"جہاد" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
←جہاد، آخری راہ حل
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
سطر 56: | سطر 56: | ||
باغیان کے ساتھ جہاد انکے پیمان میں نقض یا امام علیہ السلام سے بیعت توڑنے اور انکو دوبارہ بیعت کی لئے دعوت دینا ہے. <ref>کشف الرموز، ج۱، ص۴۱۸ ـ ۴۲۲؛ المہذّب البارع، ج ۲، ص۳۰۰ ـ ۳۱۰</ref> | باغیان کے ساتھ جہاد انکے پیمان میں نقض یا امام علیہ السلام سے بیعت توڑنے اور انکو دوبارہ بیعت کی لئے دعوت دینا ہے. <ref>کشف الرموز، ج۱، ص۴۱۸ ـ ۴۲۲؛ المہذّب البارع، ج ۲، ص۳۰۰ ـ ۳۱۰</ref> | ||
==جہاد، آخری راہ حل== | |||
بعض مسلمان مولفین کی نگاہ میں، ہمیشہ مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے درمیان اختلاف کا راہ حل جہاد نہیں، بلکہ جہاد اسلام اور مسلمانوں کی مصالح کی خاطر آخری راہ حل ہے. <ref>زحیلی، ص۹۰، ۹۷</ref> جہاد شروع کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ مد مقابل کو اسلام کی دعوت، کفر و عصیان چھوڑنے اور اور انسانی حقوق کو پایمال نہ کرنے کی دعوت دی جائے اور اس کی ابتداء ایسے علاقہ جات سے کی جائے جو اسلامی سرزمین کے نزدیک ہیں. <ref>شافعی، ج ۴، ص۱۷۷؛ مطیعی، ج ۱۹، ص۲۸۵ـ ۲۸۷؛ فخرالمحققین، ج ۱، ص۳۵۴؛ نجفی، ج ۲۱، ص۵۱؛ خوئی، ۱۴۱۰، ج ۱، ص۳۶۹</ref> | بعض مسلمان مولفین کی نگاہ میں، ہمیشہ مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے درمیان اختلاف کا راہ حل جہاد نہیں، بلکہ جہاد اسلام اور مسلمانوں کی مصالح کی خاطر آخری راہ حل ہے. <ref>زحیلی، ص۹۰، ۹۷</ref> جہاد شروع کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ مد مقابل کو اسلام کی دعوت، کفر و عصیان چھوڑنے اور اور انسانی حقوق کو پایمال نہ کرنے کی دعوت دی جائے اور اس کی ابتداء ایسے علاقہ جات سے کی جائے جو اسلامی سرزمین کے نزدیک ہیں. <ref>شافعی، ج ۴، ص۱۷۷؛ مطیعی، ج ۱۹، ص۲۸۵ـ ۲۸۷؛ فخرالمحققین، ج ۱، ص۳۵۴؛ نجفی، ج ۲۱، ص۵۱؛ خوئی، ۱۴۱۰، ج ۱، ص۳۶۹</ref> | ||
بعض مجتہدین کی نظر میں [[پیغمبر اکرم(ص)]] کی سیرت کے مطابق، اگر شرائط مناسب ہوں اور سپاہ اسلام بھی جہاد کے لئے تیار ہوں، تو کم از کم سال میں ایک بار واجب ہے. <ref>طوسی، ۱۳۸۷، ج ۲، ص۱۰؛ ابن قدامہ، ج ۱۰، ص۳۶۷ـ۳۶۸؛ مطیعی، ج ۱۹، ص۲۶۶؛ علامہ حلّی، ۱۴۱۳ـ۱۴۱۹، ج ۱، ص۴۷۷؛ نجفی، ج ۲۱، ص۴۹</ref> جنگ کے میدان سے فرار جائز نہیں ہے مگر مجبوری کی حالت میں. <ref>نجفی، ج ۲۱، ص۷۳؛ خوئی، ۱۴۱۰، ج ۱، ص۳۷۱</ref> | بعض مجتہدین کی نظر میں [[پیغمبر اکرم(ص)]] کی سیرت کے مطابق، اگر شرائط مناسب ہوں اور سپاہ اسلام بھی جہاد کے لئے تیار ہوں، تو کم از کم سال میں ایک بار واجب ہے. <ref>طوسی، ۱۳۸۷، ج ۲، ص۱۰؛ ابن قدامہ، ج ۱۰، ص۳۶۷ـ۳۶۸؛ مطیعی، ج ۱۹، ص۲۶۶؛ علامہ حلّی، ۱۴۱۳ـ۱۴۱۹، ج ۱، ص۴۷۷؛ نجفی، ج ۲۱، ص۴۹</ref> جنگ کے میدان سے فرار جائز نہیں ہے مگر مجبوری کی حالت میں. <ref>نجفی، ج ۲۱، ص۷۳؛ خوئی، ۱۴۱۰، ج ۱، ص۳۷۱</ref> |