مندرجات کا رخ کریں

"استغفار" کے نسخوں کے درمیان فرق

2,451 بائٹ کا اضافہ ،  23 جون 2016ء
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Noorkhan
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Noorkhan
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 192: سطر 192:
* انبیاء کا استغفار دفع کرنے اور سد باب کرنے کے لئے ہے اور دوسروں کا استغفار ان گناہوں کے لئے ہے جو وہ انجام دے چکے ہیں۔<ref>صادقی تهرانی، الفرقان، ج 23، ص406۔</ref><ref>رستگار جویباری، البصائر، ج30، ص227 236۔</ref>
* انبیاء کا استغفار دفع کرنے اور سد باب کرنے کے لئے ہے اور دوسروں کا استغفار ان گناہوں کے لئے ہے جو وہ انجام دے چکے ہیں۔<ref>صادقی تهرانی، الفرقان، ج 23، ص406۔</ref><ref>رستگار جویباری، البصائر، ج30، ص227 236۔</ref>
* چونکہ انبیاء علیہم السلام ـ منجملہ [[رسول اللہ|پیغمبر خاتم(ص)]] کی دعوت کے آثار مختلف النوع ہوتے تھے جو لوگوں کے لئے بظاہر المناک تھے، اور وہ اس کو گناہ سمجھتے تھے، چنانچہ انبیاء علیہم السلام خدا سے التجا کرتے تھے کہ یہ آثار لوگوں کی نظروں سے مخفی رہیں، تا کہ وہ ان [انبیاء] پر جرم عائد نہ کریں؛ جیسا کہ [[مکہ]] کے باشندے [[رسول اللہ(ص)]] کو جنگ پسند اور اپنی ریت روایات سے بےاعتنا سمجھتے تھے۔ لیکن [[صلح حدیبیہ]] اور [[فتح مکہ]] کے بعد، حقیقت ان کے لئے آشکار ہوئی، اور جیسا کہ [[حضرت موسی علیہ السلام|موسی بن عمران]] کے بارے میں [[سورہ شعراء]] کی آیت 14 میں مذکور ہے کہ "<font color = green>{{قرآن کا متن|'''وَلَهُمْ عَلَيَّ ذَنبٌ'''|ترجمہ= اور ان کا میرے خلاف ایک [گناہ کا] الزام [اور دعوی] ہے۔|سورت=[[سورہ شعراء|شعراء]]|آیت=14}}</font>"  حالانکہ اس قبطی شخص کا قتل گناہ نہیں تھا بلکہ وہ واقعہ ایک مظلوم کی مدد کا نتیجہ تھا؛ لیکن لوگوں کی نظر میں وہ ایک گناہ سمجھا جاتا تھا اور حضرت موسی(ع) کا استغفار کا مقصود یہ تھا کہ یہ مسئلہ لوگوں کی نظر سے چھپا رہے تا کہ وہ انہیں مجرم نہ سمجھیں۔<ref>مکارم، تفسیر نمونہ، ج22، ص19 تا 21۔</ref><ref>طباطبائی، المیزان، ج18، ص254۔</ref> [[سورہ اعراف]] کی آیت 129 (<font color = green>{{قرآن کا متن|'''قَالُواْ أُوذِينَا مِن قَبْلِ أَن تَأْتِينَا وَمِن بَعْدِ مَا جِئْتَنَا'''|ترجمہ=ان لوگوں نے کہا کہ ہمیں آپ کے آنے سے پہلے بھی ایذائیں پہنچیں اور اب آپ کے آنے کے بعد بھی۔|سورت=[[سورہ اعراف|اعراف]]|آیت=129}}</font>) میں بھی ارشاد ہے کہ [[موسی(ع)]] کی قوم انہیں اپنی اذیت کا سبب گردانتی تھی۔
* چونکہ انبیاء علیہم السلام ـ منجملہ [[رسول اللہ|پیغمبر خاتم(ص)]] کی دعوت کے آثار مختلف النوع ہوتے تھے جو لوگوں کے لئے بظاہر المناک تھے، اور وہ اس کو گناہ سمجھتے تھے، چنانچہ انبیاء علیہم السلام خدا سے التجا کرتے تھے کہ یہ آثار لوگوں کی نظروں سے مخفی رہیں، تا کہ وہ ان [انبیاء] پر جرم عائد نہ کریں؛ جیسا کہ [[مکہ]] کے باشندے [[رسول اللہ(ص)]] کو جنگ پسند اور اپنی ریت روایات سے بےاعتنا سمجھتے تھے۔ لیکن [[صلح حدیبیہ]] اور [[فتح مکہ]] کے بعد، حقیقت ان کے لئے آشکار ہوئی، اور جیسا کہ [[حضرت موسی علیہ السلام|موسی بن عمران]] کے بارے میں [[سورہ شعراء]] کی آیت 14 میں مذکور ہے کہ "<font color = green>{{قرآن کا متن|'''وَلَهُمْ عَلَيَّ ذَنبٌ'''|ترجمہ= اور ان کا میرے خلاف ایک [گناہ کا] الزام [اور دعوی] ہے۔|سورت=[[سورہ شعراء|شعراء]]|آیت=14}}</font>"  حالانکہ اس قبطی شخص کا قتل گناہ نہیں تھا بلکہ وہ واقعہ ایک مظلوم کی مدد کا نتیجہ تھا؛ لیکن لوگوں کی نظر میں وہ ایک گناہ سمجھا جاتا تھا اور حضرت موسی(ع) کا استغفار کا مقصود یہ تھا کہ یہ مسئلہ لوگوں کی نظر سے چھپا رہے تا کہ وہ انہیں مجرم نہ سمجھیں۔<ref>مکارم، تفسیر نمونہ، ج22، ص19 تا 21۔</ref><ref>طباطبائی، المیزان، ج18، ص254۔</ref> [[سورہ اعراف]] کی آیت 129 (<font color = green>{{قرآن کا متن|'''قَالُواْ أُوذِينَا مِن قَبْلِ أَن تَأْتِينَا وَمِن بَعْدِ مَا جِئْتَنَا'''|ترجمہ=ان لوگوں نے کہا کہ ہمیں آپ کے آنے سے پہلے بھی ایذائیں پہنچیں اور اب آپ کے آنے کے بعد بھی۔|سورت=[[سورہ اعراف|اعراف]]|آیت=129}}</font>) میں بھی ارشاد ہے کہ [[موسی(ع)]] کی قوم انہیں اپنی اذیت کا سبب گردانتی تھی۔
===انبیاء کا استغفار اور منصب نبوت===
مذکورہ صورتوں کے علاوہ، بعض مواقع پر انبیاء کا استغفار، ان کے اعلی مقام و منزلت کے پیش نظر، یوں بیا ہوا ہے:
* انبیاء بھی دوسرے انسانوں کی طرح، اپنی زندگی کے فطری احتیاجات کی خاطر، اپنے اوقات کا ایک حصہ مادی احتیاجات ـ جیسے خورد و نوش وغیرہ ـ پورے کرنے میں گذارنے پر مجبور تھے اور چونکہ وہ ان اوقات میں پروردگار کی ملکوت اعلی میں سیر کرنے سے محروم ہوجاتے تھے، اس کے لئے اللہ سے مغفرت طلب کرتے تھے۔<ref>جعفری تبریزی، تفسیر و نقد و تحلیل مثنوی، ج10، ص619۔</ref><ref>الاربلی، کشف الغمه، ص47-48۔</ref><ref>طباطبائی، المیزان، ج6، ص366۔</ref>
* انبیاء اپنے استغفار میں اللہ سے التجا کرتے تھے کہ اس کے سوا کسی اور ـ منجملہ [[فرشتہ|فرشتے]]، [[وحی]] یا اپنے معنوی منازل و مدارج کی طرف توجہ نہ دیں؛ کیونکہ ان امور کی طرف توجہ اللہ کے حضور، اس کے مشاہدے کی راہ میں ایک قسم کا حجاب [اور رکاوٹ] سمجھی جاتی ہے۔<ref>موحدی، تفسیر موضوعی، ج11، ص160۔</ref>
* چونکہ انبیاء ہر لمحے زیادہ اعلی مدارج و مقامات کی طرف حالت عروج میں ہوتے ہیں، ہر مرتبہ، سابقہ مرحلے سے کہيں زیادہ، استغفار کرتے ہیں۔<ref>الآلوسی، روح المعانی، مج14، ج26، ص84۔</ref><ref>الآلوسی، وہی ماخذ، مج16، ج30، ص463۔</ref><ref>فخر رازی، تفسیر الکبیر، ج32، ص162۔</ref>
مغفرت طلبی کی مذکورہ صورتیں، [[معصومین|ائمۂ معصومین]] کے سلسلے میں صادق اور جاری ہیں، کیونکہ وہ بھی بہت زیادہ استغفار کرتے تھے؛ جیسے کے [[دعائے کمیل]] میں [[امیرالمؤمنین|حضرت علی(ع)]] اور [[دعائے ابو حمزہ ثمالی]] میں [[امام سجاد(ع)]] کا استغفار۔<ref>طوسی، مصباح المتہجد، ص405، 584۔</ref>


==حوالہ جات==
==حوالہ جات==
گمنام صارف