confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,869
ترامیم
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
سطر 73: | سطر 73: | ||
{{محرم کی عزاداری}} | {{محرم کی عزاداری}} | ||
{{اصلی|واقعہ کربلا}} | {{اصلی|واقعہ کربلا}} | ||
کربلا کے واقعے میں شرکت حضرت عباس کی زندگی کا سب سے اہم حصہ ہے اور اسی وجہ سے شیعوں کے ہاں بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ عباس کو [[قیام امام حسینؑ]] کی اہم شخصیات میں سے شمار کیا ہے۔<ref>شریف قرشی، زندگانی حضرت عباس، ۱۳۸۶ش، ص۱۲۴.</ref>اس کے باوجود بہت ساری کتابوں میں حضرت عباس کے بارے میں الگ سے لکھا گیا ہے۔ امام حسینؑ کی مدینہ سے مکہ اور مکہ سے کوفہ تک کے سفر اور محرم 61ھ سے پہلے تک حضرت عباس کے بارے میں کوئی تاریخی رپورٹ یا روایت میں کچھ نہیں ملتا ہے۔<ref>بغدادی، العباس، ۱۴۳۳ق، ۷۳-۷۵؛ دیکھیں: مظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۱و۲ و۳؛ الموسوي المُقرّم، العبّاس (عليہ السلام)، ۱۴۲۷ق؛ حائری مازندرانی، معالی السبطین، ۱۴۱۲ق؛ خراسانی قاینی بیرجندی، کبریت الاحمر، ۱۳۸۶ق؛ طعمہ، تاريخ مرقد الحسين و العباس، ١۴١۶ق؛ ابنجوزی، تذكرۃ الخواص، ۱۴۱۸ق؛ الاوردبادی، موسوعہ العلامہ الاوردبادی، ۱۴۳۶ق؛ شریف قرشی، زندگانی حضرت ابوالفضل العباس، ۱۳۸۶ش؛ اخطب خوارزم، مقتل الحسین، ۱۴۲۳ق، ج۱؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۴ و ۵</ref> | کربلا کے واقعے میں شرکت حضرت عباس کی زندگی کا سب سے اہم حصہ ہے اور اسی وجہ سے شیعوں کے ہاں بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ عباس کو [[قیام امام حسینؑ]] کی اہم شخصیات میں سے شمار کیا ہے۔<ref>شریف قرشی، زندگانی حضرت عباس، ۱۳۸۶ش، ص۱۲۴.</ref>اس کے باوجود بہت ساری کتابوں میں حضرت عباس کے بارے میں الگ سے لکھا گیا ہے۔ امام حسینؑ کی [[مدینہ]] سے [[مکہ]] اور مکہ سے [[کوفہ]] تک کے سفر اور محرم 61ھ سے پہلے تک حضرت عباس کے بارے میں کوئی تاریخی رپورٹ یا روایت میں کچھ نہیں ملتا ہے۔<ref>بغدادی، العباس، ۱۴۳۳ق، ۷۳-۷۵؛ دیکھیں: مظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۱و۲ و۳؛ الموسوي المُقرّم، العبّاس (عليہ السلام)، ۱۴۲۷ق؛ حائری مازندرانی، معالی السبطین، ۱۴۱۲ق؛ خراسانی قاینی بیرجندی، کبریت الاحمر، ۱۳۸۶ق؛ طعمہ، تاريخ مرقد الحسين و العباس، ١۴١۶ق؛ ابنجوزی، تذكرۃ الخواص، ۱۴۱۸ق؛ الاوردبادی، موسوعہ العلامہ الاوردبادی، ۱۴۳۶ق؛ شریف قرشی، زندگانی حضرت ابوالفضل العباس، ۱۳۸۶ش؛ اخطب خوارزم، مقتل الحسین، ۱۴۲۳ق، ج۱؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۴ و ۵</ref> | ||
===مکہ میں خطبہ دینا=== | ===مکہ میں خطبہ دینا=== | ||
''خطیب کعبہ'' نامی کتاب کے مصنف نے حضرت عباس سے ایک خطبے کی نسبت دی ہے۔<ref>یونسیان، خطیب کعبہ، ۱۳۸۶ش، ص۴۶.</ref>وہ اس خطبے کو ''مناقب سادۃ الکرام'' نامی کتاب کی ایک یادداشت کی طرف استناد دیتا ہے۔<ref>یونسیان، خطیب کعبہ، ۱۳۸۶ش، ص۴۶.</ref>اس گزارش کے مطابق حضرت عباس نے آٹھویں ذی الحجہ کو کعبہ کی چھت پر ایک خطبہ دیا جس میں [[امام حسینؑ]] کے مقام کو بیان کرتے ہوئے [[یزید]] کو ایک شرابخوار شخص معرف کیا اور لوگوں کا اس کی بیعت کرنے کی مذمت کی۔ آپ نے اس خطبے میں تاکید کی کہ جبتک زندہ ہے کسی کو امام حسینؑ شہید کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ اور امام حسینؑ کو شہید کرنے کا تنہا راستہ پہلے انہیں قتل کرنا ہے۔<ref>یونسیان، خطیب کعبہ، ۱۳۸۶ش، ص۴۶-۴۸.</ref> [[جویا جہانبخش]] اس خطبے کو ادبی اعتبار سے نقد کرتے ہوئے اس کتاب کا مصنف اور اصل کتاب مجہول الحال قرار دبتے ہوئے اسے رد کیا ہے اور تصریح کی ہے کہ یہ ماجرا دوسری کتابوں میں نہیں ملتا ہے۔<ref>جہانبخش، «گنجى نويافتہ يا وہمى بربافتہ؟»، ص۲۸-۵۶.</ref> | ''خطیب کعبہ'' نامی کتاب کے مصنف نے حضرت عباس سے ایک خطبے کی نسبت دی ہے۔<ref>یونسیان، خطیب کعبہ، ۱۳۸۶ش، ص۴۶.</ref>وہ اس خطبے کو ''مناقب سادۃ الکرام'' نامی کتاب کی ایک یادداشت کی طرف استناد دیتا ہے۔<ref>یونسیان، خطیب کعبہ، ۱۳۸۶ش، ص۴۶.</ref>اس گزارش کے مطابق حضرت عباس نے آٹھویں ذی الحجہ کو کعبہ کی چھت پر ایک خطبہ دیا جس میں [[امام حسینؑ]] کے مقام کو بیان کرتے ہوئے [[یزید]] کو ایک شرابخوار شخص معرف کیا اور لوگوں کا اس کی [[بیعت]] کرنے کی مذمت کی۔ آپ نے اس خطبے میں تاکید کی کہ جبتک زندہ ہے کسی کو امام حسینؑ شہید کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ اور امام حسینؑ کو شہید کرنے کا تنہا راستہ پہلے انہیں قتل کرنا ہے۔<ref>یونسیان، خطیب کعبہ، ۱۳۸۶ش، ص۴۶-۴۸.</ref> [[جویا جہانبخش]] اس خطبے کو ادبی اعتبار سے نقد کرتے ہوئے اس کتاب کا مصنف اور اصل کتاب مجہول الحال قرار دبتے ہوئے اسے رد کیا ہے اور تصریح کی ہے کہ یہ ماجرا دوسری کتابوں میں نہیں ملتا ہے۔<ref>جہانبخش، «گنجى نويافتہ يا وہمى بربافتہ؟»، ص۲۸-۵۶.</ref> | ||
=== سقائے دشت کربلا === | === سقائے دشت کربلا === | ||
سات [[محرم الحرام|محرم]] سنہ 61 ہجری کو عبید اللہ ابن زیاد نے [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر سعد]] کو حکم دیا کہ حسینؑ اور اس کے ساتھیوں پر فرات کا پانی بند کیا جائے تو [[امام حسین علیہ السلام|امامؑ]] نے حضرت عباسؑ کو بلا کر 30 سواروں اور 20 پیادوں کا ایک دستہ دیا اور ہدایت کی کہ جاکر اپنے مشکوں میں پانی بھر کر لائیں۔ حضرت عباسؑ نے ان افراد کی مدد سے شریعۂ فرات پر تعینات یزیدی لشکر کو پسپا ہونے پر مجبور کیا اور خیام تک کافی مقدار میں پانی پہنچانے میں کامیاب ہوئے اور اس حملے میں امام کے یار و انصار میں سے کوئی ایک بھی شہید نہیں ہوا لیکن عمر سعد کی لشکر کے بعض افراد مارے گئے۔<ref>طبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ۱۹۶۷م، ج۵، ص۴۱۲؛ امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۶ق، ج۷، ص۴۳۰؛ ابوالفرج الاصفہانی، مقاتل الطالبین، ۱۴۰۸ق، ص۷۸؛ الخوارزمی، مقتل الحسین، ۱۴۲۳ق، ج۱، ص۳۴۷؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۵، ص۹۲.</ref> | سات [[محرم الحرام|محرم]] سنہ 61 ہجری کو عبید اللہ ابن زیاد نے [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر سعد]] کو حکم دیا کہ حسینؑ اور اس کے ساتھیوں پر فرات کا پانی بند کیا جائے تو [[امام حسین علیہ السلام|امامؑ]] نے حضرت عباسؑ کو بلا کر 30 سواروں اور 20 پیادوں کا ایک دستہ دیا اور ہدایت کی کہ جاکر اپنے مشکوں میں پانی بھر کر لائیں۔ حضرت عباسؑ نے ان افراد کی مدد سے شریعۂ فرات پر تعینات یزیدی لشکر کو پسپا ہونے پر مجبور کیا اور خیام تک کافی مقدار میں پانی پہنچانے میں کامیاب ہوئے اور اس حملے میں امام کے یار و انصار میں سے کوئی ایک بھی شہید نہیں ہوا لیکن عمر سعد کی لشکر کے بعض افراد مارے گئے۔<ref>طبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ۱۹۶۷م، ج۵، ص۴۱۲؛ امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۶ق، ج۷، ص۴۳۰؛ ابوالفرج الاصفہانی، مقاتل الطالبین، ۱۴۰۸ق، ص۷۸؛ الخوارزمی، مقتل الحسین، ۱۴۲۳ق، ج۱، ص۳۴۷؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۵، ص۹۲.</ref> | ||
سطر 81: | سطر 81: | ||
===امان نامے کو ٹھکرانا=== | ===امان نامے کو ٹھکرانا=== | ||
تاریخی گزارشات کے مطابق کربلا میں حضرت عباسؑ اور ان کے بھائیوں کے لیے دو آدمی نے امان نامہ بھیجا اور جناب عباس اور ان کے بھائیوں نے انہیں ٹھکرادیا: | تاریخی گزارشات کے مطابق کربلا میں حضرت عباسؑ اور ان کے بھائیوں کے لیے دو آدمی نے امان نامہ بھیجا اور جناب عباس اور ان کے بھائیوں نے انہیں ٹھکرادیا: | ||
پہلا | پہلا امان نامہ عبداللہ بن ابی المحل بن حزام عامری لے آیا۔ وہ حضرت عباسؑ کی والد [[ام البنین]] کا بھتیجا تھا۔ وہ عبیداللہ بن زیاد سے اپنی پھوپھی زاد بھائیوں کے لیے امان نامہ لینے میں کامیاب ہوا اور اسے اپنے غلام کے ہاتھوں انہیں بھیجدیا۔ جب عباس اور ان کے بھائیوں نے اس امان نامے کو پڑھا تو کہا کہ ہم اللہ کی امان میں ہیں اور ایسے کسی ذلت آمیز امان نامے کے محتاج نہیں۔<ref>الخوارزمی، مقتل الحسین، ۱۴۲۳ق، ج۱، ص۳۴۸-۳۴۹؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۵، ص۹۳. </ref> | ||
دوسرا امان نامہ [[شمر بن ذی الجوشن]] نے ظہر [[عاشورا]] عباس اور ان کے بھائیوں کے لیے پیش کیا اور پھوپھی کے بیٹے کہتے ہوا آواز دی لیکن جواب نہیں ملا۔ امام حسینؑ نے بھائیوں سے فرمایا اگرچہ شمر [[فاسق]] لیکن اس کا جواب دو۔ شمر نے امان نامے کو یزید کی اطاعت اور تسلیم ہونے کے ساتھ مشروط کردیا۔ حضرت عباس نے وہ اور اس کے امان نامے پر لعنت بھیجتے ہوئے کہا: «اے دشمن خدا! موت ہو تم پر کہ ہمیں کفر کی اور میرے بھائی حسینؑ کو چھوڑنے کی دعوت دے رہے ہو۔»<ref> ابن اثیر، الکامل، ۱۳۷۱ش، ج۱۱، ۱۶۲؛ الخوارزمی، مقتل الحسین، ۱۴۲۳ق، ج۱، ص۳۴۹؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۵، ص۹۴.</ref> | دوسرا امان نامہ [[شمر بن ذی الجوشن]] نے ظہر [[عاشورا]] عباس اور ان کے بھائیوں کے لیے پیش کیا اور پھوپھی کے بیٹے کہتے ہوا آواز دی لیکن جواب نہیں ملا۔ امام حسینؑ نے بھائیوں سے فرمایا اگرچہ شمر [[فاسق]] لیکن اس کا جواب دو۔ شمر نے امان نامے کو یزید کی اطاعت اور تسلیم ہونے کے ساتھ مشروط کردیا۔ حضرت عباس نے وہ اور اس کے امان نامے پر لعنت بھیجتے ہوئے کہا: «اے دشمن خدا! موت ہو تم پر کہ ہمیں کفر کی اور میرے بھائی حسینؑ کو چھوڑنے کی دعوت دے رہے ہو۔»<ref> ابن اثیر، الکامل، ۱۳۷۱ش، ج۱۱، ۱۶۲؛ الخوارزمی، مقتل الحسین، ۱۴۲۳ق، ج۱، ص۳۴۹؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۵، ص۹۴.</ref> | ||
=== بھائیوں کی شہادت=== | === بھائیوں کی شہادت=== | ||
تاریخی گزارشات کے مطابق [[امام علی علیہ السلام|امام علیؑ]] کی [[امالبنین]] سے شادی کے نتیجے میں چار بیٹے | تاریخی گزارشات کے مطابق [[امام علی علیہ السلام|امام علیؑ]] کی [[امالبنین]] سے شادی کے نتیجے میں چار بیٹے ابوالفضل «عباس»، ابو عبداللہ «جعفر»، ابو محمد «عبداللہ» و ابو عمر «عثمان» پیدا ہوئے۔ عباسؑ نے روز عاشورا اپنے بھائیوں کو خود سے پہلے میدان جنگ بھیجا اور ان سے پہلے تینوں بھائی شہید ہوئے۔<ref>الاوردبادی، موسوعہ العلامہ الاوردبادی، ۱۴۳۶ق، ج۹، ص۶۹-۷۱.</ref> عباس 36 سال کی عمر میں، جعفر 29، عبداللہ 25، اور عثمان 21 سال کی عمر میں شہید ہوئے۔<ref>الاوردبادی، موسوعہ العلامہ الاوردبادی، ۱۴۳۶ق، ج۹، ص۷۳-۸۴.</ref> | ||
ابن اثیر نے کتاب الکامل میں لکھا ہے کہ عباسؑ نے اپنے بھائیوں سے کہا:«تقدّموا حتى أرثكم» مجھ سے پہلے جنگ کو چلے جاؤ تاکہ میں تم سے ارث پاوں۔<ref>ابن اثیر، الکامل، ۱۳۸۶ق، ج۴، ص۷۶.</ref>بعض محققین نے اس بات کو غلط اور وہم قرار دیا ہے کیونکہ عباس کو معلوم تھا کہ اس وقت ان کو بھی قتل ہونا ہے تو ارث پانے کا معنی نہیں رکھتا ہے۔<ref>الموسوي المُقرّم، العبّاس (عليہ السلام)، ۱۴۲۷ق، ص۱۸۴-۱۸۶؛ شریف قرشی، زندگانی حضرت عباس، ۱۳۸۶ش، ص۲۲۱-۲۲؛ میردریکوندی، دریای تشنہ؛ تشنہ دریا، ۱۳۸۲ش، ص۵۴-۵۶. </ref> در مقابل، از [[فضل بن حسن طبرسی|طبرسی]] اور دینوری نے نقل کیا ہے کہ عباسؑ نے بھائیوں سے کہ تم جاکر اپنے بھائی سید اور مولا کا دفاع کرو تاکہ تم مارے جاؤ تو وہ قتل نہیں ہوگا۔<ref>الموسوي المُقرّم، العبّاس (عليہ السلام)، ۱۴۲۷ق، ص۱۸۵؛ بغدادی، العباس، ۱۴۳۳ق، ص۹۶.</ref> اردوبادی احتمال دیتا ہے کہ عباسؑ نے بھائیوں کو اپنے سے پہلے اس لیے میدان بھیجا تاکہ ان کو جہاد کے لیے تیار کرنے کا ثواب اور بھائیوں کی شہادت پر صبر کر کے صابرین کا ثواب بھی حاصل کرسکے۔<ref>الاوردبادی، موسوعہ العلامہ الاوردبادی، ۱۴۳۶ق، ج۹، ص۱۰۶.</ref> | ابن اثیر نے کتاب الکامل میں لکھا ہے کہ عباسؑ نے اپنے بھائیوں سے کہا:«تقدّموا حتى أرثكم» مجھ سے پہلے جنگ کو چلے جاؤ تاکہ میں تم سے ارث پاوں۔<ref>ابن اثیر، الکامل، ۱۳۸۶ق، ج۴، ص۷۶.</ref>بعض محققین نے اس بات کو غلط اور وہم قرار دیا ہے کیونکہ عباس کو معلوم تھا کہ اس وقت ان کو بھی قتل ہونا ہے تو ارث پانے کا معنی نہیں رکھتا ہے۔<ref>الموسوي المُقرّم، العبّاس (عليہ السلام)، ۱۴۲۷ق، ص۱۸۴-۱۸۶؛ شریف قرشی، زندگانی حضرت عباس، ۱۳۸۶ش، ص۲۲۱-۲۲؛ میردریکوندی، دریای تشنہ؛ تشنہ دریا، ۱۳۸۲ش، ص۵۴-۵۶. </ref> در مقابل، از [[فضل بن حسن طبرسی|طبرسی]] اور دینوری نے نقل کیا ہے کہ عباسؑ نے بھائیوں سے کہ تم جاکر اپنے بھائی سید اور مولا کا دفاع کرو تاکہ تم مارے جاؤ تو وہ قتل نہیں ہوگا۔<ref>الموسوي المُقرّم، العبّاس (عليہ السلام)، ۱۴۲۷ق، ص۱۸۵؛ بغدادی، العباس، ۱۴۳۳ق، ص۹۶.</ref> اردوبادی احتمال دیتا ہے کہ عباسؑ نے بھائیوں کو اپنے سے پہلے اس لیے میدان بھیجا تاکہ ان کو [[جہاد]] کے لیے تیار کرنے کا ثواب اور بھائیوں کی شہادت پر صبر کر کے صابرین کا ثواب بھی حاصل کرسکے۔<ref>الاوردبادی، موسوعہ العلامہ الاوردبادی، ۱۴۳۶ق، ج۹، ص۱۰۶.</ref> | ||
===روز عاشورا رجزخوانی=== | ===روز عاشورا رجزخوانی=== | ||
سطر 107: | سطر 107: | ||
حضرت عباس کی شہادت کی کیفیت اور وقت کے بارے میں تین قول پائے جاتے ہیں؛ [[۷ محرم]]، [[۹ محرم]] و دس محرم۔ محمد حسن مظفر نے پہلے دو قول کو ضعیف اور بہت نادر قرار دیا ہے اور اکثر مورخین کی گزارشات اور تصریح کے مطابق حضرت عباس قطعی طور پر [[۱۰ محرم]] کو شہید ہوئے ہیں۔<ref>المظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۳، ص۱۷۲.</ref> | حضرت عباس کی شہادت کی کیفیت اور وقت کے بارے میں تین قول پائے جاتے ہیں؛ [[۷ محرم]]، [[۹ محرم]] و دس محرم۔ محمد حسن مظفر نے پہلے دو قول کو ضعیف اور بہت نادر قرار دیا ہے اور اکثر مورخین کی گزارشات اور تصریح کے مطابق حضرت عباس قطعی طور پر [[۱۰ محرم]] کو شہید ہوئے ہیں۔<ref>المظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۳، ص۱۷۲.</ref> | ||
تاریخ نگاروں نے حضرت عباسؑ کی شہادت کی کیفیت کے بارے میں مختلف روایات نقل کی ہیں:<ref> خرمیان، ابوالفضل العباس، ۱۳۸۶ش، ص۱۰۶- ۱۱۲؛ دیکھیں:بغدادی، العباس، ۱۴۳۳ق، ۷۳-۷۵؛ مظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۱و۲ و۳؛ الموسوي المُقرّم، العبّاس (عليہ السلام)، ۱۴۲۷ق؛ حائری مازندرانی، معالی السبطین، ۱۴۱۲ق؛ خراسانی قاینی بیرجندی، کبریت الاحمر، ۱۳۸۶ق؛ طعمہ، تاريخ مرقد الحسين و العباس، ١۴١۶ق؛ ابنجوزی، تذكرۃ الخواص، ۱۴۱۸ق؛ الاوردبادی، موسوعہ العلامہ الاوردبادی، ۱۴۳۶ق؛ شریف قرشی، زندگانی حضرت ابوالفضل العباس، ۱۳۸۶ش؛ الخوارزمی، مقتل الحسین، ۱۴۲۳ق، ج۱، ص۳۴۵-۳۵۸؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج ۵، ص۸۴-۱۲۰؛ شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۲۸ق، ص۳۳۸؛ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۴۵، ص۴؛ سبط ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، ۱۴۲۶ق، ج۲، ص۱۶۱؛ طبرسی، اعلام الوری، ج۱، ص۴۵۷.</ref>بہت ساری کتابوں کی نقل کے مطابق عباسؑ [[اصحاب امام حسین|اصحاب]] اور [[بنیہاشم]] کے آخری فرد کی شہادت تک میدان کو نہیں گئے تھے<ref>اردوبادی، حیاۃ ابیالفضل العباس، ص۱۹۲-۱۹۴</ref>ان کی شہادت کے بعد خیموں میں پانے لانے کا قصد کیا۔ آپ نے [[عمر سعد|عمربن سعد]] کی لشکر پر حملہ کیا اور فرات تک پہنچ گیا۔ بعض مقاتل میں آیا ہے کہ عباس نے ہاتھوں کے چلو کو پانی پینے کی قصد سے بھر دیا اور جیسے ہی منہ کے قریب کیا | تاریخ نگاروں نے حضرت عباسؑ کی شہادت کی کیفیت کے بارے میں مختلف روایات نقل کی ہیں:<ref> خرمیان، ابوالفضل العباس، ۱۳۸۶ش، ص۱۰۶- ۱۱۲؛ دیکھیں:بغدادی، العباس، ۱۴۳۳ق، ۷۳-۷۵؛ مظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۱و۲ و۳؛ الموسوي المُقرّم، العبّاس (عليہ السلام)، ۱۴۲۷ق؛ حائری مازندرانی، معالی السبطین، ۱۴۱۲ق؛ خراسانی قاینی بیرجندی، کبریت الاحمر، ۱۳۸۶ق؛ طعمہ، تاريخ مرقد الحسين و العباس، ١۴١۶ق؛ ابنجوزی، تذكرۃ الخواص، ۱۴۱۸ق؛ الاوردبادی، موسوعہ العلامہ الاوردبادی، ۱۴۳۶ق؛ شریف قرشی، زندگانی حضرت ابوالفضل العباس، ۱۳۸۶ش؛ الخوارزمی، مقتل الحسین، ۱۴۲۳ق، ج۱، ص۳۴۵-۳۵۸؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج ۵، ص۸۴-۱۲۰؛ شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۲۸ق، ص۳۳۸؛ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۴۵، ص۴؛ سبط ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، ۱۴۲۶ق، ج۲، ص۱۶۱؛ طبرسی، اعلام الوری، ج۱، ص۴۵۷.</ref>بہت ساری کتابوں کی نقل کے مطابق عباسؑ [[اصحاب امام حسین|اصحاب]] اور [[بنیہاشم]] کے آخری فرد کی شہادت تک میدان کو نہیں گئے تھے<ref>اردوبادی، حیاۃ ابیالفضل العباس، ص۱۹۲-۱۹۴</ref>ان کی شہادت کے بعد خیموں میں پانے لانے کا قصد کیا۔ آپ نے [[عمر سعد|عمربن سعد]] کی لشکر پر حملہ کیا اور فرات تک پہنچ گیا۔ بعض مقاتل میں آیا ہے کہ عباس نے ہاتھوں کے چلو کو پانی پینے کی قصد سے بھر دیا اور جیسے ہی منہ کے قریب کیا پھر پانی زمین پر گرایا اور تشنہ لب، مشک پر کر کے فرات سے باہر آیا۔ واپسی پر دشمن نے ان پر حملہ کیا اور آپ نے نخلستان میں دشمن کا مقابلہ کیا اور خیموں کی جانب نکلا تو [[زید بن ورقاء جہنی]] نے کسی خرما کے اوٹ سے آکر آپ کے دائیں ہاتھ پر ایک ضربت ماری عباسؑ نے تلوار بایاں ہاتھ میں لیا اور دشمن سے جنگ جاری رکھااسی اثناء میں ایک درخت کے اوٹ میں گھات لگائے [[حکیم بن طفیل سنبسی]] نے آپ کے داہنے ہاتھ پر وار کیا اور اس کے بعد عباسؑ کے سر پر گرز مارا اور آپ کو شہید کیا<ref>المظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۳، ص۱۷۴- ۱۷۸؛الاوردبادی، موسوعہ العلامہ الاوردبادی، ۱۴۳۶ق، ج۹، ص۲۱۹-۲۲۰؛ خرمیان، ابوالفضل العباس، ۱۳۸۶ش، ص۱۰۶- ۱۱۴؛ شیخ مفید، ترجمہ ارشاد، ۱۳۸۸ش، ج۱، ص۴۱۱-۴۱۲؛ الخوارزمی، مقتل الحسین (ع)، ج۲، ص۳۴؛ مقرم، حادثہ کربلا در مقتل مقرم، ص۲۶۲؛ ابن شہرآشوب، مناقب آل ابیطالب، ۱۳۷۶ق، ج۳، ص۲۵۶.</ref> | ||
بعض گزارشات نے لکھا ہے کہ جب عباسؑ شہید ہوئے تو امام حسینؑ بھائی کی لاش پر حاضر ہوئے اور بہت روئے اور فرمایا: {{حدیث|اَلآنَ اِنکَسَرَ ظَهری وَ قَلَّت حیلَتی}}: اب میری کمر ٹوٹ گئی اور چارہ جوئی کم ہوگئی۔<ref>المظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۳، ص۱۷۸؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج ۵، ص۹۸؛ الخوارزمی، مقتل الحسین (ع)، ۱۳۷۴ش، ج۲، ص۳۴؛ خرمیان، ابوالفضل العباس، ۱۳۸۶ش، ص۱۱۳. </ref> | بعض گزارشات نے لکھا ہے کہ جب عباسؑ شہید ہوئے تو امام حسینؑ بھائی کی لاش پر حاضر ہوئے اور بہت روئے اور فرمایا: {{حدیث|اَلآنَ اِنکَسَرَ ظَهری وَ قَلَّت حیلَتی}}: اب میری کمر ٹوٹ گئی اور چارہ جوئی کم ہوگئی۔<ref>المظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۳، ص۱۷۸؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج ۵، ص۹۸؛ الخوارزمی، مقتل الحسین (ع)، ۱۳۷۴ش، ج۲، ص۳۴؛ خرمیان، ابوالفضل العباس، ۱۳۸۶ش، ص۱۱۳. </ref> | ||
== فضائل اور خصوصیات == | == فضائل اور خصوصیات == |