مندرجات کا رخ کریں

"نماز جمعہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

1,467 بائٹ کا ازالہ ،  22 جنوری 2018ء
م
imported>Mabbassi
imported>Mabbassi
سطر 156: سطر 156:


بعض اوقات حکومتوں کے مخالفین اپنی مخالفت کے اظہار کے لئے نماز جمعہ میں شرکت سے اجتناب کرتے تھے۔<ref>برای نمونه ابن جوزی، المنتظم، ج16 ص31ـ32۔ مجلسی، بحار الانوار، ج44، ص333۔</ref>  
بعض اوقات حکومتوں کے مخالفین اپنی مخالفت کے اظہار کے لئے نماز جمعہ میں شرکت سے اجتناب کرتے تھے۔<ref>برای نمونه ابن جوزی، المنتظم، ج16 ص31ـ32۔ مجلسی، بحار الانوار، ج44، ص333۔</ref>  
نماز جمعہ سے غیر حاضری لوگوں کی نگاہ میں معیوب سمجھی جاتی تھی۔<ref>طبری، تاریخ الرسل والملوک، ج4، ص328۔</ref>
===نماز جمعہ میں ائمہ کی شرکت===
[[شیعہ]] نقطۂ نظر سے حکامِ جور اور ان کی طرف سے مقرر شدہ ائمۂ جمعہ و جماعت کی کوئی شرعی حیثیت نہ تھی لہذا ان کی [[امامت]] میں [[نماز]] نہیں پڑھی جاسکتی۔ اس کے باوجود بعض [[احادیث|روایات]] کے مطابق [[ائمہ|ائمۂ شیعہ علیہم السلام]] اور ان کے پیروکار [[تقیہ]] کی رو سے یا دوسری وجوہات کی بنا پر نماز جمعہ میں شرکت کرتے تھے،<ref>زراری، تاریخ آل زرارہ،  ج2، ص27۔</ref><ref>نوری، مستدرک الوسائل، ج6 ص40۔</ref><ref>جابری، صلاۃ الجمعۃ تاریخیاً وفقہیاً، ص24۔</ref>
بعض اوقات حکومتوں کے مخالفین اپنی مخالفت کے اظہار کے لئے نماز جمعہ میں شرکت سے اجتناب کرتے تھے۔<ref>برای نمونه ابن جوزی، المنتظم، ج16 ص31ـ32۔</ref><ref>مجلسی، بحار الانوار، ج44، ص333۔</ref>
نماز جمعہ سے غیر حاضری لوگوں کی نگاہ میں معیوب سمجھی جاتی تھی۔<ref>طبری، تاریخ الرسل والملوک، ج4، ص328۔</ref>
نماز جمعہ سے غیر حاضری لوگوں کی نگاہ میں معیوب سمجھی جاتی تھی۔<ref>طبری، تاریخ الرسل والملوک، ج4، ص328۔</ref>


===شیعہ نماز جمعہ===
===شیعہ نماز جمعہ===
شیعہ معاشروں میں نماز جمعہ کے بارے میں منقولہ قدیم ترین روایات میں سے ایک روایت کا تعلق سنہ 329ھ ق میں شیعیان [[بغداد]] کی نماز جمعہ سے ہے جو وہ [[مسجد براثا]] میں احمد بن فضل ہاشمی کی امامت میں بپا کرتے تھے،<ref>خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، ج1، ص430۔</ref> اور حتی کہ سنہ 349ھ ق کے فتنے کے دوران بھی ـ جب بغداد میں نماز جمعہ کا انعقاد معطل ہوکر رہ گیا تھا ـ مسجد براثا میں نماز جمعہ کے انعقاد کا سلسلہ جاری رہا،<ref>ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج8، ص533۔</ref> لیکن سنہ 420ھ ق میں خلیفہ کی جانب سے اس مسجد کے لئے ایک سنی خطیب کا تقرر ہوا تو یہاں [[نماز]] کا قیام کچھ عرصے تک تعطل کا شکار ہوا۔<ref>ابن جوزی، المنتظم، ج15 ص198ـ201۔</ref>  
شیعہ معاشروں میں نماز جمعہ کے بارے میں منقولہ قدیم ترین روایات میں سے ایک روایت کا تعلق سنہ 329ھ ق میں شیعیان [[بغداد]] کی نماز جمعہ سے ہے جو وہ [[مسجد براثا]] میں احمد بن فضل ہاشمی کی امامت میں بپا کرتے تھے،<ref>خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، ج1، ص430۔</ref> اور حتی کہ سنہ 349ھ ق کے فتنے کے دوران بھی ـ جب بغداد میں نماز جمعہ کا انعقاد معطل ہوکر رہ گیا تھا ـ مسجد براثا میں نماز جمعہ کے انعقاد کا سلسلہ جاری رہا،<ref>ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج8، ص533۔</ref> لیکن سنہ 420ھ ق میں خلیفہ کی جانب سے اس مسجد کے لئے ایک سنی خطیب کا تقرر ہوا تو یہاں [[نماز]] کا قیام کچھ عرصے تک تعطل کا شکار ہوا۔<ref>ابن جوزی، المنتظم، ج15 ص198ـ201۔</ref>  
نیز [[قاہرہ]] کی جامع ابن طولون میں سنہ 359ھ ق کو اور جامع ازہر میں سنہ 361ھ ق کو نماز جمعہ بپا ہوئی۔<ref>قمی، کتاب الکنی و الالقاب، ج2، ص417۔</ref><ref>جعفریان، صفویہ در عرصہ دین، ج3، ص258ـ259۔</ref> بعض تاریخی شہادتوں<ref>جیسے قم سمیت شیعہ اکثریتی شہروں میں مساجد جامع کی موجودگی۔</ref> سے معلوم ہوتا ہے کہ ان شہروں میں ابتدائی ہجری صدیوں میں نماز جمعہ بپا ہوا کرتی تھی۔<ref>جعفریان، نماز جمعہ: زمینہ ہای تاریخی، ص23ـ25۔</ref>
نیز [[قاہرہ]] کی جامع ابن طولون میں سنہ 359ھ ق کو اور جامع ازہر میں سنہ 361ھ ق کو نماز جمعہ بپا ہوئی۔<ref>قمی، کتاب الکنی و الالقاب، ج2، ص417۔ جعفریان، صفویہ در عرصہ دین، ج3، ص258ـ259۔</ref> بعض تاریخی شہادتوں<ref>جیسے قم سمیت شیعہ اکثریتی شہروں میں مساجد جامع کی موجودگی۔</ref> سے معلوم ہوتا ہے کہ ان شہروں میں ابتدائی ہجری صدیوں میں نماز جمعہ بپا ہوا کرتی تھی۔<ref>جعفریان، نماز جمعہ: زمینہ ہای تاریخی، ص23ـ25۔</ref>


:'''صفوی دور'''
:'''صفوی دور'''


:نماز جمعہ کو، شاہ اسمعیل اول صفوی (حکومت از سنہ905 تا 930ھ ق) کے زمانے سے، رفتہ رفتہ [[ایران]] کے [[شیعہ]] معاشرے میں، فروغ ملا۔ اس امر کا سبب یہ تھا کہ ایک طرف سے [[حکومت عثمانیہ]] کی طرف سے اہل تشیع پر یہ اعتراض تھا کہ وہ نماز جمعہ منعقد نہیں کرتے اور  دوسری طرف سے [[محقق کرکی|محقق کَرَکی]] (متوفی سنہ 940ھ ق) سمیت شیعہ علماء کی کوشش تھی ایران میں نماز جمعہ کو رواج ملے۔<ref>منتظری، البدر الزاہر، ص7۔</ref><ref>جعفریان، نماز جمعہ: زمینہ ہای تاریخی، ص26ـ27۔</ref> اس کے باوجود کہ، بہت سے [[فقیہ|فقہاء]] ـ منجملہ علمائے جبل عامل ـ محقق کرکی کی حمایت کررہے تھے اور صفوی حکومت بھی ان کی پشت پناہی کررہی تھی، لیکن چونکہ نماز جمعہ اہل تشیع کے درمیان وسیع سطح پر رائج نہ تھی، اور متعدد علماء بھی اس کی سختی سے مخالفت کررہے تھے،<ref>منجملہ: شیخ ابراہیم القطیفی (متوفی تقریبا 950ھ ق)۔</ref> لہذا ایران کے شیعہ معاشرے میں اس کو رسمی حیثیت تدریجا میسر ہوئی۔<ref>جابری، صلاۃ الجمعۃ تاریخیاً وفقہیاً، ص50ـ54۔</ref><ref>جعفریان، نماز جمعہ: زمینہ ہای تاریخی، ص28۔</ref>  
:نماز جمعہ کو، شاہ اسمعیل اول صفوی (حکومت از سنہ905 تا 930ھ ق) کے زمانے سے، رفتہ رفتہ [[ایران]] کے [[شیعہ]] معاشرے میں، فروغ ملا۔ اس امر کا سبب یہ تھا کہ ایک طرف سے [[حکومت عثمانیہ]] کی طرف سے اہل تشیع پر یہ اعتراض تھا کہ وہ نماز جمعہ منعقد نہیں کرتے اور  دوسری طرف سے [[محقق کرکی|محقق کَرَکی]] (متوفی سنہ 940ھ ق) سمیت شیعہ علماء کی کوشش تھی ایران میں نماز جمعہ کو رواج ملے۔<ref>منتظری، البدر الزاہر، ص7۔ جعفریان، نماز جمعہ: زمینہ ہای تاریخی، ص26ـ27۔</ref> اس کے باوجود کہ، بہت سے [[فقیہ|فقہاء]] ـ منجملہ علمائے جبل عامل ـ محقق کرکی کی حمایت کررہے تھے اور صفوی حکومت بھی ان کی پشت پناہی کررہی تھی، لیکن چونکہ نماز جمعہ اہل تشیع کے درمیان وسیع سطح پر رائج نہ تھی، اور متعدد علماء بھی اس کی سختی سے مخالفت کررہے تھے،<ref>منجملہ: شیخ ابراہیم القطیفی (متوفی تقریبا 950ھ ق)۔</ref> لہذا ایران کے شیعہ معاشرے میں اس کو رسمی حیثیت تدریجا میسر ہوئی۔<ref>جابری، صلاۃ الجمعۃ تاریخیاً وفقہیاً، ص50ـ54۔ جعفریان، نماز جمعہ: زمینہ ہای تاریخی، ص28۔</ref>  


:[[غیبت امام زمانہ(عج)|غیبتِ]] [[ائمہ|امام معصومؑ]] میں نماز جمعہ کے [شرعی] حکم اور [[وجوب]] یا [[حرمت]] کے سلسلے میں بحث و نزاع کا سلسلہ شاہ سلیمان اول صفوی (حکومت از سنہ 1077 یا 1078 تا 1105ھ ق) اس حد تک پہنچا کہ انھوں نے فقہاء کی ایک مجلس ترتیب دی اور اپنے وزیر اعظم کو اس مجلس میں روانہ کیا تا کہ وہ نماز جمعہ کے حکم کے سلسلے میں مشترکہ نتیجے تک پہنچیں۔<ref>قزوینی، تتمیم امل الآمل، ص172ـ173۔</ref>
:[[غیبت امام زمانہ(عج)|غیبتِ]] [[ائمہ|امام معصومؑ]] میں نماز جمعہ کے [شرعی] حکم اور [[وجوب]] یا [[حرمت]] کے سلسلے میں بحث و نزاع کا سلسلہ شاہ سلیمان اول صفوی (حکومت از سنہ 1077 یا 1078 تا 1105ھ ق) اس حد تک پہنچا کہ انھوں نے فقہاء کی ایک مجلس ترتیب دی اور اپنے وزیر اعظم کو اس مجلس میں روانہ کیا تا کہ وہ نماز جمعہ کے حکم کے سلسلے میں مشترکہ نتیجے تک پہنچیں۔<ref>قزوینی، تتمیم امل الآمل، ص172ـ173۔</ref>


:شاہ طہماسب اول (حکومت از سنہ 930 تا 984ھ ق) نے [[محقق کرکی]] کے مشورے سے ہر شہر کے لئے امام جمعہ مقرر کیا۔<ref>آقا بزرگ طہرانی، طبقات اعلام الشیعہ، قسم1، ص176۔</ref><ref>جابری، صلاۃ الجمعۃ تاریخیاً وفقہیاً، ص50ـ51۔</ref>  
:شاہ طہماسب اول (حکومت از سنہ 930 تا 984ھ ق) نے [[محقق کرکی]] کے مشورے سے ہر شہر کے لئے امام جمعہ مقرر کیا۔<ref>آقا بزرگ طہرانی، طبقات اعلام الشیعہ، قسم1، ص176۔ جابری، صلاۃ الجمعۃ تاریخیاً وفقہیاً، ص50ـ51۔</ref>  


:شاہ عباس اول (حکومت از سنہ 996 تا 1038ھ ق) کے زمانے میں امامت جمعہ کا منصب باضابطہ طور پر بنیاد رکھی گئی۔<ref>آقا بزرگ طہرانی، الذریعۃ، ج25 ص28۔</ref>  
:شاہ عباس اول (حکومت از سنہ 996 تا 1038ھ ق) کے زمانے میں امامت جمعہ کا منصب باضابطہ طور پر بنیاد رکھی گئی۔<ref>آقا بزرگ طہرانی، الذریعۃ، ج25 ص28۔</ref>  
سطر 179: سطر 174:
:عام طور پر ہر شہر کا [[شیخ الاسلام]] اس منصب کا عہدیدار ہوا کرتا تھا لیکن کبھی کبھار ـ شیخ الاسلام کی عدم موجودگی میں ـ وہ علماء بھی بادشاہ کی درخواست پر امامت جمعہ کی ذمہ داری قبول کیا کرتے تھے جو شیخ الاسلام نہ تھے؛ جس کی ایک مثال ملا محسن [[فیض کاشانی]] (متوفی سنہ 1091ھ ق) تھے۔<ref>جعفریان، صفویہ در عرصہ دین، ج3، ص237۔</ref>
:عام طور پر ہر شہر کا [[شیخ الاسلام]] اس منصب کا عہدیدار ہوا کرتا تھا لیکن کبھی کبھار ـ شیخ الاسلام کی عدم موجودگی میں ـ وہ علماء بھی بادشاہ کی درخواست پر امامت جمعہ کی ذمہ داری قبول کیا کرتے تھے جو شیخ الاسلام نہ تھے؛ جس کی ایک مثال ملا محسن [[فیض کاشانی]] (متوفی سنہ 1091ھ ق) تھے۔<ref>جعفریان، صفویہ در عرصہ دین، ج3، ص237۔</ref>


:عصر صفوی میں پہلی نماز جمعہ محقق کرکی نے [[اصفہان]] کی [[جامع مسجد عتیق]] میں بپا کی۔ اس دور کے دوسرے اہم ائمۂ جمعہ میں [[شیخ بہائی]] (متوفی سنہ 1030 یا 1031ھ ق)، [[میرداماد]] (متوفی سنہ 1041ھ ق)، [[محمد تقی مجلسی]] (متوفی سنہ 1070ھ ق)، [[علامہ مجلسی|محمد باقر مجلسی]] (متوفی سنہ 1110 یا 1111ھ ق)، [[محمد باقر سبزواری]] (متوفی سنہ 1090ھ ق) اور شیخ [[لطف اللہ اصفہانی]] (متوفی سنہ 1032ھ ق) شامل ہیں۔<ref>اس موضوع اور دوسرے متعلقہ موضوعات کے لئے رجوع کریں: محمدتقی مجلسی، لوامع صاحبقرانی، ج4، ص513۔</ref><ref>خوانساری، جامع المدارک، ج2، ص68، 78، 122ـ123۔</ref><ref>البحرانی، لؤلؤۃ البحرین، ص61، 95، 136 و 445۔</ref>
:عصر صفوی میں پہلی نماز جمعہ محقق کرکی نے [[اصفہان]] کی [[جامع مسجد عتیق]] میں بپا کی۔ اس دور کے دوسرے اہم ائمۂ جمعہ میں [[شیخ بہائی]] (متوفی سنہ 1030 یا 1031ھ ق)، [[میرداماد]] (متوفی سنہ 1041ھ ق)، [[محمد تقی مجلسی]] (متوفی سنہ 1070ھ ق)، [[علامہ مجلسی|محمد باقر مجلسی]] (متوفی سنہ 1110 یا 1111ھ ق)، [[محمد باقر سبزواری]] (متوفی سنہ 1090ھ ق) اور شیخ [[لطف اللہ اصفہانی]] (متوفی سنہ 1032ھ ق) شامل ہیں۔<ref>اس موضوع اور دوسرے متعلقہ موضوعات کے لئے رجوع کریں: محمدتقی مجلسی، لوامع صاحبقرانی، ج4، ص513۔ خوانساری، جامع المدارک، ج2، ص68، 78، 122ـ123۔ البحرانی، لؤلؤۃ البحرین، ص61، 95، 136 و 445۔</ref>


:صفوی دور میں نماز جمعہ کے خطبات پر مشتمل کتب کی تالیف رائج ہوئی جن میں مشہور ترین [[میرزا عبداللہ افندی]] (متوفی سنہ 1130ھ ق) کی تالیف [[بساتین الخطباء (کتاب)|بساتین الخطباء]] ہے۔
:صفوی دور میں نماز جمعہ کے خطبات پر مشتمل کتب کی تالیف رائج ہوئی جن میں مشہور ترین [[میرزا عبداللہ افندی]] (متوفی سنہ 1130ھ ق) کی تالیف [[بساتین الخطباء (کتاب)|بساتین الخطباء]] ہے۔


:اس سلسلے کی دوسری اہم کتب میں مولی محسن فیض کاشانی (متوفی سنہ 1091ھ ق) کی کتاب "الخُطَب"، [[میرداماد]] (متوفی سنہ 1041ھ ق) کی کتاب "الخطب للجمعۃ والاعیاد" شیخ [[یوسف البحرانی]] (متوفی سنہ 1186ھ ق) کی کتاب "الخُطَب"، خطیب عبدالرحیم بن محمد بن نباتہ (متوفی سنہ 374ھ ق) کی کتاب "الخُطَب" اور جمال الدین ابوبکر محمد (متوفی سنہ 768ھ ق) المعروف بہ "ابن نباتہ المصری ـ جو عبدالرحیم بن محمد کے پڑپوتوں میں سے تھے ـ کی کتاب "دیوان الخطب الجمعیہ" شامل ہیں۔<ref>البحرانی، لؤلؤۃ البحرین، ص100 و 127۔</ref><ref>آقا بزرگ طہرانی، الذریعۃ، ج7، ص183ـ187۔</ref>
:اس سلسلے کی دوسری اہم کتب میں مولی محسن فیض کاشانی (متوفی سنہ 1091ھ ق) کی کتاب "الخُطَب"، [[میرداماد]] (متوفی سنہ 1041ھ ق) کی کتاب "الخطب للجمعۃ والاعیاد" شیخ [[یوسف البحرانی]] (متوفی سنہ 1186ھ ق) کی کتاب "الخُطَب"، خطیب عبدالرحیم بن محمد بن نباتہ (متوفی سنہ 374ھ ق) کی کتاب "الخُطَب" اور جمال الدین ابوبکر محمد (متوفی سنہ 768ھ ق) المعروف بہ "ابن نباتہ المصری ـ جو عبدالرحیم بن محمد کے پڑپوتوں میں سے تھے ـ کی کتاب "دیوان الخطب الجمعیہ" شامل ہیں۔<ref>البحرانی، لؤلؤۃ البحرین، ص100 و 127۔ آقا بزرگ طہرانی، الذریعۃ، ج7، ص183ـ187۔</ref>


:[[محقق کرکی]] نے سنہ 921ھ ق میں ـ [[غیبت امام زمانہ(عج)|غیبتِ]] [[ائمہ|امام معصوم]] کے زمانے میں نماز جمعہ کے جواز کے اثبات کے سلسلے میں ایک کتاب تصنیف کی جو در حقیقت [[ولایت فقیہ]] کے موضوع کے سلسلے میں ایک رسالہ، سمجھی جاتی ہے۔ محقق کرکی کے بعض ہم عصر علماء اور ان کے بعض شاگردوں نے ان کے نظریئے پر تنقید کرتے ہوئے نماز جمعہ کی حرمت کے اثبات یا اس کے وجوب عینی کی تردید میں رسائل تحریر کئے۔<ref>جعفریان، نماز جمعہ: زمینہ ہای تاریخی، ص37ـ 38۔</ref><ref>جعفریان، صفویہ در عرصہ دین، ج3، ص251۔</ref>
:[[محقق کرکی]] نے سنہ 921ھ ق میں ـ [[غیبت امام زمانہ(عج)|غیبتِ]] [[ائمہ|امام معصوم]] کے زمانے میں نماز جمعہ کے جواز کے اثبات کے سلسلے میں ایک کتاب تصنیف کی جو در حقیقت [[ولایت فقیہ]] کے موضوع کے سلسلے میں ایک رسالہ، سمجھی جاتی ہے۔ محقق کرکی کے بعض ہم عصر علماء اور ان کے بعض شاگردوں نے ان کے نظریئے پر تنقید کرتے ہوئے نماز جمعہ کی حرمت کے اثبات یا اس کے وجوب عینی کی تردید میں رسائل تحریر کئے۔<ref>جعفریان، نماز جمعہ: زمینہ ہای تاریخی، ص37ـ 38۔ جعفریان، صفویہ در عرصہ دین، ج3، ص251۔</ref>


:'''پاک و ہند'''
:'''پاک و ہند'''
سطر 192: سطر 187:


:'''عہد قاجار'''
:'''عہد قاجار'''
:امامت جمعہ، عہد قاجار (سلسلۂ حکومت از سنہ 1210 تا 1344ھ ق) میں بھی عہد صفوی کی طرح ایک حکومتی اور سرکاری منصب سمجھی جاتی تھی۔<ref>منتظری، البدر الزاہر، ص7۔</ref> اس دور میں مذہبی مناصب کی حیثیت و اعتبار گھٹ جانے کے تناسب سے، امامت جمعہ اپنی دینی اور سیاسی حیثیت کھو گئی۔ عہد قاجار کے اواخر میں، بعض ائمۂ جمعہ، آئینی انقلاب کے حامی اور استبدادی حکومت کے مخالف علماء کے مد مقابل آکھڑے ہوئے۔<ref>جعفریان، نماز جمعہ: زمینہ ہای تاریخی، ص32۔</ref> افشاریہ دور حکومت (1148 تا 1210ھ ق) اور عہد قاجار میں بڑے شہروں کے بہت سے ائمہ جمعہ کے اسماء کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان ادوار میں امامت جمعہ کا منصب موروثی بن چکا تھا اور بعض خاندان نسل اندر نسل اس منصب کے عہدیدار ہوتے تھے؛ جن میں ـ [[تہران]] میں [[خاندان خاتون آبادی]]، [[اصفہان]] میں [[خاندان مجلسی]] اور [[یزد]] میں خاندان [[محمد مقیم یزدی]] ـ شامل ہیں۔ <ref>اولین امام جمعه یزد متوفی 1084۔</ref><ref>محمدمقیم یزدی، الحجۃ في وجوب صلاۃ الجمعۃ، ص50۔</ref> دوسرے شہروں میں یہی سلسلہ دکھائی دیتا ہے۔<ref>آقا بزرگ طہرانی، الذریعۃ، ج2، ص76 88۔</ref><ref>آقا بزرگ طہرانی، وہی ماخذ، ج3، ص252، 301، 370ـ371۔</ref><ref>آقا بزرگ طہرانی، وہی ماخذ، ج4، ص322۔</ref><ref>آقا بزرگ طہرانی، وہی ماخذ، ج6، ص5-6، 100۔</ref><ref>آقا بزرگ طہرانی، وہی ماخذ، ج9، ص785، 1087ـ 1088۔</ref><ref>رضا نژاد، صلاۃ الجمعہ، ص123ـ 145۔</ref>
:امامت جمعہ، عہد قاجار (سلسلۂ حکومت از سنہ 1210 تا 1344ھ ق) میں بھی عہد صفوی کی طرح ایک حکومتی اور سرکاری منصب سمجھی جاتی تھی۔<ref>منتظری، البدر الزاہر، ص7۔</ref> اس دور میں مذہبی مناصب کی حیثیت و اعتبار گھٹ جانے کے تناسب سے، امامت جمعہ اپنی دینی اور سیاسی حیثیت کھو گئی۔ عہد قاجار کے اواخر میں، بعض ائمۂ جمعہ، آئینی انقلاب کے حامی اور استبدادی حکومت کے مخالف علماء کے مد مقابل آکھڑے ہوئے۔<ref>جعفریان، نماز جمعہ: زمینہ ہای تاریخی، ص32۔</ref> افشاریہ دور حکومت (1148 تا 1210ھ ق) اور عہد قاجار میں بڑے شہروں کے بہت سے ائمہ جمعہ کے اسماء کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان ادوار میں امامت جمعہ کا منصب موروثی بن چکا تھا اور بعض خاندان نسل اندر نسل اس منصب کے عہدیدار ہوتے تھے؛ جن میں ـ [[تہران]] میں [[خاندان خاتون آبادی]]، [[اصفہان]] میں [[خاندان مجلسی]] اور [[یزد]] میں خاندان [[محمد مقیم یزدی]] ـ شامل ہیں۔ <ref>اولین امام جمعه یزد متوفی 1084۔ محمدمقیم یزدی، الحجۃ في وجوب صلاۃ الجمعۃ، ص50۔</ref> دوسرے شہروں میں یہی سلسلہ دکھائی دیتا ہے۔<ref>آقا بزرگ طہرانی، الذریعۃ، ج2، ص76 88۔ آقا بزرگ طہرانی، وہی ماخذ، ج3، ص252، 301، 370ـ371۔ آقا بزرگ طہرانی، وہی ماخذ، ج4، ص322۔ آقا بزرگ طہرانی، وہی ماخذ، ج6، ص5-6، 100۔ آقا بزرگ طہرانی، وہی ماخذ، ج9، ص785، 1087ـ 1088۔ رضا نژاد، صلاۃ الجمعہ، ص123ـ 145۔</ref>


:'''پہلوی دور'''
:'''پہلوی دور'''
گمنام صارف