مندرجات کا رخ کریں

"رسالۃ الحقوق" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 20: سطر 20:


==اجمالی تعارف==
==اجمالی تعارف==
رسالۃالحقوق [[امام سجادؑ]] کی ایک [[حدیث|حدیث]] ہے جس میں انسان کے ذمہ جو حقوق ہیں ان کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ ان حقوق میں خدا حق، پیشواؤں کے حقوق، رشتہ دراوں کے حقوق اور اعضائے بدن کے حقوق شامل ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: ابن‌شعبہ حرانی، تحف‌العقول، ۱۳۶۳ش/۱۴۰۴ق، ص۵۵تا۲۷۲؛ صدوق، الخصال، ۱۳۶۲ش، ج۲، ص۵۶۴تا۵۷۰؛ صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۶۱۸تا۶۲۵؛ صدوق، الامالی، ۱۳۷۶ش، ص۳۶۸تا۳۷۵.</ref>
رسالۃالحقوق [[امام سجادؑ]] کی ایک [[حدیث|حدیث]] ہے جس میں انسان کے ذمہ جو حقوق ہیں ان کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ ان حقوق میں خدا حق، پیشواؤں کے حقوق، رشتہ دراوں کے حقوق اور اعضائے بدن کے حقوق شامل ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: ابن‌شعبہ حرانی، تحف‌العقول، ۱۳۶۳ش/۱۴۰۴ق، ص۵۵تا۲۷۲؛ صدوق، الخصال، ۱۳۶۲ش، ج۲، ص۵۶۴تا۵۷۰؛ صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۶۱۸تا۶۲۵؛ صدوق، الامالی، ۱۳۷۶ش، ص۳۶۸تا۳۷۵۔</ref>


کتاب [[خصال]] میں [[شیخ صدوق]] کے مطابق امام سجادؑ نے اس حدیث کو خطوط کی شکل میں اپنے ایک صحابی کے لئے تحریر فرمایا ہے۔ شیخ صدوق کے مطابق اس حدیث کی ابتداء میں یوں آیا ہے: "یہ خط علی بن حسین کی جانب سے اپنے ایک صحابی کے نام ہے"۔<ref>صدوق، الخصال، ۱۳۶۲ش، ج۲، ص۵۶۴.</ref>
کتاب [[خصال]] میں [[شیخ صدوق]] کے مطابق امام سجادؑ نے اس حدیث کو خطوط کی شکل میں اپنے ایک صحابی کے لئے تحریر فرمایا ہے۔ شیخ صدوق کے مطابق اس حدیث کی ابتداء میں یوں آیا ہے: "یہ خط علی بن حسین کی جانب سے اپنے ایک صحابی کے نام ہے"۔<ref>صدوق، الخصال، ۱۳۶۲ش، ج۲، ص۵۶۴۔</ref>
==حدیث کا معتبر ہونا اور اس کے مآخذ==
علم حدیث‌ کے ماہرین رسالۃالحقوق کے سند کے تسلسل اور معتبر کتابوں میں تذکرہ ہونے کی بنا پر اس حدیث کو معتبر حدیثوں میں شمار کرتے ہیں۔<ref> حسینی جلالی، جہاد امام سجاد، ۱۳۸۲ش، ص۲۹۳۔</ref> اس حدیث کو [[ابوحمزہ ثمالی]] نے امام سجادؑ سے نقل کی ہیں اور علم رجال کے شیعہ علماء ابوحمزہ ثمالی کو "شیعوں کے برگزیدہ شخصیت"، "[[ثقہ]]" اور "معتمد" سمجھتے ہیں۔<ref>نجاشی، رجال‌النجاشی، ۱۳۶۵ق، ص۱۱۵۔</ref>
 
سب سے قدیم حدیثی مآخذ جن میں یہ حدیث بطور کامل نقل ہوئی ہیں یہ ہیں: [[ابن شعبہ حرانی|ابن‌شُعبہ حَرّانی]](متوفی 381ھ) کی کتاب [[تحف العقول|تُحَف‌العقول]]،<ref>ابن‌شعبہ حرانی، تحف‌العقول، ۱۳۶۳ش/۱۴۰۴ق، ص۲۵۵تا۲۷۲۔</ref>  [[شیخ صدوق]](متوفی 382ھ) کی تین کتابیں [[الخصال (کتاب)|خصال]]،<ref>صدوق، الخصال، ۱۳۶۲ش، ج۲، ص۵۶۴تا۵۷۰۔</ref> [[من لا یحضرہ الفقیہ|من لا یَحضُرُہُ الفقیہ]]<ref>صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۶۱۸تا۶۲۵۔</ref> اور اَمالی،<ref>صدوق، الامالی، ۱۳۷۶ش، ص۳۶۸تا۳۷۵۔</ref>۔
 
[[مستدرک الوسائل (کتاب)|مُستَدرَک‌الوسایل]] میں [[محدث نوری]] کے مطابق [[سید بن طاووس]] (۵۸۹-۶۶۴ھ) بھی اس حدیث کو اپنی کتاب [[فلاح السائل و نجاح المسائل (کتاب)|فلاح‌السائل]] میں نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے اسے [[شیخ کلینی]] کی کتاب  رسائل‌الائمہ سے نقل کئے ہیں۔<ref>محدث نوری، مستدرک‌الوسایل، ۱۴۰۸ق، ج۱۱، ص۱۶۹۔</ref> البتہ یہ مطلب کتاب فلاح‌السائل کی شایع شدہ نسخے میں موجود نہیں؛ لیکن مستدرک الوسائل کی مصححین کہتے ہیں کہ یہ مطلب اس کتاب کے غیر مطبوع نسخے میں موجود ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: محدث نوری، مستدرک‌الوسایل، ۱۴۰۸ق، ج۱۱، ص۱۶۹ (پانویس)۔</ref> دوسرا نکتہ یہ کہ شیخ کلینی کی کتاب رسائل‌الائمۂ اس وقت نابود ہو چکی ہے۔<ref>حسینی جلالی، جہاد امام سجاد، ۱۳۸۲ش، ص۲۸۹۔</ref>
 
===مآخذ میں اختلاف===
در منابع حدیثی متن رسالہ حقوق با اختلاف‌ہایی نقل شدہ است۔ از جملہ در دو کتاب [[تحف العقول (کتاب)|تُحَف‌العقول]] و [[الخصال (کتاب)|خصال]]، حدیث بہ‌صورت مفصل‌تر آمدہ است و مقدمہ‌ای دارد کہ چکیدہ‌ای از مباحث حدیث را بیان می‌کند۔<ref>نگاہ کنید بہ ابن‌شعبہ حرانی، تحف‌العقول، ۱۳۶۳ش/۱۴۰۴ق، ص۲۵۵و۲۵۶؛ صدوق، الخصال، ۱۳۶۲ش، ج۲، ص۵۶۴و۵۶۵۔</ref> این مقدمہ در کتاب [[من لا یحضرہ الفقیہ|من لا یَحضُرُہُ الفقیہ]] و [[امالی الصدوق (کتاب)|اَمالی]] وجود ندارد۔<ref>نگاہ کنید بہ صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۶۱۸؛ صدوق، الامالی، ۱۳۷۶ش، ص۳۶۸۔</ref> ہمچنین در کتاب امالی، حدیث با حق انسان بر خودش آغاز می‌شود؛<ref>نگاہ کنید بہ صدوق، الامالی، ۱۳۷۶ش، ص۳۶۸۔</ref> برخلاف سہ کتاب دیگر کہ با حق‌اللہ آغاز می‌شوند۔<ref>نگاہ کنید بہ ابن‌شعبہ حرانی، تحف‌العقول، ۱۳۶۳ش/۱۴۰۴ق، ص۲۵۵؛ صدوق، الخصال، ۱۳۶۲ش، ج۲، ص۵۶۴؛ من لایحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۶۱۸۔</ref>


==حقوق کے معنی==
==حقوق کے معنی==
confirmed، templateeditor
8,796

ترامیم