گمنام صارف
"آیت" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
←تعدادِ آیات
imported>Mabbassi م (←تعدادِ آیات) |
imported>Mabbassi م (←تعدادِ آیات) |
||
سطر 84: | سطر 84: | ||
== تعدادِ آیات == | == تعدادِ آیات == | ||
آیات قرآن کی تعداد میں اختلاف ہے ۔اس اختلاف کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ تلاوت کے موقع پر ہر آیت پر وقف کرتے تھے اس سے واضح ہو جاتا کہ یہاں ایک آیت تمام ہو گئی لیکن پھر اپنی بات کی تکمیل کیلئے اور گفتگو کو ربط دینے کیلئے دوسری آیت کو اس کے ساتھ ملاتے جس سے بعض اوقات سننے والا یہ سمجھتا کہ یہاں فاصلہ اور وقف نہیں ہے تو وہ دو آیات کو ایک آیت سمجھ لیتا ۔اس وجہ سے روایات میں وصل اور وقف کے مقامات میں اختلاف پیدا ہوا ہے اور اسی وجہ سے آیات کی تعداد میں مختلف اقوال پیدا ہوئے ہیں : | آیات قرآن کی تعداد میں اختلاف ہے ۔اس اختلاف کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ تلاوت کے موقع پر ہر آیت پر وقف کرتے تھے اس سے واضح ہو جاتا کہ یہاں ایک آیت تمام ہو گئی لیکن پھر اپنی بات کی تکمیل کیلئے اور گفتگو کو ربط دینے کیلئے دوسری آیت کو اس کے ساتھ ملاتے جس سے بعض اوقات سننے والا یہ سمجھتا کہ یہاں فاصلہ اور وقف نہیں ہے تو وہ دو آیات کو ایک آیت سمجھ لیتا ۔اس وجہ سے روایات میں وصل اور وقف کے مقامات میں اختلاف پیدا ہوا ہے اور اسی وجہ سے آیات کی تعداد میں مختلف اقوال پیدا ہوئے ہیں : | ||
{{ستون آ|2}} | |||
*مکتب کوفی: ۶۲۳۶ آیتیں۔ | *مکتب کوفی: ۶۲۳۶ آیتیں۔ | ||
*مدنی: (دو تعداد بیان ہوئی ہیں) ۶۰۰۰ و ۶۲۱۴ آیتیں۔ | *مدنی: (دو تعداد بیان ہوئی ہیں) ۶۰۰۰ و ۶۲۱۴ آیتیں۔ | ||
*بصری: ۶۲۰۴ آیتیں۔ | *بصری: ۶۲۰۴ آیتیں۔ | ||
*شامی: ۶۲۲۵ آیتیں۔ | *شامی: ۶۲۲۵ آیتیں۔ | ||
{{ستون خ}} | |||
کوفیوں کی بیان کی گئی تعداد چونکہ حضرت علی سے منسوب ہے اس وجہ سے محققین کے نزدیک واقعیت کے زیادہ قریب ہے ۔موجودہ قرآن کی تعداد آیات کوفی مکتب کے مطابق ہے . | کوفیوں کی بیان کی گئی تعداد چونکہ حضرت علی سے منسوب ہے اس وجہ سے محققین کے نزدیک واقعیت کے زیادہ قریب ہے ۔موجودہ قرآن کی تعداد آیات کوفی مکتب کے مطابق ہے . | ||
علامہ طباطبائی کے مطابق مذکورہ تعداد پر خبر متواتر یا معتبر خبر موجود نہیں ہے کہ جس کی بنا پر اس پر اعتماد کیا جائے پس اس پر اعتقاد رکھنا بھی کوئی ضروری یا لازم نہیں ہے ؛ بلکہ ممکن ہے ان اقوال میں سے کسی ایک قول کو تحقیق کی بنا پر قبول یا رد کیا جائے ۔<ref>طباطبائی، المیزان، ج ۱۳، ص ۲۳۲</ref> | علامہ طباطبائی کے مطابق مذکورہ تعداد پر خبر متواتر یا معتبر خبر موجود نہیں ہے کہ جس کی بنا پر اس پر اعتماد کیا جائے پس اس پر اعتقاد رکھنا بھی کوئی ضروری یا لازم نہیں ہے ؛ بلکہ ممکن ہے ان اقوال میں سے کسی ایک قول کو تحقیق کی بنا پر قبول یا رد کیا جائے ۔<ref>طباطبائی، المیزان، ج ۱۳، ص ۲۳۲</ref> | ||
== تناسب آیات == | == تناسب آیات == | ||
<!-- | <!-- |