مندرجات کا رخ کریں

"جنگ جمل" کے نسخوں کے درمیان فرق

580 بائٹ کا اضافہ ،  24 جون 2016ء
م
سطر 63: سطر 63:
#[[امیرالمؤمنین(ع)]] حضرت علی(ع) کی جانب سے [[ناکثین]] کی جو سرزنش کی گئی ہے اس میں اکثر [[طلحہ]] اور [[زبیر]] آپ کا مخاطب تھا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ(ع) اس جنگ کے مسبب اصلی کو طلحہ اور زبیر قرار دیتے تھے اور اس جنگ میں [[عایشہ]] ایک ضمنی کرار ادا کر رہی تھی دوسرے لفظوں میں طلحہ اور زبیر کی طرف سے ان کو غلط پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کی جارہی تھی۔
#[[امیرالمؤمنین(ع)]] حضرت علی(ع) کی جانب سے [[ناکثین]] کی جو سرزنش کی گئی ہے اس میں اکثر [[طلحہ]] اور [[زبیر]] آپ کا مخاطب تھا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ(ع) اس جنگ کے مسبب اصلی کو طلحہ اور زبیر قرار دیتے تھے اور اس جنگ میں [[عایشہ]] ایک ضمنی کرار ادا کر رہی تھی دوسرے لفظوں میں طلحہ اور زبیر کی طرف سے ان کو غلط پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کی جارہی تھی۔
# [[اصحاب جمل]] نے جنتے دلائل ذکر کئے ہیں ان میں سے ایک کی بھی کوئی عقلی توجیہ نہیں ہے۔ کیونکہ سب جانتے ہیں کہ [[عثمان]] کے خون کا بدلہ صرف اور صرف ایک بہانے سے زیادہ نہیں تھا۔ کیونکہ جب تک عثمان زندہ تھا خود [[عایشہ]] کے ان سے اچھے تعلقات قائم نہیں تھے۔ کہا جاتا ہے کہ عایشہ [[پیغمبر اکرم(ص)]] کا کرتا عثمان کے ہاں لے جاکر بطور احتجاج کہتی تھی: ابھی تک رسول خدا(ص) کے [[کفن]] کی رطوبت بھی خشک نہیں ہوا ہے جبکہ تم ان کے لائے ہوئے [[احکام]] میں اس طرح سے تغییر ایجاد کر رہے ہو اور ان میں [[تحریف]] کر رہے ہو۔<ref>ابن ابی الحدید، ج ۶، ص ۲۱۵</ref>
# [[اصحاب جمل]] نے جنتے دلائل ذکر کئے ہیں ان میں سے ایک کی بھی کوئی عقلی توجیہ نہیں ہے۔ کیونکہ سب جانتے ہیں کہ [[عثمان]] کے خون کا بدلہ صرف اور صرف ایک بہانے سے زیادہ نہیں تھا۔ کیونکہ جب تک عثمان زندہ تھا خود [[عایشہ]] کے ان سے اچھے تعلقات قائم نہیں تھے۔ کہا جاتا ہے کہ عایشہ [[پیغمبر اکرم(ص)]] کا کرتا عثمان کے ہاں لے جاکر بطور احتجاج کہتی تھی: ابھی تک رسول خدا(ص) کے [[کفن]] کی رطوبت بھی خشک نہیں ہوا ہے جبکہ تم ان کے لائے ہوئے [[احکام]] میں اس طرح سے تغییر ایجاد کر رہے ہو اور ان میں [[تحریف]] کر رہے ہو۔<ref>ابن ابی الحدید، ج ۶، ص ۲۱۵</ref>
<!--
===دیدگاه معتزله===
برخی از علمای [[معتزله]] معتقدند که عایشه و یارانش قصد [[امر به معروف]] و [[نهی از منکر]] داشته‌اند.<ref>مفید، ص ۶۴</ref>


در عین حال، [[ابن ابی الحدید]] معتزلی درباره برپاکنندگان جنگ جمل می‌گوید: همه اینها از نظر یاران معتزلی ما، نابودند بجز [[عایشه]] و [[طلحه]] و [[زبیر]]؛ زیرا این سه [[توبه]] کردند و بدون توبه، حکم اینها نیز بخاطر اصرارشان بر [[بغی]]، [[دوزخ]] است.<ref>ابن ابی الحدید، عبدالحمید، شرح نهج البلاغة، به کوشش محمدابوالفضل ابراهیم‌، قاهره‌، ۱۳۷۸-۱۳۸۴ق‌/۱۹۵۹-۱۹۶۴م‌، ج ۱، ص ۹.</ref>
===معتزلہ کی نگاہ میں===
[[معتزلہ]] کے بعض علماء معتقد ہیں کہ عایشہ اور اس کے ہمراہان [[امر بالمعروف]] اور [[نہی عن المنکر]] کا ارادہ رکھتے تھے۔<ref>مفید، ص ۶۴</ref>


== پیمان‌شکنی طلحه و زبیر ==
حالنکہ [[ابن ابی الحدید]] جو خود بھی [[معتزلہ]] مذہب کے پیروکار ہیں [[جنگ جمل]] کے مسببین  کے بارے میں کہتے ہیں: ہم معتزلیوں کی نگاہ میں یہ سب کے سب [[ظلم]] پر اصرار کرنے کی وجہ سے دوزخی ہیں سوائے [[عایشہ]]، [[طلحہ]] اور [[زبیر]] کے کیونکہ ان تینوں نے توبہ کی تھی اور توبہ کے بغیر ان تینوں کا حشر بھی یہی ہے۔<ref>ابن ابی الحدید، عبدالحمید، شرح نہج البلاغۃ، بہ کوشش محمدابوالفضل ابراہیم‌، قاہرہ، ۱۳۷۸-۱۳۸۴ق‌/۱۹۵۹-۱۹۶۴م‌، ج ۱، ص ۹.</ref>
[[امام علی(ع)]] در [[ذیحجه]] [[سال ۳۵ هجری قمری]]، در پی اصرار و اتفاق‌نظر مردم [[مدینه]] از [[مهاجران]] و [[انصار]]، و به‌رغم میل باطنی خود، زمام [[خلافت]] را به دست گرفت‌. طلحه و زبیر که نخست چشم به خلافت دوخته بودند<ref>نهج‌البلاغه‌، خطبه۱۴۸ ؛ طبری‌، ج‌۴، ص‌۴۵۳، ‌۴۵۵</ref> وقتی موفق نشدند و خلافت به امام علی‌(ع) رسید، انتظار داشتند که با حضرت در خلافت شریک شوند یا دست‌کم به فرمانروایی ولایات برسند.


آن دو از امام علی(ع) خواستند که امارت [[بصره]] و [[کوفه]] (یا [[عراق]] و [[یمن]]) را به آنان دهد، ولی امام‌(ع) آنان را شایسته این کار ندانست‌.<ref> ابن قتیبه‌، ج‌۱، ص‌۵۱۵۲ ؛ طبری‌، ج‌۴، ص‌۴۲۹، ۴۳۸</ref>
== طلحہ اور زبیر کی پیمان‌شکنی ==
[[امام علی(ع)]] نے [[ذوالحجہ]] [[سنہ 35 ہجری قمری]] کو [[مدینہ]] کے [[مہاجرین]] اور [[انصار]] کے اصرار پر اپنی باطنی رغبت کے نہ ہوتے ہوئے زمام [[خلافت]] کی بھاگ دوڑ سنبھالی۔ [[طلحہ]] اور [[زبیر]] جو ابتداء میں خلافت پر نظریں جمائے ہوئے تھے؛<ref>نہج‌البلاغہ، خطبہ۱۴۸ ؛ طبری‌، ج‌۴، ص‌۴۵۳، ‌۴۵۵</ref> جب کامیاب نہ ہوئے اور خلافت امام علی‌(ع) تک پہنچی تو اس امید میں تھے کہ آپ(ع) خلافت کے امور میں انہیں بھی شریک کریں گے اور کم از کم کسی صوبے کی گورنری انہیں بھی ملے گی۔


چهار ماه پس از به‌خلافت رسیدن علی‌(ع)، طلحه و زبیر که دریافتند با خلافت امام علی‌(ع)، مردم از ایشان رویگردان شده‌اند و دیگر جایی در [[مدینه]] ندارند، از امام اجازه خواستند که برای انجام [[عمره]] به [[مکه]] روند. با این حال‌، امام فرمود که آنان به عمره نمی‌روند، بلکه قصد نیرنگ دارند.<ref> بلاذری‌، ج‌۲، ص‌۱۵۸ ؛ طبری‌، ج‌۴، ص‌۴۲۹ ؛ مفید، ج۱، ص۲۲۶</ref>
اپنے اسی خام خیالی کو عملی جامہ پہنانے کیلئے انہوں نے حضرت علی(ع) سے [[بصرہ]] اور [[کوفہ]] (یا [[عراق]] اور [[یمن]]) ان کے سپرد کرنے کو کہا لیکن امام‌(ع) انہیں اس کام کیلئے شایستہ نہیں سمجھتے تھے۔<ref> ابن قتیبہ، ج‌۱، ص‌۵۱۵۲ ؛ طبری‌، ج‌۴، ص‌۴۲۹، ۴۳۸</ref>


[[طلحه]] و [[زبیر]]، برای توجیه پیمان‌شکنی خویش‌، مدعی شدند که از ترس و با اکراه بیعت کرده‌اند و لذا تعهدی در فرمانبرداری از امیرمؤمنان‌(ع) ندارند.<ref> بلاذری‌، ج‌۲، ص‌۱۵۸ ؛ طبری‌، ج‌۴، ص۴۳۵</ref>
امام علی‌(ع) کی خلافت کے چار ماہ گزرنے کے بعد جب طلحہ اور زبیر اس نتیجے پر پہنچے کہ امام علی‌(ع) کی خلافت اور طرز حکمرانی کی وجہ سے لوگ ان دونوں سے دور ہوگئے ہیں اور اب [[مدینہ]] میں ان کیلئے کوئی مقام نہیں ہے تو انہوں نے امام(ع) سے [[عمرہ]] کیلئے [[مکہ]] جانے کی اجازت مانگ لی۔ اس وقت امام سمجھ گئے تھے کہ یہ دونوں عمرہ کیلئے نہیں بلکہ بغاوت اور بیعت شکنی کیلئے جا رہے ہیں۔ <ref> بلاذری‌، ج‌۲، ص‌۱۵۸ ؛ طبری‌، ج‌۴، ص‌۴۲۹ ؛ مفید، ج۱، ص۲۲۶</ref>


[[طلحہ]] اور [[زبیر]] نے اپنی پیمان‌شکنی کی توجیہ کیلئے یہ ادعا کیا کہ انہوں نے خوف اور اکراہ کی وجہ سے بیعت کیا تھا اور دل سے بیعت نہیں کی تھی لہذا حضرت علی(ع) کی اطاعت میں باقی رہنا کوئی ضروری نہیں ہے۔<ref> بلاذری‌، ج‌۲، ص‌۱۵۸ ؛ طبری‌، ج‌۴، ص۴۳۵</ref>
<!--
==هم‌پیمانی ناکثین با عایشه ==
==هم‌پیمانی ناکثین با عایشه ==
{{جعبه نقل قول| عنوان = سخن امام(ع) در توصیف طلحه و زبیر| نقل‌قول = هر یک از دو تن کار را برای خود امید می‌دارد، دیده بدان دوخته و رفیقش را به حساب نمی‌آرد. نه پیوندی با خدا دارند، و نه با وسیلتی روی بدو می‌آرند. هر یک کینهء دیگری را در دل دارد، و زودا که پرده از آن بردارد. به خدا اگر بدانچه می‌خواهند برسند، این جان آن را از تن برون سازد، و آن این را از پا در اندازد.|تاریخ بایگانی| منبع = <small>[[نهج البلاغه]]، ترجمه [[سیدجعفر شهیدی|شهیدی]]، خطبه ۱۴۸.</small>| تراز = چپ| عرض = ۲۳۰px| اندازه خط = ۱۴px|رنگ پس‌زمینه =#ffeebb| گیومه نقل‌قول =| تراز منبع = چپ}}
{{جعبه نقل قول| عنوان = سخن امام(ع) در توصیف طلحه و زبیر| نقل‌قول = هر یک از دو تن کار را برای خود امید می‌دارد، دیده بدان دوخته و رفیقش را به حساب نمی‌آرد. نه پیوندی با خدا دارند، و نه با وسیلتی روی بدو می‌آرند. هر یک کینهء دیگری را در دل دارد، و زودا که پرده از آن بردارد. به خدا اگر بدانچه می‌خواهند برسند، این جان آن را از تن برون سازد، و آن این را از پا در اندازد.|تاریخ بایگانی| منبع = <small>[[نهج البلاغه]]، ترجمه [[سیدجعفر شهیدی|شهیدی]]، خطبه ۱۴۸.</small>| تراز = چپ| عرض = ۲۳۰px| اندازه خط = ۱۴px|رنگ پس‌زمینه =#ffeebb| گیومه نقل‌قول =| تراز منبع = چپ}}
confirmed، templateeditor
8,796

ترامیم