"ساقی کوثر" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) م (←منابع) |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 3: | سطر 3: | ||
ساقی کوثر، دو لفظ "ساقی" اور [[کوثر]] سے مرکب ہے۔ ساقی کا معنی دوسروں کو پانی یا شراب سے سیراب کرنے والے کے ہیں۔<ref>[http://www.vajehyab.com/amid/%D8%B3%D8%A7%D9%82%DB%8C فرہنگ لغت عمید، ذیل ساقی]</ref><ref> [http://www.vajehyab.com/dehkhoda/%D8%B3%D8%A7%D9%82%DB%8C دہخدا، لغت نامہ ذیل، ساقی]</ref> پرانے زمانے میں ساقی اس شخص کو کہا جاتا تھا جو پانی کسی پیالہ میں ڈال کر دوسروں کو دے دے۔ "[[کوثر]]" کا معنی خیر کثیر کے ہیں۔ <ref> نک: دانشنامہ قرآن و قرآنپژوہی، ج۲، ص۱۲۶۹</ref> | ساقی کوثر، دو لفظ "ساقی" اور [[کوثر]] سے مرکب ہے۔ ساقی کا معنی دوسروں کو پانی یا شراب سے سیراب کرنے والے کے ہیں۔<ref>[http://www.vajehyab.com/amid/%D8%B3%D8%A7%D9%82%DB%8C فرہنگ لغت عمید، ذیل ساقی]</ref><ref> [http://www.vajehyab.com/dehkhoda/%D8%B3%D8%A7%D9%82%DB%8C دہخدا، لغت نامہ ذیل، ساقی]</ref> پرانے زمانے میں ساقی اس شخص کو کہا جاتا تھا جو پانی کسی پیالہ میں ڈال کر دوسروں کو دے دے۔ "[[کوثر]]" کا معنی خیر کثیر کے ہیں۔ <ref> نک: دانشنامہ قرآن و قرآنپژوہی، ج۲، ص۱۲۶۹</ref> | ||
بعض | بعض مفسرین نے [[سورہ کوثر]] کی پہلی [[آیت]] میں موجود لفظ "کوثر" کو [[حوض کوثر]] قرار دیا ہے جس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے۔ <ref>عبدالرحمان بن ابی بکر سیوطی، ذیل کوثر، آیہ۱، الدرالمنثور فی التفسیر بالمأثور، سیوطی، ذیل کوثر، آیہ۱</ref>، [[شیعہ]] اور [[اہل سنّت]] احادیث کے مطابق امام علی(ع) اسی حوض کے ساقی ہیں۔ <ref>رجوع کنید بہ موفق بن احمد اخطب خوارزم، المناقب، ج۱، ص۲۹۴؛ احمد بن عبداللّہ طبری، ذخائرالعقبی فی مناقب ذوی القربی، ج۱، ص۸۶</ref> | ||
مختلف شعراء کے اشعار میں بھی حضرت علی(ع) کو "ساقی کوثر" کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔<ref> نک: دیوان اشعار ابن یمین، ص۳۹-۴۰؛ دیوان خواجہ شمس الدین محمد حافظ شیرازی، ص۷۴۳؛ مولوی، جلال الدین محمد، کلیات شمس تبریزی، غزل ۳۲۱۳، ص۱۱۸۹؛ عطار نیشابوری، منطق الطیر، ص۲۶.</ref> | مختلف شعراء کے اشعار میں بھی حضرت علی(ع) کو "ساقی کوثر" کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔<ref> نک: دیوان اشعار ابن یمین، ص۳۹-۴۰؛ دیوان خواجہ شمس الدین محمد حافظ شیرازی، ص۷۴۳؛ مولوی، جلال الدین محمد، کلیات شمس تبریزی، غزل ۳۲۱۳، ص۱۱۸۹؛ عطار نیشابوری، منطق الطیر، ص۲۶.</ref> |