مندرجات کا رخ کریں

"مقداد بن عمرو" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
imported>Mabbassi
imported>Mabbassi
سطر 32: سطر 32:
مقداد  [[سلمان فارسی|سلمان]]، [[عمار بن یاسر|عمار]] اور [[ابوذر]] کے ساتھ سرول خدا کے زمانے میں شیعہ کے نام سے پہچانا جاتا تھا۔ <ref>ر.ک: نوبختی، فرق الشیعہ،  ۱۴۰۴ق، ص۱۸.</ref>
مقداد  [[سلمان فارسی|سلمان]]، [[عمار بن یاسر|عمار]] اور [[ابوذر]] کے ساتھ سرول خدا کے زمانے میں شیعہ کے نام سے پہچانا جاتا تھا۔ <ref>ر.ک: نوبختی، فرق الشیعہ،  ۱۴۰۴ق، ص۱۸.</ref>


== عثمان کے دور خلافت میں ==
== امام علی(ع) کی جانشینی کی حمایت==
یعقوبی لکھتے ہیں: بعض روایات کی بنا پر [[عثمان بن عفان]] جس دن اس کی بعنوان خلیفہ بیعت ہوئی اسی رات نماز عشای کیلئے باہر گیا اور اس کے آگے آگے ایک چراغ روشن تھا اسی اثنا میں ان کا گذر مقداد سے ہوا تو مقداد نے کہا: یہ بدعت کیا ہے؟ <ref>یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۵۴.</ref> یعقوبی آگے چل کر یوں لکھتے ہیں: لوگ [[علی بن ابی طالب]] کے پاس جا کر عثمان کے خلاف بولتے تھے ایک شخص سے کہتا ہے:
رحلت پیامبر اسلام (ص) کے بعد سقیفہ میں [[ابوبکر]] کے خلیفہ چنے جانے کے بعد علی(ع) کی وفاداری میں بہت تھوڑے افراد رہ گئے کہ جنہوں نے ابوبکر کی بیعت نہ کی ان میں سے سلمان، ابوذر و مقداد بھی تھے ۔ مقداد نے [[سقیفہ]] کے واقعے میں شرکت نہیں کی بلکہ وہ امیر المؤمنین علی اور چند صحابہ کے ہمراہ  پیامبر اسلام (ص) غسل و کفن دفن میں مشغورل رہے۔<ref>مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۲، ص۳۲۸.</ref> روایات کے مطابق مقداد ان گنے چنے افراد میں سے ہے جنہوں نے [[حضرت فاطمہ]] کی [[نماز جنازہ]] میں شرکت کی . <ref>کشی، اختیار معرفۃ الرجال، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۳۴</ref> بعض منابع اسے [[شرطۃ الخمیس]] کا عضو بھی کہتے ہیں .<ref>خوئی، معجم رجال الحدیث، ۱۴۱۰ق، ج۶، ص۱۸۸. </ref><ref>aلیکن اگر  شرطۃ الخمیس دوران  حکومت حضرت علی(ع) میں بنی ہو تو مقداد کا اس میں سے ہونا مشکل ہے کیونکہ اسکی تاریخ وفات  ۳۳ق مذکور ہے اور حکومت علی کی ابتدا ۳۵ ہجری قمری مذکور ہوئی ہے </ref>


::میں نماز کیلئے [[مسجد نبوی]] گیا تو دیکھا کہ ایک شخص زانوں پر کھڑا یوں افسوس کر رہا تھا کہ گویا پوری دنیا اس کے ہاتھ سے چلا گیا ہو اور یہ کہہ رہا تھا: "مجھے [[قریش]] پر تعجب ہوتا ہے کہ انہوں نے [[خلافت]] کو [[اہل بیت]] سے جن کے درمیان سب سے پہلے ایمان لانے والے، پیغمبر خدا کا چچا زاد بھائی، لوگوں میں سب سے زیادہ دانا اور دین خدا کو سب سے زیادہ جانے والا، ہدایت کرنے والا اور ہدایت یافتہ اور پاک و پاکیزہ ہستی موجود ہے، سے غصب کیا اور نہ امت کی مصلحت کو دیکھا اور نہ ان کے طور و طریقے حق پر مبنی ہے بلکہ انہوں نے دنیا کو آخرت پر ترجیح دی ہے پس ظالموں اور ستمگروں سے دور رہنا چاہئے خدا انہیں غارت کرے۔"
مقداد نے مختلف مقامات پر ابوبکر اور اسکے ہمراہیوں کو  امام علی(ع) کی جانشینی کی یادآوری کروائی اور اس مسئلے کو لوگوں کے سامنے روشن کرنے کے اقدامات کیے ۔ نمونے کے طور پر چند اقدامات کی طرف اشارہ کرتے ہیں :
::پس اس شخص کے قریب گیا اور کہا: خدا تجھ پر اپنی رحمت نازل کرے تم کون ہو اور یہ مرد کون ہے جس کے بارے میں تم کہہ رہے تھے؟
 
::اس نے کہا: میں مقداد بن عمرو ہوں اور وہ شخص علی بن ابی طالب ہیں۔
#لوگوں کے ابوبکر کی بیعت کرنے کے باوجود  [[مہاجر]] و [[انصار]] کے گروہ نے بیعت نہیں کی اور  علی بن ابی‌طالب سے مل گئے ۔ان میں سے مقداد بھی ایک  تھا۔ <ref>آبی، نثر الدر في المحاضرات، ۱۴۲۴ق، ج۱، ص۲۷۷؛ ابن ابی الحديد، شرح نہج البلاغہ، ۱۴۱۸ق، ج۱، ص ۱۳۷-۱۳۸؛ شیخ صدوق، الخصال، ۱۴۰۳ق، ص۴۶۱-۴۶۵.</ref>
::میں نے کہا: آيا اس کام کیلئے اقدام نہیں کرو گے تاکہ میں بھی تمہاری ممد کروں؟
#جب چالیس افراد امام علی کے پاس آئے اور کہا کہ ہم آپ کے دفاع کیلئے آمادہ ہیں تو امام نے ان سے کہا کہ اپنے سر منڈوا کر آؤ ۔اگلے روز صرف سلمان، مقداد اور ابوذر سر منڈوا کر امام کے پاس آئے ۔ <ref>یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ۱۳۷۳ش، ج۲، ص۱۲۶.</ref> 
::اس نے کہا: اے میرے بھتیجے اس کام کیلئے ایک یا دو شخص کافی نہیں ہے۔
#عمر کے بعد خلیفہ کے تعین کیلئے [[شورای]] میں جب [[عبدالرحمن بن عوف]] نے علی(ع) سے کہا : میں تمہاری اس صورت میں بیعت کرونگا کہ اگر تم  کتاب خدا ، سنت پیغمبر اور سیرت ابوبکر کی پیروی کرو  تو علی(ع) نے صرف پہلے دو موارد قبول کیے۔ مقداد نے  عبدالرحمن بن عوف کی طرف رخ کرکے کہا : خدا کی قسم !علی جو ہمیشہ حق اور عدالت قائم کرتا تھا تم نے اسے چھوڑ دیا  ۔مزید کہا :میں نے رسول اللہ کے بعد اسکی اہل بیت سے زیادہ کسی شخص اور خاندان کو ان سے زیادہ مظلوم نہیں پایا  ۔<ref>طبری، تاریخ طبری، بیروت، ج۴، ص۲۳۳.</ref>
::پھر میں باہر آیا تو [[ابوذر]] کو دیکھا تو اس واقعے کو اس کے سامنے بازگو کیا تو ابوذر نے کہا میرے بھائی مقداد نے درست کہا ہے۔
 
::پھر میں [[عبداللہ بن مسعود]] کے پاس گیا اور یہ ماجرا اسے بیان کیا ۔
مقداد نے خلافت [[عثمان]] کی مخالفت کی اور  [[مسجد مدینہ]] میں اسکے خلاف تقریر کر کے اس مخالفت کا اعلان کیا۔<ref>طبری، تاریخ طبری، بیروت، ج۴، ص۲۳۳.</ref>
::اس نے کہا: ہمیں یہی حکم دیا گیا ہے پس ہم نے کوئی کوتاہی نہیں کی ہے۔<ref>یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج۲، صص۵۴-۵۵.</ref>
 
یعقوبی نے بعض نے نقل کیا ہے کہ [[عثمان بن عفان|عثمان]] کی جس دن بیعت انجام پائی اسی روز نماز عشا کی ادائیگی کیلئے جب مسجد میں آیا تو اس کے آگے ایک شمع روش تھی ۔مقداد بن عمرو کا اس سے سامنا ہوا تو اس نے عثمان سے کہا یہ کیا بدعت ہے ؟ <ref>یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ۱۳۷۳ش، ج۲، ص۵۴.</ref>  یعقوبی کے مطابق مقداد ان افراد میں سے ہے جس نے زبان سے  عثمان کے خلاف اعتراضات پر زبان کھولی اور  [[علی بن ابی‌طالب]] کے دامن سے تھامے رہے  ۔<ref>یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ۱۳۷۳ش، ج۲، ص۵۴-۵۵.</ref>


== حوالہ جات==
== حوالہ جات==
گمنام صارف