confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,869
ترامیم
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (اضافہ نمودن اشعار ام البنین) |
||
سطر 62: | سطر 62: | ||
=== ام البنین کا اپنے بیٹوں کیلئے عزاداری === | === ام البنین کا اپنے بیٹوں کیلئے عزاداری === | ||
مقاتل الطالبین کے مطابق ام البنین اپنے بیٹوں کی شہادت سے باخبر ہونے کے بعد ہر روز اپنے پوتے [[عبیداللہ بن عباس بن علی|عبیداللہ]] (فرزند عباس) کے ساتھ [[بقیع|جنت البقیع]] جایا کرتی تھی اور وہاں پر اپنے اشعار پڑھا کرتی تھیں اور نہایت دلسوز انداز میں گریہ کرتی تھیں۔ اہل [[مدینہ]] ان کے ارد گرد جمع ہوکر ان کے ساتھ گریہ کرتے تھے۔ یہاں تک کہ کہا جاتا ہے کہ مدینہ کا حاکم [[مروان بن حکم]] بھی رویا کرتا تھا۔<ref>اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص۸۵.</ref> آپ کو ایک فصیح و بلیغ ادیب و شاعر اور اہل فضل و دانش سمجھا جاتا تھا۔<ref>حسون، اعلام النساء المؤمنات، ص۴۹۶-۴۹۷.</ref>آپ [[حضرت عباسؑ]] کیلئے مرثیے کے یہ اشعار پڑھا کرتی تھیں | مقاتل الطالبین کے مطابق ام البنین اپنے بیٹوں کی شہادت سے باخبر ہونے کے بعد ہر روز اپنے پوتے [[عبیداللہ بن عباس بن علی|عبیداللہ]] (فرزند عباس) کے ساتھ [[بقیع|جنت البقیع]] جایا کرتی تھی اور وہاں پر اپنے اشعار پڑھا کرتی تھیں اور نہایت دلسوز انداز میں گریہ کرتی تھیں۔ اہل [[مدینہ]] ان کے ارد گرد جمع ہوکر ان کے ساتھ گریہ کرتے تھے۔ یہاں تک کہ کہا جاتا ہے کہ مدینہ کا حاکم [[مروان بن حکم]] بھی رویا کرتا تھا۔<ref>اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص۸۵.</ref> آپ کو ایک فصیح و بلیغ ادیب و شاعر اور اہل فضل و دانش سمجھا جاتا تھا۔<ref>حسون، اعلام النساء المؤمنات، ص۴۹۶-۴۹۷.</ref>آپ [[حضرت عباسؑ]] کیلئے مرثیے کے یہ اشعار پڑھا کرتی تھیں: | ||
{{شعر2 | |||
|خط اول=جناب عباسؑ کے سوگ میں ام البنین کے اشعار: | |||
|عرض=۵۰ | |||
|یا من رَاَی العباس کرّ|علی جماهیر النقد | |||
|و وراه من ابناء حیدر|کل لیث ذی لبد | |||
|انبئت اَنّ ابنی اصیب|براسه مقطوع ید | |||
|ویلی علی شبلی اما|ل براسه ضرب العمد | |||
|لو کان سیفک فی ید|یک لما دنا منک احد<ref>شبر، ادب الطف، دارالمرتضی، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۷۱.</ref> | |||
|ترجمه=«" اے وہ جس نے عباس کو دشمن پر حملہ کرتے ہوئے دیکھا ہے جب حیدر کے شیر میدان جنگ میں دشمن کے پیچھے تھے۔ کہتے ہیں کہ میرے بیٹے کے ہاتھ جدا ہوگئے تھے اور اس کے سر پر گرز مارا گیا تھا۔ ہائے کیا میرے بہادر شیر کے سر پر گرز جب لگا تو اس کی گردن جھک گئی؟ اگر تیرے ہاتھ میں تلوار ہوتی تو کوئی تیرے نزدیک نہیں آسکتا»<ref>محلاتی، ریاحین الشریعه، ۱۳۶۴ش، ج۳، ص۲۹۴.</ref>}} | |||
{{شعر2 | |||
|خط اول= اب مجھے ام البنین نہ کہنا: | |||
|عرض=۵۰ | |||
|لا تدعُوَنِّی وَ یَک ام البنین|تُذکِّرینی بلیوث العرین | |||
|کانت بنونَ لی اُدعَی بهِم|و الیومَ اَصبَحتُ و لا من بَنین | |||
|اَربعۀٌ مِثلَ نسُورُ الرّبی|قد وَاصلُوا الموتَ بقَطعِ الوَتینِ | |||
|تنازَعُ الحِرصانَ اَشلائَهُم|فَکُلّهُم اَمسُوا صَریعاً طَعین | |||
|یا لَیتَ شِعربی اَکَما اَخبَروا|بِاَنَّ عبّاساً مَقطُوعَ الیَدَین<ref>شبر، ادب الطف، دارالمرتضی، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۷۱.</ref> | |||
|ترجمه=«خبردار اب مزید مجھے ام البنین نہ کہنااس سے میرے شیروں کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ میرے بیٹے تھے تو اس لئے ام البنین کہا جاتا تھا لیکن اب میرے بیٹے نہیں رہے میرے عقاب جیسے چاروں بیٹے شہ رگ کے کٹنے سے موت کی آغوش میں گئے ہیں۔ ان کی لاشیں نیزوں کی چوٹوں سے زمین پر پڑی ہیں۔ کاش مجھے جس طرح سے بتایا گیا ہے مجھے معلوم ہوتا کہ میرے عباس کا دایاں ہاتھ کاٹا گیا تھا!۔»<ref>محلاتی، ریاحین الشریعه، ۱۳۶۴ش، ج۳، ص۲۹۴.</ref>}} | |||
==ام البنین کے بارے میں بزرگوں کے اقوال== | ==ام البنین کے بارے میں بزرگوں کے اقوال== |