مندرجات کا رخ کریں

"جہاد" کے نسخوں کے درمیان فرق

18,714 بائٹ کا اضافہ ،  3 ستمبر 2016ء
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Jaravi
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Jaravi
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 14: سطر 14:
ان آیات کی تحلیل و تفسیر کرتے وقت ان کی شان نزول اور [[حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم]] کے بنیادی مقاصد، خاص طور پر جنگ اور صلح کے فلسفے کو مد نظر رکھنا ضروری ہے.
ان آیات کی تحلیل و تفسیر کرتے وقت ان کی شان نزول اور [[حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم]] کے بنیادی مقاصد، خاص طور پر جنگ اور صلح کے فلسفے کو مد نظر رکھنا ضروری ہے.


سنہ آٹھ ہجری میں فتح مکہ کے بعد، ایسی آیات نازل ہوئی جو ظاہر میں تمام مشرکین کے ساتھ جہاں پر اور کسی وقت میں بھی جنگ کرنے پر دلالت کرتی ہیں.<ref> توبہ : ۵، ۳۶، ۴۱</ref> بعض [[زمرہ:مفسرین|مفسرین]] اور فقہاء
سنہ آٹھ ہجری میں فتح مکہ کے بعد، ایسی آیات نازل ہوئی جو ظاہر میں تمام مشرکین کے ساتھ جہاں پر اور کسی وقت میں بھی جنگ کرنے پر دلالت کرتی ہیں.<ref> توبہ : ۵، ۳۶، ۴۱</ref> بعض فقہاء اور مفسرین کی نظر میں یہ آیات، بالخصوص سورہ توبہ کی آیت نمبر ٥ جو کہ سیف کے نام سے مشہور ہے[٩] دوسری آیتیں جو کہ کسی لحاظ سے مشرکین کے ساتھ سمجھوتا کرنے پر دلالت کرتی ہیں[١٠] نسخ کرتیں ہیں.[١١] بعض مستشرکان نے حکم کو قبول کرتے ہوئے نسخ کہا ہے اور فقط وہ آیات جو ظاہری طور پر مسلمانوں کو مشرکین کے خلاف، بالجملہ اہل کتاب، جس زمانے میں اور جس جگہ پر جہاد کی دعوت کرتے ہیں، وہی اپنی قوت پر باقی ہیں اور دوسری آیات نے دشمن کے ساتھ جہاد کو خاص شرایط کو مدنظر رکھتے ہوئے جیسے فتنہ کے تحت منسوخ قرار دیا ہے. [١٢] اس کے مقابل، نسخ کے مخالفین اس لئے ہیں کہ قرآن کی نسخ آیات، تاریخ، اور آیات کی شان نزول کو مدنظر رکھتے ہوئے، انکا نسخ ہونا ممکن نہیں ہے. [١٣]


==جہاد کی فضیلت==
آیات اور احادیث میں جہاد کے بعض دینوی اور اخروی فضائل بیان ہوئے ہیں:
===قرآنی آیات===
قرآن کی آیات کے مطابق،[١٤] جو لوگ اپنی مال اور جان کو خدا کی راہ میں پیش کرتے ہیں درگاہ خداوندی میں دوسرے مسلمانوں کی نسبت برتر ہیں اور خداوند نے انکو جنت کی خوشخبری اور شہادت کا مرتبہ دیا ہے.[١٥] قرآن کریم نے [١٦] انسان کو جہاد پر نہ جانے کی سب سے اہم وجہ اس کی اپنے مال اولاد اور خاندان سے محبت کو قرار دیا ہے. اور اسی طرح جو جہاد پر جانے سے کتراتے ہیں انکو فاسق کہا ہے اور انکو عذاب الہی کا وعدہ دیا ہے. قرآن کے مطابق، کامیابی فقط اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے. [١٧] اور خداوند اور پیغمبر اکرم(ص) کے فرمان کی پیروی، نزاع اور تفرقہ سے دوری، صبر و استقامت اور دشمن سے ڈر کر نہ بھاگنا، جہاد کے اہم ترین احکام میں سے ہیں. [١٨] قرآنی آیات کو مدنظر رکھتے ہوئے،[١٩] مجاہدین اپنے صبر و استقامت کی وجہ سے غیبی امداد سے مواجہ ہوتے ہیں. [٢٠] اور یہ غیبی امداد کچھ یوں ہیں، مجاہدین کو سکون اور آرامش کا احساس ہونا اور انکے دلوں سے کافروں کی وحشت اور ڈر کا دور ہونا.[٢١]
===احادیث===
احادیث کے مطابق راہ خدا میں جہاد کرنا برترین کاموں میں سے ہیں اور ایک شہید مجاہد کا اخروی صلہ یوں ہے کہ وہ جہاد اور شہادت کی آرزو اور تمنا دوبارہ کرتا ہے. [٢٢]
امام علی(ع): کہ جہاد بہشت کا ایک دروازہ ہے کہ جس کو خداوند نے اپنے خاص اولیاء کے لئے کھول رکھا ہے. جہاد تقوا کا لباس اور خداوند کی محکم زرہ ہے. [٢٣]
پیغمبر اکرم(ص): خداوند کی راہ میں ایک رات چوکیداری کرنا ان ہزار راتوں سے بہتر ہے جو کہ پوری رات عبادت اور پورا دن روزے میں گزرا ہو. [٢٤]
جہاد کے تالیف اور آثار
جہاد کی اہمیت اور منزلت کے سبب، اسلام میں اس کے بہت سے آثار بیان ہوئے ہیں. [٢٥] اسی طرح جامع حدیثی منابعوں میں جہاد یا سییر کے بارے میں جہاد کا خاص ذکر ہوا ہے. اس بحث کی اہم ترین موضوعات درج ذیل ہیں.
١.مجاہدین کی رزمی آمادگی کا مقام
٢.مومنین پر وجوب جہاد کے شرائط
٣.جہاد کی اقسام
٤.میدان جنگ کے متعلق احکام جیسے:
١.جنگ کرنے کا طریقہ اور فوج کے ساتھ اور قتل ہونے والوں اور باقی رہ جانے والوں کے ساتھ رویہ،  مال غنیمت کی تقسیم،
٢.جہاد کا اختتام. [٢٦]
جہاد کا فتوا
سنہ تیرہ ہجری کو جب ایران اور روس کی جنگ ہوئی تھی تو اسلامی سرزمین کے دفاع کی خاطر شیعہ علماء نے جہاد کا حکم دیا تھا.[٣١] تاریخی کتابوں میں اہل سنت کے علماء کا بھی ذکر آیا ہے جنہوں نے جہاد کا حکم دیا جیسے ابن عساکر(م٥٧١) کو صلیبی جنگوں میں تشویق کرنا، اور اس بارے میں چالیس حدیث کی جمع آوری کرنا. [٣٢]
ابتدائی اور دفاعی جہاد
مجتہدین نے اپنی کتابوں میں جہاد کو ابتدائی اور دفاعی حصوں میں تقسیم کیا ہے.[٣٣] یہ تقسیم بندی فقہ کی پرانی کتابوں میں صریح طور ذکر نہیں کی گئی اور انہوں نے عام طور پر ابتدائی جہاد کے احکام کو مبسوط اور تدافعی جہاد کے احکام کو ضمنی طور پر بیان کیا ہے.[٣٤]
ابتدائی جہاد، مشرکین اور کفار کے ساتھ جنگ اور انکو اسلام اور توحید کی دعوت دینا اور عدالت کو برقرار کرنا کے معنی میں ہے. اور اس جہاد میں جس کے آغاز گر مسلمان ہیں ان کا مقصد کفر کا خاتمہ اور دین الہی کو گسترش دینا ہے. [٣٥]
دفاعی جہاد، مسلمانوں اور اسلامی سرزمین کی حفاظت کی خاطر ہے. [٣٦]
«رباط» یا «مرابطه» (مرزبانی) نیز موضوعی مرتبط با جهاد و در برخی موارد ـ بر پایه احادیث ـ از مصادیق آن است.[۲۷]
نگارش کتابهایی با عنوان «السِّیر» مانند السِیر اوزاعی (متوفی ۱۵۷) و السیر الصغیر و السیر الکبیر محمد بن حسن شیبانی (متوفی ۱۸۹) نیز، که بیانگر روش برخورد مسلمانان با غیرمسلمانان در زمان جنگ و صلح است، در میان فقهای متقدم، به ویژه اهل سنت، متداول بود. السیرالکبیر شیبانی به دلیل قدمت و جامعیت مباحث، اهمیت بسیاری دارد و شروح متعددی بر آن نوشته شده است. حکومت عثمانی این کتاب را به مثابه قانون روابط بین الملل می‌دانست.[۲۸] کتب فقه سیاسی، مانند الاحکام السلطانیه ماوردی و کتاب الخراج قاضی ابو یوسف (متوفی ۱۸۳)، نیز بخشی را به احکام جهاد اختصاص داده‌اند.[۲۹] در منابع جامع فقه شیعه، گاه مباحث مربوط به جهاد در ضمن مباحث دیگر، مانند حدود و امر به معروف و نهی از منکر، مطرح شده است.[۳۰]
• ابتدائی جہاد کے واجب ہونے کے شرائط
• اہل سنت کے علماء کے مطابق ابتدائی جہاد یعنی اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کی خاطر، اگرچہ اس کی تشخیص دینے والا رہبرعادل ہو یا فاسق، واجب ہے.[٣٧] ان کی نظر میں جہاد کے بارے میں رہبر کا حکم اس طرح واجب ہے جیسے کہ پانچ نمازین واجب ہیں. [٣٨]
• اکثر امامی مجتہدین کی نظر میں ابتدائی جہاد کی اجازت امام معصوم یا امام کے نائبین کے اختیار میں ہے.[٣٩] اور انکی نظر میں نائب یعنی خاص نائب اور امام زمان(ع) کے غیبت کے زمانے میں عام نائب اس میں شامل نہیں ہیں.[٤٠] لیکن بعض مجتہدین کی نظر میں جہاد کی اجازت صرف امام معصوم یا آپ کے خاص نائب کے اختیار میں نہیں بلکہ عام نائب بھی توحید اور عدل کی حفاظت اور ظلم کو روکنے اور مظلوموں کی حمایت کی خاطر ابتدائی جہاد کی اجازت دے سکتا ہے. [٤١] ان مجتہدین کی نظر میں اجماع کی رائے مورد قبول ہے اورجہاد کی حدیث میں عادل امام سے مراد امام معصوم نہیں ہے. [٤٢]
ابتدائی جہاد تین گروہ کے مقابلے میں
ابتدائی جہاد تین گروہ کے مقابلے میں واجب ہے:
١.غیر ذمی کافر چاہے اہل کتاب ہو یا غیر اہل کتاب.
٢.ذمی کفار جنہوں نے ذمہ کے شرائط کی رعایت نہ کی ہو.
٣.باغیان. [٤٣]
غیر کتابی کے ساتھ جہاد اس کو اسلام کی دعوت کی خاطر ہے. وہ دو راستوں میں سے ایک کا انتخاب کر سکتے ہیں: آئین اسلام کو قبول کرنا یا جنگ کے لئے تیار ہونا.
کفار کتابی غیر ذمی یا ذمی جس نے ذمہ کے پیمان کو توڑا ہو اس کے ساتھ جہاد،  اسلام کو قبول کرنا یا پیمان ذمہ کو قبول کرنا اور جزیہ دینا ہے. جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان تین راستوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں: اسلام کو قبول کر لیں، اپنے دین پر قائم رئیں اور جزیہ دیں یا جنگ کے لئے حاضر ہوں.
باغیان کے ساتھ جہاد انکے پیمان میں نقض یا امام علیہ السلام سے بیعت توڑنے اور انکو دوبارہ بیعت کی لئے دعوت دینا ہے. [٤٤]
جہاد، آخری راہ حل
بعض مسلمان مولفین کی نگاہ میں، ہمیشہ مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے درمیان اختلاف کا راہ حل جہاد نہیں، بلکہ جہاد اسلام اور مسلمانوں کی مصالح کی خاطر آخری راہ حل ہے. [٤٥] جہاد شروع کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ مد مقابل کو اسلام کی دعوت، کفر و عصیان چھوڑنے اور اور انسانی حقوق کو پایمال نہ کرنے کی دعوت دی جائے اور اس کی ابتداء ایسے علاقہ جات سے کی جائے جو اسلامی سرزمین کے نزدیک ہیں. [٤٦]
بعض مجتہدین کی نظر میں پیغمبر اکرم(ص) کی سیرت کے مطابق، اگر شرائط مناسب ہوں اور سپاہ اسلام بھی جہاد کے لئے  تیار ہوں، تو کم از کم سال میں ایک بار واجب ہے. [٤٧] جنگ کے میدان سے فرار جائز نہیں ہے مگر مجبوری کی حالت میں. [٤٨]
جہاد واجب کفائی
فقہ اسلامی میں مشہور قول کے مطابق، ابتدائی جہاد واجب کفائی ہے. یعنی اگر مجاہدین کی کچھ تعداد جو جہاد کے لئے تیار ہو، کافی ہو، تو جہاد دوسرے افراد سے ساقط ہے، لیکن اگر خاص دلائل کی وجہ سے بعض افراد کا جنگ شرکت کرنا ضروری سمجھا جائے تو ان کے لئے جہاد واجب عینی ہو گا. اور جنگ میں حاضر ہونا اور دشمن کے ساتھ مقابلہ کرتے وقت جہاد واجب عینی ہے اور اس وقت منصرف ہونا حرام ہے. [٤٩]
مجاہدین کے شرائط
مجاہدین کے لئے فقہی منابع میں کچھ شرائط مذکور ہیں جو درج ذیل ہیں:
١.مرد ہو،
٢.عاقل ہو،
٣.آزاد ہو (غلام نہ ہو)
٤. جہاد کے لئے مالی اور جسمی توانائی رکھتا ہو.
٥.جہاد کو ترک کرنے کے لئے کوئی شرعی عذر نہ رکھتا ہو. اس لئے جہاد غلاموں، عورتوں، بچوں، دیوانوں، بوڑھوں، نابینا یا شدید بیماری کی حالت، یا جسم کے کسی عضو میں نقص ہو، واجب نہیں ہے. [٥٠]
٦.اسی طرح اگر والدین اپنے فرزند کو جہاد کی اجازت نہ دین تو بھی جہاد ساقط ہے مگر یہ کہ  جہاد اس کے لئے واجب عینی ہو.
اور اس صورت میں اگر والدین مشرک ہوں، اور اپنے دادا سے اور اگر کسی کا مقروض ہو تو اس سے اجازت ان تمام موارد میں مجتہدین کی نظرات مختلف ہیں.[٥١] اسی طرح کسی کو جہاد کے لئے اجیر کرنا یا جہاد کے لئے جعالہ قرار دینے کے بارے میں بھی مجتہدین کے فتوے میں اختلاف پایا جاتا ہے. [٥٢]
دفاعی جہاد کے لئے بہت سے مذکورہ شرائط ضروری نہیں جیسے امام کی اجازت، کیونکہ مسلمانوں کی جان اور مال کی حفاظت ہر مسلمان جو کہ اس کا توان رکھتا ہو، ہر شرائط میں واجب ہے. [٥٣]
احکام اور آداب
حرام مہینوں (رجب، ذیقعد، ذوالحجہ، محرم) میں اسلام سے پہلے عرب قبائل میں جنگ حرام تھی اسلام نے بھی اس کی تصدیق  کی ہے اور مجتہدین نے آیات قرآن  کو مستند قرار دیا ہےجیسے سورہ بقرہ کی آیت ٢١٧ اور توبہ کی آیت ٥، جو کہ ان مہینوں میں جنگ کی حرمت کو بیان کرتی ہیں. [٥٤] مگر یہ کہ دشمن ماہ حرام کی حرمت کا خیال نہ رکھے اور جنگ کا آغاز کرے اس صورت میں دفاع ضروری ہے.[٥٥] البتہ اہل سنت کے بعض علماء کی نظر میں جنگ کی حرمت حرام مہینوں میں نسخ کی گئی ہے اور جہاد ہر جگہ اور ہر وقت جائز ہے.[٥٦]
جنگ سے فرار کرنا حرام، بلکہ گناہ کبیرہ سے ہے، [٥٧]مگر یہ کہ مسلمانوں کی تعداد دشمن کی نصف تعداد سے بھی کم ہوں، اس صورت میں ان سے مقابلہ واجب نہیں ہے. [٥٨]
امام علیہ السلام یا آپ(ع) کے نائب پر واجب ہے کہ جنگ شروع کرنے سے پہلے کفار کو اسلام (توحید، پیغمبر(ص) اور دوسرے لوازم جیسے اصول دین و فروع دین) کی دعوت دی جائے اگرچہ اس سے پہلے انکو دعوت دی جا چکی ہو لیکن پھر بھی اس دعوت کو دہرانا مستحب ہے. [٥٩]
مستحب ہے کہ جنگ کا آغاز ظہر اور عصر کی نماز ادا کرنے کے بعد کیا جائے اور زوال سے پہلے جنگ کا آغاز مکروہ ہے مگر ضرورت کی حالت میں. [٦٠]
جنگ کی ابتداء امام(ع) کی اجازت کے بغیر بعض قول کے مطابق مکروہ اور بعض نے حرام کہا ہے، لیکن امام(ع) کے منع کرنے پر اس کے حرام ہونے میں کوئی شک نہیں ہے. اگر امام(ع) جنگ کی دعوت دیں تو شرکت کرنا مستحب ہے لیکن اگر لازمی قرار دیں تو شرکت واجب ہے. [٦١]
دشمن پر سبقت حاصل کرنے کے لئے جس وسیلے کو استعمال کرنے کی ضرورت پڑھے جائز ہے، لیکن درختوں کو کاٹنا، آگ پھینکنا یا دشمن کی جانب پانی گرانا ضرورت کے علاوہ مکروہ ہے. اور اسی طرح ضرورت کے علاوہ  دشمن پر زہر پھینکنا یا اس سے کراہت کرنے میں بھی نظرات مختلف ہیں.[٦٢] بعض درختوں کے کاٹ کر گلیل بنانا اگر ضرورت کے تحت ہو تو جائز کہتے ہیں. [٦٣]
عورتوں، بچوں، دیوانوں اور جنگ سے ناتوان لوگوں، جیسے بوڑھے، نابینا اور محتاج اگر جنگ میں مشورہ یا کسی طرح کی دخالت نہ رکھتے ہوں تو انکو قتل کرنا حرام ہے مگر مجبوری کی حالت میں جیسے کہ اگر کافر خود کو نجات دینے کے لئے انکو اپنے آگے کھڑا کر لیں یا یہ کہ انکو قتل کر کے دشمن تک پہنچنے کا امکان ہو. [٦٤]
دشمنوں کی کاں، ناک یا دوسرے اعضاء کاٹنا حرام ہے. [٦٥]
جنگ میں چال، بجز یہ کہ دشمن محفوظ ہو کسی دوسری صورت میں، جائز ہے. [٦٦]
مسلمان کی سواری کا پیچھا کرنا مکروہ ہے، لیکن کافر کی سواری کا پیچھا کرنا بعض قول کے مطابق کراہت نہیں رکھتا. [٦٧]
کسی مصلحت کی بناء پر اگر کفار سے مدد مانگنی پڑھے جب کہ اطمینان ہو کہ خیانت نہیں کرے گا اس صورت میں مدد طلب کرنا جائز ہے. [٦٨]
حرم کی حدود میں جیسے ایک خاص جگہ جہاں مکہ واقع ہے وہاں جنگ کرنا حرام ہے مگر ایسی صورت میں کہ جب دشمن ایسی جگہ پر جنگ میں پہل کر دے. [٦٩]
فقہ کی کتب میں، معتبر احادیث سے، جہاد میں بعض کاموں کو مستحب کہا گیا ہے جیسے: فوجی مجاہدوں کے حوصلے بلند کرنا اور انکے درمیان نظم برقرار کرنا ہر گروہ کے لئے ایک خاص پرچم یا نشانی رکھنا اور تکبیر پڑھنا یا کوئی خاص دعا وغیرہ پڑھنا. [٧١]
جہاد کا اختتام
ممکن ہے جہاد ان میں سے کسی ایک وجہ سے اختتام کو پہنچے: دشمن اگر اسلام قبول کر لے اس صورت میں کہ جنگ کا آغاز اس کی ہدایت کی خاطر ہوا ہو، [٧٢] اگر دشمن کے افراد مسلمانوں کو پناہ دیں، موقت قرار داد کو ختم کرنا مخاصمہ یا مصالحہ دائمی.


<!--
<!--


******************
پس از [[فتح مکه]] در سال هشتم هجری، آیاتی نازل شد که به حسب ظاهر، بر جنگ با همه مشرکان، در هر مکان و زمان، دلالت دارد.<ref>ر.ک: توبه : ۵، ۳۶، ۴۱</ref> به نظر برخی از [[:رده:مفسران|مفسران]] و فقها، این آیات، به ویژه آیه ۵ سوره توبه، مشهور به آیه «سیف»<ref>یا شمشیر؛ قس خوئی، ۱۳۹۵، ص۳۰۵، که آیه ۳۶ توبه را آیه سیف دانسته است </ref> آیات دیگری را که به گونه‌ای دالّ بر مدارا کردن با مشرکان هستند<ref>برای نمونه ر.ک:اعراف : ۱۹۹؛ بقره : ۱۰۹؛ انعام : ۱۱۲؛ حجر: ۸۵؛ زخرف : ۸۹</ref> [[نسخ]] کرده است.<ref>ر.ک: ابن حزم، الناسخ و المنسوخ، ص۳۰، ۳۴ـ۳۵؛ طوسی، التبیان، ذیل بقره : ۸۳؛ طبرسی، ذیل انعام : ۱۵۹؛ سجده : ۳۰؛ ابن جوزی، ص۲۴۲؛ ابن کثیر، ج ۲، ص۳۵۰</ref> شماری از [[مستشرق|مستشرقان]] نیز در موافقت با حکم نسخ گفته‌اند که تنها آیاتی که به ظاهر مسلمانان را به جهاد با مشرکان، از جمله [[اهل کتاب]]، در هر زمان و مکان، دعوت می‌کنند، به قوّت خود باقی‌اند و بقیه آیات، که وجوب جهاد را منوط به وجود شرایط خاصی مانند فتنه‌انگیزی دشمنان کرده‌اند، منسوخ شده‌اند.<ref>د. اسلام، چاپ دوم، ذیل «جهاد»</ref> در برابر، مخالفان نسخ بر آن‌اند که با توجه به قواعد نسخ آیات [[قرآن]] و تاریخ وشأن نزول آیات مورد نظر، امکان نسخِ آنها وجود ندارد.<ref>ر.ک: سیوطی، ج ۲، ص۲۹؛ رشیدرضا، ج ۲، ص۲۱۵؛ خوئی، ۱۳۹۵، ص۳۰۵، ۳۵۳؛ طباطبائی، ذیل بقره : ۲۵۶؛ حجر: ۸۵؛ زحیلی، ص۱۱۴ـ۱۲۰</ref>
پس از [[فتح مکه]] در سال هشتم هجری، آیاتی نازل شد که به حسب ظاهر، بر جنگ با همه مشرکان، در هر مکان و زمان، دلالت دارد.<ref>ر.ک: توبه : ۵، ۳۶، ۴۱</ref> به نظر برخی از [[:رده:مفسران|مفسران]] و فقها، این آیات، به ویژه آیه ۵ سوره توبه، مشهور به آیه «سیف»<ref>یا شمشیر؛ قس خوئی، ۱۳۹۵، ص۳۰۵، که آیه ۳۶ توبه را آیه سیف دانسته است </ref> آیات دیگری را که به گونه‌ای دالّ بر مدارا کردن با مشرکان هستند<ref>برای نمونه ر.ک:اعراف : ۱۹۹؛ بقره : ۱۰۹؛ انعام : ۱۱۲؛ حجر: ۸۵؛ زخرف : ۸۹</ref> [[نسخ]] کرده است.<ref>ر.ک: ابن حزم، الناسخ و المنسوخ، ص۳۰، ۳۴ـ۳۵؛ طوسی، التبیان، ذیل بقره : ۸۳؛ طبرسی، ذیل انعام : ۱۵۹؛ سجده : ۳۰؛ ابن جوزی، ص۲۴۲؛ ابن کثیر، ج ۲، ص۳۵۰</ref> شماری از [[مستشرق|مستشرقان]] نیز در موافقت با حکم نسخ گفته‌اند که تنها آیاتی که به ظاهر مسلمانان را به جهاد با مشرکان، از جمله [[اهل کتاب]]، در هر زمان و مکان، دعوت می‌کنند، به قوّت خود باقی‌اند و بقیه آیات، که وجوب جهاد را منوط به وجود شرایط خاصی مانند فتنه‌انگیزی دشمنان کرده‌اند، منسوخ شده‌اند.<ref>د. اسلام، چاپ دوم، ذیل «جهاد»</ref> در برابر، مخالفان نسخ بر آن‌اند که با توجه به قواعد نسخ آیات [[قرآن]] و تاریخ وشأن نزول آیات مورد نظر، امکان نسخِ آنها وجود ندارد.<ref>ر.ک: سیوطی، ج ۲، ص۲۹؛ رشیدرضا، ج ۲، ص۲۱۵؛ خوئی، ۱۳۹۵، ص۳۰۵، ۳۵۳؛ طباطبائی، ذیل بقره : ۲۵۶؛ حجر: ۸۵؛ زحیلی، ص۱۱۴ـ۱۲۰</ref>


سطر 199: سطر 271:
[[id:Jihad]]
[[id:Jihad]]


[[زمرہ:مفسرین|مفسرین]]
[[زمرہ:فروع دین]]
[[زمرہ:فروع دین]]
[[زمرہ:فقہی اصطلاحات]]
[[زمرہ:فقہی اصطلاحات]]
گمنام صارف