مندرجات کا رخ کریں

"مہاجرین" کے نسخوں کے درمیان فرق

186 بائٹ کا اضافہ ،  1 اکتوبر 2020ء
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 36: سطر 36:
انصار نے مہاجرین کی مادی معاونت کی چونکہ انہوں نے اپنے اموال کو مکہ چھوڑ آئے تھے، یہاں تک کہ ہجرت کے چوتھے سال پیغمبر اکرمؐ نے [[غزوہ بنی‌نضیر]] سے حاصل ہونے والے غنائم کو انصار کے ساتھ توافق کرتے ہوئے مہاجرین کے درمیان تقسیم فرمائی یوں انصار کی طرف سے مہاجرین کی مالی مدد کی ضرورت ختم ہو گئی۔<ref>مقریزی، امتاع الاسماع، ۱۴۲۰ق، ج۱، ص۱۹۱-۱۹۲۔</ref>
انصار نے مہاجرین کی مادی معاونت کی چونکہ انہوں نے اپنے اموال کو مکہ چھوڑ آئے تھے، یہاں تک کہ ہجرت کے چوتھے سال پیغمبر اکرمؐ نے [[غزوہ بنی‌نضیر]] سے حاصل ہونے والے غنائم کو انصار کے ساتھ توافق کرتے ہوئے مہاجرین کے درمیان تقسیم فرمائی یوں انصار کی طرف سے مہاجرین کی مالی مدد کی ضرورت ختم ہو گئی۔<ref>مقریزی، امتاع الاسماع، ۱۴۲۰ق، ج۱، ص۱۹۱-۱۹۲۔</ref>


==مہاجرین اور انصار کے درمیان رقابت==<!--
==مہاجرین اور انصار کے درمیان رقابت==
بہ گفتہ جواد علی، نویسندہ کتاب المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، پیش از ہجرت پیغمبر اکرمؐ بہ مدینہ میان اہل یثرب و اہل مکہ دشمنی بود  کہ با ہجرت پیغمبر اکرمؐ و برقراری عقد اخوت میان مہاجران و انصار از بین رفت، اما این دشمنی پس از رحلت پیغمبر اکرمؐ در قالب نزاع میان مہاجر و انصار آشکار شد؛ چنانکہ در اشعار [[حسان بن ثابت]]، [[نعمان بن بشیر]] و [[طرماح بن حکیم]] بہ آن اشارہ شدہ است۔<ref>علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ۱۴۲۲ق، ۱۴ق، ج۲، ص۱۳۴۔</ref> مہاجرین بہ اینکہ پیغمبر اکرمؐ از آنان بودہ، و انصار بہ اینکہ او را پناہ دادہ و [[آمنہ بنت وہب|مادر پیغمبر اکرمؐ]] از بنی‌نجار و اہل مدینہ بودہ افتخار می‌کردند۔<ref>علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ۱۴۲۲ق، ج۲، ص۱۳۶۔</ref>  
کتاب "المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام" کے مصنف جواد علی کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کی مدینہ ہجرت سے پہلے اہل یثرب اور اہل مکہ کے درمیان دشمنی تھی جو پیغمبر اکرمؐ کی ہجرت اور مہاجرین و انصار کے درمیان عقد اخوت منعقد کرنے کے بعد ختم ہو گئی تھی لیکن یہ دشمنی پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد مہاجر و انصار کی شکل میں دوبارہ آشکار ہوئی؛ چنانچہ [[حسان بن ثابت]]، [[نعمان بن بشیر]] اور [[طرماح بن حکیم]] نے اپنے اشعار میں اس چیز کی طرف اشارہ کیئے ہیں۔<ref>علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ۱۴۲۲ق، ۱۴ق، ج۲، ص۱۳۴۔</ref> مہاجرین اس اعتبار سے کہ پیغمبر اکرمؐ ان میں سے تھے اور انصار اس اعتبار سے کہ پیغمبر اکرمؐ کی حمایت کی اور [[آمنہ بنت وہب|مادر پیغمبر اکرمؐ]] بنی‌نجار اور اہل مدینہ میں سے تھیں ایک دوسرے پر فخر کرتے تھے۔<ref>علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ۱۴۲۲ق، ج۲، ص۱۳۶۔</ref>  


بہ گفتہ جواد علی، نزاع میان مہاجر و انصار در دوران [[معاویۃ بن ابی‌سفیان]] و [[یزید بن معاویہ]] نیز وجود داشتہ است؛ ہر چند کہ در این دوران اصطلاح مہاجرین و انصار کمتر بہ کار رفتہ و بیشتر از اصطلاحاتی ہمچون قریشی و یمنی استفادہ می‌شدہ است۔<ref>علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ۱۴۲۲ق، ج۲، ص۱۳۴-۱۳۶۔</ref>
جواد علی کے بقول مہاجر و انصار کے درمیان نزاع اور دشمنی [[معاویۃ بن ابی‌سفیان]] اور [[یزید بن معاویہ]] کے دور میں بھی تھی؛ اگرچہ اس وقت مہاجر و انصار کی اصطلاح کم اور قریشی و یمنی جیسے اصطلاحات زیادہ استعمال کی جاتی تھی۔<ref>علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ۱۴۲۲ق، ج۲، ص۱۳۴-۱۳۶۔</ref>


بنا بہ گزارش منابع تاریخی، [[ماجرای سقیفہ]] صحنہ رقابت و درگیری مہاجران و انصار بودہ است۔<ref>طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۳، ص۲۲۰-۲۲۱۔</ref> در حین بیعت با ابوبکر، [[حباب بن منذر]] کہ از انصار بود بہ روی مہاجران شمشیر کشید و عمر بن خطاب، [[سعد بن عبادہ]] را کہ از بزرگان انصار بود، [[منافق]] خواند۔<ref>طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۳، ص۲۲۰-۲۲۱۔</ref>
تاریخی شواہد  کے مطابق [[واقعہ سقیفہ]] مہاجر و انصار کی رقابت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔<ref>طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۳، ص۲۲۰-۲۲۱۔</ref> حضرت ابوبکر کی بیعت کے دوران [[حباب بن منذر]] جو کہ انصار میں سے تھا نے مہاجرین کو تلوار دکھائی اور حضرت عمر نے [[سعد بن عبادہ]] کو جوکہ انصار کے بزرگان میں سے تھا، [[منافق]] کہہ کر پکارا۔<ref>طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۳، ص۲۲۰-۲۲۱۔</ref>


== نقش مہاجران در سقیفہ==
==سقیفہ میں مہاجرین کا کردار==<!--
پس از درگذشت پیغمبر اکرمؐ گروہی از انصار در [[سقیفہ بنی‌ساعدہ]] گرد آمدہ بودند تا [[سعد بن عبادہ]] را بہ عنوان خلیفہ انتخاب کنند، اما با پیوستن مہاجرینی از جملہ [[ابوبکر بن ابی‌قحافہ]]، [[عمر بن خطاب]] و [[ابوعبیدہ جراح]] بہ جمع آنہا، بحث و درگیری ایجاد شد؛<ref>ابن‌اثیر، الکامل، ۱۳۸۵ق، ج۲، ص۳۲۵۔</ref> ابوبکر کہ خود از مہاجران بود در سخنانی مہاجران را برتر از انصار و شایستہ خلافت دانست،<ref>طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۳، ص۲۱۹-۲۲۰۔</ref> حباب بن منذر کہ از انصار بود انتخاب یک امیر از انصار و یک امیر از مہاجران را مطرح کرد کہ با واکنش منفی عمر بن خطاب روبہ‌رو شد و سپس ابوبکر، عمر بن خطاب و ابوعبیدہ جراح را کہ از مہاجران بودند برای خلافت پیشنہاد داد، اما آن دو نپذیرفتند و با بیان فضایلی دربارہ ابوبکر، او را شایستہ خلافت دانستہ و با او بیعت کردند۔<ref>طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۳، ص۲۲۰-۲۲۱۔</ref> سپس [[قبیلہ بنی‌اسلم]] کہ وابستہ بہ مہاجران بودند، وارد مدینہ شدند و با ابوبکر [[بیعت]] کردند۔<ref>طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۳، ص۲۰۵۔</ref>
پس از درگذشت پیغمبر اکرمؐ گروہی از انصار در [[سقیفہ بنی‌ساعدہ]] گرد آمدہ بودند تا [[سعد بن عبادہ]] را بہ عنوان خلیفہ انتخاب کنند، اما با پیوستن مہاجرینی از جملہ [[ابوبکر بن ابی‌قحافہ]]، [[عمر بن خطاب]] و [[ابوعبیدہ جراح]] بہ جمع آنہا، بحث و درگیری ایجاد شد؛<ref>ابن‌اثیر، الکامل، ۱۳۸۵ق، ج۲، ص۳۲۵۔</ref> ابوبکر کہ خود از مہاجران بود در سخنانی مہاجران را برتر از انصار و شایستہ خلافت دانست،<ref>طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۳، ص۲۱۹-۲۲۰۔</ref> حباب بن منذر کہ از انصار بود انتخاب یک امیر از انصار و یک امیر از مہاجران را مطرح کرد کہ با واکنش منفی عمر بن خطاب روبہ‌رو شد و سپس ابوبکر، عمر بن خطاب و ابوعبیدہ جراح را کہ از مہاجران بودند برای خلافت پیشنہاد داد، اما آن دو نپذیرفتند و با بیان فضایلی دربارہ ابوبکر، او را شایستہ خلافت دانستہ و با او بیعت کردند۔<ref>طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۳، ص۲۲۰-۲۲۱۔</ref> سپس [[قبیلہ بنی‌اسلم]] کہ وابستہ بہ مہاجران بودند، وارد مدینہ شدند و با ابوبکر [[بیعت]] کردند۔<ref>طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۳، ص۲۰۵۔</ref>


confirmed، templateeditor
9,251

ترامیم