مندرجات کا رخ کریں

"بہشت" کے نسخوں کے درمیان فرق

351 بائٹ کا اضافہ ،  27 جنوری 2017ء
م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 123: سطر 123:
پیغمبر اسلام(ص) سے منقول ایک حدیث میں آیا ہے کہ بہشت کے درجات ہیں اور ہر درجے کا دوسرے درجے سے فاصلہ اس زمین اور آسمان کے فاصلے کے برابر فاصلہ موجود ہے۔<ref>محمدی ری‌شہری، حکمت‌نامہ پیامبر اعظم، ۱۳۸۶ش، ج۴، ص ۳۹۹.</ref>
پیغمبر اسلام(ص) سے منقول ایک حدیث میں آیا ہے کہ بہشت کے درجات ہیں اور ہر درجے کا دوسرے درجے سے فاصلہ اس زمین اور آسمان کے فاصلے کے برابر فاصلہ موجود ہے۔<ref>محمدی ری‌شہری، حکمت‌نامہ پیامبر اعظم، ۱۳۸۶ش، ج۴، ص ۳۹۹.</ref>


==بہشتیوں کے افعال اور صفات==<!--
==اہل بہشت کے افعال اور صفات==
قرآن کریماور معصومین کی احادیث میں معصومان، اعمال و رفتار بسیاری ذکر شدہ کہ بندگان را بہ بہشت می‌رساند و در این مسئلہ، زن و مرد برابر ذکر شدہ‌اند.<ref>رجوع کنید بہ سورہ آل عمران، آیہ ۱۹۵؛ سورہ نساء، آیہ ۱۲۴؛ سورہ غافر، آیہ ۴۰.</ref> [[ایمان]]، [[تقوا]] و عمل صالح، و ہمچنین ویژگی‌ہایی مانند اطاعت از خدا و رسول، حق‌پذیری، اخلاص، و دوری از [[شرک]]، بیش از دیگر واژہ‌ہا در قرآن ذکر شدہ و قرآن کریم، اہل بہشت را دارای چنین ویژگی‌ہایی دانستہ است. [[خشوع]] و [[خشیت]] و [[فروتنی]] در پیشگاہ خالق، فروتنی نزد خلق، سلامت رفتار و دوری از ہوا و ہوس، راستی، بخشایش و گذشت، امانت‌داری، پایبندی بہ عہد، رسیدگی مالی بہ محرومان، [[انفاق]] و دوری گزیدن از کار و سخن بیہودہ<ref>برای نمونہ رجوع کنید بہ سورہ مؤمنون، آیہ ۱۱۱؛ سورہ فرقان، آیہ ۶۳ و ۷۵.</ref> و نیز دوری از تکبر، برخی دیگر از مواردی است کہ در قرآن ذکر شدہ است.<ref>سورہ قصص، آیہ ۸۳؛ نیز رجوع کنید بہ طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، ذیل ہمین آیہ، کہ تباہی در زمین را نافرمانی خدا تفسیر کردہ است </ref> در ہمین زمینہ، ورود برخی افراد بہ بہشت، ناشدنی تلقی شدہ است؛ از جملہ کسانی کہ آیات خدا را دروغ می‌شمرند و از پذیرفتن آن خودداری می‌کنند.<ref>سورہ اعراف، آیہ ۴۰.</ref>
قرآن کریماور معصومین کی احادیث میں بہت سارے افعال اور رفتار بیان ہوئے ہیں جن کے انجام دینے سے انسان بہشتی بن سکتا ہے اور اس میں مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں ہے۔<ref>سورہ آل عمران، آیہ ۱۹۵؛ سورہ نساء، آیہ ۱۲۴؛ سورہ غافر، آیہ ۴۰.</ref> [[ایمان]]، [[تقوا]] اور عمل صالح اسی طرح بعض دوسری صفات مانند خدا اور اس کے رسول کی اطاعت، حق‌پذیری، اخلاص اور [[شرک]] سے دوری دوسری تمام صفات سے زیادہ قرآن میں ذکر ہوا ہے اور قرآن میں اہل بشہت کو ان صفات کا حامل قرار دیا ہے۔ [[خضوع]] و [[خشوع]]، خالق کی بارگاہ میں [[فروتنی]] کا اظہار، رفتار و کردا میں اصلاح، ہوا ہوس سے دوری، سچائی، عفو و درگذر، امانت‌داری، عہد و پیمان پر قائم رہنا، حاجتمندوں کی حاجت روائی، [[انفاق]]، بےہودہ کاموں اور باتوں سے پرہیز،<ref>سورہ مؤمنون، آیہ ۱۱۱؛ سورہ فرقان، آیہ ۶۳ و ۷۵.</ref> نیز تکبر سے دوری اختیار کرنا وغیرہ ایسے اوصاف ہیں جن کو قرآن نے بہشتیوں کے اوصاف قرا دیا ہے۔<ref>سورہ قصص، آیہ ۸۳؛ طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، اسی آیت کے ذیل میں زمین پر فساد پھیلانے کو خدا کی نافرمانی قرار دیا ہے۔ </ref> اسی حوالے سے بعض افراد کا بشہت میں داخلہ ممنوع قرار دیا گیا ہے؛ منجملہ ان افراد میں وہ افراد شامل ہیں جو خدا کی نشانیوں کو جھٹلاتے اور انہیں قبول کرنے سے انکا کرتے ہیں۔<ref>سورہ اعراف، آیہ ۴۰.</ref>


برخی صفات و رفتارہای اخلاقی کہ موجب ورود بہ بہشت می‌شود، عبارتند از گرہ‌گشایی از کار مردم، مہرورزی بہ بندگان خدا، سخن گفتن نیکو، و دوری از ستم بہ دیگران.<ref>رجوع کنید بہ قرطبی، التذکرۃ فی احوال الموتی و امور الاخرۃ، ۱۴۱۰ق، ج ۲، ص ۸-۱۰؛ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۸، ص ۱۱۸، ۱۱۹، ۱۲۶، ۱۴۴-۱۴۵ </ref> در ہمین زمینہ، رفتارہای زشت مانند [[دروغ|دروغ‌گویی]]، [[سخن‌چینی]]، استہزای بندگان خدا، بدخواہی، مشارکت با حاکمان در کارہای ناروا، بی‌بندوباری اخلاقی و شراب‌خواری در شمار عوامل محروم‌کنندہ از بہشت معرفی شدہ‌اند.<ref>منذری، الترغیب و الترہیب من الحدیث الشریف، ج ۴، ص ۴۹۳-۴۹۴؛ قرطبی، التذکرۃ فی احوال الموتی و امور الاخرۃ، ۱۴۱۰ق، ج ۲، ص ۲۰-۲۱ و ۱۰۰؛ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۸، ص۱۳۲-۱۳۳ </ref>
بعض اخلاقی صفات اور نیک اعمال جو بہشت میں داخلے کا سبب بنتا ہے وہ یہ ہیں: لوگوں کے مشکلات کو حل کرنا، بندگان خدا سے محبت، نیک اور اچھی بات کہنا، دوسروں پر ظلم و زیادتی سے پرہیز۔ <ref> قرطبی، التذکرۃ فی احوال الموتی و امور الاخرۃ، ۱۴۱۰ق، ج ۲، ص ۸-۱۰؛ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۸، ص ۱۱۸، ۱۱۹، ۱۲۶، ۱۴۴-۱۴۵ </ref> اس حوالے سے بعض نازیبا حرکتوں جیسے [[جھوٹ]] بولنا، [[چغلی]]، بندگان خدا کا مزاق اڑانا، بدخواہی، ظالم حکمرانوں کے ساتھ ان کے ظلم میں شریک ہونا، اخلاقی لاپروائی اور شراب‌نوشی وغیرہ ایسے افعال اور صفات ہیں جو انسان کو بہشت محروم کرنے کا سبب بنتا ہے۔ <ref>منذری، الترغیب و الترہیب من الحدیث الشریف، ج ۴، ص ۴۹۳-۴۹۴؛ قرطبی، التذکرۃ فی احوال الموتی و امور الاخرۃ، ۱۴۱۰ق، ج ۲، ص ۲۰-۲۱ و ۱۰۰؛ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۸، ص۱۳۲-۱۳۳ </ref>


==بہشت آدم و حوا==
==حضرت آدم اور حوا کی بہشت ==
{{اصلی|بہشت آدم}}
{{اصلی|بہشت آدم}}
در سہ سورہ قرآن‌ کریم (بقرہ: ۳۵؛ اعراف: ۱۹، ۲۰؛ طہ: ۱۱۵، ۱۱۷ و ۱۲۰.) بہ مناسبت اشارہ بہ آفرینش [[حضرت آدم|آدم]] و حوا، نخستین سکونت‌گاہ این «زوج»، بہشت معرفی شدہ است. بنابر آیات قرآن، آن دو در بہشت از ہمہ خواستنی‌ہا و زندگی سراسر نعمت و فراوانی و خوشی برخوردار بودہ‌اند، اما در کنار این فراوانی و رفاہ، بہ آن دو ہشدار دادہ شدہ بود کہ بہ درخت معینی نزدیک نشوند (و میوہ آن را نخورند)، ہمچنین از خطر فریب [[شیطان]] بر حذر داشتہ شدہ بودہ‌اند تا نیت انتقام‌جویانہ او در راندن این دو از بہشت تحقق نیابد. طبق قرآن، فریب شیطان روی داد و آدم و ہمسرش با تن دادن بہ عصیان پروردگار و شکستن نہی خدا، اطاعت شیطان و خوردن میوہ درخت ممنوعہ، لغزیدند و سرانجام از بہشت خارج شدند و در زمین سکنی گزیدند، و زندگی نوع انسان، پس از این [[ہبوط]]، در زمین آغاز شد.<ref>حداد عادل، دانشنامہ جہان اسلام، ۱۳۸۶ش، ج ۱۱، ص ۲۴، ذیل مدخل جنت.</ref>
قرآن‌ کریم کی تین سورتوں (بقرہ: ۳۵؛ اعراف: ۱۹، ۲۰؛ طہ: ۱۱۵، ۱۱۷ و ۱۲۰.) میں [[حضرت آدم|آدم]] و حوا کی خلقت کی طرف اشارہ کرنے کے ضمن میں بہشت کو ان کی پہلی محل سکونت قرار دیا ہے۔ قرآن کی مطابق حضرت آدم و حوا بہشت میں ہر قسم کے نعمات سے مالا مال زندگی گزار رہے تھے جہاں پر ان کی ہر قسم کی خواہش پوری ہوتی تھی لیکن اس تمام وسائل کے فراہم ہونے کے ساتھ ساتھ انہیں ایک معین درخت کی قریب جانے سے منع کیا گیا تھا(یعنی اس درخت کا پھل کھانے سے منع کیا گیا تھا) اسی طرح انہیں [[شیطان]] کے مکر و فریب سے بھی خبردار کیا گیا تھا تاکہ شیطان انتقام کی خاطر ان دونوں کو بہشت سے نکالنے کے مزموم ارادے میں کامیاب نہ ہو۔ لیکن قرآن کے مطابق شیطان کا مکر و فریب کارگر ثابت ہوا اور آدم و حوا کو خدا کی نافرمانی(ترک اولا) اور شیطان کی اطاعت کرنے اور اس ممنوعہ پھل کے کھانے کی وجہ سے بہشت سے نکال کر زمین میں ان کو سکونت دی گئی۔ یوں زمین پر انسانی زندگی کا آغاز ہوا۔<ref>حداد عادل، دانشنامہ جہان اسلام، ۱۳۸۶ش، ج ۱۱، ص ۲۴، ذیل مدخل جنت.</ref>
 
<!--
در تفاسیر و کتاب‌ہای کلام اسلامی، سہ قول دربارہ این بہشت بیان شدہ است:
در تفاسیر و کتاب‌ہای کلام اسلامی، سہ قول دربارہ این بہشت بیان شدہ است:
#[[فخر رازی]]<ref>فخر رازی، تفسیر کبیر، ذیل سورہ بقرہ، آیہ ۳۵.</ref> سہ قول را ہمراہ با دلایل قائلان آنہا آوردہ است. این سہ قول عبارتند از «باغی در زمین»، «بہشتی آسمانی غیر بہشت موعود»، و «بہشت موعود». فخر رازی، ہر سہ قول را پذیرفتنی و در عین حال غیرقابل اثبات دانستہ است و بہ عدم امکان اظہارنظر قطعی رأی دادہ است.<ref>نیز رجوع کنید بہ طبرسی، مجمع البیان، ذیل سورہ بقرہ، آیہ ۳۵.</ref>  
#[[فخر رازی]]<ref>فخر رازی، تفسیر کبیر، ذیل سورہ بقرہ، آیہ ۳۵.</ref> سہ قول را ہمراہ با دلایل قائلان آنہا آوردہ است. این سہ قول عبارتند از «باغی در زمین»، «بہشتی آسمانی غیر بہشت موعود»، و «بہشت موعود». فخر رازی، ہر سہ قول را پذیرفتنی و در عین حال غیرقابل اثبات دانستہ است و بہ عدم امکان اظہارنظر قطعی رأی دادہ است.<ref>نیز رجوع کنید بہ طبرسی، مجمع البیان، ذیل سورہ بقرہ، آیہ ۳۵.</ref>  
confirmed، templateeditor
9,292

ترامیم