مندرجات کا رخ کریں

"نماز جمعہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Jaravi
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 19: سطر 19:
[[Image:نماز جمعه هند-مسجد فاتح پور.jpg|thumb|220px|<center>نماز جمعہ، مسجد فتح پور، ہندوستان]] </center>
[[Image:نماز جمعه هند-مسجد فاتح پور.jpg|thumb|220px|<center>نماز جمعہ، مسجد فتح پور، ہندوستان]] </center>


'''نماز جمعہ'''، ایک دو رکعتی [[نماز]] ہے جو روز [[جمعہ]] کو بوقت ظہر، با جماعت ادا کی جاتی ہے۔ نماز جمعہ [[امام جمعہ]] سمیت کم از کم پانچ افراد کی موجودگی میں پڑھی جاتی ہے۔ امام جمعہ کو [[نماز]] سے پہلے نمازگزاروں کے لئے دو خطبے دینا پڑتے ہیں جن کے مضامین میں سے ایک [[تقوی]] کی طرف دعوت ہے۔  
'''نماز جمعہ'''، ایک دو رکعتی [[نماز]] ہے جو [[جمعہ]] کے دن بوقت ظہر، با جماعت ادا کی جاتی ہے۔ نماز جمعہ [[امام جمعہ]] سمیت کم از کم پانچ افراد کی موجودگی میں پڑھی جاتی ہے۔ امام جمعہ کو [[نماز]] سے پہلے نمازگزاروں کے لئے دو خطبے دینا پڑتے ہیں جن کے مضامین میں سے ایک [[تقوی]] کی طرف دعوت ہے۔  


اس [[نماز]] کا [[فقہ|فقہی]] حکم [[سورہ جمعہ]] میں نازل ہوا ہے۔ [[حدیث|احادیث]] میں نماز جمعہ مساکین کا [[حج]] اور گناہوں کی مغفرت کا موجب گردانا گیا ہے اور بعض احادیث نماز جمعہ کے ترک کرنے کو نفاق و اختلاف اور غربت و افلاس کا سبب قرار دیتی ہیں۔ نماز جمعہ [[امام معصوم]] کے ظہور و حضور کے زمانے میں [[واجب]] اور امام(ع) کی [[غیبت کبری|غیبت]] کے زمانے میں [[واجب تخییری]] ہے۔  
اس [[نماز]] کا [[فقہ|فقہی]] حکم [[سورہ جمعہ]] میں نازل ہوا ہے۔ [[حدیث|احادیث]] میں نماز جمعہ مساکین کا [[حج]] اور گناہوں کی مغفرت کا موجب گردانا گیا ہے اور بعض احادیث نماز جمعہ کے ترک کرنے کو نفاق و اختلاف اور غربت و افلاس کا سبب قرار دیتی ہیں۔ نماز جمعہ [[امام معصوم]] کے ظہور و حضور کے زمانے میں [[واجب]] اور امامؑ کی [[غیبت کبری|غیبت]] کے زمانے میں [[واجب تخییری]] ہے۔  


[[ایران]] میں نماز جمعہ [[شاہ اسمعیل صفوی]] کے دور میں رائج ہوئی اور بعدازاں بہت سے شہروں بپا کی جاتی رہی۔ [[اسلامی جمہوریہ ایران|اسلامی جمہوریہ]] کے زمانے میں اس ملک کے تمام شہروں میں بپا کی جاتی ہے۔  
[[ایران]] میں نماز جمعہ [[شاہ اسمعیل صفوی]] کے دور میں رائج ہوئی اور بعدازاں بہت سے شہروں بپا کی جاتی رہی۔ [[اسلامی جمہوریہ ایران|اسلامی جمہوریہ]] کے زمانے میں اس ملک کے تمام شہروں میں بپا کی جاتی ہے۔  
سطر 28: سطر 28:


==نماز جمعہ کی اہمیت و منزلت==
==نماز جمعہ کی اہمیت و منزلت==
[[سورہ جمعہ]] میں مؤمنین کو صراحت کے ساتھ، [[نماز]] [[جمعہ]] میں شرکت کی دعوت دی گی ہے: جب تمہیں [[مؤذن]] کی صدا سنائی دے اور [[نماز]] [[جمعہ]] کے لئے بلایا جائے تو کاروبار تجارت کو ترک کردو<ref><font color = green>{{قرآن کا متن|يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِي لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ|ترجمہ=اے ایمان لانے والو! جب پکارا جائے جمعہ کے دن والی نماز کے لئے تو دوڑ پڑو ذکر خدا کی طرف اور خرید وفروخت چھوڑ دو، وہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانو|سورت=[[سورہ جمعہ|جمعہ]]|آیت=9}}۔</font></ref> [[حدیث|روایات]] میں بھی نماز جمعہ کی اہمیت اور منزلت ایسی ہی عبارات سے بیان ہوئی ہے:
[[سورہ جمعہ]] میں مؤمنین کو صراحت کے ساتھ، [[نماز]] [[جمعہ]] میں شرکت کی دعوت دی گی ہے: جب تمہیں [[مؤذن]] کی صدا سنائی دے اور [[نماز]] [[جمعہ]] کے لئے بلایا جائے تو کاروبار اور تجارت کو ترک کردو<ref><font color = green>{{قرآن کا متن|يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِي لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ|ترجمہ=اے ایمان لانے والو! جب پکارا جائے جمعہ کے دن والی نماز کے لئے تو دوڑ پڑو ذکر خدا کی طرف اور خرید و فروخت چھوڑ دو، وہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانو|سورت=[[سورہ جمعہ|جمعہ]]|آیت=9}}۔</font></ref> [[حدیث|روایات]] میں بھی نماز جمعہ کی اہمیت اور منزلت ایسی ہی عبارات سے بیان ہوئی ہے:
{| class="vcard vertical-navbox" style="width:80%; border-radius:15px; text-align:right; font-size:100%; font-weight:normal; font-color:#003300; {{linear-gradient|top|#DEE9C9, #FAFCF7}} ; titlestyle = background:#C9E38F; clear:left; float:no; margin:15px auto; padding:0.2em; z-index:-1;"
{| class="vcard vertical-navbox" style="width:80%; border-radius:15px; text-align:right; font-size:100%; font-weight:normal; font-color:#003300; {{linear-gradient|top|#DEE9C9, #FAFCF7}} ; titlestyle = background:#C9E38F; clear:left; float:no; margin:15px auto; padding:0.2em; z-index:-1;"
|-
|-
* '''سابقہ [[:زمرہ:گناہ|گناہوں]] کی بخشش''' <br/> [[رسول اکرم(ص)]] فرماتے ہیں: چار افراد عمل (اور زندگی) کا از سر نو آغاز کرتے ہیں: 1۔ بیمار، جب وہ تندرست ہوجائے؛ مشرک، جب وہ [[ایمان]] لاتا ہے؛ 3۔ حاجی، جب وہ مناسک حج سے فراغت پاتا ہے اور 4۔ وہ شخص جو نماز جمعہ کے بعد پلٹ آتا ہے۔<ref>مجلسی، بحار الانوار، ج86، ص197۔</ref>
* '''سابقہ [[:زمرہ:گناہ|گناہوں]] کی بخشش''' <br/> [[رسول اکرم(ص)]] فرماتے ہیں: چار افراد عمل (اور زندگی) کا از سر نو آغاز کرتے ہیں: 1۔ بیمار، جب وہ تندرست ہوجائے؛ مشرک، جب وہ جو [[ایمان]] لاتا ہے؛ 3۔ حاجی، جب وہ مناسک حج سے فراغت پاتا ہے اور 4۔ وہ شخص جو نماز جمعہ کے بعد پلٹ آتا ہے۔<ref>مجلسی، بحار الانوار، ج86، ص197۔</ref>
* '''نماز جمعہ میں مسلسل موجودگی، ناداروں کا حج ہے'''<br/> ایک با ایمان شخص نے [[رسول اللہ(ص)]] سے عرض کیا: میں نے کئی مرتبہ حج بجا لانے کا ارادہ کیا لیکن مجھے توفیق نہ ملی تو آپ(ص) نے فرمایا: تمہیں مسلسل نماز جمعہ میں شرکت کرتے رہنا چاہئے کیونکہ نماز جمعہ ناداروں کا [[حج]] ہے۔<ref>حر عاملی، وسائل الشیعہ، ج5، ص5۔</ref>
* '''نماز جمعہ میں مسلسل موجودگی، ناداروں کا حج ہے'''<br/> ایک با ایمان شخص نے [[رسول اللہ(ص)]] سے عرض کیا: میں نے کئی مرتبہ حج بجا لانے کا ارادہ کیا لیکن مجھے توفیق نہ ملی تو آپ(ص) نے فرمایا: تمہیں مسلسل نماز جمعہ میں شرکت کرتے رہنا چاہئے کیونکہ نماز جمعہ ناداروں کا [[حج]] ہے۔<ref>حر عاملی، وسائل الشیعہ، ج5، ص5۔</ref>
* '''[[قیامت]] کی سختیوں کو گھٹا دیتی ہے''' <br/> [[رسول اکرم(ص)]] فرماتے ہیں: جو شخص [[نماز]] [[جمعہ]] کی طرف عزیمت کرے، خداوند متعال قیامت کے اندیشوں کو اس کے لئے گھٹا دیتا ہے اور بہشت کی طرف اس کی راہنمائی کرتا ہے۔<ref>حر عاملی، وسائل الشیعہ، ج7، ح9390۔</ref><ref> نیز فرماتے ہیں: جمعہ وہ دن ہے جس میں خداوند سب کو اکٹھا کرلیتا ہے، تو ایسا کوئی بھی مؤمن نہیں ہے جو نماز جمعہ میں شرکت کرے مگر یہ کہ خداوند متعال روز [[قیامت]] کو اس کے لئے آسان بنا دیتا ہے اور فرمان جاری کرتا ہے کہ انہیں [[جنت]] لے جایا جائے۔<ref>ابن بابویہ، من لایحضرہ الفقیہ، ج1، ص427۔</ref>
* '''[[قیامت]] کی سختیوں کو گھٹا دیتی ہے''' <br/> [[رسول اکرم(ص)]] فرماتے ہیں: جو شخص [[نماز]] [[جمعہ]] کی طرف عزیمت کرے، خداوند متعال قیامت کے اندیشوں کو اس کے لئے گھٹا دیتا ہے اور بہشت کی طرف اس کی راہنمائی کرتا ہے۔<ref>حر عاملی، وسائل الشیعہ، ج7، ح9390۔</ref><ref> نیز فرماتے ہیں: جمعہ وہ دن ہے جس میں خداوند سب کو اکٹھا کرلیتا ہے، تو ایسا کوئی بھی مؤمن نہیں ہے جو نماز جمعہ میں شرکت کرے مگر یہ کہ خداوند متعال روز [[قیامت]] کو اس کے لئے آسان بنا دیتا ہے اور فرمان جاری کرتا ہے کہ انہیں [[جنت]] لے جایا جائے۔<ref>ابن بابویہ، من لایحضرہ الفقیہ، ج1، ص427۔</ref>
* '''نماز جمعہ کی طرف ہر قدم کا اجر و ثواب کثیر'''<br/> [[رسول اللہ(ص)]] نے فرمایا: جو شخص روز جمعہ [[غسل]] کرے اور نماز جمعہ کی طرف قدم اٹھائے اور امام کے خطبوں کو سن لے، ہر قدم کے بدلے اس کے لئے ایک سال کی [[عبادت]] لکھی جاتی ہے جن کے دنوں کو وہ روزہ دار تھا اور اس کی شب کو عبادت میں مصروف۔<ref>نوری، مستدرک الوسائل، ج2، ص504۔</ref>
* '''نمؑاز جمعہ کی طرف ہر قدم کا اجر و ثواب کثیر'''<br/> [[رسول اللہ(ص)]] نے فرمایا: جو شخص روز جمعہ [[غسل]] کرے اور نماز جمعہ کی طرف قدم اٹھائے اور امام کے خطبوں کو سن لے، ہر قدم کے بدلے اس کے لئے ایک سال کی [[عبادت]] لکھی جاتی ہے جن کے دنوں کو وہ روزہ دار تھا اور اس کی شب کو عبادت میں مصروف۔<ref>نوری، مستدرک الوسائل، ج2، ص504۔</ref>
* '''خداوند متعال آگ کو اس کے بدن پر [[حرام]] کردیتا ہے''' <br/> [[امام صادق(ع)]] نے فرمایا: ہرگاہ کوئی نماز جمعہ کے لئے قدم اٹھائے، خداوند متعال اس کے جسم کو دوزخ کی آگ پر [[حرام]] قرار دیتا ہے۔<ref>ابن بابویہ، من لایحضرہ الفقیہ، ج1، ص247۔</ref>
* '''خداوند متعال آگ کو اس کے بدن پر [[حرام]] کردیتا ہے''' <br/> [[امام صادقؑ]] نے فرمایا: ہرگاہ کوئی نماز جمعہ کے لئے قدم اٹھائے، خداوند متعال اس کے جسم کو دوزخ کی آگ پر [[حرام]] قرار دیتا ہے۔<ref>ابن بابویہ، من لایحضرہ الفقیہ، ج1، ص247۔</ref>
* '''نماز جمعہ کی طرف سبقت کرنے والے، جنت کی طرف سب سے آگے نکلنے والے''' <br/> [[امام صادق(ع)]] نے فرمایا: خداوند متعال نے روز جمعہ کو دوسرے ایام پر برتری عطا کی ہے اور بےشک جمعہ کے دن جنت کو زیوروں سے آراستہ کیا جاتا ہے اور وہ زینت پاتی ہے ان لوگوں کے لئے جو نماز جمعہ کے لئے چلے جاتے ہیں؛ اور بےشک تم جنت کی طرف آگے نکل جاتے ہو جس قدر کہ نماز جمعہ کی طرف سبقت کرتے ہو، اور بےشک آسمان کے دروازے بندوں کے اعمال کے لئے کھل جاتے ہیں۔<ref>حر عاملی، وسائل الشیعہ، ج5، ص70۔</ref>
* '''نماز جمعہ کی طرف سبقت کرنے والے، جنت کی طرف سب سے آگے نکلنے والے''' <br/> [[امام صادقؑ]] نے فرمایا: خداوند متعال نے روز جمعہ کو دوسرے ایام پر برتری عطا کی ہے اور بےشک جمعہ کے دن جنت کو زیوروں سے آراستہ کیا جاتا ہے اور وہ زینت پاتی ہے ان لوگوں کے لئے جو نماز جمعہ کے لئے چلے جاتے ہیں؛ اور بےشک تم جنت کی طرف آگے نکل جاتے ہو جس قدر کہ نماز جمعہ کی طرف سبقت کرتے ہو، اور بےشک آسمان کے دروازے بندوں کے اعمال کے لئے کھل جاتے ہیں۔<ref>حر عاملی، وسائل الشیعہ، ج5، ص70۔</ref>
* '''[[معصومین]] کی [[امامت]] میں نماز جمعہ ترک کرنا'''<br/> [[امام باقر(ع)]] فرماتے ہیں: نماز جمعہ [[واجب]] ہے اور معصوم کی امامت میں اس کے لئے اجتماع کرنا، واجب ہے۔ جو شخص بغیر کسی عذر کے تین دن تک جمعہ کو ترک کرے، اس نے امر واجب کو ترک کیا ہے اور کوئی شخص تین واجب امور کو بغیر کسی دلیل کے، ترک نہیں کرتا سوا اس کے وہ [[منافق]] ہو۔<ref>حر عاملی، وسائل الشیعہ، ج5، ص4۔</ref> نیز [[امیرالمؤمنین|امیرالمؤمنین علی(ع)]] نے [حدیث مرفوع میں] فرمایا ہے: جو شخص بغیر کسی عذر کے نماز جمعہ کو تین ہفتوں تک ترک کرے وہ منافقین کے زمرے میں شمار ہوتا ہے۔<ref>نوری، مستدرک الوسائل، ج2، ص6291۔</ref>
* '''[[معصومین]] کی [[امامت]] میں نماز جمعہ ترک کرنا'''<br/> [[امام باقرؑ]] فرماتے ہیں: نماز جمعہ [[واجب]] ہے اور معصوم کی امامت میں اس کے لئے اجتماع کرنا، واجب ہے۔ جو شخص بغیر کسی عذر کے تین دن تک جمعہ کو ترک کرے، اس نے امر واجب کو ترک کیا ہے اور کوئی شخص تین واجب امور کو بغیر کسی دلیل کے، ترک نہیں کرتا سوا اس کے وہ [[منافق]] ہو۔<ref>حر عاملی، وسائل الشیعہ، ج5، ص4۔</ref> نیز [[امیرالمؤمنین|امیرالمؤمنین علیؑ]] نے [حدیث مرفوع میں] فرمایا ہے: جو شخص بغیر کسی عذر کے نماز جمعہ کو تین ہفتوں تک ترک کرے وہ منافقین کے زمرے میں شمار ہوتا ہے۔<ref>نوری، مستدرک الوسائل، ج2، ص6291۔</ref>
* '''نماز جمعہ کو بےوقعت سمجھنا پریشانی اور تنگدستی کا سبب ہے''' <br/> [[رسول اکرم(ص)]] نے فرمایا: خداوند متعال نے نماز جمعہ کو تم پر [[واجب]] کیا۔ جو بھی میری حیات میں اور میری وفات کے بعد، اس کو، بےوقت سمجھ کر یا انکار کی رو سے، ترک کرے خداوند متعال اس کو پریشانی میں مبتلا کرتا اور اس کے کام میں برکت نہیں ڈالتا۔ جان لو! اس کی نماز قبول نہیں ہوگی۔ جان لو! جان لو! خداوند متعال اس کی [[زکوۃ]] کو قبول نہیں کرتا۔ جان لو! اس کا [[حج]] مقبول نہیں ہے، جان لو! اس کے نیک اعمال قبول نہیں ہونگے حتی کہ [[توبہ]] کرے اور بعدازاں نماز جمعہ کو ترک نہ کرے، بےوقعت نہ سمجھے اور اس کا انکار نہ کرے۔<ref>حر عاملی، وسائل الشیعہ، ج5، ص7۔</ref>
* '''نماز جمعہ کو بےوقعت سمجھنا پریشانی اور تنگدستی کا سبب ہے''' <br/> [[رسول اکرم(ص)]] نے فرمایا: خداوند متعال نے نماز جمعہ کو تم پر [[واجب]] کیا۔ جو بھی میری حیات میں اور میری وفات کے بعد، اس کو، بےوقت سمجھ کر یا انکار کی رو سے، ترک کرے خداوند متعال اس کو پریشانی میں مبتلا کرتا اور اس کے کام میں برکت نہیں ڈالتا۔ جان لو! اس کی نماز قبول نہیں ہوگی۔ جان لو! جان لو! خداوند متعال اس کی [[زکوۃ]] کو قبول نہیں کرتا۔ جان لو! اس کا [[حج]] مقبول نہیں ہے، جان لو! اس کے نیک اعمال قبول نہیں ہونگے حتی کہ [[توبہ]] کرے اور بعدازاں نماز جمعہ کو ترک نہ کرے، بےوقعت نہ سمجھے اور اس کا انکار نہ کرے۔<ref>حر عاملی، وسائل الشیعہ، ج5، ص7۔</ref>
|-
|-
سطر 96: سطر 96:


====حرمت====
====حرمت====
بعض متقدم [[شیعہ]] فقہاء منجملہ [[سلار دیلمی|سَلاّر دیلمی]]<ref>رضا نژاد، صلاۃ الجمعہ، ص77۔</ref> اور [[ابن ادریس حلی|ابن ادریس حِلّی]]<ref>ابن ادریس حلی، السرائر، ج1 ص304۔</ref> نیز، ان کی پیروی کرتے ہوئے بہت سے متأخر فقہاء منجملہ [[فاضل ہندی]] نے [[نماز]] جمعہ کے جواز کو [[امام معصوم]](ع) کے حضور اور موجودگی یا ایسے فرد کی موجودگی سے مشروط کیا ہے جو امام(ع) کی طرف سے امامت جمعہ کے لئے مقرر کیا گیا ہو۔<ref>فاضل ہندی، کشف اللثام، ج1 ص246ـ 248۔</ref><ref>طباطبائی، ریاض المسائل، ج4، ص73ـ 75۔</ref><ref>نراقی، مستند الشیعۃ، ج6 ص60۔</ref><ref>احمد خوانساری، جامع المدارک، ج1، ص524۔</ref>  
بعض متقدم [[شیعہ]] فقہاء منجملہ [[سلار دیلمی|سَلاّر دیلمی]]<ref>رضا نژاد، صلاۃ الجمعہ، ص77۔</ref> اور [[ابن ادریس حلی|ابن ادریس حِلّی]]<ref>ابن ادریس حلی، السرائر، ج1 ص304۔</ref> نیز، ان کی پیروی کرتے ہوئے بہت سے متأخر فقہاء منجملہ [[فاضل ہندی]] نے [[نماز]] جمعہ کے جواز کو [[امام معصوم]]ؑ کے حضور اور موجودگی یا ایسے فرد کی موجودگی سے مشروط کیا ہے جو امامؑ کی طرف سے امامت جمعہ کے لئے مقرر کیا گیا ہو۔<ref>فاضل ہندی، کشف اللثام، ج1 ص246ـ 248۔</ref><ref>طباطبائی، ریاض المسائل، ج4، ص73ـ 75۔</ref><ref>نراقی، مستند الشیعۃ، ج6 ص60۔</ref><ref>احمد خوانساری، جامع المدارک، ج1، ص524۔</ref>  


نماز جمعہ کی حرمت پر مبنی فتوی کے پیروکار کہتے ہیں کہ نماز جمعہ کی صحت کی شرط، امام معصوم(ع) کی اجازت یا پھر امام(ع) کا نمائندہ، ہے جبکہ [[غیبت کبری|غیبت]] کے زمانے میں ایسی کوئی اجازت موجود نہیں ہے، چنانچہ اس زمانے میں نماز جمعہ جائز نہیں ہے۔<ref>مذکورہ بالا مآخذ سے رجوع کریں۔</ref>  
نماز جمعہ کی حرمت پر مبنی فتوی کے پیروکار کہتے ہیں کہ نماز جمعہ کی صحت کی شرط، امام معصومؑ کی اجازت یا پھر امامؑ کا نمائندہ، ہے جبکہ [[غیبت کبری|غیبت]] کے زمانے میں ایسی کوئی اجازت موجود نہیں ہے، چنانچہ اس زمانے میں نماز جمعہ جائز نہیں ہے۔<ref>مذکورہ بالا مآخذ سے رجوع کریں۔</ref>  


نیز بعض علماء کا کہنا ہے کہ جن امور میں [[ولی فقیہ]] کو وسیع اختیارات (بَسطِ ید) کی ضرورت ہے جیسے نماز جمعہ کا قیام اور حکم [[جہاد]]، ان میں اس کو [[ائمہ|معصوم]] کی نیابت حاصل نہیں ہے۔<ref>منتظری، البدر الزاہر، ص57-58۔</ref> نماز جمعہ کی حرمت کے قائل افراد جن امور سے استناد کرتے ہیں، ان میں وہ [[حدیث|حدیثیں]] شامل ہیں جن میں "امام" اور "امامٌ عَدلٌ تَقیٌ" جیسے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور کہا گیا ہے کہ نماز جمعہ کے سلسلے میں امام کی مخالفت ہلاکت اور تباہی کا موجب ہے یا پرہیزگار اور عادل امام کی موجودگی کے بغیر نماز جمعہ بپا کرنا، جائز نہیں ہے۔<ref>قاضی نعمان، دعائم الاسلام، ج1، ص234۔</ref><ref>نوری، مستدرک الوسائل، ج6، ص13ـ14۔</ref>  
نیز بعض علماء کا کہنا ہے کہ جن امور میں [[ولی فقیہ]] کو وسیع اختیارات (بَسطِ ید) کی ضرورت ہے جیسے نماز جمعہ کا قیام اور حکم [[جہاد]]، ان میں اس کو [[ائمہ|معصوم]] کی نیابت حاصل نہیں ہے۔<ref>منتظری، البدر الزاہر، ص57-58۔</ref> نماز جمعہ کی حرمت کے قائل افراد جن امور سے استناد کرتے ہیں، ان میں وہ [[حدیث|حدیثیں]] شامل ہیں جن میں "امام" اور "امامٌ عَدلٌ تَقیٌ" جیسے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور کہا گیا ہے کہ نماز جمعہ کے سلسلے میں امام کی مخالفت ہلاکت اور تباہی کا موجب ہے یا پرہیزگار اور عادل امام کی موجودگی کے بغیر نماز جمعہ بپا کرنا، جائز نہیں ہے۔<ref>قاضی نعمان، دعائم الاسلام، ج1، ص234۔</ref><ref>نوری، مستدرک الوسائل، ج6، ص13ـ14۔</ref>  


[[امام سجاد(ع)]] نے [[صحیفہ سجادیہ]] میں<ref>نوری، وہی ماخذ، ج6، ص474۔</ref> بھی امامتِ جمعہ کو اللہ کے برگزیدہ افراد کے لئے مخصوص قرار دیا ہے۔ بعض متاخر فقہاء نے ان احادیث میں بروئے کار آنے والی عبارات کا مصداق [[ائمہ|امام معصوم]] قرار نہیں دیا ہے؛ اور اس کے زیادہ عام مفہوم میں لیا ہے جس میں [[امام جماعت]] بھی شامل ہوتا ہے۔ ان کے خیال میں، ان [[احادیث]] میں نماز کے باجماعت انعقاد کی ضرورت پر زور دینا مقصود ہے۔<ref>بطور نمونہ: حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ج7، ص310۔</ref>
[[امام سجادؑ]] نے [[صحیفہ سجادیہ]] میں<ref>نوری، وہی ماخذ، ج6، ص474۔</ref> بھی امامتِ جمعہ کو اللہ کے برگزیدہ افراد کے لئے مخصوص قرار دیا ہے۔ بعض متاخر فقہاء نے ان احادیث میں بروئے کار آنے والی عبارات کا مصداق [[ائمہ|امام معصوم]] قرار نہیں دیا ہے؛ اور اس کے زیادہ عام مفہوم میں لیا ہے جس میں [[امام جماعت]] بھی شامل ہوتا ہے۔ ان کے خیال میں، ان [[احادیث]] میں نماز کے باجماعت انعقاد کی ضرورت پر زور دینا مقصود ہے۔<ref>بطور نمونہ: حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ج7، ص310۔</ref>


====وجوب عینی====
====وجوب عینی====
دوسری طرف سے، زیادہ تر متقدم فقہی مآخذ میں ـ جو قابل دسترس ہیں ـ بعض [[احادیث]] میں نماز جمعہ کے وجوب پر تاکید ہوئی ہے اور امام معصوم(ع) یا ان کے نائب کی امامت صراحت کے ساتھ شرط قرار نہیں پائی ہے۔<ref>برای نمونه کلینی، الکافی، ج3 ص418ـ419۔</ref><ref>ابن بابویہ، الامالی، ص573۔</ref> بایں حال، بعد کی صدیوں کے تقریبا تمام شیعہ فقہاء نے حاکمِ [[عدالت (فقہ)|عادل]]<ref>مفید، المقنعۃ، ص676۔</ref><ref>عَلَمُ الہُدیٰ، مسائل الناصریات، ص265۔</ref><ref>طوسی، المبسوط، ج1، ص143۔</ref> یا امام عادل کی موجودگی یا اجازت<ref>عَلَمُ الہُدیٰ، رسائل، ج1 ص272۔</ref><ref>عَلَمُ الہُدیٰ، وہی ماخذ، ج3، ص41۔</ref> کو نماز جمعہ کی برپائی کی شرطوں میں گردانا ہے۔ امام جمعہ کے لئے [[عدالت (فقہ)|عدالت]] کی شرط فقہائے شیعہ نے لازمی قرار دی ہے اور [[اہل سنت]] کے فقہاء اس کے قائل نہیں ہیں۔<ref>محقق حلی، المعتبر، ج2 ص279ـ280۔</ref> گوکہ نماز جمعہ کے واجب تعیینی<ref>واجب تعیینی، وہ واجب عمل ہے جو خود واجب ہوا ہے اور کوئی دوسرا عمل اس کی جگہ نہیں لے سکتا، جیسے [[یومیہ نمازیں]]، اس کے مقابلے میں واجب تخییری ہے جس میں مکلف کو اختیار ہے کہ ایک غلام آزاد کرے، 60 دن روزہ رکھے یا 60 افراد کو کھانا کھلائے۔[http://www.hawzah.net/fa/Book/View/45324/34500/%D9%88%D8%A7%D8%AC%D8%A8-%D8%AA%D8%B9%DB%8C%DB%8C%D9%86%DB%8C-%D9%88-%D8%AA%D8%AE%DB%8C%DB%8C%D8%B1%DB%8C واجب تعیینی و تخییری]۔</ref> ہونے کا نظریہ [[غیبت کبری]] کے آغاز ہی سے کم و بیش [[فقیہ|فقہاء]] کے ہاں زیر بحث رہا ہے۔<ref>رضا نژاد، صلاۃ الجمعہ، ص29ـ65۔</ref>  
دوسری طرف سے، زیادہ تر متقدم فقہی مآخذ میں ـ جو قابل دسترس ہیں ـ بعض [[احادیث]] میں نماز جمعہ کے وجوب پر تاکید ہوئی ہے اور امام معصومؑ یا ان کے نائب کی امامت صراحت کے ساتھ شرط قرار نہیں پائی ہے۔<ref>برای نمونه کلینی، الکافی، ج3 ص418ـ419۔</ref><ref>ابن بابویہ، الامالی، ص573۔</ref> بایں حال، بعد کی صدیوں کے تقریبا تمام شیعہ فقہاء نے حاکمِ [[عدالت (فقہ)|عادل]]<ref>مفید، المقنعۃ، ص676۔</ref><ref>عَلَمُ الہُدیٰ، مسائل الناصریات، ص265۔</ref><ref>طوسی، المبسوط، ج1، ص143۔</ref> یا امام عادل کی موجودگی یا اجازت<ref>عَلَمُ الہُدیٰ، رسائل، ج1 ص272۔</ref><ref>عَلَمُ الہُدیٰ، وہی ماخذ، ج3، ص41۔</ref> کو نماز جمعہ کی برپائی کی شرطوں میں گردانا ہے۔ امام جمعہ کے لئے [[عدالت (فقہ)|عدالت]] کی شرط فقہائے شیعہ نے لازمی قرار دی ہے اور [[اہل سنت]] کے فقہاء اس کے قائل نہیں ہیں۔<ref>محقق حلی، المعتبر، ج2 ص279ـ280۔</ref> گوکہ نماز جمعہ کے واجب تعیینی<ref>واجب تعیینی، وہ واجب عمل ہے جو خود واجب ہوا ہے اور کوئی دوسرا عمل اس کی جگہ نہیں لے سکتا، جیسے [[یومیہ نمازیں]]، اس کے مقابلے میں واجب تخییری ہے جس میں مکلف کو اختیار ہے کہ ایک غلام آزاد کرے، 60 دن روزہ رکھے یا 60 افراد کو کھانا کھلائے۔[http://www.hawzah.net/fa/Book/View/45324/34500/%D9%88%D8%A7%D8%AC%D8%A8-%D8%AA%D8%B9%DB%8C%DB%8C%D9%86%DB%8C-%D9%88-%D8%AA%D8%AE%DB%8C%DB%8C%D8%B1%DB%8C واجب تعیینی و تخییری]۔</ref> ہونے کا نظریہ [[غیبت کبری]] کے آغاز ہی سے کم و بیش [[فقیہ|فقہاء]] کے ہاں زیر بحث رہا ہے۔<ref>رضا نژاد، صلاۃ الجمعہ، ص29ـ65۔</ref>  
اور اس کے واجب تعیینی ہونے پر دسویں صدی ہجری میں [[شہید ثانی]] نے زیادہ سنجیدگی سے بحث کی۔<ref> شہید ثانی، الرسائل، ص197۔</ref> بعض فقہاء ـ منجملہ شہید ثانی کے نواسے اور [[مدارک الاحکام فی شرح شرائع الاسلام|مدارک الاحکام]] کے مصنف<ref>"جناب سید شمس الدین محمد بن علی بن حسین موسوی عاملی جبعی" المعمروف بہ [[صاحب مدارک]] ۔</ref> ـ نے ان کی پیروی کی<ref>الموسوي العاملي، مدارک الاحکام فی شرح شرائع الاسلام، ج4، ص25۔</ref> اور یہ نظریہ [[صفویہ|صفوی]] دور میں ـ بطور خاص اس زمانے کے سماجی اور سیاسی حالات کے پیش نظر ـ<ref>محمد مقیم یزدی، الحجۃ في وجوب صلاۃ الجمعۃ، ص53-54۔</ref> وسیع سطح پر رائج ہوا۔  
اور اس کے واجب تعیینی ہونے پر دسویں صدی ہجری میں [[شہید ثانی]] نے زیادہ سنجیدگی سے بحث کی۔<ref> شہید ثانی، الرسائل، ص197۔</ref> بعض فقہاء ـ منجملہ شہید ثانی کے نواسے اور [[مدارک الاحکام فی شرح شرائع الاسلام|مدارک الاحکام]] کے مصنف<ref>"جناب سید شمس الدین محمد بن علی بن حسین موسوی عاملی جبعی" المعمروف بہ [[صاحب مدارک]] ۔</ref> ـ نے ان کی پیروی کی<ref>الموسوي العاملي، مدارک الاحکام فی شرح شرائع الاسلام، ج4، ص25۔</ref> اور یہ نظریہ [[صفویہ|صفوی]] دور میں ـ بطور خاص اس زمانے کے سماجی اور سیاسی حالات کے پیش نظر ـ<ref>محمد مقیم یزدی، الحجۃ في وجوب صلاۃ الجمعۃ، ص53-54۔</ref> وسیع سطح پر رائج ہوا۔  


بعض فقہاء کی رائے کے مطابق، ہرگاہ ـ [[ائمہ|امام معصوم(ع)]] کے حضور کے زمانے میں ـ نماز جمعہ کے لئے حالات فراہم سازگار ہوجائیں اس کا قیام واجب ہے اور اس امر کے لئے امام معصوم(ع) کی طرف سے نصب عام یا خاص کی ضرورت نہیں ہے۔ نیز کہا گیا ہے کہ نماز جمعہ کا قیام، [[افتاء|فتوا دینے]] اور بحیثیت قاضی فیصلے کرنا، [[غیبت|عصر غیبت]] میں فقہاء کے اختیارات اور فرائص میں شامل ہے۔ [[غیبت کبری|عصر غیبت]] میں نماز جمعہ کے وجوب کے قائل فقہاء زیادہ تر [[اخباریت|اخباری]] رجحانات رکھتے ہیں، گوکہ [[شہید ثانی]] اور بعض دیگر نامور اصولیون بھی اس نظریئے کے تابع تھے۔<ref>اس نظریئے کے دیگر قائلین اور شہید ثانی کے تفصیلی دلائل کے لئے رجوع کریں: شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، ج1، ص299ـ301۔</ref><ref>فیض کاشانی، الشہاب الثاقب فی وجوب صلاۃ الجمعۃ العینی، ص47ـ102۔</ref><ref>آقا بزرگ طہرانی، الذریعۃ، ج15 ص63 67 73۔</ref><ref>جابری، صلاۃ الجمعۃ تاریخیاً وفقہیاً، ص54 - 55۔</ref>
بعض فقہاء کی رائے کے مطابق، ہرگاہ ـ [[ائمہ|امام معصومؑ]] کے حضور کے زمانے میں ـ نماز جمعہ کے لئے حالات فراہم سازگار ہوجائیں اس کا قیام واجب ہے اور اس امر کے لئے امام معصومؑ کی طرف سے نصب عام یا خاص کی ضرورت نہیں ہے۔ نیز کہا گیا ہے کہ نماز جمعہ کا قیام، [[افتاء|فتوا دینے]] اور بحیثیت قاضی فیصلے کرنا، [[غیبت|عصر غیبت]] میں فقہاء کے اختیارات اور فرائص میں شامل ہے۔ [[غیبت کبری|عصر غیبت]] میں نماز جمعہ کے وجوب کے قائل فقہاء زیادہ تر [[اخباریت|اخباری]] رجحانات رکھتے ہیں، گوکہ [[شہید ثانی]] اور بعض دیگر نامور اصولیون بھی اس نظریئے کے تابع تھے۔<ref>اس نظریئے کے دیگر قائلین اور شہید ثانی کے تفصیلی دلائل کے لئے رجوع کریں: شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، ج1، ص299ـ301۔</ref><ref>فیض کاشانی، الشہاب الثاقب فی وجوب صلاۃ الجمعۃ العینی، ص47ـ102۔</ref><ref>آقا بزرگ طہرانی، الذریعۃ، ج15 ص63 67 73۔</ref><ref>جابری، صلاۃ الجمعۃ تاریخیاً وفقہیاً، ص54 - 55۔</ref>


====وجوب تخییری====
====وجوب تخییری====
سطر 136: سطر 136:
عصر [[رسول اللہ|رسالت]] کے بعد بھی ـ تاریخی روایات کے مطابق ـ خلفائے راشدین کے نیز [[امیرالمؤمنین|امام علی]] (سنہ 35 تا 40ھ ق) اور [[امام حسن مجتبی علیہ السلام|امام حسن مجتبی]] (سنہ 40ھ ق) علیہما السلام کے زمانے میں رائج تھی۔<ref>طبری، تاريخ الرسل والملوک، ج3، ص447، 2740۔</ref><ref>ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ج13، ص251۔</ref><ref>ابن کثیر، البدایۃ والنہایۃ، ج4، جزء7، ص189۔</ref><ref>محمودی، نہج السعادۃ، ج1، ص427، 499۔</ref><ref>محمودی، وہی ماخذ، ج2، ص595، 714۔</ref><ref>محمودی، وہی ماخذ، ج3، ص153 و 605۔</ref>  
عصر [[رسول اللہ|رسالت]] کے بعد بھی ـ تاریخی روایات کے مطابق ـ خلفائے راشدین کے نیز [[امیرالمؤمنین|امام علی]] (سنہ 35 تا 40ھ ق) اور [[امام حسن مجتبی علیہ السلام|امام حسن مجتبی]] (سنہ 40ھ ق) علیہما السلام کے زمانے میں رائج تھی۔<ref>طبری، تاريخ الرسل والملوک، ج3، ص447، 2740۔</ref><ref>ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ج13، ص251۔</ref><ref>ابن کثیر، البدایۃ والنہایۃ، ج4، جزء7، ص189۔</ref><ref>محمودی، نہج السعادۃ، ج1، ص427، 499۔</ref><ref>محمودی، وہی ماخذ، ج2، ص595، 714۔</ref><ref>محمودی، وہی ماخذ، ج3، ص153 و 605۔</ref>  


بعض شیعہ روایات ـ جیسے [[رسول اکرم(ص)]] کا [[خطبہ شعبانیہ]] اور [[نہج البلاغہ]] میں [[امیرالمؤمنین|امام علی(ع)]] کے بعض خطباب، ان نمازوں کی یادگاریں ہیں۔  
بعض شیعہ روایات ـ جیسے [[رسول اکرم(ص)]] کا [[خطبہ شعبانیہ]] اور [[نہج البلاغہ]] میں [[امیرالمؤمنین|امام علیؑ]] کے بعض خطباب، ان نمازوں کی یادگاریں ہیں۔  


[[بنو امیہ|اموی]] (سنہ 41 تا 132ھ ق) اور [[بنو عباس|عباسیان]] (سنہ 132 تا 656ھ ق) کے ادوار میں میں بھی خلفا اور ان کے والی اور عوامل نماز جمعہ کا انعقاد کرتے تھے جو [[خلیفہ]] وقت کے نام خطبہ پڑھ کر یا اس کے لئے [[دعا]] کرکے اس کا ساتھ دیا کرتے تھے۔<ref>یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج2، ص285، 365۔</ref><ref>طبری، تاریخ الرسل والملوک، ج8، ص570، 579، 594۔</ref><ref>طبری، وہی ماخذ، ج9، ص222۔</ref>
[[بنو امیہ|اموی]] (سنہ 41 تا 132ھ ق) اور [[بنو عباس|عباسیان]] (سنہ 132 تا 656ھ ق) کے ادوار میں میں بھی خلفا اور ان کے والی اور عوامل نماز جمعہ کا انعقاد کرتے تھے جو [[خلیفہ]] وقت کے نام خطبہ پڑھ کر یا اس کے لئے [[دعا]] کرکے اس کا ساتھ دیا کرتے تھے۔<ref>یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج2، ص285، 365۔</ref><ref>طبری، تاریخ الرسل والملوک، ج8، ص570، 579، 594۔</ref><ref>طبری، وہی ماخذ، ج9، ص222۔</ref>
سطر 161: سطر 161:
:نماز جمعہ کو، شاہ اسمعیل اول صفوی (حکومت از سنہ905 تا 930ھ ق) کے زمانے سے، رفتہ رفتہ [[ایران]] کے [[شیعہ]] معاشرے میں، فروغ ملا۔ اس امر کا سبب یہ تھا کہ ایک طرف سے [[حکومت عثمانیہ]] کی طرف سے اہل تشیع پر یہ اعتراض تھا کہ وہ نماز جمعہ منعقد نہیں کرتے اور  دوسری طرف سے [[محقق کرکی|محقق کَرَکی]] (متوفی سنہ 940ھ ق) سمیت شیعہ علماء کی کوشش تھی ایران میں نماز جمعہ کو رواج ملے۔<ref>منتظری، البدر الزاہر، ص7۔</ref><ref>جعفریان، نماز جمعہ: زمینہ ہای تاریخی، ص26ـ27۔</ref> اس کے باوجود کہ، بہت سے [[فقیہ|فقہاء]] ـ منجملہ علمائے جبل عامل ـ محقق کرکی کی حمایت کررہے تھے اور صفوی حکومت بھی ان کی پشت پناہی کررہی تھی، لیکن چونکہ نماز جمعہ اہل تشیع کے درمیان وسیع سطح پر رائج نہ تھی، اور متعدد علماء بھی اس کی سختی سے مخالفت کررہے تھے،<ref>منجملہ: شیخ ابراہیم القطیفی (متوفی تقریبا 950ھ ق)۔</ref> لہذا ایران کے شیعہ معاشرے میں اس کو رسمی حیثیت تدریجا میسر ہوئی۔<ref>جابری، صلاۃ الجمعۃ تاریخیاً وفقہیاً، ص50ـ54۔</ref><ref>جعفریان، نماز جمعہ: زمینہ ہای تاریخی، ص28۔</ref>  
:نماز جمعہ کو، شاہ اسمعیل اول صفوی (حکومت از سنہ905 تا 930ھ ق) کے زمانے سے، رفتہ رفتہ [[ایران]] کے [[شیعہ]] معاشرے میں، فروغ ملا۔ اس امر کا سبب یہ تھا کہ ایک طرف سے [[حکومت عثمانیہ]] کی طرف سے اہل تشیع پر یہ اعتراض تھا کہ وہ نماز جمعہ منعقد نہیں کرتے اور  دوسری طرف سے [[محقق کرکی|محقق کَرَکی]] (متوفی سنہ 940ھ ق) سمیت شیعہ علماء کی کوشش تھی ایران میں نماز جمعہ کو رواج ملے۔<ref>منتظری، البدر الزاہر، ص7۔</ref><ref>جعفریان، نماز جمعہ: زمینہ ہای تاریخی، ص26ـ27۔</ref> اس کے باوجود کہ، بہت سے [[فقیہ|فقہاء]] ـ منجملہ علمائے جبل عامل ـ محقق کرکی کی حمایت کررہے تھے اور صفوی حکومت بھی ان کی پشت پناہی کررہی تھی، لیکن چونکہ نماز جمعہ اہل تشیع کے درمیان وسیع سطح پر رائج نہ تھی، اور متعدد علماء بھی اس کی سختی سے مخالفت کررہے تھے،<ref>منجملہ: شیخ ابراہیم القطیفی (متوفی تقریبا 950ھ ق)۔</ref> لہذا ایران کے شیعہ معاشرے میں اس کو رسمی حیثیت تدریجا میسر ہوئی۔<ref>جابری، صلاۃ الجمعۃ تاریخیاً وفقہیاً، ص50ـ54۔</ref><ref>جعفریان، نماز جمعہ: زمینہ ہای تاریخی، ص28۔</ref>  


:[[غیبت امام زمانہ(عج)|غیبتِ]] [[ائمہ|امام معصوم(ع)]] میں نماز جمعہ کے [شرعی] حکم اور [[وجوب]] یا [[حرمت]] کے سلسلے میں بحث و نزاع کا سلسلہ شاہ سلیمان اول صفوی (حکومت از سنہ 1077 یا 1078 تا 1105ھ ق) اس حد تک پہنچا کہ انھوں نے فقہاء کی ایک مجلس ترتیب دی اور اپنے وزیر اعظم کو اس مجلس میں روانہ کیا تا کہ وہ نماز جمعہ کے حکم کے سلسلے میں مشترکہ نتیجے تک پہنچیں۔<ref>قزوینی، تتمیم امل الآمل، ص172ـ173۔</ref>
:[[غیبت امام زمانہ(عج)|غیبتِ]] [[ائمہ|امام معصومؑ]] میں نماز جمعہ کے [شرعی] حکم اور [[وجوب]] یا [[حرمت]] کے سلسلے میں بحث و نزاع کا سلسلہ شاہ سلیمان اول صفوی (حکومت از سنہ 1077 یا 1078 تا 1105ھ ق) اس حد تک پہنچا کہ انھوں نے فقہاء کی ایک مجلس ترتیب دی اور اپنے وزیر اعظم کو اس مجلس میں روانہ کیا تا کہ وہ نماز جمعہ کے حکم کے سلسلے میں مشترکہ نتیجے تک پہنچیں۔<ref>قزوینی، تتمیم امل الآمل، ص172ـ173۔</ref>


:شاہ طہماسب اول (حکومت از سنہ 930 تا 984ھ ق) نے [[محقق کرکی]] کے مشورے سے ہر شہر کے لئے امام جمعہ مقرر کیا۔<ref>آقا بزرگ طہرانی، طبقات اعلام الشیعہ، قسم1، ص176۔</ref><ref>جابری، صلاۃ الجمعۃ تاریخیاً وفقہیاً، ص50ـ51۔</ref>  
:شاہ طہماسب اول (حکومت از سنہ 930 تا 984ھ ق) نے [[محقق کرکی]] کے مشورے سے ہر شہر کے لئے امام جمعہ مقرر کیا۔<ref>آقا بزرگ طہرانی، طبقات اعلام الشیعہ، قسم1، ص176۔</ref><ref>جابری، صلاۃ الجمعۃ تاریخیاً وفقہیاً، ص50ـ51۔</ref>  
سطر 183: سطر 183:
:'''پہلوی دور'''
:'''پہلوی دور'''


:پہلوی دور (سنہ 1299 تا 1357ھ ش / 1339 تا 1399ھ ق / 1921 تا 1979ع‍) میں ائمۂ جمعہ ـ بطور خاص تہران جیسے شہروں میں ـ حکومت کے ساتھ باضابطہ تعلق کی بنا پر، مقبولیت عامہ سے محروم تھے اور نماز جمعہ کو کچھ زیادہ رونق حاصل نہیں تھی۔<ref>محمد یزدی، "وظایف روحانیت" در "نقش روحانیت در نظام اسلامی"، ص84۔</ref> یہ امر قابل ذکر ہے کہ بعض علماء نماز جمعہ کے [[واجب تخییری|وجوب تخییری]] یا [[واجب تعیینی|تعیینی]] ہونے پر صادرہ فتاوی کے تحت، نماز جمعہ قائم کرتے تھے اور چونکہ ان کی نماز کا حکومت سے تعلق نہیں تھا، لہذا اس کو عوامی مقبولیت حاصل رہی۔<ref>بطور نمونہ رجوع کریں: کشوری، فرزانگان خوانسار، ص133۔</ref> ان نمازوں میں ایک آیت اللہ [[محمد علی اراکی]] کی نماز تھی جو سنہ 1336 ہجری شمسی سے [[اسلامی انقلاب]] کی کامیابی تک [[قم]] کی [[مسجد امام حسن عسکری(ع)]] میں بپا ہوتی رہی۔ آیت اللہ [[سید محمد تقی غضنفری]] نے بھی سنہ 1310ھ ق سے لے کر سنہ 1350ھ ق میں اپنی وفات تک، شہر [[خوانسار]] میں، نماز جمعہ بپا کرتے رہے ہیں۔
:پہلوی دور (سنہ 1299 تا 1357ھ ش / 1339 تا 1399ھ ق / 1921 تا 1979ع‍) میں ائمۂ جمعہ ـ بطور خاص تہران جیسے شہروں میں ـ حکومت کے ساتھ باضابطہ تعلق کی بنا پر، مقبولیت عامہ سے محروم تھے اور نماز جمعہ کو کچھ زیادہ رونق حاصل نہیں تھی۔<ref>محمد یزدی، "وظایف روحانیت" در "نقش روحانیت در نظام اسلامی"، ص84۔</ref> یہ امر قابل ذکر ہے کہ بعض علماء نماز جمعہ کے [[واجب تخییری|وجوب تخییری]] یا [[واجب تعیینی|تعیینی]] ہونے پر صادرہ فتاوی کے تحت، نماز جمعہ قائم کرتے تھے اور چونکہ ان کی نماز کا حکومت سے تعلق نہیں تھا، لہذا اس کو عوامی مقبولیت حاصل رہی۔<ref>بطور نمونہ رجوع کریں: کشوری، فرزانگان خوانسار، ص133۔</ref> ان نمازوں میں ایک آیت اللہ [[محمد علی اراکی]] کی نماز تھی جو سنہ 1336 ہجری شمسی سے [[اسلامی انقلاب]] کی کامیابی تک [[قم]] کی [[مسجد امام حسن عسکریؑ]] میں بپا ہوتی رہی۔ آیت اللہ [[سید محمد تقی غضنفری]] نے بھی سنہ 1310ھ ق سے لے کر سنہ 1350ھ ق میں اپنی وفات تک، شہر [[خوانسار]] میں، نماز جمعہ بپا کرتے رہے ہیں۔
[[Image:اولین نماز جمعه آیت الله خامنه‌ای.jpg|thumbnail|300px|<center> تہران کے جامعۂ تہران میں آیت اللہ خامنہ ای کی پہلی نماز جمعہ]]</center>
[[Image:اولین نماز جمعه آیت الله خامنه‌ای.jpg|thumbnail|300px|<center> تہران کے جامعۂ تہران میں آیت اللہ خامنہ ای کی پہلی نماز جمعہ]]</center>


سطر 219: سطر 219:
خطیب جمعہ کو [[امام جماعت]] کی تمام شروط پر پورا اترنے کے علاوہ<ref>بنی ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، ج1، ص872-873۔</ref> دوسری کئی خصوصیات کا حامل ہونا چاہئے؛ منجملہ یہ کہ اونچی آواز کا مالک ہو، شجاع ہو، حقائق کے بیان میں کھرا، صاف گو اور بےجھجھک ہو، اور اسلام و مسلمین کی مصلحتوں سے آگاہ ہو۔ نیز بہتر ہے کہ امام جمعہ عادل ترین اور شریف ترین افراد میں سے منتخب کیا جائے۔<ref>ابن عطار، ادب الخطیب، ص89- 96۔</ref><ref>امام خمینی، تحریرالوسیلۃ، ج1 ص209۔</ref><ref>بنی ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، ج1، ص879-880۔</ref>
خطیب جمعہ کو [[امام جماعت]] کی تمام شروط پر پورا اترنے کے علاوہ<ref>بنی ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، ج1، ص872-873۔</ref> دوسری کئی خصوصیات کا حامل ہونا چاہئے؛ منجملہ یہ کہ اونچی آواز کا مالک ہو، شجاع ہو، حقائق کے بیان میں کھرا، صاف گو اور بےجھجھک ہو، اور اسلام و مسلمین کی مصلحتوں سے آگاہ ہو۔ نیز بہتر ہے کہ امام جمعہ عادل ترین اور شریف ترین افراد میں سے منتخب کیا جائے۔<ref>ابن عطار، ادب الخطیب، ص89- 96۔</ref><ref>امام خمینی، تحریرالوسیلۃ، ج1 ص209۔</ref><ref>بنی ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، ج1، ص879-880۔</ref>


:<font color = purple>{{عربی|[[امام رضا(ع)]] فرماتے ہیں: [[خطبہ]] اس لئے روز جمعہ کے لئے وضع ہوا ہے کہ خداوند متعال مسلمانوں کے حاکم کو موع فراہم کرتا ہے کہ لوگوں کو موعظہ کرے اور انہیں خدا کی اطاعت کی رغبت دلائے، [[گناہ|اللہ کی نافرمانی]] سے خوفزدہ کرائے، اور انہیں ان کے [[دین]] اور دنیا کی مصلحتوں سے آگاہ کردے، اور دنیا بھر سے اس کو ملنے والی اہم خبروں اور واقعات ـ جو عوام کے مقدرات کے لئے اہمیت رکھتے ہیں ـ کو ان تک پہنچا دے۔ دو [[خطبہ|خطبے]] قرار دیئے گئے ہیں تا کہ ایک [[خطبہ|خطبے]] میں اللہ کی حمد و تقدیس کا اہتمام ہو اور دوسرے میں ضروریات سے آگاہ کیا جائے، بعض مسائل کے سلسلے میں ہوشیار اور خبردار کیا جائے، دعاؤں کا اہتمام کیا جائے، اور ان اوامر اور احکام کو ـ جو اسلامی معاشرے کی صلاح یا فساد سے تعلق رکھتے ہیں ـ ان تک پہنچا دے۔<ref>حر عاملی، وسائل الشیعہ، ج7 ص344۔</ref>}}</font>
:<font color = purple>{{عربی|[[امام رضاؑ]] فرماتے ہیں: [[خطبہ]] اس لئے روز جمعہ کے لئے وضع ہوا ہے کہ خداوند متعال مسلمانوں کے حاکم کو موع فراہم کرتا ہے کہ لوگوں کو موعظہ کرے اور انہیں خدا کی اطاعت کی رغبت دلائے، [[گناہ|اللہ کی نافرمانی]] سے خوفزدہ کرائے، اور انہیں ان کے [[دین]] اور دنیا کی مصلحتوں سے آگاہ کردے، اور دنیا بھر سے اس کو ملنے والی اہم خبروں اور واقعات ـ جو عوام کے مقدرات کے لئے اہمیت رکھتے ہیں ـ کو ان تک پہنچا دے۔ دو [[خطبہ|خطبے]] قرار دیئے گئے ہیں تا کہ ایک [[خطبہ|خطبے]] میں اللہ کی حمد و تقدیس کا اہتمام ہو اور دوسرے میں ضروریات سے آگاہ کیا جائے، بعض مسائل کے سلسلے میں ہوشیار اور خبردار کیا جائے، دعاؤں کا اہتمام کیا جائے، اور ان اوامر اور احکام کو ـ جو اسلامی معاشرے کی صلاح یا فساد سے تعلق رکھتے ہیں ـ ان تک پہنچا دے۔<ref>حر عاملی، وسائل الشیعہ، ج7 ص344۔</ref>}}</font>


:'''خطبات کا وقت اور مضامین'''
:'''خطبات کا وقت اور مضامین'''
سطر 230: سطر 230:
نمازیوں کو ہر وہ عمل ترک کردینا چاہئے جو انہیں [[خطبہ|خطبوں]] کی سماعت سے باز رکھتے ہوں؛ جیسے بولنا یا نماز پڑھنا وغیرہ۔<ref>سرخسی، کتاب المبسوط، ج2، ص29ـ30۔</ref><ref>ابن ادریس، السرائر، ج1، ص291، 295۔</ref><ref>نووی، روضۃ الطالبین، ج1، ص573۔</ref><ref>خوئی، منہاج الصالحین، ج1، ص187۔</ref><ref>بنی ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، ج1، ص888، 892۔</ref>
نمازیوں کو ہر وہ عمل ترک کردینا چاہئے جو انہیں [[خطبہ|خطبوں]] کی سماعت سے باز رکھتے ہوں؛ جیسے بولنا یا نماز پڑھنا وغیرہ۔<ref>سرخسی، کتاب المبسوط، ج2، ص29ـ30۔</ref><ref>ابن ادریس، السرائر، ج1، ص291، 295۔</ref><ref>نووی، روضۃ الطالبین، ج1، ص573۔</ref><ref>خوئی، منہاج الصالحین، ج1، ص187۔</ref><ref>بنی ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، ج1، ص888، 892۔</ref>


:<font color = blue>{{عربی|[[امیرالمؤمنین|امیرالمؤمنین علی(ع)]] فرماتے ہیں: نماز جمعہ میں شرکت کرنے والوں کی تین قسمیں ہیں: وہ لوگ جو امام سے پہلے نماز میں حاضر ہوتے ہیں، اور خاموش رہ کر [[خطبہ|خطبے]] سنتے ہیں، ان لوگوں کی نماز جمعہ میں شرکت ان کے 10 دنوں کے [[:زمرہ:گناہ|گناہوں]] کا [[کفارہ]] ہے۔ بعض وہ لوگ ہیں جو نماز جمعہ میں شرکت کرتے ہیں لیکن بات چیت اور ہلنے جلنے میں مصروف رہتے ہیں۔ ان کو نماز جمعہ سے ملنے والا صلہ "دوستوں کے ساتھ گفتگو اور ان کے ساتھ مل بیٹھنا" ہے۔ تیسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو امام [[خطبہ]] دینا شروع کرتا ہے تو وہ نماز میں مصروف ہوجاتے ہیں، وہ بھی سنت کے خلاف عمل کرتے ہیں؛ یہ وہ لوگ ہیں جو اگر خدا سے کچھ مانگیں تو اللہ چاہے انہیں عطا کرتا ہے، چاہے تو انہیں محروم کردیتا ہے۔<ref>مجلسی، بحار الانوار، ج86 ص198۔</ref>}}</font>
:<font color = blue>{{عربی|[[امیرالمؤمنین|امیرالمؤمنین علیؑ]] فرماتے ہیں: نماز جمعہ میں شرکت کرنے والوں کی تین قسمیں ہیں: وہ لوگ جو امام سے پہلے نماز میں حاضر ہوتے ہیں، اور خاموش رہ کر [[خطبہ|خطبے]] سنتے ہیں، ان لوگوں کی نماز جمعہ میں شرکت ان کے 10 دنوں کے [[:زمرہ:گناہ|گناہوں]] کا [[کفارہ]] ہے۔ بعض وہ لوگ ہیں جو نماز جمعہ میں شرکت کرتے ہیں لیکن بات چیت اور ہلنے جلنے میں مصروف رہتے ہیں۔ ان کو نماز جمعہ سے ملنے والا صلہ "دوستوں کے ساتھ گفتگو اور ان کے ساتھ مل بیٹھنا" ہے۔ تیسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو امام [[خطبہ]] دینا شروع کرتا ہے تو وہ نماز میں مصروف ہوجاتے ہیں، وہ بھی سنت کے خلاف عمل کرتے ہیں؛ یہ وہ لوگ ہیں جو اگر خدا سے کچھ مانگیں تو اللہ چاہے انہیں عطا کرتا ہے، چاہے تو انہیں محروم کردیتا ہے۔<ref>مجلسی، بحار الانوار، ج86 ص198۔</ref>}}</font>


===دو رکعت نماز===
===دو رکعت نماز===
سطر 374: سطر 374:
* نووی، یحیی بن شرف، المجموع : شرح المہذّب، بیروت، دارالفکر۔
* نووی، یحیی بن شرف، المجموع : شرح المہذّب، بیروت، دارالفکر۔
* یحیی بن شرف نووی روضۃ الطالبین و عمدۃ المفتین چاپ عادل احمد عبدالموجود و علی محمد معوض بیروت۔
* یحیی بن شرف نووی روضۃ الطالبین و عمدۃ المفتین چاپ عادل احمد عبدالموجود و علی محمد معوض بیروت۔
* مقيم يزدي، محمد، الحجۃ في وجوب صلاۃ الجمعۃ في زمن الغيبۃ، تحقیق: جواد المدرسی، ناشر، موسسہ تحقيقات و نشر معارف اہل البيت (ع)، 1304ھ ق۔
* مقيم يزدي، محمد، الحجۃ في وجوب صلاۃ الجمعۃ في زمن الغيبۃ، تحقیق: جواد المدرسی، ناشر، موسسہ تحقيقات و نشر معارف اہل البيت ؑ، 1304ھ ق۔
* یزدی، محمد، «وظایف روحانیت» در نقش روحانیت در نظام اسلامی، تہران، شورای سیاستگذاری ائمہ جمعہ، 1375ھ ش۔
* یزدی، محمد، «وظایف روحانیت» در نقش روحانیت در نظام اسلامی، تہران، شورای سیاستگذاری ائمہ جمعہ، 1375ھ ش۔
* بحرانی، یوسف بن احمد، لؤلؤۃ البحرین، چاپ محمدصادق بحرالعلوم قم۔
* بحرانی، یوسف بن احمد، لؤلؤۃ البحرین، چاپ محمدصادق بحرالعلوم قم۔
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,894

ترامیم