مندرجات کا رخ کریں

"نماز جمعہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

1,224 بائٹ کا اضافہ ،  22 جنوری 2018ء
م
imported>Mabbassi
imported>Mabbassi
سطر 139: سطر 139:
[[ابن بطوطہ]] کی روایت کے مطابق، ساتویں صدی ہجری میں، [[بغداد]] میں 11 مساجد میں نماز جمعہ بپا کی جاتی تھی؛ ممالیک کی حکومت کے دور میں اس شہر کی آبادی بہت بڑھ گئی تھی چنانچہ نماز جمعہ مقامی مساجد اور مدرسوں میں بھی بپا کی جاتی تھی۔<ref>قلقشندی، صبح الاعشی، ج3، ص362۔</ref>
[[ابن بطوطہ]] کی روایت کے مطابق، ساتویں صدی ہجری میں، [[بغداد]] میں 11 مساجد میں نماز جمعہ بپا کی جاتی تھی؛ ممالیک کی حکومت کے دور میں اس شہر کی آبادی بہت بڑھ گئی تھی چنانچہ نماز جمعہ مقامی مساجد اور مدرسوں میں بھی بپا کی جاتی تھی۔<ref>قلقشندی، صبح الاعشی، ج3، ص362۔</ref>


==پس منظر==
==تاریخی پس منظر==
نماز جمعہ قبل از [[ہجرت]] اور سنہ 12 بعد از [[بعثت]] مکہ میں تشریع (اور وضع) ہوئی۔ اس سال [[رسول اکرمؐ]] ـ جنہیں [[مکہ]] میں نماز جمعہ بپا کرنے کا امکان میسر نہ تھا، [[مصعب بن عمیر|مُصعَب بن عُمَیر]] کو مکتوب لکھ کر ہدایت کی کہ نماز جمعہ [[مدینہ]] میں بپا کریں۔<ref>طبرانی، المعجم الکبیر، ج17، ص267۔</ref><ref>احمدی میانجی، مکاتیب الرسول، ص239۔</ref> دوسری روایت کے مطابق<ref>ابن ماجہ، السنن، ج1، ص344۔</ref><ref>النسائی، السنن، بشرح جلال الدین سیوطی، ج8، ص150۔</ref> پہلی نماز جمعہ [[اسعد بن زرارہ|اَسعَد بن زُرارَہ]] نے [[مدینہ]] میں منعقد کرائی؛ اور [[رسول اللہؐ]] [[مدینہ]] پہنچے تو نماز جمعہ آپؐ کی [[امامت]] میں بپا ہوئی۔<ref>بطور مثال رجوع کریں: مسعودی، مروج الذہب، ج3، ص19۔</ref>  
نماز جمعہ [[بعثت]] کے 12 سال بعد اور [[ہجرت]] سے پہلے [[مکہ]] میں تشریع (اور وضع) ہوئی۔ اس سال [[رسول اکرمؐ]] کیلئے [[مکہ]] میں نماز جمعہ برپا کرنے کا امکان میسر نہ تھا اور آپ نے [[مصعب بن عمیر|مُصعَب بن عُمَیر]] کو مکتوب لکھ کر ہدایت کی کہ نماز جمعہ [[مدینہ]] میں بپا کریں۔<ref>طبرانی، المعجم الکبیر، ج17، ص267۔ احمدی میانجی، مکاتیب الرسول، ص239۔</ref> ددوسری روایت کے مطابق<ref>ابن ماجہ، السنن، ج1، ص344۔النسائی، السنن، بشرح جلال الدین سیوطی، ج8، ص150۔</ref> پہلی نماز جمعہ [[اسعد بن زرارہ|اَسعَد بن زُرارَہ]] نے [[مدینہ]] میں منعقد کروائی اور [[رسول اللہؐ]] [[مدینہ]] پہنچے تو نماز جمعہ آپؐ کی [[امامت]] میں برپا ہوئی۔<ref>بطور مثال رجوع کریں: مسعودی، مروج الذہب، ج3، ص19۔</ref>  


[[مدینہ]] کے بعد جس علاقے میں سب سے پہلے نماز جمعہ بپا ہوئی وہ [[بحرین]] کا "قریۂ عبدالقیس" تھا۔<ref>حلبی، السیرۃ، ج2، ص59۔</ref>
[[مدینہ]] کے بعد جس علاقے میں سب سے پہلے نماز جمعہ بپا ہوئی وہ [[بحرین]] کا "قریۂ عبدالقیس" تھا۔<ref>حلبی، السیرۃ، ج2، ص59۔</ref>


عصر [[رسول اللہ|رسالت]] کے بعد بھی ـ تاریخی روایات کے مطابق ـ خلفائے راشدین کے نیز [[امیرالمؤمنین|امام علی]] (سنہ 35 تا 40ھ ق) اور [[امام حسن مجتبی علیہ السلام|امام حسن مجتبی]] (سنہ 40ھ ق) علیہما السلام کے زمانے میں رائج تھی۔<ref>طبری، تاريخ الرسل والملوک، ج3، ص447، 2740۔</ref><ref>ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ج13، ص251۔</ref><ref>ابن کثیر، البدایۃ والنہایۃ، ج4، جزء7، ص189۔</ref><ref>محمودی، نہج السعادۃ، ج1، ص427، 499۔</ref><ref>محمودی، وہی ماخذ، ج2، ص595، 714۔</ref><ref>محمودی، وہی ماخذ، ج3، ص153 و 605۔</ref>  
عصر [[رسول اللہ|رسالت]] کے بعد بھی ـ تاریخی روایات کے مطابق ـ خلفائے راشدین نیز [[امیرالمؤمنین|امام علی]] (سنہ 35 تا 40ھ ق) اور [[امام حسن مجتبی علیہ السلام|امام حسن مجتبی]] (سنہ 40ھ ق) علیہما السلام کے زمانے میں رائج تھی۔<ref>طبری، تاريخ الرسل والملوک، ج3، ص447، 2740۔ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ج13، ص251۔ابن کثیر، البدایۃ والنہایۃ، ج4، جزء7، ص189۔محمودی، نہج السعادۃ، ج1، ص427، 499۔محمودی، وہی ماخذ، ج2، ص595، 714۔محمودی، وہی ماخذ، ج3، ص153 و 605۔</ref>  


بعض شیعہ روایات ـ جیسے [[رسول اکرمؐ]] کا [[خطبہ شعبانیہ]] اور [[نہج البلاغہ]] میں [[امیرالمؤمنین|امام علیؑ]] کے بعض خطباب، ان نمازوں کی یادگاریں ہیں۔  
بعض شیعہ روایات ـ جیسے [[رسول اکرمؐ]] کا [[خطبہ شعبانیہ]] اور [[نہج البلاغہ]] میں [[امیرالمؤمنین|امام علیؑ]] کے بعض خطباب، ان نمازوں کی یادگاریں ہیں۔  


[[بنو امیہ|اموی]] (سنہ 41 تا 132ھ ق) اور [[بنو عباس|عباسیان]] (سنہ 132 تا 656ھ ق) کے ادوار میں میں بھی خلفا اور ان کے والی اور عوامل نماز جمعہ کا انعقاد کرتے تھے جو [[خلیفہ]] وقت کے نام خطبہ پڑھ کر یا اس کے لئے [[دعا]] کرکے اس کا ساتھ دیا کرتے تھے۔<ref>یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج2، ص285، 365۔</ref><ref>طبری، تاریخ الرسل والملوک، ج8، ص570، 579، 594۔</ref><ref>طبری، وہی ماخذ، ج9، ص222۔</ref>
[[بنو امیہ|اموی]] (سنہ 41 تا 132ھ ق) اور [[بنو عباس|عباسیان]] (سنہ 132 تا 656ھ ق) کے ادوار میں میں بھی خلفا اور ان کے والی اور عوامل نماز جمعہ کا انعقاد کرتے تھے جو [[خلیفہ]] وقت کے نام خطبہ پڑھ کر یا اس کے لئے [[دعا]] کرکے اس کا ساتھ دیا کرتے تھے۔<ref>یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج2، ص285، 365۔ طبری، تاریخ الرسل والملوک، ج8، ص570، 579، 594۔ طبری، وہی ماخذ، ج9، ص222۔</ref>


خلفا دارالخلافہ کے ائمۂ جمعہ کا تعین کیا کرتے تھے<ref>ابن جوزی، المنتظم، ج14، ص383۔</ref><ref>ابن جوزی، وہی ماخذ، ج15، ص351۔</ref> اور دیگر شہروں کے خطبائے جمعہ کا تقرر ان ہی شہروں کے والیوں اور امراء کے ذمے تھا۔<ref>قلقشندی، صبح الاعشی، ج10 ص15، 19۔20۔</ref>
خلفا دارالخلافہ کے ائمۂ جمعہ کا تعین کیا کرتے تھے<ref>ابن جوزی، المنتظم، ج14، ص383۔ ابن جوزی، وہی ماخذ، ج15، ص351۔</ref> اور دیگر شہروں کے خطبائے جمعہ کا تقرر ان ہی شہروں کے والیوں اور امراء کے ذمے تھا۔<ref>قلقشندی، صبح الاعشی، ج10 ص15، 19۔20۔</ref>


===نماز جمعہ میں ائمہ کی شرکت===
[[شیعہ]] نقطۂ نظر سے حکامِ جور اور ان کی طرف سے مقرر شدہ ائمۂ جمعہ و جماعت کی کوئی شرعی حیثیت نہ تھی لہذا ان کی [[امامت]] میں [[نماز]] نہیں پڑھی جاسکتی۔ اس کے باوجود بعض [[احادیث|روایات]] کے مطابق [[ائمہ|ائمۂ شیعہ علیہم السلام]] اور ان کے پیروکار [[تقیہ]] کی رو سے یا دوسری وجوہات کی بنا پر نماز جمعہ میں شرکت کرتے تھے،<ref>زراری، تاریخ آل زرارہ،  ج2، ص27۔ نوری، مستدرک الوسائل، ج6 ص40۔ جابری، صلاۃ الجمعۃ تاریخیاً وفقہیاً، ص24۔</ref>
بعض اوقات حکومتوں کے مخالفین اپنی مخالفت کے اظہار کے لئے نماز جمعہ میں شرکت سے اجتناب کرتے تھے۔<ref>برای نمونه ابن جوزی، المنتظم، ج16 ص31ـ32۔ مجلسی، بحار الانوار، ج44، ص333۔</ref>
نماز جمعہ سے غیر حاضری لوگوں کی نگاہ میں معیوب سمجھی جاتی تھی۔<ref>طبری، تاریخ الرسل والملوک، ج4، ص328۔</ref>
===نماز جمعہ میں ائمہ کی شرکت===
===نماز جمعہ میں ائمہ کی شرکت===
[[شیعہ]] نقطۂ نظر سے حکامِ جور اور ان کی طرف سے مقرر شدہ ائمۂ جمعہ و جماعت کی کوئی شرعی حیثیت نہ تھی لہذا ان کی [[امامت]] میں [[نماز]] نہیں پڑھی جاسکتی۔ اس کے باوجود بعض [[احادیث|روایات]] کے مطابق [[ائمہ|ائمۂ شیعہ علیہم السلام]] اور ان کے پیروکار [[تقیہ]] کی رو سے یا دوسری وجوہات کی بنا پر نماز جمعہ میں شرکت کرتے تھے،<ref>زراری، تاریخ آل زرارہ،  ج2، ص27۔</ref><ref>نوری، مستدرک الوسائل، ج6 ص40۔</ref><ref>جابری، صلاۃ الجمعۃ تاریخیاً وفقہیاً، ص24۔</ref>  
[[شیعہ]] نقطۂ نظر سے حکامِ جور اور ان کی طرف سے مقرر شدہ ائمۂ جمعہ و جماعت کی کوئی شرعی حیثیت نہ تھی لہذا ان کی [[امامت]] میں [[نماز]] نہیں پڑھی جاسکتی۔ اس کے باوجود بعض [[احادیث|روایات]] کے مطابق [[ائمہ|ائمۂ شیعہ علیہم السلام]] اور ان کے پیروکار [[تقیہ]] کی رو سے یا دوسری وجوہات کی بنا پر نماز جمعہ میں شرکت کرتے تھے،<ref>زراری، تاریخ آل زرارہ،  ج2، ص27۔</ref><ref>نوری، مستدرک الوسائل، ج6 ص40۔</ref><ref>جابری، صلاۃ الجمعۃ تاریخیاً وفقہیاً، ص24۔</ref>  
گمنام صارف