"مسجد رد الشمس" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 36: | سطر 36: | ||
[[امام صادق(ع)]] سے منقول ایک حدیث میں اس مسجد کی وجہ تسمیہ کے بارے میں آیا ہے کہ چونکہ یہ مسجد نخلستان کے درمیان واقع تھی اور کھجور کے رس یا شراب کو "فضیخ" کہا جاتا ہے، اس مسجد کو بھی اسی نام سے پکارا جانے لگا۔ معصومین کی بعض دوسری احادیث میں اس مسجد میں نماز پڑھنے کی سفارش کی گئی ہے۔<ref>جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۲۶۴ و ۲۶۵.</ref> | [[امام صادق(ع)]] سے منقول ایک حدیث میں اس مسجد کی وجہ تسمیہ کے بارے میں آیا ہے کہ چونکہ یہ مسجد نخلستان کے درمیان واقع تھی اور کھجور کے رس یا شراب کو "فضیخ" کہا جاتا ہے، اس مسجد کو بھی اسی نام سے پکارا جانے لگا۔ معصومین کی بعض دوسری احادیث میں اس مسجد میں نماز پڑھنے کی سفارش کی گئی ہے۔<ref>جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۲۶۴ و ۲۶۵.</ref> | ||
==تاریخچہ== | ==تاریخچہ== | ||
بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مسجد کی تعمیر پہلی صدی ہجری میں ہوئی تھی؛ منجملہ ایک روایت میں امام صادق(ع) اپنے ماننے والوں سے فرماتے ہیں: "پیغمبر اکرم(ص) کی تمام باقی ماندہ آثار میں رد و بدل کی گئی ہے صرف چند چیزوں کے" اور "مسجد فضیخ" کو منجملہ ان چیزوں میں شمار کیا جاتا ہے۔<ref> کلینی، کافی، ج ۴، ص ۵۶۰.</ref> | |||
تاریخی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مسجد کی تعمیر کی فراز و نشیب کا حامل ہے کبھی ویرانی کی طرف گئی ہے تو کبھی اس یک مرمت ہوئی ہے۔ ظاہرا پیغمبر اکرم(ص) کی رحلت کے بعد پہلی مرتبہ [[عمر بن عبدالعزیز|عمر بن عبد العزیز]] نے [[مسجد قبا]] کی مرمت کے ساتھ اس مسجد کی بھی مرمت کی ہے۔ ساتویں صدی ہجری کے مشہور مدینہ شناس، "مطری" اس مسجد کے خراب ہونے کی خبر دیتا ہے لیکن اس کے باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے دور میں ابھی مسجد کے قابل توجہ حصے باقی تھے۔ وہ لکھتے ہیں۔ اس مسجد کے سولہ ستون تھے جو ابھی خراب ہو گئی ہے، مسجد کا منارہ گر گیا ہے اور بعض لوگوں نے مسجد کی ایٹوں کو بھی گھر بنانے کیلئے لے گئے ہیں۔ اسی صدی کے ایک اور مدینہشناس، "ابن نجار" نے مسجد کے پتھر سے بنائے جانے کی بات کی ہے۔ "سمہودی"، مدینہ کا مشہور تاریخ نگار لکھتے ہیں کہ انہوں نے خود نویں صدی کے میں اس مسجد کو دیکھا ہے اور اس کے بارے میں تحقیق کی ہے لیکن اس بارے میں کہ اس کی عمارت کس نے بنائی کوئی بات نہیں کی ہے۔<ref>نجفی، مدینہ شناسی، ج۱، ۱۴۶.</ref> | |||
کتاب مدینہ شناسی کے مصنف، محمدباقر نجفی نے سنہ 1390 ہجری قمری میں اس مسجد کے بارے میں اپنے مشاہدات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "موجودہ عمارت تقریبا خراب ہو گئی ہے اور مسلما اس کی تعمیر حجاز میں عثمانیوں کی حکومت کے دوران ہوئی ہے۔ ذی الحجّہ سنہ ۱۳۹۶ ہجری قمری، ۱۴ رجب سنہ ۱۳۹۷ ہجری قمری اور بروز جمعہ 3 شعبان ۱۳۹۸ ہجری قمری کو مجھے اس مسجد کی زیارت کا شرف حاصل ہوا۔ | |||
مسجد کی لمبائی ۱۹ مٹر اور چوڑائی ۴ مٹر ہے لیکن مسجد کا صحن کچی مٹی سے بنائی ہوئی ہے۔ مسجد کی عمارت ۵ گنبدوں اور ایک [[محراب]] پر مشتمل ہے۔ فرسودہ دیواریں کالے پتھر کی بنی ہوئی ہے اور اس کے اوپر چپسم کے ذریعے سفید کاری کی گئی ہے۔<ref>نجفی، مدینہ شناسی، ج۱، ص۱۴۷.</ref> | |||
آجکل اس مسجد کے صرف کھنڈرات باقی ہیں۔ اس مسجد کے مشرق میں واقع ایک اور مسجد جو در اصل "مسجد بنیقریظہ" ہے غلطی سے اسے بھی "مسجد فضیخ" کہا جاتا ہے۔<ref>جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۲۶۸.</ref> | |||
==اہمیت == | ==اہمیت == | ||
احادیث کے مطابق پیغمبر اکرم(ص) اس مسجد میں بہت زیادہ نماز پڑھا کرتے تھے۔ مدینہ کے تاریخی منابع میں مختلف صدیوں میں اس مسجد کا تذکرہ ملتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس مسجد کی زیارت اور اسے دیکھنے آنے والوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔<ref>المساجد الأثریہ، ص ۱۶۸- ۱۶۴؛ جعفریان، ص۲۶۶.</ref> امام صادق(ع) سے منقول ایک روایت میں اس مسجد کو ان اماکن میں شمار کیا گیا ہے جن میں نماز پڑھنے کی تاکید فرمائی ہے۔<ref>کلینی، کافی، ج ۴، ص ۵۶۰.</ref> | |||
==حوالہ جات== | ==حوالہ جات== |