"علامہ حلی" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
←تکمیل کتاب توسط امام زمانہ(ع)
سطر 103: | سطر 103: | ||
پہلا واقعہ ایک کتاب سے متعلق ہے جسے علامہ نے کسی اہل سنت عالم دین سے بطور امانت لیا تھا تاکہ اس کی نسخہ بردری کی جا سکے لیکن آدھی رات کو نیند غالب آنے کی وجہ سے کتاب کی نسخہ برداری میں رکاوٹ بننے لگے اتنے میں امام زمانہ(ع) علامہ کے کمرے میں داخل ہوتے ہیں اور کتاب کی تنسیخ کا باقی ماندہ کام اپنے ذمہ لے لیتے ہیں۔ بیداری کے بعد جب علامہ حلی نے کتاب کی نسخہ برداری کی طرف دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ کام مکمل ہو چکا تھا۔ <ref>شوشتری، مجالس المؤمنین، ج۱، ص۵۷۱</ref> | پہلا واقعہ ایک کتاب سے متعلق ہے جسے علامہ نے کسی اہل سنت عالم دین سے بطور امانت لیا تھا تاکہ اس کی نسخہ بردری کی جا سکے لیکن آدھی رات کو نیند غالب آنے کی وجہ سے کتاب کی نسخہ برداری میں رکاوٹ بننے لگے اتنے میں امام زمانہ(ع) علامہ کے کمرے میں داخل ہوتے ہیں اور کتاب کی تنسیخ کا باقی ماندہ کام اپنے ذمہ لے لیتے ہیں۔ بیداری کے بعد جب علامہ حلی نے کتاب کی نسخہ برداری کی طرف دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ کام مکمل ہو چکا تھا۔ <ref>شوشتری، مجالس المؤمنین، ج۱، ص۵۷۱</ref> | ||
اس داستان کا سب سے قدیمی منبع کتاب [[مجالس المؤمنین (کتاب)|مجالس المومنین]] تالیف [[سید نوراللہ | اس داستان کا سب سے قدیمی منبع کتاب [[مجالس المؤمنین (کتاب)|مجالس المومنین]] تالیف [[سید نوراللہ شوشتری|قاضی نوراللہ شوشتری]] ہے۔ انہوں نے اس واقعے کیلئے کوئی مکتوب منبع ذکر کئے بغیر لکھا ہے کہ یہ واقعہ مؤمنین کے درمیان مشہور ہے۔ <ref>شوشتری، مجالس المؤمنین، ج۱، ص۵۷۱</ref> | ||
===کربلا کے راستے میں ملاقات=== | ===کربلا کے راستے میں ملاقات=== | ||
دوسرا واقعہ [[قصص العلماء (کتاب)|قصص العلما]] تالیف [[محمد بن سلیمان تنکابنی|تنکابنی]] میں نقل ہوا ہے۔ مصنف کے مطابق علامہ حلی کی [[کربلا]] کی طرف سفر کے دوران راستے میں ان کی کسی سید سے ملاقات ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ گفتگو کے دوران معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ ایک بہت بڑی علمی شخصیت ہے لہذا علامہ نے اپنی علمی مشکلات کو ان سے دریافت کرنا شروع کیا اور وہ ان سوالوں کا جواب دیتے گئے۔ اسی دوران ایک دفعہ علامہ حلی سوال کرتے ہیں کہ آیا زمانہ [[غیبت کبری]] میں [[امام مہدی(ع)|امام عصر(ع)]] سے ملاقات کا امکان ہے یا نہیں؟ اس سوال کے ساتھ علامہ حلی کے ہاتھ سے تازیانہ زمین پر گر جاتا ہے تو وہ شخص زمین سے اس تازیانہ کو اٹھا کر علامہ حلی کو دیتے ہوئے جواب دیتے ہیں کہ کیسے ممکن نہیں ہے جبکہ اس (امام زمانہ) کا ہاتھ ابھی تمہارے ہاتھ میں ہے۔ اس وقت علامہ حلی متوجہ ہوتے ہیں کہ یہ شخص خود امام زمانہ(ع) ہیں۔ یہ معلوم ہوتے ہی علامہ حلی نے خود کو امام کے قدموں میں گرا دیا۔ <ref>تنکابنی، قصص العلماء، ص۸۸۳</ref> | دوسرا واقعہ [[قصص العلماء (کتاب)|قصص العلما]] تالیف [[محمد بن سلیمان تنکابنی|تنکابنی]] میں نقل ہوا ہے۔ مصنف کے مطابق علامہ حلی کی [[کربلا]] کی طرف سفر کے دوران راستے میں ان کی کسی سید سے ملاقات ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ گفتگو کے دوران معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ ایک بہت بڑی علمی شخصیت ہے لہذا علامہ نے اپنی علمی مشکلات کو ان سے دریافت کرنا شروع کیا اور وہ ان سوالوں کا جواب دیتے گئے۔ اسی دوران ایک دفعہ علامہ حلی سوال کرتے ہیں کہ آیا زمانہ [[غیبت کبری]] میں [[امام مہدی(ع)|امام عصر(ع)]] سے ملاقات کا امکان ہے یا نہیں؟ اس سوال کے ساتھ علامہ حلی کے ہاتھ سے تازیانہ زمین پر گر جاتا ہے تو وہ شخص زمین سے اس تازیانہ کو اٹھا کر علامہ حلی کو دیتے ہوئے جواب دیتے ہیں کہ کیسے ممکن نہیں ہے جبکہ اس (امام زمانہ) کا ہاتھ ابھی تمہارے ہاتھ میں ہے۔ اس وقت علامہ حلی متوجہ ہوتے ہیں کہ یہ شخص خود امام زمانہ(ع) ہیں۔ یہ معلوم ہوتے ہی علامہ حلی نے خود کو امام کے قدموں میں گرا دیا۔ <ref>تنکابنی، قصص العلماء، ص۸۸۳</ref> |