مندرجات کا رخ کریں

"تقیہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

213 بائٹ کا اضافہ ،  17 جون 2016ء
م
سطر 61: سطر 61:
===اجماع===
===اجماع===
شیعہ منابع میں تقیہ پر دلالت کرنے والی دلائل میں سے ایک [[اجماع]] ہے۔<ref> محقق کَرکی، رسائل المحقق الکرکی، ج۲، ص۵۱؛ موسوی بجنوردی، القواعد الفقہیہ، ج۵، ص۵۰</ref> اہل سنت منابع میں بھی تعض موارد میں تقیہ کی جواز پر اجماع کا دعوی کیا گیا ہے۔<ref> قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، آل عمران کی آیت نمبر۲۸ کے ذیل میں۔</ref>
شیعہ منابع میں تقیہ پر دلالت کرنے والی دلائل میں سے ایک [[اجماع]] ہے۔<ref> محقق کَرکی، رسائل المحقق الکرکی، ج۲، ص۵۱؛ موسوی بجنوردی، القواعد الفقہیہ، ج۵، ص۵۰</ref> اہل سنت منابع میں بھی تعض موارد میں تقیہ کی جواز پر اجماع کا دعوی کیا گیا ہے۔<ref> قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، آل عمران کی آیت نمبر۲۸ کے ذیل میں۔</ref>
===دلیل عقلی===
تقیہ کے جواز پر عقلی دلائل دلیل سیرہ عقلا ہے جو ہر صورت میں دفع ضرر کو ضروری سمجھتی ہے۔<ref>فاضل مقداد، اللوامع الالہیہ فی المباحث الکلامیہ، ص۳۷۷؛ امین، نقض الوشیعہ، ص۱۸۲</ref> اس دلیل کو قبول کرنے کی صورت میں تقیہ فقط شیعوں یا مسلمانوں کے ساتھ مختص نہیں ہوگا بلکہ تمام بنی نوع انسان کو شامل کرے گا۔ گذشتہ انبیاء اور خدا کے نیک بندوں کی زندگی میں تقیہ کے بہت سارے نمونے گذرے ہیں جیسے [[حضرت ابراہیم(ع)]]کا کافرون کے ساتھ رفتار، [[حضرت یوسف]] کا اپنے بھائیوں کے ساتھ [[مصر]] میں ہونے والی گفتگو، [[آسیہ]] بنت مزاحم اور  ہمسر [[فرعون]] کا مخفیانہ طور پر عبادت انجام دینا، [[حضرت موسی]] اور [[ہارون]] کا [[فرعون]] کے روبرو ہونا اور [[اصحاب کہف]] کا تقیہ کرنا۔<ref> ثعلبی، قصص الانبیاء، ص۶۹، ۱۶۶؛ حرّ عاملی، وسایل الشیعہ، ج۱۶، ص۲۱۵، ۲۱۹، ۲۳۰ـ۲۳۱؛ مجلسی، بحارالانوار، ج۷۲، ص۳۹۶، ۴۰۷، ۴۲۵، ۴۲۹</ref> مذکورہ موارد میں تقیہ کا مودر تائید قرار پانا اضطراری موارد میں تقیہ کے فطری اور عقلی ہونے پر دلیل ہے۔
<!--
<!--
===دلیل عقلی===
==مسلمان کا مسلمان سے تقیہ==
دلیل عقلی جواز تقیه، سیره عقلاست که دفع ضرر را در هر شرایطی روا و حتی ضروری می‌دانند<ref>فاضل مقداد، اللوامع الالهیه فی المباحث الکلامیه، ص۳۷۷؛ امین، نقض الوشیعه، ص۱۸۲</ref>بر مبنای پذیرش این دلیل، تقیه اختصاص به شیعیان و حتی مسلمانان نخواهد داشت. موارد متعددی از تقیه در زندگی صالحان و پیامبران پیشین، در متون اسلامی آمده؛ مانند رفتار [[حضرت ابراهیم]](ع) با کافران، گفتگوی [[حضرت یوسف]] با برادرانش در [[مصر]]، عبادت پنهانی [[آسیه]] بنت مزاحم؛ همسر [[فرعون]]، نحوه روبرو شدن [[حضرت موسی]] و [[هارون]] با [[فرعون]] و تقیه [[اصحاب کهف]].<ref>رجوع کنید به ثعلبی، قصص الانبیاء، ص۶۹، ۱۶۶؛ حرّ عاملی، وسایل الشیعه، ج۱۶، ص۲۱۵، ۲۱۹، ۲۳۰ـ۲۳۱؛ مجلسی، بحارالانوار، ج۷۲، ص۳۹۶، ۴۰۷، ۴۲۵، ۴۲۹</ref> تأکید بر این پیشینه در متون مذکور، بر فطری و عقلایی بودن تقیه در شرایط اضطراری دلالت دارد.
 
==تقیه مسلمان از مسلمان==
هر چند در برخی آیات و احادیث، مورد تقیه، تقیه [[مسلمان]] از [[کافر]] است، ولی به تصریح فقها و مفسران، تقیه اختصاص به این مورد ندارد و از جمله شامل تقیه مسلمانان از یکدیگر نیز می‌شود.<ref>رجوع کنید به فخر رازی، التفسیرالکبیر، ذیل آل عمران: ۲۸ و موسوی بجنوردی، القواعد الفقهیه، ج۵، ص۷۵</ref> بسیاری از عالمان اهل سنّت، از جمله [[شافعی]]، به مشروعیت تقیه یک مسلمان از مسلمان دیگر برای حفظ جان خود تصریح کرده‌اند.<ref>سبحانی، الانصاف فی مسائل دام فیها الخلاف، ج۲، ص۳۳۰ـ۳۳۱</ref>
هر چند در برخی آیات و احادیث، مورد تقیه، تقیه [[مسلمان]] از [[کافر]] است، ولی به تصریح فقها و مفسران، تقیه اختصاص به این مورد ندارد و از جمله شامل تقیه مسلمانان از یکدیگر نیز می‌شود.<ref>رجوع کنید به فخر رازی، التفسیرالکبیر، ذیل آل عمران: ۲۸ و موسوی بجنوردی، القواعد الفقهیه، ج۵، ص۷۵</ref> بسیاری از عالمان اهل سنّت، از جمله [[شافعی]]، به مشروعیت تقیه یک مسلمان از مسلمان دیگر برای حفظ جان خود تصریح کرده‌اند.<ref>سبحانی، الانصاف فی مسائل دام فیها الخلاف، ج۲، ص۳۳۰ـ۳۳۱</ref>


confirmed، templateeditor
8,812

ترامیم