گمنام صارف
"جہاد" کے نسخوں کے درمیان فرق
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Jaravi مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
imported>Jaravi کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 32: | سطر 32: | ||
::الف) جنگ کرنے کا طریقہ اور فوج کے ساتھ اور قتل ہونے والوں اور باقی رہ جانے والوں کے ساتھ رویہ، [[مال غنیمت]] کی تقسیم، | ::الف) جنگ کرنے کا طریقہ اور فوج کے ساتھ اور قتل ہونے والوں اور باقی رہ جانے والوں کے ساتھ رویہ، [[مال غنیمت]] کی تقسیم، | ||
::ب) جہاد کا اختتام. <ref>زیدبن علی، ص۳۴۹ـ ۳۶۲؛ شافعی، ج ۴، ص۱۶۷ـ۳۱۳؛ سحنون، ج ۲، ص۲ـ ۵۰؛ مسلم بن حجاج، ج ۲، ص۱۳۵۶ـ ۱۴۵۰؛ کلینی، ج ۵، ص۲ـ ۵۵؛ طوسی، ۱۳۸۷، ج ۲، ص۲ـ۷۵؛ ابن حزم، المحلّی، ج ۷، ص۲۹۱ـ ۳۵۴؛ شمس الائمه سرخسی، ۱۴۰۳، ج ۱۰، ص۲ـ ۱۴۴؛ ابن قدامه، ج ۱۰، ص۳۶۴ ـ۶۳۵</ref> | ::ب) جہاد کا اختتام. <ref>زیدبن علی، ص۳۴۹ـ ۳۶۲؛ شافعی، ج ۴، ص۱۶۷ـ۳۱۳؛ سحنون، ج ۲، ص۲ـ ۵۰؛ مسلم بن حجاج، ج ۲، ص۱۳۵۶ـ ۱۴۵۰؛ کلینی، ج ۵، ص۲ـ ۵۵؛ طوسی، ۱۳۸۷، ج ۲، ص۲ـ۷۵؛ ابن حزم، المحلّی، ج ۷، ص۲۹۱ـ ۳۵۴؛ شمس الائمه سرخسی، ۱۴۰۳، ج ۱۰، ص۲ـ ۱۴۴؛ ابن قدامه، ج ۱۰، ص۳۶۴ ـ۶۳۵</ref> | ||
جہاد کا فتوا | |||
==جہاد کا فتوا== | |||
سنہ تیرہ ہجری کو جب [[ایران]] اور روس کی جنگ ہوئی تھی تو اسلامی سرزمین کے دفاع کی خاطر شیعہ علماء نے جہاد کا حکم دیا تھا.<ref>میرزابزرگ قائم مقام، مقدمه زرگری نژاد، ص۶۲، ۷۴، ۷۶؛ رسایل و فتاوای جهادی، ص۲۰ـ۳۵۱</ref> تاریخی کتابوں میں اہل سنت کے علماء کا بھی ذکر آیا ہے جنہوں نے جہاد کا حکم دیا جیسے ابن عساکر(م٥٧١) کو صلیبی جنگوں میں تشویق کرنا، اور اس بارے میں چالیس حدیث کی جمع آوری کرنا. <ref>حلوانی، ص۱۱ـ۱۳</ref> | سنہ تیرہ ہجری کو جب [[ایران]] اور روس کی جنگ ہوئی تھی تو اسلامی سرزمین کے دفاع کی خاطر شیعہ علماء نے جہاد کا حکم دیا تھا.<ref>میرزابزرگ قائم مقام، مقدمه زرگری نژاد، ص۶۲، ۷۴، ۷۶؛ رسایل و فتاوای جهادی، ص۲۰ـ۳۵۱</ref> تاریخی کتابوں میں اہل سنت کے علماء کا بھی ذکر آیا ہے جنہوں نے جہاد کا حکم دیا جیسے ابن عساکر(م٥٧١) کو صلیبی جنگوں میں تشویق کرنا، اور اس بارے میں چالیس حدیث کی جمع آوری کرنا. <ref>حلوانی، ص۱۱ـ۱۳</ref> | ||
ابتدائی اور دفاعی جہاد | |||
===ابتدائی اور دفاعی جہاد=== | |||
مجتہدین نے اپنی کتابوں میں جہاد کو ابتدائی اور دفاعی حصوں میں تقسیم کیا ہے.<ref>منتظری، ج ۱، ص۱۱۵</ref> یہ تقسیم بندی فقہ کی پرانی کتابوں میں صریح طور ذکر نہیں کی گئی اور انہوں نے عام طور پر ابتدائی جہاد کے احکام کو مبسوط اور تدافعی جہاد کے احکام کو ضمنی طور پر بیان کیا ہے.<ref>شافعی، ج ۴، ص۱۷۰؛ کلینی، ج ۵</ref> | مجتہدین نے اپنی کتابوں میں جہاد کو ابتدائی اور دفاعی حصوں میں تقسیم کیا ہے.<ref>منتظری، ج ۱، ص۱۱۵</ref> یہ تقسیم بندی فقہ کی پرانی کتابوں میں صریح طور ذکر نہیں کی گئی اور انہوں نے عام طور پر ابتدائی جہاد کے احکام کو مبسوط اور تدافعی جہاد کے احکام کو ضمنی طور پر بیان کیا ہے.<ref>شافعی، ج ۴، ص۱۷۰؛ کلینی، ج ۵</ref> | ||
ابتدائی جہاد، مشرکین اور کفار کے ساتھ جنگ اور انکو اسلام اور [[توحید]] کی دعوت دینا اور عدالت کو برقرار کرنا کے معنی میں ہے. اور اس جہاد میں جس کے آغاز گر مسلمان ہیں ان کا مقصد [[کفر]] کا خاتمہ اور دین الہی کو گسترش دینا ہے. <ref>بقره : ۱۹۳؛ انفال :۳۹؛ جصاص، ج ۳، ص۶۵؛ قرطبی ؛ طباطبائی، ذیل بقره : ۱۹۳</ref> | ابتدائی جہاد، مشرکین اور کفار کے ساتھ جنگ اور انکو اسلام اور [[توحید]] کی دعوت دینا اور عدالت کو برقرار کرنا کے معنی میں ہے. اور اس جہاد میں جس کے آغاز گر مسلمان ہیں ان کا مقصد [[کفر]] کا خاتمہ اور دین الہی کو گسترش دینا ہے. <ref>بقره : ۱۹۳؛ انفال :۳۹؛ جصاص، ج ۳، ص۶۵؛ قرطبی ؛ طباطبائی، ذیل بقره : ۱۹۳</ref> | ||
دفاعی جہاد، مسلمانوں اور اسلامی سرزمین کی حفاظت کی خاطر ہے. <ref>منتظری، ج ۱، ص۱۱۵</ref> | دفاعی جہاد، مسلمانوں اور اسلامی سرزمین کی حفاظت کی خاطر ہے. <ref>منتظری، ج ۱، ص۱۱۵</ref> | ||
===ابتدائی جہاد کے واجب ہونے کے شرائط=== | |||
• اہل سنت کے علماء کے مطابق ابتدائی جہاد یعنی اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کی خاطر، اگرچہ اس کی تشخیص دینے والا رہبرعادل ہو یا فاسق، واجب ہے.<ref>جصاص، ج ۳، ص۱۵۴؛ شمس الائمه سرخسی، ۱۹۷۱، ج ۱، ص۱۵۶ـ ۱۵۷؛ ابن قدامه، ج ۱۰، ص۳۷۱؛ شوکانی، ج ۷، ص۲۴۲ـ ۲۴۳</ref> ان کی نظر میں جہاد کے بارے میں رہبر کا حکم اس طرح واجب ہے جیسے کہ پانچ نمازین واجب ہیں. <ref> مطیعی، ج ۱۹، ص۲۶۹؛ شروانی، ج ۹، ص۲۳۷، ۲۷۷</ref> | • اہل سنت کے علماء کے مطابق ابتدائی جہاد یعنی اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کی خاطر، اگرچہ اس کی تشخیص دینے والا رہبرعادل ہو یا فاسق، واجب ہے.<ref>جصاص، ج ۳، ص۱۵۴؛ شمس الائمه سرخسی، ۱۹۷۱، ج ۱، ص۱۵۶ـ ۱۵۷؛ ابن قدامه، ج ۱۰، ص۳۷۱؛ شوکانی، ج ۷، ص۲۴۲ـ ۲۴۳</ref> ان کی نظر میں جہاد کے بارے میں رہبر کا حکم اس طرح واجب ہے جیسے کہ پانچ نمازین واجب ہیں. <ref> مطیعی، ج ۱۹، ص۲۶۹؛ شروانی، ج ۹، ص۲۳۷، ۲۷۷</ref> | ||
• اکثر امامی مجتہدین کی نظر میں ابتدائی جہاد کی اجازت امام معصوم یا امام کے نائبین کے اختیار میں ہے.<ref>کلینی، ج ۵، ص۲۳؛ طوسی، ۱۳۸۷، ج ۲، ص۸؛ همو، ۱۴۰۰، ص۲۹۰؛ شهیدثانی، ج ۳، ص۹؛ نجفی، ج ۲۱، ص۱۱</ref> اور انکی نظر میں نائب یعنی خاص نائب اور امام زمان(ع) کے غیبت کے زمانے میں عام نائب اس میں شامل نہیں ہیں.<ref>شهیدثانی ؛ نجفی، </ref> لیکن بعض مجتہدین کی نظر میں جہاد کی اجازت صرف امام معصوم یا آپ کے خاص نائب کے اختیار میں نہیں بلکہ عام نائب بھی توحید اور عدل کی حفاظت اور ظلم کو روکنے اور مظلوموں کی حمایت کی خاطر ابتدائی جہاد کی اجازت دے سکتا ہے. <ref>خوئی، ۱۴۱۰، ج ۱، ص۳۶۴؛ منتظری، ج ۱، ص۱۱۵؛ خامنهای، ج ۱، ص۳۳۱؛ ر.ک: میرزابزرگ قائم مقام، ص۶۶</ref> ان مجتہدین کی نظر میں اجماع کی رائے مورد قبول ہے اورجہاد کی حدیث میں عادل امام سے مراد امام معصوم نہیں ہے. <ref> منتظری، ج ۱، ص۱۱۸</ref> | • اکثر امامی مجتہدین کی نظر میں ابتدائی جہاد کی اجازت امام معصوم یا امام کے نائبین کے اختیار میں ہے.<ref>کلینی، ج ۵، ص۲۳؛ طوسی، ۱۳۸۷، ج ۲، ص۸؛ همو، ۱۴۰۰، ص۲۹۰؛ شهیدثانی، ج ۳، ص۹؛ نجفی، ج ۲۱، ص۱۱</ref> اور انکی نظر میں نائب یعنی خاص نائب اور امام زمان(ع) کے غیبت کے زمانے میں عام نائب اس میں شامل نہیں ہیں.<ref>شهیدثانی ؛ نجفی، </ref> لیکن بعض مجتہدین کی نظر میں جہاد کی اجازت صرف امام معصوم یا آپ کے خاص نائب کے اختیار میں نہیں بلکہ عام نائب بھی توحید اور عدل کی حفاظت اور ظلم کو روکنے اور مظلوموں کی حمایت کی خاطر ابتدائی جہاد کی اجازت دے سکتا ہے. <ref>خوئی، ۱۴۱۰، ج ۱، ص۳۶۴؛ منتظری، ج ۱، ص۱۱۵؛ خامنهای، ج ۱، ص۳۳۱؛ ر.ک: میرزابزرگ قائم مقام، ص۶۶</ref> ان مجتہدین کی نظر میں اجماع کی رائے مورد قبول ہے اورجہاد کی حدیث میں عادل امام سے مراد امام معصوم نہیں ہے. <ref> منتظری، ج ۱، ص۱۱۸</ref> | ||
ابتدائی جہاد تین گروہ کے مقابلے میں | |||
===ابتدائی جہاد تین گروہ کے مقابلے میں === | |||
ابتدائی جہاد تین گروہ کے مقابلے میں واجب ہے: | ابتدائی جہاد تین گروہ کے مقابلے میں واجب ہے: | ||
١.غیر ذمی کافر چاہے اہل کتاب ہو یا غیر اہل کتاب. | ١.غیر ذمی کافر چاہے اہل کتاب ہو یا غیر اہل کتاب. | ||
٢.ذمی کفار جنہوں نے ذمہ کے شرائط کی رعایت نہ کی ہو. | ٢.ذمی کفار جنہوں نے ذمہ کے شرائط کی رعایت نہ کی ہو. | ||
۳.باغیان. <ref>جواهر الکلام، ج ۲۱، ص۴۶</ref> | |||
غیر کتابی کے ساتھ جہاد اس کو [[اسلام]] کی دعوت کی خاطر ہے. وہ دو راستوں میں سے ایک کا انتخاب کر سکتے ہیں: آئین اسلام کو قبول کرنا یا جنگ کے لئے تیار ہونا. | غیر کتابی کے ساتھ جہاد اس کو [[اسلام]] کی دعوت کی خاطر ہے. وہ دو راستوں میں سے ایک کا انتخاب کر سکتے ہیں: آئین اسلام کو قبول کرنا یا جنگ کے لئے تیار ہونا. | ||
کفار کتابی غیر ذمی یا ذمی جس نے ذمہ کے پیمان کو توڑا ہو اس کے ساتھ جہاد، اسلام کو قبول کرنا یا پیمان ذمہ کو قبول کرنا اور جزیہ دینا ہے. جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان تین راستوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں: اسلام کو قبول کر لیں، اپنے دین پر قائم رئیں اور جزیہ دیں یا جنگ کے لئے حاضر ہوں. | کفار کتابی غیر ذمی یا ذمی جس نے ذمہ کے پیمان کو توڑا ہو اس کے ساتھ جہاد، اسلام کو قبول کرنا یا پیمان ذمہ کو قبول کرنا اور جزیہ دینا ہے. جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان تین راستوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں: اسلام کو قبول کر لیں، اپنے دین پر قائم رئیں اور جزیہ دیں یا جنگ کے لئے حاضر ہوں. | ||
باغیان کے ساتھ جہاد انکے پیمان میں نقض یا امام علیہ السلام سے بیعت توڑنے اور انکو دوبارہ بیعت کی لئے دعوت دینا ہے. <ref>کشف الرموز، ج۱، ص۴۱۸ ـ ۴۲۲؛ المهذّب البارع، ج ۲، ص۳۰۰ ـ ۳۱۰</ref> | باغیان کے ساتھ جہاد انکے پیمان میں نقض یا امام علیہ السلام سے بیعت توڑنے اور انکو دوبارہ بیعت کی لئے دعوت دینا ہے. <ref>کشف الرموز، ج۱، ص۴۱۸ ـ ۴۲۲؛ المهذّب البارع، ج ۲، ص۳۰۰ ـ ۳۱۰</ref> | ||
جہاد، آخری راہ حل | |||
===جہاد، آخری راہ حل=== | |||
بعض مسلمان مولفین کی نگاہ میں، ہمیشہ مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے درمیان اختلاف کا راہ حل جہاد نہیں، بلکہ جہاد اسلام اور مسلمانوں کی مصالح کی خاطر آخری راہ حل ہے. <ref>زحیلی، ص۹۰، ۹۷</ref> جہاد شروع کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ مد مقابل کو اسلام کی دعوت، کفر و عصیان چھوڑنے اور اور انسانی حقوق کو پایمال نہ کرنے کی دعوت دی جائے اور اس کی ابتداء ایسے علاقہ جات سے کی جائے جو اسلامی سرزمین کے نزدیک ہیں. <ref>شافعی، ج ۴، ص۱۷۷؛ مطیعی، ج ۱۹، ص۲۸۵ـ ۲۸۷؛ فخرالمحققین، ج ۱، ص۳۵۴؛ نجفی، ج ۲۱، ص۵۱؛ خوئی، ۱۴۱۰، ج ۱، ص۳۶۹</ref> | بعض مسلمان مولفین کی نگاہ میں، ہمیشہ مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے درمیان اختلاف کا راہ حل جہاد نہیں، بلکہ جہاد اسلام اور مسلمانوں کی مصالح کی خاطر آخری راہ حل ہے. <ref>زحیلی، ص۹۰، ۹۷</ref> جہاد شروع کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ مد مقابل کو اسلام کی دعوت، کفر و عصیان چھوڑنے اور اور انسانی حقوق کو پایمال نہ کرنے کی دعوت دی جائے اور اس کی ابتداء ایسے علاقہ جات سے کی جائے جو اسلامی سرزمین کے نزدیک ہیں. <ref>شافعی، ج ۴، ص۱۷۷؛ مطیعی، ج ۱۹، ص۲۸۵ـ ۲۸۷؛ فخرالمحققین، ج ۱، ص۳۵۴؛ نجفی، ج ۲۱، ص۵۱؛ خوئی، ۱۴۱۰، ج ۱، ص۳۶۹</ref> | ||
بعض مجتہدین کی نظر میں [[پیغمبر اکرم(ص)]] کی سیرت کے مطابق، اگر شرائط مناسب ہوں اور سپاہ اسلام بھی جہاد کے لئے تیار ہوں، تو کم از کم سال میں ایک بار واجب ہے. <ref>طوسی، ۱۳۸۷، ج ۲، ص۱۰؛ ابن قدامه، ج ۱۰، ص۳۶۷ـ۳۶۸؛ مطیعی، ج ۱۹، ص۲۶۶؛ علامه حلّی، ۱۴۱۳ـ۱۴۱۹، ج ۱، ص۴۷۷؛ نجفی، ج ۲۱، ص۴۹</ref> جنگ کے میدان سے فرار جائز نہیں ہے مگر مجبوری کی حالت میں. <ref>نجفی، ج ۲۱، ص۷۳؛ خوئی، ۱۴۱۰، ج ۱، ص۳۷۱</ref> | بعض مجتہدین کی نظر میں [[پیغمبر اکرم(ص)]] کی سیرت کے مطابق، اگر شرائط مناسب ہوں اور سپاہ اسلام بھی جہاد کے لئے تیار ہوں، تو کم از کم سال میں ایک بار واجب ہے. <ref>طوسی، ۱۳۸۷، ج ۲، ص۱۰؛ ابن قدامه، ج ۱۰، ص۳۶۷ـ۳۶۸؛ مطیعی، ج ۱۹، ص۲۶۶؛ علامه حلّی، ۱۴۱۳ـ۱۴۱۹، ج ۱، ص۴۷۷؛ نجفی، ج ۲۱، ص۴۹</ref> جنگ کے میدان سے فرار جائز نہیں ہے مگر مجبوری کی حالت میں. <ref>نجفی، ج ۲۱، ص۷۳؛ خوئی، ۱۴۱۰، ج ۱، ص۳۷۱</ref> | ||
جہاد واجب کفائی | |||
===جہاد واجب کفائی=== | |||
فقہ اسلامی میں مشہور قول کے مطابق، ابتدائی جہاد واجب کفائی ہے. یعنی اگر مجاہدین کی کچھ تعداد جو جہاد کے لئے تیار ہو، کافی ہو، تو جہاد دوسرے افراد سے ساقط ہے، لیکن اگر خاص دلائل کی وجہ سے بعض افراد کا جنگ شرکت کرنا ضروری سمجھا جائے تو ان کے لئے جہاد واجب عینی ہو گا. اور جنگ میں حاضر ہونا اور دشمن کے ساتھ مقابلہ کرتے وقت جہاد واجب عینی ہے اور اس وقت منصرف ہونا حرام ہے. <ref>طوسی، ۱۳۸۷، ج ۲، ص۲؛ مطیعی، ج ۱۹، ص۲۶۷، ۲۷۷؛ علامه حلّی، ۱۴۱۴، ج ۹، ص۸؛ قس ابن قدامه، ج ۱۰، ص۳۶۴</ref> | فقہ اسلامی میں مشہور قول کے مطابق، ابتدائی جہاد واجب کفائی ہے. یعنی اگر مجاہدین کی کچھ تعداد جو جہاد کے لئے تیار ہو، کافی ہو، تو جہاد دوسرے افراد سے ساقط ہے، لیکن اگر خاص دلائل کی وجہ سے بعض افراد کا جنگ شرکت کرنا ضروری سمجھا جائے تو ان کے لئے جہاد واجب عینی ہو گا. اور جنگ میں حاضر ہونا اور دشمن کے ساتھ مقابلہ کرتے وقت جہاد واجب عینی ہے اور اس وقت منصرف ہونا حرام ہے. <ref>طوسی، ۱۳۸۷، ج ۲، ص۲؛ مطیعی، ج ۱۹، ص۲۶۷، ۲۷۷؛ علامه حلّی، ۱۴۱۴، ج ۹، ص۸؛ قس ابن قدامه، ج ۱۰، ص۳۶۴</ref> | ||
مجاہدین کے شرائط | |||
===مجاہدین کے شرائط=== | |||
مجاہدین کے لئے فقہی منابع میں کچھ شرائط مذکور ہیں جو درج ذیل ہیں: | مجاہدین کے لئے فقہی منابع میں کچھ شرائط مذکور ہیں جو درج ذیل ہیں: | ||
١.مرد ہو، | ١.مرد ہو، | ||
سطر 69: | سطر 72: | ||
اور اس صورت میں اگر والدین مشرک ہوں، اور اپنے دادا سے اور اگر کسی کا مقروض ہو تو اس سے اجازت ان تمام موارد میں مجتہدین کی نظرات مختلف ہیں.<ref>مطیعی، ج ۱۹، ص۲۷۴ـ۲۷۶؛ علامه حلّی، ۱۴۱۴، ج ۹، ص۲۷ـ ۳۳؛ نجفی، ج ۲۱، ص۲۱ـ۲۶؛ خوئی، ۱۴۱۰، ج ۱، ص۳۶۶ـ ۳۶۷</ref> اسی طرح کسی کو جہاد کے لئے اجیر کرنا یا جہاد کے لئے جعالہ قرار دینے کے بارے میں بھی مجتہدین کے فتوے میں اختلاف پایا جاتا ہے. <ref>مطیعی،ج ۱۹، ص۲۸۰؛ علامه حلّی، ۱۴۱۴، ج ۹، ص۵۴ـ۵۷</ref> | اور اس صورت میں اگر والدین مشرک ہوں، اور اپنے دادا سے اور اگر کسی کا مقروض ہو تو اس سے اجازت ان تمام موارد میں مجتہدین کی نظرات مختلف ہیں.<ref>مطیعی، ج ۱۹، ص۲۷۴ـ۲۷۶؛ علامه حلّی، ۱۴۱۴، ج ۹، ص۲۷ـ ۳۳؛ نجفی، ج ۲۱، ص۲۱ـ۲۶؛ خوئی، ۱۴۱۰، ج ۱، ص۳۶۶ـ ۳۶۷</ref> اسی طرح کسی کو جہاد کے لئے اجیر کرنا یا جہاد کے لئے جعالہ قرار دینے کے بارے میں بھی مجتہدین کے فتوے میں اختلاف پایا جاتا ہے. <ref>مطیعی،ج ۱۹، ص۲۸۰؛ علامه حلّی، ۱۴۱۴، ج ۹، ص۵۴ـ۵۷</ref> | ||
دفاعی جہاد کے لئے بہت سے مذکورہ شرائط ضروری نہیں جیسے امام کی اجازت، کیونکہ مسلمانوں کی جان اور مال کی حفاظت ہر مسلمان جو کہ اس کا توان رکھتا ہو، ہر شرائط میں واجب ہے. <ref> مطیعی، ج ۱۹، ص۲۶۹؛ علامه حلّی، ۱۴۱۴، ج ۹، ص۳۷؛ نجفی، ج ۲۱، ص۱۵ـ۱۶، ج ۴۱، ص۶۵۰ـ۶۵۱؛ برای دیگر تفاوتهای جهاد ابتدایی با جهاد دفاعی ر.ک: نجفی، ج ۲۱، ص۱۵ـ ۱۶</ref> | دفاعی جہاد کے لئے بہت سے مذکورہ شرائط ضروری نہیں جیسے امام کی اجازت، کیونکہ مسلمانوں کی جان اور مال کی حفاظت ہر مسلمان جو کہ اس کا توان رکھتا ہو، ہر شرائط میں واجب ہے. <ref> مطیعی، ج ۱۹، ص۲۶۹؛ علامه حلّی، ۱۴۱۴، ج ۹، ص۳۷؛ نجفی، ج ۲۱، ص۱۵ـ۱۶، ج ۴۱، ص۶۵۰ـ۶۵۱؛ برای دیگر تفاوتهای جهاد ابتدایی با جهاد دفاعی ر.ک: نجفی، ج ۲۱، ص۱۵ـ ۱۶</ref> | ||
احکام اور آداب | |||
===احکام اور آداب=== | |||
حرام مہینوں (رجب، ذیقعد، ذوالحجہ، محرم) میں اسلام سے پہلے عرب قبائل میں جنگ حرام تھی اسلام نے بھی اس کی تصدیق کی ہے اور مجتہدین نے آیات قرآن کو مستند قرار دیا ہےجیسے سورہ بقرہ کی آیت ٢١٧ اور توبہ کی آیت ٥، جو کہ ان مہینوں میں جنگ کی حرمت کو بیان کرتی ہیں. <ref>طوسی، ۱۳۸۷، ج ۲، ص۳؛ قرطبی، ذیل بقره : ۹۰؛ خوئی، ۱۴۱۰، ج ۱، ص۳۶۸ـ ۳۶۹</ref> مگر یہ کہ دشمن ماہ حرام کی حرمت کا خیال نہ رکھے اور جنگ کا آغاز کرے اس صورت میں دفاع ضروری ہے.<ref>جواهر الکلام، ج ۲۱، ص۳۲ ـ ۳۴</ref> البتہ اہل سنت کے بعض علماء کی نظر میں جنگ کی حرمت حرام مہینوں میں نسخ کی گئی ہے اور جہاد ہر جگہ اور ہر وقت جائز ہے.<ref>جصاص، ج ۱، ص۳۹۰؛ قرطبی</ref> | حرام مہینوں (رجب، ذیقعد، ذوالحجہ، محرم) میں اسلام سے پہلے عرب قبائل میں جنگ حرام تھی اسلام نے بھی اس کی تصدیق کی ہے اور مجتہدین نے آیات قرآن کو مستند قرار دیا ہےجیسے سورہ بقرہ کی آیت ٢١٧ اور توبہ کی آیت ٥، جو کہ ان مہینوں میں جنگ کی حرمت کو بیان کرتی ہیں. <ref>طوسی، ۱۳۸۷، ج ۲، ص۳؛ قرطبی، ذیل بقره : ۹۰؛ خوئی، ۱۴۱۰، ج ۱، ص۳۶۸ـ ۳۶۹</ref> مگر یہ کہ دشمن ماہ حرام کی حرمت کا خیال نہ رکھے اور جنگ کا آغاز کرے اس صورت میں دفاع ضروری ہے.<ref>جواهر الکلام، ج ۲۱، ص۳۲ ـ ۳۴</ref> البتہ اہل سنت کے بعض علماء کی نظر میں جنگ کی حرمت حرام مہینوں میں نسخ کی گئی ہے اور جہاد ہر جگہ اور ہر وقت جائز ہے.<ref>جصاص، ج ۱، ص۳۹۰؛ قرطبی</ref> | ||
جنگ سے فرار کرنا حرام، بلکہ گناہ کبیرہ سے ہے، <ref>جواهر الکلام، ج ۲۱، ص۵۶</ref>مگر یہ کہ مسلمانوں کی تعداد دشمن کی نصف تعداد سے بھی کم ہوں، اس صورت میں ان سے مقابلہ واجب نہیں ہے. <ref>جواهر الکلام، ج ۲۱، ص۶۱</ref> | جنگ سے فرار کرنا حرام، بلکہ گناہ کبیرہ سے ہے، <ref>جواهر الکلام، ج ۲۱، ص۵۶</ref>مگر یہ کہ مسلمانوں کی تعداد دشمن کی نصف تعداد سے بھی کم ہوں، اس صورت میں ان سے مقابلہ واجب نہیں ہے. <ref>جواهر الکلام، ج ۲۱، ص۶۱</ref> | ||
سطر 83: | سطر 87: | ||
حرم کی حدود میں جیسے ایک خاص جگہ جہاں مکہ واقع ہے وہاں جنگ کرنا حرام ہے مگر ایسی صورت میں کہ جب دشمن ایسی جگہ پر جنگ میں پہل کر دے. <ref>ابن جوزی، ص۷۲ـ۷۴؛ علامه حلّی، ۱۴۱۴، ج ۹، ص۹؛ خوئی، ۱۴۱۰، ج ۱، ص۳۶۹</ref> | حرم کی حدود میں جیسے ایک خاص جگہ جہاں مکہ واقع ہے وہاں جنگ کرنا حرام ہے مگر ایسی صورت میں کہ جب دشمن ایسی جگہ پر جنگ میں پہل کر دے. <ref>ابن جوزی، ص۷۲ـ۷۴؛ علامه حلّی، ۱۴۱۴، ج ۹، ص۹؛ خوئی، ۱۴۱۰، ج ۱، ص۳۶۹</ref> | ||
فقہ کی کتب میں، معتبر احادیث سے، جہاد میں بعض کاموں کو مستحب کہا گیا ہے جیسے: فوجی مجاہدوں کے حوصلے بلند کرنا اور انکے درمیان نظم برقرار کرنا ہر گروہ کے لئے ایک خاص پرچم یا نشانی رکھنا اور تکبیر پڑھنا یا کوئی خاص دعا وغیرہ پڑھنا. <ref>معزی ملایری، ج ۱۶، ص۱۹۰ـ ۱۹۹</ref> | فقہ کی کتب میں، معتبر احادیث سے، جہاد میں بعض کاموں کو مستحب کہا گیا ہے جیسے: فوجی مجاہدوں کے حوصلے بلند کرنا اور انکے درمیان نظم برقرار کرنا ہر گروہ کے لئے ایک خاص پرچم یا نشانی رکھنا اور تکبیر پڑھنا یا کوئی خاص دعا وغیرہ پڑھنا. <ref>معزی ملایری، ج ۱۶، ص۱۹۰ـ ۱۹۹</ref> | ||
جہاد کا اختتام | |||
===جہاد کا اختتام=== | |||
ممکن ہے جہاد ان میں سے کسی ایک وجہ سے اختتام کو پہنچے: دشمن اگر اسلام قبول کر لے اس صورت میں کہ جنگ کا آغاز اس کی ہدایت کی خاطر ہوا ہو، <ref>بخاری، ج ۱، ص۳۹؛ طبری، ذیل فتح : ۱۶</ref> اگر دشمن کے افراد مسلمانوں کو پناہ دیں، موقت قرار داد کو ختم کرنا مخاصمہ یا مصالحہ دائمی. | ممکن ہے جہاد ان میں سے کسی ایک وجہ سے اختتام کو پہنچے: دشمن اگر اسلام قبول کر لے اس صورت میں کہ جنگ کا آغاز اس کی ہدایت کی خاطر ہوا ہو، <ref>بخاری، ج ۱، ص۳۹؛ طبری، ذیل فتح : ۱۶</ref> اگر دشمن کے افراد مسلمانوں کو پناہ دیں، موقت قرار داد کو ختم کرنا مخاصمہ یا مصالحہ دائمی. | ||