مندرجات کا رخ کریں

"حدیث قرطاس" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
سطر 14: سطر 14:
یہ واقعہ اپنی تمام تر جزئیات لیکن مختلف عبارات کے ساتھ شیعہ سنی منابع میں نقل ہوا ہے۔ اہل سنت منابع میں سے [[صحیح بخاری]]،<ref>بخاری، صحیح البخاری، ۱۴۰۱ق، ج۱، ص۳۷، ج۴، ص۶۶، ج۵، ص۱۳۷-۱۳۸، ج۷، ص۹.</ref> [[صحیح مسلم]]،<ref>مسلم، صحیح مسلم، دارالفکر، ج۵، ص۷۵-۷۶.</ref> [[مسند احمد حنبل|مسند احمد]]،<ref> ابن حنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، ۲۰۰۸م، ج۲، ص۴۵. </ref> سنن بیہقی<ref>بیہقی، السنن الکبری، دارالفکر، ج۹، ص۲۰۷.</ref> اور طبقات ابن سعد<ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، دارالصادر، ج۲، ص۲۴۲-۲۴۵.</ref> میں اس واقعے کی تفصیل موجود ہے۔ اسی طرح شیعہ منابع میں [[الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد (کتاب)|الارشاد]]<ref>شیخ مفید، الإرشاد، ۱۳۷۲ش، ج۱، ص۱۸۴.</ref>، [[اوائل المقالات (کتاب)|اوائل المقالات]]<ref>شیخ مفید، اوائل المقالات، الموتمر العالمی، ص۴۰۶.</ref>، [[الغیبۃ نعمانی]]<ref>نعمانی، الغیبۃ، ۱۳۹۹ق، ص۸۱-۸۲.</ref> اور [[المناقب ابن شہر آشوب]]<ref>ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب، علامہ، ج۱، ص۲۳۶.</ref> کا نام اس حوالے سے قابل ذکر ہیں۔
یہ واقعہ اپنی تمام تر جزئیات لیکن مختلف عبارات کے ساتھ شیعہ سنی منابع میں نقل ہوا ہے۔ اہل سنت منابع میں سے [[صحیح بخاری]]،<ref>بخاری، صحیح البخاری، ۱۴۰۱ق، ج۱، ص۳۷، ج۴، ص۶۶، ج۵، ص۱۳۷-۱۳۸، ج۷، ص۹.</ref> [[صحیح مسلم]]،<ref>مسلم، صحیح مسلم، دارالفکر، ج۵، ص۷۵-۷۶.</ref> [[مسند احمد حنبل|مسند احمد]]،<ref> ابن حنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، ۲۰۰۸م، ج۲، ص۴۵. </ref> سنن بیہقی<ref>بیہقی، السنن الکبری، دارالفکر، ج۹، ص۲۰۷.</ref> اور طبقات ابن سعد<ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، دارالصادر، ج۲، ص۲۴۲-۲۴۵.</ref> میں اس واقعے کی تفصیل موجود ہے۔ اسی طرح شیعہ منابع میں [[الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد (کتاب)|الارشاد]]<ref>شیخ مفید، الإرشاد، ۱۳۷۲ش، ج۱، ص۱۸۴.</ref>، [[اوائل المقالات (کتاب)|اوائل المقالات]]<ref>شیخ مفید، اوائل المقالات، الموتمر العالمی، ص۴۰۶.</ref>، [[الغیبۃ نعمانی]]<ref>نعمانی، الغیبۃ، ۱۳۹۹ق، ص۸۱-۸۲.</ref> اور [[المناقب ابن شہر آشوب]]<ref>ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب، علامہ، ج۱، ص۲۳۶.</ref> کا نام اس حوالے سے قابل ذکر ہیں۔


== مختلف مؤقف ==
== اس سے متعلق مخلف مؤقف ==
=== شیعہ کا مؤقف===
=== شیعہ نقطہ نظر===
علمائے [[شیعہ]] اس واقعہ کو بہت بڑی مصیبت سمجھتے ہیں کیونکہ یہ واقعہ مسلمانوں کو گمراہی سے بچانے سے کیلئے [[رسول اللہ]] کے [[وصیت]] لکھنے میں رکاوٹ بنا۔ <ref>جوہري، مقتضب الأثر، ص1</ref> [[اہل سنت]] کے بعض مآخذوں میں بھی آیا ہے کہ [[عبد اللہ بن عباس]] [[رسول اللہ]] کی [[وصیت]] میں رکاوٹ کو ایک عظیم مصیبت سمجھتے اور گریہ کرتے تھے۔<ref>صحیح البخاری، ج۵، صص۱۳۷-۱۳۸؛ صحیح مسلم، ج۵، ص۷۶.</ref>
علمائے [[شیعہ]] اس واقعہ کو مصیبت عظمی سے تعبیر کرتے ہیں کیونکہ اس واقعے سے جہاں امت کو گمراہی سے محفوظ رکھنے کے سلسلے میں پیغمبر اکرمؐ کی وصیت پر عمل نہیں ہوا وہاں رسول اللہ کی شأن اقدس میں گستاخی ہوئی جو قرآن و سنت کی رو سے گناہ کبیرہ میں سے ہے۔<ref>جوہري، مقتضب الأثر، ص1</ref> [[اہل سنت]] کے بعض منابع میں بھی آیا ہے کہ [[عبد اللہ بن عباس|ابن عباس]] اس واقعے کو جس میں [[رسول اللہ]] کی امت کو گمراہی سے محفوظ رکھنے کے حوالے سے لکھی جانے والی [[وصیت]] کو مکمل نہیں ہونے دیا، عظیم مصیبت سے تعبیر کرتے ہوئے گریہ کرتے تھے۔<ref>صحیح البخاری، ج۵، صص۱۳۷-۱۳۸؛ صحیح مسلم، ج۵، ص۷۶.</ref>


[[شرف الدین عاملی]] [[المراجعات]] میں [[ قرآنی]] [[آیات]] کے تناظر میں [[عمر بن خطاب|حضرت عمر]] پر چند اعتراض کرتے ہیں ان میں سے:<ref>شرف الدین، المراجعات، ص۲۴۴؛ ترجمہ فارسی: مناظرات، ص۴۳۵.</ref>
علامہ [[شرف الدین عاملی]] کتاب [[المراجعات]] میں [[ قرآنی]] [[آیات]] کے تناظر میں [[عمر بن خطاب|حضرت عمر]] کے اس کام پر چند اعتراض کرتے ہیں:<ref>شرف الدین، المراجعات، ص۲۴۴؛ ترجمہ فارسی: مناظرات، ص۴۳۵.</ref>
# [[رسول خدا]]ؐ کے حکم کی نافرمانی اور رسول کی مخالفت ۔
# [[رسول خداؐ]] کے حکم کی نافرمانی اور مخالفت کی۔
# اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گویا [[عمر بن خطاب|حضرت عمر]] [[رسول اللہ]] سے زیادہ دانا تر ہے۔
# [[عمر بن خطاب|حضرت عمر]] اپنے آپ کو [[رسول اللہ]] سے زیادہ دانا تر سمجھتے تھے۔
# [[نبوت|رسول]] کی نسبت ہذیان گوئی کا الزام لگانا۔
# [[پیغمبر اکرمؐ]] کی طرف ہذیان گوئی کا الزام لگایا۔


[[شیعہ|شیعوں]] کے نزدیک [[عمر بن خطاب|حضرت عمر]] کا یہ رویہ [[ قرآن]] کی بہت سی آیات کے مخالف تھا مثلا:
[[شیعہ|شیعوں]] کے نزدیک [[عمر بن خطاب|حضرت عمر]] کا یہ رویہ [[ قرآن]] کی بہت سی آیات کے مخالف تھا مثلا:
سطر 30: سطر 30:


===اہل سنت کا مؤقف===
===اہل سنت کا مؤقف===
[[اہل سنت]] علما اس واقعے کی توجیہ کے در پے ہوئے ہیں مثلا:
علمائے [[اہل سنت]] اس واقعے کی مختلف توجیہات پیش کرتے ہیں مثلا:
* بعض اس واقعے کو متون اصلی میں مذکور ہونے کے باوجود اسے ضعیف اورغیر معتبر سمجھتے ہیں ۔
* بعض اس واقعے کو متون اصلی میں مذکور ہونے کے باوجود، ضعیف اور غیر معتبر سمجھتے ہیں۔
* بعض اس [[حدیث]] کا ایک اور معنا ذکر کرتے ہیں ۔ مثلا: «ہجر» کا مادہ چھوڑنے اور ترک کرنے کے معنا میں ہے اور اس سے حضرت عمر کی مراد  یہ تھی کہ [[پیغمبر]] ہمیں چھوڑ رہے ہیں یا حضرت عمر کی گفتگو استفہام انکاری ہے یعنی [[پیغمبر]] ہذیان نہیں کہتا ہے ؟
* بعض اس [[حدیث]] کا ایک اور معنا ذکر کرتے ہیں۔ مثلا: «ہجر» کا مادہ چھوڑنے اور ترک کرنے کے معنی میں ہیں اور اس سے حضرت عمر کی مراد  یہ تھی کہ [[پیغمبر اکرمؐ]] ہمیں چھوڑ کر جا رہے ہیں یا حضرت عمر کی گفتگو استفہام انکاری ہے یعنی [[پیغمبر]] ہذیان نہیں کہتا ہے؟
*عمر کا [[قرآن]] کو کافی سمجھنا اسکی قوت فقہ اور دقت نظر کا بیان گر ہے ۔
*حضرت عمر کی طرف سے حسبنا کتاب اللہ کہنا حقیقت میں دینی تعلیمات پر ان کی تسلط اور دقت نظر کی دلیل ہے۔
*بعض مآخذوں کے مطابق ایک شخص نہیں کئی افراد مراد ہیں۔
*بعض مآخذوں کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کو اس کام سے منع کرنے والا ایک شخص نہیں تھا بلکہ کئی افراد مراد ہیں۔


==حضورؐ نے کیوں لکھنے کا ارادہ ترک کیا==
==حضورؐ نے کیوں لکھنے کا ارادہ ترک کیا==
confirmed، templateeditor
9,251

ترامیم