌السلام)لاحیاء التراث، اول، قم، ۱۴۱۴ ق.
*شیخ انصاری، مرتضی، کتاب الطهارة، قم، کنگره جهانی بزرگداشت شیخ اعظم انصاری، ۱۴۱۵ق.
*شیخ صدوق، محمد بن علی، ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، قم، دارالشریف الرضی للنشر، چاپ دوم، ۱۴۰۶ق.
*شیخ مفید، محمد بن محمد، الاختصاص، تصحیح: علی‌اکبر غفاری و محمود محرمی زرندی، قم، المؤتمر العالمی لالفیة الشیخ المفید، ۱۴۱۳ق.
*طباطبائی حکیم، سید محسن، مستمسک العروة الوثقی، دار احیاء التراث العربی، بی‌تا.
*طباطبایی یزدی، سید محمدکاظم، العروة الوثقی، قم،‌ دار التفسیر، اسماعیلیان، چاپ پنجم، ۱۴۱۹ق.
*علامه حلی، حسن بن یوسف، نهایة الاحکام فی معرفة الاحکام، قم، مؤسسه آل‌البیت، ۱۴۱۹ق.
*کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح علی‌اکبر غفاری و محمد آخوندی، تهران، دارالکتب الاسلامیه، چاپ چهارم، ۱۴۰۷ق.


{{احکام طہارت}}
{{احکام طہارت}}
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,869

ترامیم