"علامہ حلی" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 89: | سطر 89: | ||
{{ستون خ}} | {{ستون خ}} | ||
== | ==تألیفات== | ||
{{اصلی|آثار علامہ حلی}} | {{اصلی|آثار علامہ حلی}} | ||
علامہ حلی | علامہ حلی نے مختلف علوم جیسے [[فقہ]]، [[اصول فقہ]]، [[کلام]]، [[حدیث]]، [[تفسیر]]، [[علم رجال|رجال]]، [[فلسفہ]] اور [[علم منطق|منطق]] میں کتابیں تصنیف کی ہیں۔ لیکن ان کی تألیفات کی تعداد کے بارے میں اختلاف ہے۔ علامہ حلی نے خود [[خلاصۃ الاقوال]] میں اپنی 57 تصانیف کا ذکر کیا ہے۔<ref>امین، اعیان الشیعہ، ج۵، ص۴۰۲.</ref>{{سخ}} | ||
[[سید محسن امین]] | [[سید محسن امین]] اپنی کتاب [[اعیان الشیعہ]] میں لکھتے ہیں: "''علامہ حلی کی سو سے زیادہ تصانیف ہیں اور میں نے ان کی 95 کتابوں کو دیکھا ہے جن میں سے کئی کتابوں کے کئی جلدیں ہیں۔''"۔<ref>امین، اعیان الشیعہ، ج۵، ص۴۰۲.</ref> اسی طرح وہ فرماتے ہیں کہ علامہ کی کتاب ''الروضات'' کے تقریبا ہزار تحقیقی دستاویزات ہیں۔<ref>امین، اعیان الشیعہ، ج۵، ص۴۰۲.</ref> [[مدرس تبریزی|میرزا محمد علی مدرس]] نیز [[ریحانۃ الادب]]<ref>مدرس، ریحانہ الادب، ج۳ و ۴، ص۱۷۴.</ref> میں 120 تصانیف اور کتاب گلشن ابرار<ref> میں حوزہ علمیہ قم کے محققین کی ایک گروہ نے علامہ کی تصانیف کی تعداد کو تقریبا 110 عدد ذکر کئے ہیں۔ | ||
علامہ | علامہ حلی کی معروف تصانیف میں علم فقہ میں [[مختلف الشیعۃ فی احکام الشریعۃ|مختلف الشیعہ]] اور [[تذکرہ الفقہاء]]، عقائد اور کلام میں [[کشف المراد]]، [[باب حادی عشر]] اور [[منہاج الکرامۃ]]، علم رجال میں [[خلاصۃ الاقوال فی معرفۃ الرجال|خلاصۃ الاقوال]] اور منطق میں [[جوہر النضید]] کا نام قابل ذکر ہیں۔ | ||
== | |||
علامہ حلی نے شیعہ اصول عقايد میں لکھی گئی اپنی دو کتابیں [[نہج الحق و کشف الصدق]] اور [[منہاج الکرامہ]] کو سلطان محمد خدا بندہ کو بطور ہدیہ دیا۔<ref>اعیان الشیعہ، ج۱۰، ص۲۲۹؛الذریعۃ، ج۲۳، ص۱۷۲. </ref> | |||
=== تکمیل کتاب توسط امام === | == امام زمانہ(ع) سے ملاقات==<!-- | ||
علامہ حلی کی [[امام مہدی(ع)]] کے ساتھ ہونے والے ملاقاتوں میں سے دو واقعات مشہور ہیں۔ | |||
=== تکمیل کتاب توسط امام زمانہ(ع) === | |||
=== | پہلا واقعہ ایک کتاب سے متعلق ہے جسے علامہ نے کسی اہل سنت عالم دین سے بطور امانت لیا تھا تاکہ اس کی نسخہ بردری کی جا سکے لیکن آدھی رات کو نیند غالب آنے کی وجہ سے کتاب کی نسخہ برداری میں رکاوٹ بننے لگے اتنے میں امام زمانہ(ع) علامہ کے کمرے میں داخل ہوتے ہیں اور کتاب کی تنسیخ کا باقی ماندہ کام اپنے ذمہ لے لیتے ہیں۔ بیداری کے بعد جب علامہ حلی نے کتاب کی نسخہ برداری کی طرف دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ کام مکمل ہو چکا تھا۔ <ref>شوشتری، مجالس المؤمنین، ج۱، ص۵۷۱</ref> | ||
اس داستان کا سب سے قدیمی منبع کتاب [[مجالس المؤمنین (کتاب)|مجالس المومنین]] تالیف [[سید نوراللہ حسینی شوشتری|قاضی نوراللہ شوشتری]] ہے۔ انہوں نے اس واقعے کیلئے کوئی مکتوب منبع ذکر کئے بغیر لکھا ہے کہ یہ واقعہ مؤمنین کے درمیان مشہور ہے۔ <ref>شوشتری، مجالس المؤمنین، ج۱، ص۵۷۱</ref> | |||
===کربلا کے راستے میں ملاقات=== | |||
ماجرای دوم در کتاب [[قصص العلماء (کتاب)|قصص العلما]] نوشتہ [[محمد بن سلیمان تنکابنی|تنکابنی]] نقل شدہ است. و بر اساس نقل او در یکی از سفرہای علامہ حلی بہ [[کربلا]] او در میان راہ با سیدی ہمراہ میشود و پس از گفتگو با او متوجہ میشود کہ او شخص بسیار عالمی است و مسائل مشکل علمی خود را با او در میان میگذارد و جواب میگیرد و در این بین از او سوال میکند کہ آیا در زمان [[غیبت کبری]] امکان ملاقات با امام عصر(ع) وجود دارد؟ و ہمزمان تازیہ از دستش میافتد آن شخص تازیانہ را از زمین برداشتہ بہ علامہ میدہد و جواب میدہد کہ چگونہ ممکن نباشد در حالی کہ دست او ہماکنون در دست توست. علامہ حلی متوجہ میشود کہ آن شخص خود امام مہدی(ع) است و خود را بہ پای ایشان میاندازد. <ref>تنکابنی، قصص العلماء، ص۸۸۳</ref> | ماجرای دوم در کتاب [[قصص العلماء (کتاب)|قصص العلما]] نوشتہ [[محمد بن سلیمان تنکابنی|تنکابنی]] نقل شدہ است. و بر اساس نقل او در یکی از سفرہای علامہ حلی بہ [[کربلا]] او در میان راہ با سیدی ہمراہ میشود و پس از گفتگو با او متوجہ میشود کہ او شخص بسیار عالمی است و مسائل مشکل علمی خود را با او در میان میگذارد و جواب میگیرد و در این بین از او سوال میکند کہ آیا در زمان [[غیبت کبری]] امکان ملاقات با امام عصر(ع) وجود دارد؟ و ہمزمان تازیہ از دستش میافتد آن شخص تازیانہ را از زمین برداشتہ بہ علامہ میدہد و جواب میدہد کہ چگونہ ممکن نباشد در حالی کہ دست او ہماکنون در دست توست. علامہ حلی متوجہ میشود کہ آن شخص خود امام مہدی(ع) است و خود را بہ پای ایشان میاندازد. <ref>تنکابنی، قصص العلماء، ص۸۸۳</ref> | ||