"تقیہ" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
←تقیہ اور سیرت نبوی(ص)
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
سطر 49: | سطر 49: | ||
====تقیہ اور سیرت نبوی(ص)==== | ====تقیہ اور سیرت نبوی(ص)==== | ||
نقل ہوئی ہے کہ حضرت [[محمد(ص)]] کی [[مدینہ]] کی طرف ہجرت کے بعد [[مہاجرین]] میں سے بعض افراد مکہ مکرمہ سے اپنا مال و اموال لانے کیلئے آنحضرت سے مکہ جانے کی رخصت لیتے ہوئے مشرکین کو خوش کرنے کیلئے اپنی قلبنی اعتقاد کے برخلاف بعض کلمات ادا کرنے کی اجازت دریافت کی تو آنحضرت نے انہیں ایسے کلمات کے ادا کرنے کی اجازت دے دی۔<ref> السیرہ الحلبیہ، ج۳، ص۵۱ ـ۵۲</ref> آپ(ص) کے [[اصحاب]] اور [[تابعین]] سے بھی مختلف موارد میں ایسے رفتار یا گفتار صادر ہوئے ہیں جو تقیہ پر دلالت کرتی ہے جیسے [[ابن عباس]]، <ref>ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، ج۱۲، ص۲۷۹</ref> [[ابن مسعود]]، <ref>ابن حزم، المحلّی، ج۸، ص۳۳۶</ref> [[جابر بن عبداللہ انصاری]]، <ref>شمس الائمہ سرخسی، کتاب المبسوط، ج۲۴، ص۴۷</ref> [[حذیفہ بن یمان]]، <ref>صنعانی، ج 6، ص 474، ح 33050</ref> [[ابوالدَرداء]]<ref>بخاری جُعْفی، صحیح البخاری، ج۷، ص۱۰۲</ref> اور [[سعید بن مُسَیب]] وغیرہ <ref> امینی، الغدیر فی الکتاب والسنہ والادب، ج۱، ص۳۸۰</ref> | نقل ہوئی ہے کہ حضرت [[محمد(ص)]] کی [[مدینہ]] کی طرف ہجرت کے بعد [[مہاجرین]] میں سے بعض افراد مکہ مکرمہ سے اپنا مال و اموال لانے کیلئے آنحضرت سے مکہ جانے کی رخصت لیتے ہوئے مشرکین کو خوش کرنے کیلئے اپنی قلبنی اعتقاد کے برخلاف بعض کلمات ادا کرنے کی اجازت دریافت کی تو آنحضرت نے انہیں ایسے کلمات کے ادا کرنے کی اجازت دے دی۔<ref> السیرہ الحلبیہ، ج۳، ص۵۱ ـ۵۲</ref> آپ(ص) کے [[اصحاب]] اور [[تابعین]] سے بھی مختلف موارد میں ایسے رفتار یا گفتار صادر ہوئے ہیں جو تقیہ پر دلالت کرتی ہے جیسے [[ابن عباس]]، <ref>ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، ج۱۲، ص۲۷۹</ref> [[ابن مسعود]]، <ref>ابن حزم، المحلّی، ج۸، ص۳۳۶</ref> [[جابر بن عبداللہ انصاری]]، <ref>شمس الائمہ سرخسی، کتاب المبسوط، ج۲۴، ص۴۷</ref> [[حذیفہ بن یمان]]، <ref>صنعانی، ج 6، ص 474، ح 33050</ref> [[ابوالدَرداء]]<ref>بخاری جُعْفی، صحیح البخاری، ج۷، ص۱۰۲</ref> اور [[سعید بن مُسَیب]] وغیرہ <ref> امینی، الغدیر فی الکتاب والسنہ والادب، ج۱، ص۳۸۰</ref> | ||
عثمان | ====صحابہ کی زندگی میں تقیہ کے نمونے==== | ||
[[ابن مسعود]] اور حذیفہ بن یمانی [[عثمان بن عفان]] کے ہاں پہنچتے ہیں: عثمان خطاب حذیفہ سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں: یہ تمہارے میں مجھ تک پہنچنے والی خبریں کیا ہیں؟ حذیفہ نے جواب دیا میں نے انہیں نہیں کہا ہے۔ | |||
عثمان نے کہا: تم ان کے درمیان نیکو کار ترین اور بہترین فرد ہو۔ | |||
ابن مسعود کہتے ہیں جب عثمان باہر چلا گیا تو میں نے حذیفہ سے کہا: کیا تم نے یہ باتیں نہیں کہی تھی؟ | |||
حذیفہ نے جواب دیا: کیوں نہیں میں نے کہا تھا لیکن میں نے دین کے کچھ حصے پر عمل کرنے کے ذریعے(ترس کی وجہ سے زبان پر لانے والے کلمات) اپنے دین کے بقیہ حصوں کو محفوظ کر لیا ہوں۔<ref>صنعانی، ج 6، ص 474، ح 33050</ref> | |||
===اجماع=== | ===اجماع=== | ||
شیعہ منابع میں تقیہ پر دلالت کرنے والی دلائل میں سے ایک [[اجماع]] ہے۔<ref> محقق کَرکی، رسائل المحقق الکرکی، ج۲، ص۵۱؛ موسوی بجنوردی، القواعد الفقہیہ، ج۵، ص۵۰</ref> اہل سنت منابع میں بھی تعض موارد میں تقیہ کی جواز پر اجماع کا دعوی کیا گیا ہے۔<ref> قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، آل عمران کی آیت نمبر۲۸ کے ذیل میں۔</ref> | |||
<!-- | |||
===دلیل عقلی=== | ===دلیل عقلی=== | ||
دلیل عقلی جواز تقیه، سیره عقلاست که دفع ضرر را در هر شرایطی روا و حتی ضروری میدانند<ref>فاضل مقداد، اللوامع الالهیه فی المباحث الکلامیه، ص۳۷۷؛ امین، نقض الوشیعه، ص۱۸۲</ref>بر مبنای پذیرش این دلیل، تقیه اختصاص به شیعیان و حتی مسلمانان نخواهد داشت. موارد متعددی از تقیه در زندگی صالحان و پیامبران پیشین، در متون اسلامی آمده؛ مانند رفتار [[حضرت ابراهیم]](ع) با کافران، گفتگوی [[حضرت یوسف]] با برادرانش در [[مصر]]، عبادت پنهانی [[آسیه]] بنت مزاحم؛ همسر [[فرعون]]، نحوه روبرو شدن [[حضرت موسی]] و [[هارون]] با [[فرعون]] و تقیه [[اصحاب کهف]].<ref>رجوع کنید به ثعلبی، قصص الانبیاء، ص۶۹، ۱۶۶؛ حرّ عاملی، وسایل الشیعه، ج۱۶، ص۲۱۵، ۲۱۹، ۲۳۰ـ۲۳۱؛ مجلسی، بحارالانوار، ج۷۲، ص۳۹۶، ۴۰۷، ۴۲۵، ۴۲۹</ref> تأکید بر این پیشینه در متون مذکور، بر فطری و عقلایی بودن تقیه در شرایط اضطراری دلالت دارد. | دلیل عقلی جواز تقیه، سیره عقلاست که دفع ضرر را در هر شرایطی روا و حتی ضروری میدانند<ref>فاضل مقداد، اللوامع الالهیه فی المباحث الکلامیه، ص۳۷۷؛ امین، نقض الوشیعه، ص۱۸۲</ref>بر مبنای پذیرش این دلیل، تقیه اختصاص به شیعیان و حتی مسلمانان نخواهد داشت. موارد متعددی از تقیه در زندگی صالحان و پیامبران پیشین، در متون اسلامی آمده؛ مانند رفتار [[حضرت ابراهیم]](ع) با کافران، گفتگوی [[حضرت یوسف]] با برادرانش در [[مصر]]، عبادت پنهانی [[آسیه]] بنت مزاحم؛ همسر [[فرعون]]، نحوه روبرو شدن [[حضرت موسی]] و [[هارون]] با [[فرعون]] و تقیه [[اصحاب کهف]].<ref>رجوع کنید به ثعلبی، قصص الانبیاء، ص۶۹، ۱۶۶؛ حرّ عاملی، وسایل الشیعه، ج۱۶، ص۲۱۵، ۲۱۹، ۲۳۰ـ۲۳۱؛ مجلسی، بحارالانوار، ج۷۲، ص۳۹۶، ۴۰۷، ۴۲۵، ۴۲۹</ref> تأکید بر این پیشینه در متون مذکور، بر فطری و عقلایی بودن تقیه در شرایط اضطراری دلالت دارد. |