مندرجات کا رخ کریں

"مصحف امام علی" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>E.musavi
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
[[مصحف امام علی]] پہلا مصحف [[قرآن]] ہے جسے [[امام علی]] نے اپنے دست مبارک سے  جمع کیا۔یہ صحیفہ اس وقت موجود نہیں ہے لیکن اس صحیفے کی سورتوں کی ترتیب آج کے قرآن سے متفاوت تھی۔
[[مصحف امام علی]] پہلا مصحف [[قرآن]] ہے جسے [[امام علی]] نے اپنے دست مبارک سے  جمع کیا۔ یہ صحیفہ اس وقت موجود نہیں ہے لیکن اس صحیفے کی سورتوں کی ترتیب آج کے قرآن سے متفاوت تھی۔
== جمع‌آوری  ==
== جمع‌آوری  ==
[[رسول اللہ]] کی قطعی نص اور تصدیق کی بنا پر [[امام علی ]] تمام لوگوں سے زیادہ [[قرآن مجید]] سے آشنا تھے ۔[[پیامبر (ص)]] کی رحلت کے بعد [[حضرت  علی (ع)]] نے چھ ماہ کی قلیل مدت میں قرآن مجید کی ترتیبی نزول کے مطابق جمع آوری کا کام انجام دے دیا تھا ۔آپ نے اسے ایک اونٹ پر لاد کر لوگوں کے سامنے پیش کیا ۔<ref>[[سیدمحمدحسین طباطبائی|طباطبائی]]، قرآن در اسلام، ص ۱۱۳۔ سجستانی، کتاب المصاحف، ص ۱۶؛ سیوطی، الاتقان، ج ۱، ص ۱۶۱.</ref>
[[رسول اللہ]] کی قطعی نص اور تصدیق کی بنا پر [[امام علی ]] تمام لوگوں سے زیادہ [[قرآن مجید]] سے آشنا تھے۔ [[پیامبر (ص)]] کی رحلت کے بعد [[حضرت  علی (ع)]] نے چھ ماہ کی قلیل مدت میں قرآن مجید کی ترتیبی نزول کے مطابق جمع آوری کا کام انجام دے دیا تھا۔ آپ نے اسے ایک اونٹ پر لاد کر لوگوں کے سامنے پیش کیا۔<ref>سید محمد حسین طباطبائی، قرآن در اسلام، ص ۱۱۳۔ سجستانی، کتاب المصاحف، ص ۱۶؛ سیوطی، الاتقان، ج ۱، ص ۱۶۱.</ref>


احادیث کے راویوں نے صراحت کے ساتھ اس کے  متعلق بات کی ہے یا [[حضرت علی]] کے ہاتھوں [[قرآن]] کی جمع آوی کے موضوع کو بیان کیا ہے :<ref>ایازی، مصحف امام علی(ع)، ص167.</ref>
احادیث کے راویوں نے صراحت کے ساتھ اس کے  متعلق بات کی ہے یا [[حضرت علی]] کے ہاتھوں [[قرآن]] کی جمع آوی کے موضوع کو بیان کیا ہے:<ref>ایازی، مصحف امام علی(ع)، ص167.</ref>
# [[سلیم بن قیس ہلالی]] (متوفا 76ق) نے اپنی کتاب میں اس مصحف [[امام علی(ع)]] کی موجودگی بیان کی اور اس کی خصوصیات کی طرف اشارہ کیا ہے ۔اس نے اس خبر کو  چند اصحاب [[پیغمبر(ص)]] اور امام علی(ع) کے نزدیکی ساتھیوں جیسے [[ابوذر غفاری]] (متوفا ۳۲ق)، [[سلمان فارسی]] (متوفا ۳۴ق) اور ابن عباس (متوفا ۶۸ق) سے نقل کیا ہے۔  
# [[سلیم بن قیس ہلالی]] (متوفا 76 ھ) نے اپنی کتاب میں اس مصحف [[امام علی(ع)]] کی موجودگی بیان کی اور اس کی خصوصیات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اس نے اس خبر کو  چند اصحاب [[پیغمبر(ص)]] اور امام علی(ع) کے نزدیکی ساتھیوں جیسے [[ابوذر غفاری]] (متوفا ۳۲ق)، [[سلمان فارسی]] (متوفا ۳۴ق) اور ابن عباس (متوفا ۶۸ ھ) سے نقل کیا ہے۔  
# [[ابن عباس]] بھی ان راویوں میں سے ہے جس نے مستقل طور اس کے متعلق بیان کیا ہے ۔
# [[ابن عباس]] بھی ان راویوں میں سے ہے جس نے مستقل طور اس کے متعلق بیان کیا ہے۔
===  شہرستانی کا بیان ===
===  شہرستانی کا بیان ===
تفسیر شہرستانی (متوفا 548ق) میں مذکور ہے:  
تفسیر شہرستانی (متوفا 548 ھ) میں مذکور ہے:  
: حضرت علی (ع) قرآن کی جمع آوری کے بعد اپنے غلام [[قنبر]] کی مدد سے بزرگ اصحاب کے پاس لائے۔ وہ اس مجموعے کو بہت مشکل سے لائے کہتے ہیں کہ وہ ایک اونٹ کے بار کے اندازے کے مطابق تھا . حضرت (ع) نے ان سے کہا :یہ کتاب الله ہے جس طرح سے رسول اللہ پر نازل ہوئی تھی .میں نے اسے دو جلدوں میں اکٹھا کیا ہے ۔لیکن اصحاب نے کہا تم اسے لے جاؤ ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے ۔ حضرت (ع) نے جواب میں ارشاد فرمایا آئندہ تم اسے ہر گز نہیں دیکھ پاؤ گے ۔میری ذمہ داری تھی کہ جب اسے جمع کر لوں تو تمہیں اس سے آگاہ کروں پھر اس آیت کی تلاوت کرتے ہوئے گھر لوٹ آئے :<ref>شہرستانی، مفاتیح الاسرار و مصابیح الابرار، ج۱، ص۵آ؛ نیز ر.ک: تفسیر شہرستانی، تحقیق آذرشب، ج۱، ص۱۲۰، بہ حوالۂ خرمشاہی، قرآن پژوہی (۲)، ص ۴۶۸</ref>
: حضرت علی (ع) قرآن کی جمع آوری کے بعد اپنے غلام [[قنبر]] کی مدد سے بزرگ اصحاب کے پاس لائے۔ وہ اس مجموعے کو بہت مشکل سے لائے کہتے ہیں کہ وہ ایک اونٹ کے بار کے اندازے کے مطابق تھا۔ حضرت (ع) نے ان سے کہا: یہ کتاب الله ہے جس طرح سے رسول اللہ پر نازل ہوئی تھی۔ میں نے اسے دو جلدوں میں اکٹھا کیا ہے۔ لیکن اصحاب نے کہا تم اسے لے جاؤ ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے۔ حضرت (ع) نے جواب میں ارشاد فرمایا آئندہ تم اسے ہر گز نہیں دیکھ پاؤ گے۔ میری ذمہ داری تھی کہ جب اسے جمع کر لوں تو تمہیں اس سے آگاہ کروں پھر اس آیت کی تلاوت کرتے ہوئے گھر لوٹ آئے:<ref>شہرستانی، مفاتیح الاسرار و مصابیح الابرار، ج۱، ص۵آ؛ نیز ر.ک: تفسیر شہرستانی، تحقیق آذرشب، ج۱، ص۱۲۰، بہ حوالۂ خرمشاہی، قرآن پژوہی (۲)، ص ۴۶۸</ref>
:<font color=green>{{حدیث|یَا رَ‌بِّ إِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوا هَـٰذَا الْقُرْ‌آنَ مَهْجُورً‌ا}}</font>ترجمہ:پروردگارا! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ دیا ہے.
:<font color=green>{{حدیث|یَا رَ‌بِّ إِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوا هَـٰذَا الْقُرْ‌آنَ مَهْجُورً‌ا}}</font>ترجمہ:پروردگارا! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ دیا ہے۔


جن لوگوں نے مصحف امام علی(ع) کو چھوڑ دیا تھا شہرستانی ان سے سوالیہ لہجے میں مخاطب ہوتے ہوئے کہتا ہے :
جن لوگوں نے مصحف امام علی (ع) کو چھوڑ دیا تھا شہرستانی ان سے سوالیہ لہجے میں مخاطب ہوتے ہوئے کہتا ہے:
:کس طرح انہوں نے علی بن ابی طالب کے جمع کئے ہوئے قرآن کا مطالبہ نہیں کیا ؟ کیا [[زید بن ثابت]] اس سے بہتر لکھ سکتا تھا؟ آیا [[سعید بن عاص]] اس سے بہتر ادیب اور عرب کے فنون و قواعد سے آشنا تر تھا؟ کیا وہ پیغمبر خدا سے زیادہ  نزدیکتر تھے یا علی نزدیکتر تھے؟ ہاں! ان سب  نے علی(ع)کے کام کو چھوڑ دیا اور اسکے مصحف کو ایک طرف رکھ دیا اور اسے فراموش کر دیا حالانکہ [[علی بن ابی طالب|علی]] جب رسول کے دفن ،کفن اور نماز سے فارغ ہوئے تو انہوں نے قسم کھائی کہ میں جب تک قرآن کو اکٹھا نہ کر لوں نماز جمعہ کے علاوہ کسی کام کیلئے اپنی عبا کندھوں پر نہیں ڈالوں گا۔اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ انہیں یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ جس طرح [[قرآن]] نازل ہوا اسی طرح کسی کم و کاست اور تحریف و تبدیلی کے بغیر جمع کریں۔ [[رسول اللہ]] ہمیشہ انہیں [[آیات]] اور [[سورتوں]] کے اصل مقامات سے آگاہ کرتے اور تقدم و تاخر انکے سامنے بیان کرتے تھے <ref>ایازی، مصحف امام علی(ع)، ص۱۷۲-۱۷۳، بہ حوالہ شہرستانی، مفاتیح الاسرار و مصابیح الانوار، ج۱، ص۱۲۰؛ نیز ر.ک: شہرستانی، مفاتیح الاسرار و مصابیح الابرار، ج۱، ص۵آ.</ref>
:کس طرح انہوں نے علی بن ابی طالب کے جمع کئے ہوئے قرآن کا مطالبہ نہیں کیا؟ کیا [[زید بن ثابت]] اس سے بہتر لکھ سکتا تھا؟ آیا [[سعید بن عاص]] اس سے بہتر ادیب اور عرب کے فنون و قواعد سے آشنا تر تھا؟ کیا وہ پیغمبر خدا سے زیادہ  نزدیکتر تھے یا علی نزدیکتر تھے؟ ہاں! ان سب  نے علی (ع) کے کام کو چھوڑ دیا اور اسکے مصحف کو ایک طرف رکھ دیا اور اسے فراموش کر دیا حالانکہ [[علی بن ابی طالب|علی]] جب رسول کے دفن، کفن اور [[نماز]] سے فارغ ہوئے تو انہوں نے قسم کھائی کہ میں جب تک قرآن کو اکٹھا نہ کر لوں [[نماز جمعہ]] کے علاوہ کسی کام کیلئے اپنی عبا کندھوں پر نہیں ڈالوں گا۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ انہیں یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ جس طرح [[قرآن]] نازل ہوا اسی طرح کسی کم و کاست اور تحریف و تبدیلی کے بغیر جمع کریں۔ [[رسول اللہ]] ہمیشہ انہیں [[آیات]] اور [[سورتوں]] کے اصل مقامات سے آگاہ کرتے اور تقدم و تاخر انکے سامنے بیان کرتے تھے <ref>ایازی، مصحف امام علی (ع)، ص۱۷۲-۱۷۳، بہ حوالہ شہرستانی، مفاتیح الاسرار و مصابیح الانوار، ج۱، ص۱۲۰؛ نیز ر.ک: شہرستانی، مفاتیح الاسرار و مصابیح الابرار، ج۱، ص۵آ.</ref>


=== ابن ندیم کا بیان ===
=== ابن ندیم کا بیان ===
[[ابن ندیم]] اپنی کتاب [[الفہرست ابن ندیم|الفہرست]] مییں کہتا ہے :
[[ابن ندیم]] اپنی کتاب [[الفہرست ابن ندیم|الفہرست]] مییں کہتا ہے:
: [[پیغمبر (ص)]] کی رحلت کے بعد [[امام علی (ع)]] تین دن تک اپنے گھر میں رہے اور قرآن کی جمع آوری میں مشغول رہے ۔یہ سب سے پہلا قرآن تھا جسے اکٹھا کیا گیا تھا ۔یہ  جعفر کے خاندان کے پاس تھا ؛میں نے اسے اپنے زمانے میں [[ابویعلی حمزه حسنی]] کے پاس دیکھا جو علی بن ابی طالب کے ہاتھ سے لکھا ہوا تھا اور اس کے کچھ صفحات ضائع ہو چکے تھے۔ طول تاریخ میں خاندانِ حسن اسے ارث کے طور پر ایک دوسرے سے لیتے رہے۔اس مصحف کی آیات اور سورتوں کی ترتیب یہ ہے .........<ref>ابن الندیم، الفہرست، ص۳۰.</ref>
: [[پیغمبر (ص)]] کی رحلت کے بعد [[امام علی (ع)]] تین دن تک اپنے گھر میں رہے اور قرآن کی جمع آوری میں مشغول رہے۔ یہ سب سے پہلا قرآن تھا جسے اکٹھا کیا گیا تھا۔ یہ جعفر کے خاندان کے پاس تھا؛ میں نے اسے اپنے زمانے میں [[ابو یعلی حمزه حسنی]] کے پاس دیکھا جو علی بن ابی طالب کے ہاتھ سے لکھا ہوا تھا اور اس کے کچھ صفحات ضائع ہو چکے تھے۔ طول تاریخ میں خاندانِ حسن اسے ارث کے طور پر ایک دوسرے سے لیتے رہے۔ اس مصحف کی آیات اور سورتوں کی ترتیب یہ ہے ...<ref>ابن الندیم، الفہرست، ص۳۰.</ref>


اس وقت ہمارے پاس ابن ندیم کی الفہرست کے نسخے میں سورتوں کی ترتیب مکمل طور پر موجود نہیں ہے ۔اس تبدیلی کا سبب واضح نہیں ہے۔ <ref>رامیار، تاریخ قرآن، ص ۳۶۸.</ref>
اس وقت ہمارے پاس ابن ندیم کی الفہرست کے نسخے میں سورتوں کی ترتیب مکمل طور پر موجود نہیں ہے۔ اس تبدیلی کا سبب واضح نہیں ہے۔<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ص ۳۶۸.</ref>
== مصحف کے اجزا ==
== مصحف کے اجزا==


[[تاریخ یعقوبی]]<ref>تاریخ یعقوبی، ج ۲، صص ۱۵-۱۶.</ref> میں آیا ہے کہ امام علی کا جمع کردہ قرآن درج ذیل سات اجزا پر مشتمل تھا:
[[تاریخ یعقوبی]]<ref>تاریخ یعقوبی، ج ۲، صص ۱۵-۱۶.</ref> میں آیا ہے کہ امام علی کا جمع کردہ قرآن درج ذیل سات اجزا پر مشتمل تھا:


'''جزو اول''': [[سورہ بقرہ|بقرہ]]، [[سورہ یوسف]]، [[سورہ عنکبوت|عنکبوت]]، [[سورہ روم|روم]]، [[سورہ لقمان|لقمان]]، [[سورہ فصلت|حم سجده]]، [[سورہ ذاریات|ذاریات]]، [[سورہ انسان|هل اتی علی الانسان]]، [[سورہ سجدہ|الم تنزیل سجده]]، [[سورہ نازعات|نازعات]]، [[سورہ تکویر|اذا الشمس کورت]]، [[سورہ انفطار|اذا السماء انفطرت]]، [[سورہ انشقاق|اذا السماء انشقت]]، [[سورہ اعلی|سبح اسم ربک الاعلی]] و [[سورہ بینہ|لم یکن]]، یہ بقرہ کا جزو ہے کہ ۸۸۶ [[آیت]] اور ۱۵ [[سورہ]] ہے.
'''جزو اول''': [[سورہ بقرہ|بقرہ]]، [[سورہ یوسف]]، [[سورہ عنکبوت|عنکبوت]]، [[سورہ روم|روم]]، [[سورہ لقمان|لقمان]]، [[سورہ فصلت|حم سجده]]، [[سورہ ذاریات|ذاریات]]، [[سورہ انسان|هل اتی علی الانسان]]، [[سورہ سجدہ|الم تنزیل سجده]]، [[سورہ نازعات|نازعات]]، [[سورہ تکویر|اذا الشمس کورت]]، [[سورہ انفطار|اذا السماء انفطرت]]، [[سورہ انشقاق|اذا السماء انشقت]]، [[سورہ اعلی|سبح اسم ربک الاعلی]] و [[سورہ بینہ|لم یکن]]، یہ بقرہ کا جزو ہے کہ ۸۸۶ [[آیت]] اور ۱۵ [[سورہ]] ہے۔


'''جزو دوم''': [[سورہ آل عمران|آل عمران]]، [[سورہ ہود|ہود]]، [[سورہ حج|حج]]، [[سورہ حجر|حجر]]، [[سورہ احزاب|احزاب]]، [[سورہ دخان|دخان]]، [[سورہ رحمن|رحمان]]، [[سورہ حاقہ|حاقہ]]، [[سورہ معارج|سال سائل]]، [[سورہ عبس|عبس]]، [[سورہ شمس|و الشمس و ضحاہا]]، [[سورہ قدر|انا انزلناه]]، [[سورہ زلزال|اذا زلزلت]]، [[سورہ ہمزہ|ویل لکل ہمزة لمزة]]، [[سورہ فیل|ا لم تر]] و [[سورہ قریش|لایلاف]]. یہ جزو آل عمران ہے کہ ۸۸۶ آیات اور ۱۶ واں سورہ ہے.
'''جزو دوم''': [[سورہ آل عمران|آل عمران]]، [[سورہ ہود|ہود]]، [[سورہ حج|حج]]، [[سورہ حجر|حجر]]، [[سورہ احزاب|احزاب]]، [[سورہ دخان|دخان]]، [[سورہ رحمن|رحمان]]، [[سورہ حاقہ|حاقہ]]، [[سورہ معارج|سال سائل]]، [[سورہ عبس|عبس]]، [[سورہ شمس|و الشمس و ضحاہا]]، [[سورہ قدر|انا انزلناه]]، [[سورہ زلزال|اذا زلزلت]]، [[سورہ ہمزہ|ویل لکل ہمزة لمزة]]، [[سورہ فیل|ا لم تر]] و [[سورہ قریش|لایلاف]]۔ یہ جزو آل عمران ہے کہ ۸۸۶ آیات اور ۱۶ واں سورہ ہے۔


'''جزو سوم''': [[سورہ نساء|نساء]]، [[سورہ نحل|نحل]]، [[سورہ مؤمنون|مؤمنون]]، [[سورہ یس|یس]]، [[سورہ شوری|حم عسق]]، [[سورہ واقعہ|واقعہ]]، [[سورہ ملک|تبارک الملک]]، [[سورہ مدثر|یا ایہا المدثر]]، [[سورہ ماعون|ا رایت]]، [[سورہ مسد|تبت]]، [[سورہ اخلاص|قل هو الله احد]]، [[سورہ عصر|عصر]]، [[سورہ قارعہ|قارعہ]]، [[سورہ بروج|و السماء ذات البروج]]، [[سورہ تین|و التین و الزیتون]] و [[سورہ نمل|طس نمل]]، یہ نساء کا جزو ہے کہ ۸۸۶ آیات اور ۱۶ واں سورہ ہے.
'''جزو سوم''': [[سورہ نساء|نساء]]، [[سورہ نحل|نحل]]، [[سورہ مؤمنون|مؤمنون]]، [[سورہ یس|یس]]، [[سورہ شوری|حم عسق]]، [[سورہ واقعہ|واقعہ]]، [[سورہ ملک|تبارک الملک]]، [[سورہ مدثر|یا ایہا المدثر]]، [[سورہ ماعون|ا رایت]]، [[سورہ مسد|تبت]]، [[سورہ اخلاص|قل هو الله احد]]، [[سورہ عصر|عصر]]، [[سورہ قارعہ|قارعہ]]، [[سورہ بروج|و السماء ذات البروج]]، [[سورہ تین|و التین و الزیتون]] و [[سورہ نمل|طس نمل]]، یہ نساء کا جزو ہے کہ ۸۸۶ آیات اور ۱۶ واں سورہ ہے۔


'''جزو چہارم''': [[سورہ مائدہ|مائده]]، [[سورہ یونس|یونس]]، [[سورہ مریم|مریم]]، [[سورہ شعراء|طسم شعراء]]، [[سورہ زخرف|زخرف]]، [[سورہ حجرات|حجرات]]، [[سورہ ق|ق و القران المجید]]، [[سورہ قمر|اقتربت الساعہ]]، [[سورہ ممتحنہ|ممتحنہ]]، [[سورہ طارق|و السماء و الطارق]]، [[سورہ بلد|لا اقسم بہذا البلد]]، [[سورہ شرح|الم نشرح لک]]، [[سورہ عادیات|عادیات]]، [[سورہ کوثر|انا اعطیناک الکوثر]] و [[سورہ کافرون|قل یا ایہا الکافرون]]، یہ مائده کا جزو ہے کہ ۸۸۶ آیتیں اور ۱۵واں سورہ ہے.
'''جزو چہارم''': [[سورہ مائدہ|مائده]]، [[سورہ یونس|یونس]]، [[سورہ مریم|مریم]]، [[سورہ شعراء|طسم شعراء]]، [[سورہ زخرف|زخرف]]، [[سورہ حجرات|حجرات]]، [[سورہ ق|ق و القران المجید]]، [[سورہ قمر|اقتربت الساعہ]]، [[سورہ ممتحنہ|ممتحنہ]]، [[سورہ طارق|و السماء و الطارق]]، [[سورہ بلد|لا اقسم بہذا البلد]]، [[سورہ شرح|الم نشرح لک]]، [[سورہ عادیات|عادیات]]، [[سورہ کوثر|انا اعطیناک الکوثر]] و [[سورہ کافرون|قل یا ایہا الکافرون]]، یہ مائده کا جزو ہے کہ ۸۸۶ آیتیں اور ۱۵واں سورہ ہے۔


'''جزو پنجم''': [[سورہ انعام|انعام]]، [[سورہ اسراء|سبحان]]، [[سورہ انبیاء|اقترب]]، [[سورہ فرقان|فرقان]]، [[سورہ قصص|موسی و فرعون]]<ref>سخاوی سے سیوطی کی نقل کے مطابق سورہ طہ   جمال القراء، سورہ کلیم هم کہتے ہیں(سیوطی، الاتقان، ج۱، ص۵۶) و اینجا مراد سورہ قصص است (به نقل یعقوبی، تاریخ یعقوبی (ترجمه)، ج۲، ص۱۶، پاورقی ۱).</ref>، [[سورہ غافر|حم مؤمن]]، [[سورہ مجادلہ|مجادلہ]]، [[سورہ حشر|حشر]]، [[سورہ جمعہ|جمعہ]]، [[سورہ منافقون|منافقون]]، [[سورہ قلم|ن و القلم]]، [[سورہ نوح|انا ارسلنا نوحا]]، [[سورہ جن|قل اوحی الی]] و [[سورہ مرسلات|المرسلات]] و [[سورہ ضحی|الضحی]] و [[سورہ تکاثر|الہاکم]]، یہ انعام کا جزو ہے کہ ۸۸۶ آیتیں اور ۱۶ سورہ ہے.
'''جزو پنجم''': [[سورہ انعام|انعام]]، [[سورہ اسراء|سبحان]]، [[سورہ انبیاء|اقترب]]، [[سورہ فرقان|فرقان]]، [[سورہ قصص|موسی و فرعون]]<ref>سخاوی سے سیوطی کی نقل کے مطابق سورہ طہ جمال القراء، سورہ کلیم هم کہتے ہیں(سیوطی، الاتقان، ج۱، ص۵۶) و اینجا مراد سورہ قصص است (به نقل یعقوبی، تاریخ یعقوبی (ترجمه)، ج۲، ص۱۶، پاورقی ۱).</ref>، [[سورہ غافر|حم مؤمن]]، [[سورہ مجادلہ|مجادلہ]]، [[سورہ حشر|حشر]]، [[سورہ جمعہ|جمعہ]]، [[سورہ منافقون|منافقون]]، [[سورہ قلم|ن و القلم]]، [[سورہ نوح|انا ارسلنا نوحا]]، [[سورہ جن|قل اوحی الی]] و [[سورہ مرسلات|المرسلات]] و [[سورہ ضحی|الضحی]] و [[سورہ تکاثر|الہاکم]]، یہ انعام کا جزو ہے کہ ۸۸۶ آیتیں اور ۱۶ سورہ ہے۔


'''جزو ششم''': [[سورہ اعراف|اعراف]]، [[سورہ ابراہیم|ابراہیم]]، [[سورہ کہف|کہف]]، [[سورہ نور|نور]]، [[سورہ ص|ص]]، [[سورہ زمر|زمر]]، [[سورہ جاثیہ|شریعت]]،<ref>نسخه بدل: جاثیه.کرمانی کی العجائب سے سیوطی کی نقل کے مطابق سورہ جاثیہ کو سورہ شریعت اور سورہ دہر بھی کہتے ہیں (سیوطی، اتقان، ج۱، ص۵۶، به نقل یعقوبی، تاریخ یعقوبی (ترجمہ)، ج۲، ص۱۶، تعلیقہ۲).</ref> [[سورہ محمد|الذین کفروا]]، [[سورہ حدید|حدید]]، [[سورہ مزمل|مزمل]]، [[سورہ قیامہ|لا اقسم بیوم القیامہ]]، [[سورہ نباء|عم یتساءلون]]، [[سورہ غاشیہ|غاشیہ]]، [[سورہ فجر|فجر]]، [[سورہ لیل|و اللیل اذا یغشی]] و [[سورہ نصر|اذا جاء نصر اللہ]]، یہ اعراف کا جزو ہے کہ جس کی ۸۸۶ آیتیں اور ۱۶ واں سورہ ہے۔
'''جزو ششم''': [[سورہ اعراف|اعراف]]، [[سورہ ابراہیم|ابراہیم]]، [[سورہ کہف|کہف]]، [[سورہ نور|نور]]، [[سورہ ص|ص]]، [[سورہ زمر|زمر]]، [[سورہ جاثیہ|شریعت]]،<ref>نسخه بدل: جاثیہ. کرمانی کی العجائب سے سیوطی کی نقل کے مطابق سورہ جاثیہ کو سورہ شریعت اور سورہ دہر بھی کہتے ہیں (سیوطی، اتقان، ج۱، ص۵۶، بہ نقل یعقوبی، تاریخ یعقوبی (ترجمہ)، ج۲، ص۱۶، تعلیقہ۲).</ref> [[سورہ محمد|الذین کفروا]]، [[سورہ حدید|حدید]]، [[سورہ مزمل|مزمل]]، [[سورہ قیامہ|لا اقسم بیوم القیامہ]]، [[سورہ نباء|عم یتساءلون]]، [[سورہ غاشیہ|غاشیہ]]، [[سورہ فجر|فجر]]، [[سورہ لیل|و اللیل اذا یغشی]] و [[سورہ نصر|اذا جاء نصر اللہ]]، یہ اعراف کا جزو ہے کہ جس کی ۸۸۶ آیتیں اور ۱۶ واں سورہ ہے۔


'''جزو ہفتم''': [[سورہ انفال|انفال]]، [[سورہ توبہ|براءه]]، [[سورہ طہ|طہ]]، [[سورہ فاطر|ملائکہ]]، [[سورہ صافات|صافات]]، [[سورہ احقاف|احقاف]]، [[سورہ فتح|فتح]]، [[سورہ طور|طور]]، [[سورہ نجم|نجم]]، [[سورہ صف|صف]]، [[سورہ تغابن|تغابن]]، [[سورہ طلاق|طلاق]]، [[سورہ مطففین|مطففین]] اور معوذتین یعنی [[سورہ فلق|فلق]] اور [[سورہ الناس|ناس]]، انفال کا جزو ہے  ۸۸۶ آیتیں اور ۱۵ واں سورہ ہے۔<ref>یہ تمام ۱۰۹ سورے ہیں اور ۵ سورے نسخے میں نہیں ہیں۔ ر.ک: مفاتیح الاسرار و مصابیح الابرار شہرستانی، بحوالہ یعقوبی، تاریخ یعقوبی (ترجمہ)، ج۲، ص۱۶، تعلیقہ ۴.</ref>
'''جزو ہفتم''': [[سورہ انفال|انفال]]، [[سورہ توبہ|براءه]]، [[سورہ طہ|طہ]]، [[سورہ فاطر|ملائکہ]]، [[سورہ صافات|صافات]]، [[سورہ احقاف|احقاف]]، [[سورہ فتح|فتح]]، [[سورہ طور|طور]]، [[سورہ نجم|نجم]]، [[سورہ صف|صف]]، [[سورہ تغابن|تغابن]]، [[سورہ طلاق|طلاق]]، [[سورہ مطففین|مطففین]] اور معوذتین یعنی [[سورہ فلق|فلق]] اور [[سورہ الناس|ناس]]، انفال کا جزو ہے  ۸۸۶ آیتیں اور ۱۵ واں سورہ ہے۔<ref>یہ تمام ۱۰۹ سورے ہیں اور ۵ سورے نسخے میں نہیں ہیں۔ ر.ک: مفاتیح الاسرار و مصابیح الابرار شہرستانی، بحوالہ یعقوبی، تاریخ یعقوبی (ترجمہ)، ج۲، ص۱۶، تعلیقہ ۴.</ref>


تاریخ قرآن کا مصنف اپنی تحقیقات میں کہتا ہے :
تاریخ قرآن کا مصنف اپنی تحقیقات میں کہتا ہے:
یعقوبی مصحف امام علی کی سورتوں کی ترتیب کے متعلق لکھتا ہے : مصحف علی کی سورتوں کی جو ترتیب (سات اجزا میں بیان کرنا)یعقوبی نے بیان کی ہے یہ عجیب اور منفرد ہے .تمام مؤرخین اور راویوں نے مصحف امام علی ترتیب کے بارے میں کہا ہے کہ اسکی  ترتیب شان نزول کے مطابق تھی اور اس مصحف میں قرآن کے بہت سے ابہامات کی توضیح تھی۔اگر یعقوبی کی بات کو قبول کر لیا جائے تو تمام مؤرخین اور راویوں کے بیان کی کوئی حیثیت نہیں رہتی ہے ۔<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ص ۳۷۰-۳۷۱.</ref>
یعقوبی مصحف امام علی کی سورتوں کی ترتیب کے متعلق لکھتا ہے: مصحف علی کی سورتوں کی جو ترتیب (سات اجزا میں بیان کرنا) یعقوبی نے بیان کی ہے یہ عجیب اور منفرد ہے۔ تمام مؤرخین اور راویوں نے مصحف امام علی ترتیب کے بارے میں کہا ہے کہ اسکی  ترتیب شان نزول کے مطابق تھی اور اس مصحف میں قرآن کے بہت سے ابہامات کی توضیح تھی۔ اگر یعقوبی کی بات کو قبول کر لیا جائے تو تمام مؤرخین اور راویوں کے بیان کی کوئی حیثیت نہیں رہتی ہے۔<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ص ۳۷۰-۳۷۱.</ref>
== خصوصیات ==
== خصوصیات ==
اکثر روایات بیان کرتی ہیں کہ مصحف امام علی قرآن کے نازل ہونے کی ترتیب کے مطابق اکٹھا کیا گیا مثلاً پہلے [[سورہ علق|سوره اقرأ]] پھر [[سوره مدثر|المدثر]] پھر اسکے بعد [[سورہ قلم|نون و القلم]] اور پھر [[سورہ مزمل|مزمل]]... آخر تک۔ اس میں کیا کچھ ذکر یا گیا صرف متن قرآن تھا یا [[شأن نزول]] اور [[ناسخ و منسوخ]] کو بھی شامل تھا،اس کے متعلق مختلف اقوال مذکور ہیں .<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ص ۳۷۰-۳۷۱.</ref>
اکثر روایات بیان کرتی ہیں کہ مصحف امام علی قرآن کے نازل ہونے کی ترتیب کے مطابق اکٹھا کیا گیا مثلاً پہلے [[سورہ علق|سوره اقرأ]] پھر [[سوره مدثر|المدثر]] پھر اسکے بعد [[سورہ قلم|نون و القلم]] اور پھر [[سورہ مزمل|مزمل]] ... آخر تک۔ اس میں کیا کچھ ذکر یا گیا صرف متن قرآن تھا یا [[شأن نزول]] اور [[ناسخ و منسوخ]] کو بھی شامل تھا، اس کے متعلق مختلف اقوال مذکور ہیں۔<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ص ۳۷۰-۳۷۱.</ref>


[[امام باقر]](ع) نے فرمایا:
[[امام باقر]](ع) نے فرمایا:
:جو شخص بھی یہ کہے کہ میں نے قرآن کو اسی طرح جمع کیا ہے جسطرح وہ نازل ہوا ہے ،اس نے جھوٹ کہا ہے ۔قرآن کو صرف [[حضرت علی]] ترتیب نزولی کے مطابق جمع کیا تھا۔<ref>بحار، ۸۸:۹۲؛ وافی ۲: ب۱۳۰/۷۲، بحوالۂ رامیار، تاریخ قرآن، ص ۳۷۱.</ref>
:جو شخص بھی یہ کہے کہ میں نے قرآن کو اسی طرح جمع کیا ہے جسطرح وہ نازل ہوا ہے، اس نے جھوٹ کہا ہے۔ قرآن کو صرف [[حضرت علی]] ترتیب نزولی کے مطابق جمع کیا تھا۔<ref>بحار، ۸۸:۹۲؛ وافی ۲: ب۱۳۰/۷۲، بحوالۂ رامیار، تاریخ قرآن، ص ۳۷۱.</ref>


شہرستانی نے اپنی تفسیر میں کہا ہے کہ امام علی کا قرآن متن اور حاشیے پر مشتمل تھا<ref>شہرستانی، مفاتیح الاسرار و مصابیح الابرار، ج۱، ص15؛ نیز ر.ک: تفسیر شہرستانی، تحقیق آذرشب، ج۱، ص۱۲۰، به نقل خرمشاہی، قرآن پژوہی (۲)، ص ۴۶۸.</ref> شیخ مفید اور دیگر محققین کے نزدیک اسکی دیگر خصوصیات میں سے یہ ہے کہ اس میں آیات کی تاویل مذکور تھیں۔<ref>اوائل المقالات، ص۹۴، بحوالۂ خرمشاہی، قرآن پژوہی (۲)، ص ۴۶۹-۴۶۸.</ref> دیگر یہ کہ [[ناسخ و منسوخ]] میں سے منسوخ ناسخ پر مقدم تھیں۔<ref>زنجانی، تاریخ قرآن، ص۵۴، بحوالۂ خرمشاہی، قرآن پژوہی (۲)، ص ۴۶۹.</ref> نیز کہا گیا ہے کہ اس کے حاشیے میں منافقان کے اسما جیسی مبہم چیزوں کو ذکر کیا گیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اسے قبول نہیں کیا گیا اور امام علی نے [[مصحف عثمان]] کی تائید کرتے ہوئے اسے ہمیشہ کیلئے مخفی کر دیا۔<ref>خرمشاہی، قرآن‎پژوہی (۲)، ص ۴۶۹.</ref>
شہرستانی نے اپنی تفسیر میں کہا ہے کہ امام علی کا قرآن متن اور حاشیے پر مشتمل تھا<ref>شہرستانی، مفاتیح الاسرار و مصابیح الابرار، ج۱، ص15؛ نیز ر.ک: تفسیر شہرستانی، تحقیق آذرشب، ج۱، ص۱۲۰، بہ نقل خرمشاہی، قرآن پژوہی (۲)، ص ۴۶۸.</ref> [[شیخ مفید]] اور دیگر محققین کے نزدیک اسکی دیگر خصوصیات میں سے یہ ہے کہ اس میں آیات کی تاویل مذکور تھیں۔<ref>اوائل المقالات، ص۹۴، بحوالۂ خرمشاہی، قرآن پژوہی (۲)، ص ۴۶۹-۴۶۸.</ref> دیگر یہ کہ [[ناسخ و منسوخ]] میں سے منسوخ ناسخ پر مقدم تھیں۔<ref>زنجانی، تاریخ قرآن، ص۵۴، بحوالۂ خرمشاہی، قرآن پژوہی (۲)، ص ۴۶۹.</ref> نیز کہا گیا ہے کہ اس کے حاشیے میں منافقان کے اسما جیسی مبہم چیزوں کو ذکر کیا گیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اسے قبول نہیں کیا گیا اور امام علی نے [[مصحف عثمان]] کی تائید کرتے ہوئے اسے ہمیشہ کیلئے مخفی کر دیا۔<ref>خرمشاہی، قرآن‎پژوہی (۲)، ص ۴۶۹.</ref>


احادیث منابع سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مصحف مسلسل ارث کے طور پر [[آئمہ طاہرین]] کے پاس موجود رہا اور اب [[امام مہدی عجل الله تعالی فرجه|حضرت ولی عصر (عج)]] کے پاس موجود ہے۔<ref>حقائق ہامہ، ص۱۶۰، بحوالۂ نقل خرمشاہی، قرآن‎پژوہی (۲)، ص ۴۶۹.</ref>
احادیث منابع سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مصحف مسلسل ارث کے طور پر [[آئمہ طاہرین]] کے پاس موجود رہا اور اب [[امام مہدی عجل الله تعالی فرجه|حضرت ولی عصر (عج)]] کے پاس موجود ہے۔<ref>حقائق ہامہ، ص۱۶۰، بحوالۂ نقل خرمشاہی، قرآن‎پژوہی (۲)، ص ۴۶۹.</ref>


مجموعی طور پر اس مصحف کی درج ذیل خصوصیات تھیں:
مجموعی طور پر اس مصحف کی درج ذیل خصوصیات تھیں:
# متن [[قرآن]] کے علاوہ تفسیر و تاویل پر مشتمل تھا۔
# متن [[قرآن]] کے علاوہ تفسیر و تاویل پر مشتمل تھا۔
# حضرت امام علی کے ہاتھ کا لکھا ہوا تھا۔
# حضرت امام علی کے ہاتھ کا لکھا ہوا تھا۔
# اس کی جمع آوری  بدیع، ابتکاری اور ایسی انفرادی تھی کہ اس کی مانند کسی نے اسے  اسطرح محفوظ اور جمع نہیں کیا تھا اور نزول کی شرائط کے لحاظ سے یہ ایک بے نظیر کام تھا۔<ref>ایازی، مصحف امام علی(ع)، صص۱۷۷-۱۷۸.</ref>
# اس کی جمع آوری  بدیع، ابتکاری اور ایسی انفرادی تھی کہ اس کی مانند کسی نے اسے  اسطرح محفوظ اور جمع نہیں کیا تھا اور نزول کی شرائط کے لحاظ سے یہ ایک بے نظیر کام تھا۔<ref>ایازی، مصحف امام علی(ع)، ص۱۷۷-۱۷۸.</ref>


==حوالہ جات ==
==حوالہ جات ==
سطر 59: سطر 59:
{{ستون آ|2}}
{{ستون آ|2}}
* ابن ندیم، فہرست ابن الندیم، تحقیق: رضا تجدد، بی جا، بی تا (سافٹ وئر  مکتبہ اہل البیت (ع) نسخہ دوم).
* ابن ندیم، فہرست ابن الندیم، تحقیق: رضا تجدد، بی جا، بی تا (سافٹ وئر  مکتبہ اہل البیت (ع) نسخہ دوم).
* السجستانی، عبدالله بن سلیمان، کتاب المصاحف، بیروت: دارالکتب العلمیہ، ۱۴۰۵ق/۱۹۸۵م.
* السجستانی، عبدالله بن سلیمان، کتاب المصاحف، بیروت: دار الکتب العلمیہ، ۱۴۰۵ق/۱۹۸۵ء.
* ایازی، سیدمحمدعلی، مصحف امام علی(ع)، در دانشنامہ امام علی(ع)، ج12، زیر نظر علی اکبر رشاد، تہران: مرکز نشر آثار پژوہشگاه فرہنگ و اندیشہ اسلامی، 1380.
* ایازی، سید محمدعلی، مصحف امام علی (ع)، در دانشنامہ امام علی (ع)، ج12، زیر نظر علی اکبر رشاد، تہران: مرکز نشر آثار پژوہشگاه فرہنگ و اندیشہ اسلامی، 1380.
* طباطبائی، سیدمحمدحسین، [[قرآن در اسلام (کتاب)|قرآن در اسلام]]، مصحح: محمدباقر بہبودی، تہران: دارالکتب الاسلامیہ، ۱۳۷۶ش.
* طباطبائی، سید محمد حسین، [[قرآن در اسلام (کتاب)|قرآن در اسلام]]، مصحح: محمد باقر بہبودی، تہران: دار الکتب الاسلامیہ، ۱۳۷۶ش.
* شہرستانی، محمدبن عبدالکریم، مفاتیح‌الاسرار و مصابیح‌الابرار، با مقدمه عبدالحسین حائری، [[تہران|طہران]]: مرکز انتشارات نسخ خطی، ۱۴۰۹ق/۱۳۶۸ش.
* شہرستانی، محمد بن عبد الکریم، مفاتیح‌ الاسرار و مصابیح‌الابرار، با مقدمہ عبد الحسین حائری، [[تہران|طہران]]: مرکز انتشارات نسخ خطی، ۱۴۰۹ق/۱۳۶۸ش.
* سیوطی، جلال الدین، الاتقان فی علوم القرآن، تحقیق: سعید المندوب، لبنان: دارالفکر، ۱۴۱۶ق/۱۹۹۶م.
* سیوطی، جلال الدین، الاتقان فی علوم القرآن، تحقیق: سعید المندوب، لبنان: دار الفکر، ۱۴۱۶ق/۱۹۹۶ء.
* خرمشاہی، بہاء الدین، قرآن پژوہی، تہران: علمی فرہنگی، ۱۳۸۹.
* خرمشاہی، بہاء الدین، قرآن پژوہی، تہران: علمی فرہنگی، ۱۳۸۹.
* رامیار، محمود، تاریخ قرآن، تہران: امیرکبیر، ۱۳۶۹.
* رامیار، محمود، تاریخ قرآن، تہران: امیر کبیر، ۱۳۶۹.
* یعقوبی، احمد بن ابی یعقوب (ابن واضح یعقوبی)، تاریخ یعقوبی، ج۲، ترجمه محمد ابراہیم آیتی، تہران: علمی و فرہنگی، ۱۳۷۸.
* یعقوبی، احمد بن ابی یعقوب (ابن واضح یعقوبی)، تاریخ یعقوبی، ج۲، ترجمه محمد ابراہیم آیتی، تہران: علمی و فرہنگی، ۱۳۷۸.
{{ستون خ}}
{{ستون خ}}
گمنام صارف