مندرجات کا رخ کریں

"آیت" کے نسخوں کے درمیان فرق

3,163 بائٹ کا اضافہ ،  11 دسمبر 2016ء
م
imported>Mabbassi
imported>Mabbassi
سطر 83: سطر 83:
اس کے برعکس دوسرا گروہ اس کا معتقد ہے کہ ممکن ہے کہ قرآن میں آیات کی ترتیب رسول اللہ کے زمانے میں مرتب ہوئی ہو لیکن ان کے بعد نظم و ترتیب میں اصحاب کا اجتہاد ،ذوق اور سلیقے کا کردار ہے۔ [[علامہ طباطبائی]] کے مطابق حضرت ابو بکر کے زمانے میں قرآن کی جمع آوری کو بیان کرنے والی روایات  اسی کی تائید کرتی ہیں کہ اصحاب کا اجتہاد آیات کی ترتیب میں دخالت رکھتا ہے ۔اگر اسے قبول کر لیں کہ تمام آیات دستور رسول خدا سے مرتب ہوئیں تو اس کا یہ معنا نہیں ہے کہ جو کچھ اصحاب نے ترتیب دیا یہ وہی رسول اللہ کے زمانے میں ترتیب دیا گیا تھا... اور موجودہ ترتیب اور رسول اللہ کے زمانے کی ترتیب کے ایک ہونے پر جو [[اجماع]] کا ادعا کیا گیا ہے وہ [[اجماع|اجماع منقول]] ہے جس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا ہے ۔<ref>طباطبائی، المیزان، ج ۱۲، ص ۱۲۷ـ۱۲۹</ref>
اس کے برعکس دوسرا گروہ اس کا معتقد ہے کہ ممکن ہے کہ قرآن میں آیات کی ترتیب رسول اللہ کے زمانے میں مرتب ہوئی ہو لیکن ان کے بعد نظم و ترتیب میں اصحاب کا اجتہاد ،ذوق اور سلیقے کا کردار ہے۔ [[علامہ طباطبائی]] کے مطابق حضرت ابو بکر کے زمانے میں قرآن کی جمع آوری کو بیان کرنے والی روایات  اسی کی تائید کرتی ہیں کہ اصحاب کا اجتہاد آیات کی ترتیب میں دخالت رکھتا ہے ۔اگر اسے قبول کر لیں کہ تمام آیات دستور رسول خدا سے مرتب ہوئیں تو اس کا یہ معنا نہیں ہے کہ جو کچھ اصحاب نے ترتیب دیا یہ وہی رسول اللہ کے زمانے میں ترتیب دیا گیا تھا... اور موجودہ ترتیب اور رسول اللہ کے زمانے کی ترتیب کے ایک ہونے پر جو [[اجماع]] کا ادعا کیا گیا ہے وہ [[اجماع|اجماع منقول]] ہے جس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا ہے ۔<ref>طباطبائی، المیزان، ج ۱۲، ص ۱۲۷ـ۱۲۹</ref>
== تعدادِ آیات ==
== تعدادِ آیات ==
آیات قرآن کی تعداد میں اختلاف ہے ۔اس اختلاف کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ تلاوت کے موقع پر ہر آیت پر وقف کرتے تھے اس سے واضح ہو جاتا کہ یہاں ایک آیت تمام ہو گئی لیکن پھر اپنی بات کی تکمیل کیلئے اور گفتگو کو ربط دینے کیلئے دوسری آیت کو اس کے ساتھ ملاتے جس سے بعض اوقات سننے والا یہ سمجھتا کہ یہاں فاصلہ اور وقف نہیں ہے تو وہ دو آیات کو ایک آیت سمجھ لیتا ۔اس وجہ سے روایات میں وصل اور وقف کے مقامات میں اختلاف پیدا ہوا ہے اور اسی وجہ سے آیات کی تعداد میں مختلف اقوال پیدا ہوئے ہیں :
*مکتب کوفی: ۶۲۳۶ آیتیں۔
*مدنی: (دو تعداد بیان ہوئی ہیں) ۶۰۰۰ و ۶۲۱۴ آیتیں۔
*بصری: ۶۲۰۴ آیتیں۔
*شامی: ۶۲۲۵ آیتیں۔
کوفیوں کی بیان کی گئی تعداد چونکہ حضرت علی سے منسوب ہے اس وجہ سے محققین کے نزدیک واقعیت کے زیادہ قریب ہے ۔موجودہ قرآن کی  تعداد آیات کوفی مکتب کے مطابق ہے .
علامہ طباطبائی کے مطابق مذکورہ تعداد پر خبر  متواتر یا معتبر خبر موجود نہیں ہے کہ جس کی بنا پر اس پر اعتماد کیا جائے  پس اس پر اعتقاد رکھنا بھی کوئی ضروری یا لازم نہیں ہے ؛ بلکہ ممکن ہے ان اقوال میں سے کسی ایک قول کو تحقیق کی بنا پر قبول یا رد کیا جائے ۔<ref>طباطبائی، المیزان، ج ۱۳، ص ۲۳۲</ref>
== تناسب آیات ==
<!--
<!--
در شمار آیات قرآن اختلاف است. یکی از عوامل این اختلاف آن است که پیامبر(ص) هنگام تلاوت، در انتهای هر آیه وقف می‌کرد و روشن می‌شد که آن جا پایان آیه است؛ سپس برای تکمیل و ارتباط سخن، آن را به آیه بعد وصل می‌کرد و شنونده گاهی می‌پنداشت که در آن جا فاصله و وقفی نیست و دو آیه را یکی می‌شمرد؛ بنابراین، اختلاف روایات در موارد وصل و وقف، سبب اختلاف در شمار آیات شد و در پی آن، مکتب‌های گوناگونی در این باره پدید آمد که عبارتند از:
مناسبت میان دسته‌ای از آیات یک سوره یا به معنای وحدت سیاق است که مورد توافق مفسران است، و یا مقصود مناسبت میان مجموع آیات یک سوره است که هدف یا اهداف متعدّدی را تعقیب می‌کند و پس از رسیدن به آن، سوره به پایان می‌رسد. کوتاهی و بلندی سوره‌ها نیز به این سبب برمی گردد.<ref>التمهید، ج۵، ص۲۳۹</ref>
*مکتب کوفی: ۶۲۳۶ آیه
*مدنی: (دو عدد دارد) ۶۰۰۰ و ۶۲۱۴ آیه
*بصری: ۶۲۰۴ آیه،
*شامی: ۶۲۲۵ آیه.


عدد کوفی چون به علی(ع) منسوب است، نزد دانشمندان علوم قرآن و تفسیر به واقعیت نزدیک‌تر و از اعتبار ویژه‌ای برخوردار است. عدد آیات در مصحف شریف براساس مکتب کوفی است.
آن دسته از قرآن پژوهان که ترتیب آیات را توقیفی می‌دانند بر لزوم کشف این مناسبت تأکید می‌کنند. از میان همه مفسران مسلمان، آنکه بیشترین توجه را به ربط و مناسبت آیات و سوره‌ها داشته است، [[فضل بن حسن طبرسی|طبرسی]] (د ۵۴۸ق /۱۱۵۳م) است که در آغاز هر سوره، ربط و مناسبت آن را با سوره قبلی بیان داشته است و در طی تفسیر هر آیه ذیل عنوان «‌النظم‌» به شرح پیوند معنوی آن با آیات قبل و بعد پرداخته است. از دیگر مفسرانی که بیش و کم به این امر توجهی کرده‌اند، از [[زمخشری]] در [[الکشّاف]]، [[فخررازی]] در [[التفسیر الکبیر]]، [[آلوسی]] در [[روح المعانی]]، [[محمد رشید رضا|محمّدرشیدرضا]] در [[تفسیر المنار]] و [[شیخ محمود شلتوت]] در [[تفسیر القرآن الکریم]] می‌توان نام برد.


به نظر علاّمه طباطبایی، عددهایی که گفته‌اند، نصّ متواتر یا خبر واحد معتبری که بتوان بر آن تکیه کرد، ندارد؛ بنابراین، اعتقاد به هیچ کدام لازم نیست؛ بلکه می‌توان هر کدام را با تحقیق پذیرفت یا رد کرد.<ref>طباطبائی، المیزان، ج ۱۳، ص ۲۳۲</ref>
برخی دیگر از مفسّران، با آن که معتقد به وجود تناسب میان آیاتند، می‌گویند:
::قرآن کتابی فنّی و درسی نیست تا دارای فصول و نظام تألیفی خاصّی باشد؛ شناخت مناسبت آیات خوب است؛ امّا این مناسبت باید براساس ارتباط میان اجزایی باشد که اوّل و آخرش به هم ربط دارد؛ بنابراین نباید ربط‌های نادرستی را به کلام خدا نسبت داد.<ref>شیخ عز الدین به نقل از: الاتقان، ج۲، ص۲۳۴</ref> به گفته [[علامه طباطبایی]]، چه بسا ممکن است چند آیه به صورت جمله‌ای معترضه که بیان گر مطلب دیگری باشد، میان دو آیه هم سیاق فاصله شوند؛ بنابراین نیازی به تکلّف و زحمت برای یافتن ارتباط و تناسب آیات نیست و دلیلی بر لزوم این تناسب وجود ندارد، مگر در سوره هایی که یک جا نازل شده، یا آیاتی که ارتباطشان روشن است.<ref>المیزان، ج۴، ص۳۵۹</ref>
>
>


گمنام صارف