مندرجات کا رخ کریں

"حضرت عباس علیہ السلام" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 75: سطر 75:
کربلا کے واقعے میں شرکت حضرت عباس کی زندگی کا سب سے اہم حصہ ہے اور اسی وجہ سے شیعوں کے ہاں بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ عباس کو [[قیام امام حسینؑ]] کی اہم شخصیات میں سے شمار کیا ہے۔<ref>شریف قرشی، زندگانی حضرت عباس، ۱۳۸۶ش، ص۱۲۴.</ref>اس کے باوجود بہت ساری کتابوں میں حضرت عباس کے بارے میں الگ سے لکھا گیا ہے۔ امام حسینؑ کی [[مدینہ]] سے [[مکہ]] اور مکہ سے [[کوفہ]] تک کے سفر اور محرم 61ھ سے پہلے تک حضرت عباس کے بارے میں کوئی تاریخی رپورٹ یا روایت میں کچھ نہیں ملتا ہے۔<ref>بغدادی،‌ العباس، ۱۴۳۳ق، ۷۳-۷۵؛ دیکھیں: مظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۱و۲ و۳؛ الموسوي المُقرّم، العبّاس (عليہ السلام)، ۱۴۲۷ق؛ حائری مازندرانی، معالی السبطین، ۱۴۱۲ق؛ خراسانی قاینی بیرجندی، کبریت الاحمر، ۱۳۸۶ق؛ طعمہ، تاريخ مرقد الحسين و العباس، ١۴١۶ق؛ ابن‌جوزی‌، تذكرۃ الخواص، ۱۴۱۸ق؛ الاوردبادی، موسوعہ العلامہ الاوردبادی، ۱۴۳۶ق؛ شریف قرشی، زندگانی حضرت ابوالفضل العباس، ۱۳۸۶ش؛ اخطب خوارزم، مقتل الحسین، ۱۴۲۳ق، ج۱؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۴ و ۵</ref>  
کربلا کے واقعے میں شرکت حضرت عباس کی زندگی کا سب سے اہم حصہ ہے اور اسی وجہ سے شیعوں کے ہاں بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ عباس کو [[قیام امام حسینؑ]] کی اہم شخصیات میں سے شمار کیا ہے۔<ref>شریف قرشی، زندگانی حضرت عباس، ۱۳۸۶ش، ص۱۲۴.</ref>اس کے باوجود بہت ساری کتابوں میں حضرت عباس کے بارے میں الگ سے لکھا گیا ہے۔ امام حسینؑ کی [[مدینہ]] سے [[مکہ]] اور مکہ سے [[کوفہ]] تک کے سفر اور محرم 61ھ سے پہلے تک حضرت عباس کے بارے میں کوئی تاریخی رپورٹ یا روایت میں کچھ نہیں ملتا ہے۔<ref>بغدادی،‌ العباس، ۱۴۳۳ق، ۷۳-۷۵؛ دیکھیں: مظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۱و۲ و۳؛ الموسوي المُقرّم، العبّاس (عليہ السلام)، ۱۴۲۷ق؛ حائری مازندرانی، معالی السبطین، ۱۴۱۲ق؛ خراسانی قاینی بیرجندی، کبریت الاحمر، ۱۳۸۶ق؛ طعمہ، تاريخ مرقد الحسين و العباس، ١۴١۶ق؛ ابن‌جوزی‌، تذكرۃ الخواص، ۱۴۱۸ق؛ الاوردبادی، موسوعہ العلامہ الاوردبادی، ۱۴۳۶ق؛ شریف قرشی، زندگانی حضرت ابوالفضل العباس، ۱۳۸۶ش؛ اخطب خوارزم، مقتل الحسین، ۱۴۲۳ق، ج۱؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۴ و ۵</ref>  
===مکہ میں خطبہ دینا===
===مکہ میں خطبہ دینا===
''خطیب کعبہ'' نامی کتاب کے مصنف نے حضرت عباس سے ایک خطبے کی نسبت دی ہے۔<ref>یونسیان، خطیب کعبہ، ۱۳۸۶ش، ص۴۶.</ref>وہ اس خطبے کو ''مناقب سادۃ ‎الکرام'' نامی کتاب کی ایک یادداشت کی طرف استناد دیتا ہے۔<ref>یونسیان، خطیب کعبہ، ۱۳۸۶ش، ص۴۶.</ref>اس گزارش کے مطابق حضرت عباس نے آٹھویں ذی الحجہ کو کعبہ کی چھت پر ایک خطبہ دیا جس میں [[امام حسینؑ]] کے مقام کو بیان کرتے ہوئے [[یزید]] کو ایک شرابخوار شخص معرف کیا اور لوگوں کا اس کی [[بیعت]] کرنے کی مذمت کی۔ آپ نے اس خطبے میں تاکید کی کہ جبتک زندہ ہے کسی کو امام حسینؑ شہید کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ اور امام حسینؑ کو شہید کرنے کا تنہا راستہ پہلے انہیں قتل کرنا ہے۔<ref>یونسیان، خطیب کعبہ، ۱۳۸۶ش، ص۴۶-۴۸.</ref> [[جویا جہان‌بخش]] اس خطبے کو ادبی اعتبار سے نقد کرتے ہوئے اس کتاب کا مصنف اور اصل کتاب مجہول الحال قرار دبتے ہوئے اسے رد کیا ہے اور تصریح کی ہے کہ یہ ماجرا دوسری کتابوں میں نہیں ملتا ہے۔<ref>جہان‌بخش، «گنجى نويافتہ يا وہمى بربافتہ؟»، ص۲۸-۵۶.</ref>
''خطیب کعبہ'' نامی کتاب کے مصنف نے حضرت عباس سے ایک خطبے کی نسبت دی ہے۔<ref>یونسیان، خطیب کعبہ، ۱۳۸۶ش، ص۴۶.</ref>وہ اس خطبے کو ''مناقب سادۃ ‎الکرام'' نامی کتاب کی ایک یادداشت کی طرف استناد دیتا ہے۔<ref>یونسیان، خطیب کعبہ، ۱۳۸۶ش، ص۴۶.</ref>اس گزارش کے مطابق حضرت عباس نے آٹھویں ذی الحجہ کو [[کعبہ]] کی چھت پر ایک خطبہ دیا جس میں [[امام حسینؑ]] کے مقام کو بیان کرتے ہوئے [[یزید]] کو ایک شرابخوار شخص معرف کیا اور لوگوں کا اس کی [[بیعت]] کرنے کی مذمت کی۔ آپ نے اس خطبے میں تاکید کی کہ جبتک زندہ ہے کسی کو امام حسینؑ شہید کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ اور امام حسینؑ کو شہید کرنے کا تنہا راستہ پہلے انہیں قتل کرنا ہے۔<ref>یونسیان، خطیب کعبہ، ۱۳۸۶ش، ص۴۶-۴۸.</ref> [[جویا جہان‌بخش]] اس خطبے کو ادبی اعتبار سے نقد کرتے ہوئے اس کتاب کا مصنف اور اصل کتاب مجہول الحال قرار دبتے ہوئے اسے رد کیا ہے اور تصریح کی ہے کہ یہ ماجرا دوسری کتابوں میں نہیں ملتا ہے۔<ref>جہان‌بخش، «گنجى نويافتہ يا وہمى بربافتہ؟»، ص۲۸-۵۶.</ref>
 
=== سقائے دشت کربلا ===
=== سقائے دشت کربلا ===
سات [[محرم الحرام|محرم]] سنہ 61 ہجری کو عبید اللہ ابن زیاد نے [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر سعد]] کو حکم دیا کہ حسینؑ اور اس کے ساتھیوں پر فرات کا پانی بند کیا جائے تو [[امام حسین علیہ السلام|امامؑ]] نے حضرت عباسؑ کو بلا کر 30 سواروں اور 20 پیادوں کا ایک دستہ دیا اور ہدایت کی کہ جاکر اپنے مشکوں میں پانی بھر کر لائیں۔ حضرت عباسؑ نے ان افراد کی مدد سے شریعۂ فرات پر تعینات یزیدی لشکر کو پسپا ہونے پر مجبور کیا اور خیام تک کافی مقدار میں پانی پہنچانے میں کامیاب ہوئے اور اس حملے میں امام کے یار و انصار میں سے کوئی ایک بھی شہید نہیں ہوا لیکن عمر سعد کی لشکر کے بعض افراد مارے گئے۔<ref>طبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ۱۹۶۷م، ج۵، ص۴۱۲؛ امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۶ق، ج۷، ص۴۳۰؛ ابوالفرج الاصفہانی، مقاتل الطالبین، ۱۴۰۸ق، ص۷۸؛ الخوارزمی، مقتل الحسین، ۱۴۲۳ق، ج۱، ص۳۴۷؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۵، ص۹۲.</ref>
سات [[محرم الحرام|محرم]] سنہ 61 ہجری کو عبید اللہ ابن زیاد نے [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر سعد]] کو حکم دیا کہ حسینؑ اور اس کے ساتھیوں پر فرات کا پانی بند کیا جائے تو [[امام حسین علیہ السلام|امامؑ]] نے حضرت عباسؑ کو بلا کر 30 سواروں اور 20 پیادوں کا ایک دستہ دیا اور ہدایت کی کہ جاکر اپنے مشکوں میں پانی بھر کر لائیں۔ حضرت عباسؑ نے ان افراد کی مدد سے شریعۂ فرات پر تعینات یزیدی لشکر کو پسپا ہونے پر مجبور کیا اور خیام تک کافی مقدار میں پانی پہنچانے میں کامیاب ہوئے اور اس حملے میں امام کے یار و انصار میں سے کوئی ایک بھی شہید نہیں ہوا لیکن عمر سعد کی لشکر کے بعض افراد مارے گئے۔<ref>طبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ۱۹۶۷م، ج۵، ص۴۱۲؛ امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۶ق، ج۷، ص۴۳۰؛ ابوالفرج الاصفہانی، مقاتل الطالبین، ۱۴۰۸ق، ص۷۸؛ الخوارزمی، مقتل الحسین، ۱۴۲۳ق، ج۱، ص۳۴۷؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۵، ص۹۲.</ref>
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,869

ترامیم