مندرجات کا رخ کریں

"استغفار" کے نسخوں کے درمیان فرق

4,290 بائٹ کا اضافہ ،  22 جون 2016ء
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Noorkhan
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Noorkhan
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 185: سطر 185:


اور [[سورہ ص]] کی آیات 82 اور 83 کے مطابق،<ref>{{قرآن کا متن|'''قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ''' ﴿82﴾ '''إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ''' ﴿83﴾|ترجمہ= اس نے کہا تو قسم ہے تیرے عزت و جلال کی کہ میں ان سب کو گمراہ کروں گا ﴿82﴾ سوا تیرے خاص نکھارے ہوئے بندوں [مُخْلَصِينَ] کے ﴿83﴾۔|سورت=[[سورہ ص|ص]]|آیت=آیات 82 و 83}}۔</ref> شیطان کے پاس اللہ کے مخلص بندوں کے گمراہ کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے چنانچہ انبیاء کی مغفرت طلبی مختلف پہلؤوں سے قابل تشریح ہے۔  
اور [[سورہ ص]] کی آیات 82 اور 83 کے مطابق،<ref>{{قرآن کا متن|'''قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ''' ﴿82﴾ '''إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ''' ﴿83﴾|ترجمہ= اس نے کہا تو قسم ہے تیرے عزت و جلال کی کہ میں ان سب کو گمراہ کروں گا ﴿82﴾ سوا تیرے خاص نکھارے ہوئے بندوں [مُخْلَصِينَ] کے ﴿83﴾۔|سورت=[[سورہ ص|ص]]|آیت=آیات 82 و 83}}۔</ref> شیطان کے پاس اللہ کے مخلص بندوں کے گمراہ کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے چنانچہ انبیاء کی مغفرت طلبی مختلف پہلؤوں سے قابل تشریح ہے۔  
===استغفارِ انبیاء کے اسباب===
* انبیاء کا استغفار امتوں کے لئے ایک قسم کی تعلیم ہے تا کہ وہ مغفرت طلب کرنے کے ذریعے، گناہوں کا ازالہ کرکے، اللہ کی رحمت کو اپنے شامل حال کردیں۔<ref>التوبة فی ضوء القرآن، ص194 و ص284 و ص303۔</ref>
* مقصود [[ترک اولی|ترک اَوْلی]] کی بنا پر مغفرت طلب کرنا ہے۔<ref>فخر رازی، تفسیر الکبیر، ج 28، ص61۔</ref><ref>الآلوسی، روح المعانی، مج 14، ج 26، ص84۔</ref><ref>مکارم، تفسیر نمونہ، ج 21، ص452۔</ref> یعنی یہ کہ کبھی وہ نیک کام انجام دیتے ہیں اور اس سے زیادہ بہتر کام کو ترک کردیتے ہیں چنانچہ انہیں اس کے بموجب استغفار کرنا پڑتا ہے۔
* انبیاء کے استغفار سے مقصود، ان کی امتوں کے گناہوں کا استغفار ہے<ref>فخر رازی، تفسیر الکبیر، ج 32، ص162۔</ref><ref>الآلوسی، روح المعانی، مج 16، ج 30، ص463۔</ref><ref>علم الہدی، تنزیہ الانبیاء، ص116۔</ref> یہی بات [[رسول اللہ|رسول خاتم(ص)]] کے بارے میں بھی نقل ہوئی ہے۔<ref>فخر رازی، تفسیر الکبیر، ج32، ص162۔</ref><ref>الآلوسی، روح المعانی، مج 16، ج 30 ص463۔</ref>
* انبیاء کا استغفار دفع کرنے اور سد باب کرنے کے لئے ہے اور دوسروں کا استغفار ان گناہوں کے لئے ہے جو وہ انجام دے چکے ہیں۔<ref>صادقی تهرانی، الفرقان، ج 23، ص406۔</ref><ref>رستگار جویباری، البصائر، ج30، ص227 236۔</ref>
* چونکہ انبیاء علیہم السلام ـ منجملہ [[رسول اللہ|پیغمبر خاتم(ص)]] کی دعوت کے آثار مختلف النوع ہوتے تھے جو لوگوں کے لئے بظاہر المناک تھے، اور وہ اس کو گناہ سمجھتے تھے، چنانچہ انبیاء علیہم السلام خدا سے التجا کرتے تھے کہ یہ آثار لوگوں کی نظروں سے مخفی رہیں، تا کہ وہ ان [انبیاء] پر جرم عائد نہ کریں؛ جیسا کہ [[مکہ]] کے باشندے [[رسول اللہ(ص)]] کو جنگ پسند اور اپنی ریت روایات سے بےاعتنا سمجھتے تھے۔ لیکن [[صلح حدیبیہ]] اور [[فتح مکہ]] کے بعد، حقیقت ان کے لئے آشکار ہوئی، اور جیسا کہ [[حضرت موسی علیہ السلام|موسی بن عمران]] کے بارے میں [[سورہ شعراء]] کی آیت 14 میں مذکور ہے کہ "<font color = green>{{قرآن کا متن|'''وَلَهُمْ عَلَيَّ ذَنبٌ'''|ترجمہ= اور ان کا میرے خلاف ایک [گناہ کا] الزام [اور دعوی] ہے۔|سورت=[[سورہ شعراء|شعراء]]|آیت=14}}</font>"  حالانکہ اس قبطی شخص کا قتل گناہ نہیں تھا بلکہ وہ واقعہ ایک مظلوم کی مدد کا نتیجہ تھا؛ لیکن لوگوں کی نظر میں وہ ایک گناہ سمجھا جاتا تھا اور حضرت موسی(ع) کا استغفار کا مقصود یہ تھا کہ یہ مسئلہ لوگوں کی نظر سے چھپا رہے تا کہ وہ انہیں مجرم نہ سمجھیں۔<ref>مکارم، تفسیر نمونہ، ج22، ص19 تا 21۔</ref><ref>طباطبائی، المیزان، ج18، ص254۔</ref> [[سورہ اعراف]] کی آیت 129 (<font color = green>{{قرآن کا متن|'''قَالُواْ أُوذِينَا مِن قَبْلِ أَن تَأْتِينَا وَمِن بَعْدِ مَا جِئْتَنَا'''|ترجمہ=ان لوگوں نے کہا کہ ہمیں آپ کے آنے سے پہلے بھی ایذائیں پہنچیں اور اب آپ کے آنے کے بعد بھی۔|سورت=[[سورہ اعراف|اعراف]]|آیت=129}}</font>) میں بھی ارشاد ہے کہ [[موسی(ع)]] کی قوم انہیں اپنی اذیت کا سبب گردانتی تھی۔


==حوالہ جات==
==حوالہ جات==
گمنام صارف